Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

28 September 2011

Yousaf Bin Tashfeen




Yousaf Bin Tashfeen

DOWNLOAD

Part-1                        Part-2

 
 

 
yousaf bin tashfin free download urdu complete book by naseem hijazi pdf
Read online
Yusef ibn Tashfin also, Tashafin, or Teshufin; or Yusuf; (Berber: Yusef n Tacfin, Arabic: يوسف بن تاشفين‎; reigned c. 1061 - 1106) was a king of the Berber Almoravid empire in North Africa and Al-Andalus (Moorish Iberia).
 Historical Urdu novel .pdf

Mera ALLAH Farq wazih kar deta hai

24 September 2011

Tafseer Al-Saadi


Tafseer Al-Saadi


 
 
 

Common Enemy

Common Enemy(Mushtarka dushman) by orya Maqbool jan

22 September 2011

Tareekh Ibn e Khaldoon
By 
Allama Abū Zayd ‘Abdur-Raḥman bin Muḥammad bin Khaldūn Al-Hadrami
Urdu Translation

17 September 2011

جب پندرہ جرائم ہوں گے تو زلزلے آئیں گے

جب پندرہ جرائم ہوں گے تو زلزلے آئیں گے

۱:۔”وعن أبی ہریرة قال: قال رسول الله ا: إذا تخذ الفیئ دولاً والأمانة مغمناً والزکوٰة مغرماً وتُعلّم لغیر الدین وأطاع الرجل امرأتہ وعق أمہ وأدنیٰ صدیقہ وأقصیٰ أباہ وظہرت الأصوات فی المساجد وساد القبیلة فاسقہم وکان زعیم القوم أرذلہم وأکرم الرجل مخافة شرہ وظہرت القینات والمعازف وشربت الخمور ولعن اٰخر ہذہ الأمة أولہا فارتقبوا عند ذلک ریحاً حمراء وزلزلةً وخسفاً ومسخاً وقذفاً واٰیات تتابع کنظام قطع سلکہ فتتابع“۔ (مشکوٰة:۴۷)

ترجمہ:۔”اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ا نے فرمایا: جب مال غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے اور جب زکوٰة کو تاوان سمجھاجانے لگے اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھایا جانے لگے اور جب مرد بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرنے لگے اور جب دوستوں کو تو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے اور جب مسجد میں شور وغل مچایاجانے لگے اور جب قوم وجماعت کی سرداری، اس قوم وجماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اور جب قوم وجماعت کے لیڈر وسربراہ اس قوم وجماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں اور جب آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنہ کے ڈر سے کی جانے لگے اور جب لوگوں میں گانے والیوں اور سازوباجوں کا دور دورہ ہوجائے اور جب شرابیں پی جانی لگیں اور جب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو برا کہنے لگیں اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تو اس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو، سرخ یعنی تیز وتند اور شدید ترین طوفانی آندھی کا، اور زلزلے کا، اور زمین میں دھنس جانے کا اور صورتوں کے مسخ وتبدیل ہوجانے کا اور پتھروں کے برسنے کا، نیز ان چیزوں کے علاوہ قیامت کی اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظار کرو، جو اس طرح پے در پے وقوع پذیر ہوں گی، جیسے لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے در پے گرنے لگیں۔

۲:۔”وعن علیّ قال: قال رسول الله ا: إذا فعلت أمتی خمس عشرة خصلةً حل بہا البلاء وعدّ ہذہ الخصال ولم یذکر تعلم لغیر الدین قال وبر صدیقہ وجفا أباہ وقال شرب الخمر ولبس الحریر“۔ (مشکوٰة،ص:۴۷۰)

ترجمہ::۔”حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: جب میری امت ان پندرہ باتوں میں (کہ جن کا ذکر اوپر کی حدیث میں ہوا) مبتلا ہوگی تو اس پر آفتیں اور بلائیں نازل ہوں گی، پھر آنحضرت انے ان پندرہ باتوں کو شمار فرمایا، لیکن حضرت علی نے اس روایت میں یہ بات نقل نہیں کی کہ جب علم کو دین کے علاوہ کسی دوسری غرض سے سکھایاجانے لگے۔ حضرت علی نے یہ نقل کیا کہ جب آدمی اپنے دوست کے ساتھ احسان ومروت اور اپنے باپ کے ساتھ جور وجفا کرنے لگے اور جب شراب پی جانے لگے اور ریشم پہنا جائے“۔

یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک آنے والے چند اہم واقعات وعلامات کی طرف سرسری اور اجمالی اشارہ ہوجائے، تاکہ احادیث کے تمام اجزاء اور سارے پہلو قارئین کے سامنے آجائیں۔ قیامت کی علامات دو قسم پر ہیں
:
۱…علامات صغریٰ
۲…علامات کبریٰ

امام مہدی کے ظہور تک قیامت کی علامات صغریٰ ہیں۔ امام مہدی کے ظہور کے بعد نفخ صور تک قیامت کی علامات کبریٰ ہیں اور پھر قیامت ہے۔ اس باب کی پہلی حدیث میں قیامت کی علامات صغریٰ کا کچھ بیان موجود ہے اور دیگر احادیث میں بھی تفصیل ہے، وہاں یہ بھی ہے کہ دنیا میں باطل نظریات عام ہوجائیں گے، عیسائیت کا بہت سارے ملکوں پر غلبہ ہوجائے گا، پھر کچھ عرصہ بعد ابوسفیان کے نام سے ایک شخص پیدا ہوجائے گا جو سادات کا قتل عام کرے گا، پھر مسلمان بادشاہ عیسائیوں کے ایک فریق سے صلح کرلے گا اور دوسرے سے لڑائی لڑے گا۔ عیسائی فرقہ بھی مسلمان بادشاہ سے مل کر عیسائیوں کے مخالف دھڑے سے لڑے گا ،ان سب کو فتح حاصل ہوجائے گی۔ فتح کے بعد عیسائی نعرہ لگائیں گے کہ صلیب کی برکت سے فتح حاصل ہوگئی ہے اور مسلمان نعرہ لگادیں گے کہ اسلام وایمان کی برکت سے فتح حاصل ہوگئی ہے، چنانچہ اس بات پر خانہ جنگی شروع ہوجائے گی، جس میں مسلمانوں کا بادشاہ شہید ہوجائے گا۔ عیسائیوں کے دونوں فریق ایک ہو جائیں گے اور عیسائی حکومت خیبر تک پھیل جائے گی۔ اس وقت لوگ حضرت مہدی کی تلاش میں لگ جائیں گے۔ حضرت مہدی اس وقت مدینہ میں ہوں گے، مگر چھپنے کی غرض سے وہاں سے مکہ آجائیں گے۔ تاکہ لوگ انہیں امیر اور قائد نہ بنائیں، اس دوران کچھ لوگ مہدی ہونے کے جھوٹے دعوے کرلیں گے، تاہم مکہ مکرمہ میں مقام ابراہیم اور حجر اسود کے درمیان حضرت مہدی کو پالیں گے اور ایک جماعت حضرت مہدی کے ہاتھ پر بیعت کرلے گی، آسمان سے آواز آئے گی۔ ”ہذا خلیفة الله المہدی فاستمعوا لہ واطیعوہ“

شکل وشباہت کے اعتبار سے حضرت مہدی حضور اکرم ا کے مشابہ ہوں گے۔ اس کے بعد شام ، یمن اور حجاز مقدس کے ابدال اور اولیاء اللہ حضرت مہدی کے لشکر میں شامل ہوجائیں گے۔ کعبہ کے پاس سے خزانے نکال کر افواج اسلامیہ پر تقسیم کئے جائیں گے۔ لشکر جرار تیار ہو جائے گا۔ خروج مہدی کا سن کر خراسان سے ایک شخص اپنی فوج لے کر حضرت مہدی کی مدد کے لئے مکہ مکرمہ آجائے گا، اس شخص کا نام منصور ہوگا، یہ شخص اپنی فوج کی کمان سنبھال کر جب مکہ کی طرف چل پڑے گا تو راستے میں عیسائیوں سے جنگ ہوجائے گی، یہ شخص عیسائیوں کا صفایا کرتا ہوا آئے گا، اہل بیت اور سادات کا دشمن شخص سفیانی ایک بڑا لشکر تیار کرکے حضرت مہدی کے مقابلے پر بھیج دے گا، مگر یہ لشکر مکہ ومدینہ کے درمیان زمین میں دھنس جائے گا، صرف دو آدمی بچ جائیں گے، ایک تو سفیانی کو جاکر اطلاع کردے گا اور دوسرا حضرت مہدی کو اطلاع دے گا۔ 

حضرت مہدی کے ساتھ عرب وعجم کے لوگوں کے اجتماع کا سن کر عیسائی بھی شام اور روم سے لشکر جرار تیار کرکے حضرت مہدی کے مقابلے کے لئے شام میں اکٹھے ہوجائیں گے ۔ رومی افواج میں اس وقت اسی (۸۰) جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار لشکر ہوگا، لشکر کی مجموعی تعداد نو لاکھ ساٹھ ہزار ہوگی۔

حضرت مہدی براستہ مدینہ منورہ اپنے لشکروں کے ساتھ دمشق پہنچ جائیں گے اور وہاں سرزمین شام پر عیسائیوں سے سخت جنگ شروع ہوجائے گی۔ لشکر اسلام تین حصوں پر منقسم ہوجائے گا، ایک حصہ میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گا، جس کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ دوسرا حصہ شہید ہوجائے گا اور تیسرا حصہ مسلسل لڑتا ہوا چار دن کی لڑائی کے بعد عیسائیوں پر غالب آجائے گا، عیسائیوں کا قتل عام ہوجائے گا اور حضرت مہدی ان کا خوب تعاقب کریں گے۔

جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت مہدی اپنے لوگوں پر مال غنیمت تقسیم کریں گے، مگر کوئی آدمی مال غنیمت پر خوش نہیں ہوگا ،کیونکہ کوئی گھر ایسا نہیں ہوگا، جس کا کوئی آدمی شہید نہیں ہوا ہوگا، پورے خاندان میں سے ایک آدمی بچا ہوگا تو وہ مال غنیمت کے ساتھ کیا کرے گا؟۔ حضرت مہدی داخلی نظم ونسق سنبھال کر قسطنطنیہ کی طرف متوجہ ہوجائیں گے۔ بحیرہٴ روم کے پاس بنو اسحاق کے ستر ہزار آدمی مسلمان ہوکر حضرت مہدی کے لشکر میں شامل ہوجائیں گے اور پھر کشتیوں میں سوار ہوکر شہر استنبول (جس کا پرانا نام قسطنطنیہ ہے) کو آزاد کرنے کے لئے چلے جائیں گے۔ شہر کی مضبوط فصیل کے سامنے مسلمان نعرہٴ تکبیر بلند کردیں گے، جس کی وجہ سے فصیل ٹوٹ جائے گی اور مسلمان قسطنطنیہ شہر میں داخل ہوجائیں گے، حضرت مہدی کی خلافت کے اس وقت سات سال پورے ہوچکے ہوں گے کہ اتنے میں افواہ پھیل جائے گی کہ دجال کا خروج ہوگیا ہے۔ حضرت مہدی جلدی جلدی واپس شام کی طرف آجائیں گے اور نو آدمیوں کو اس خبر کی تحقیق کے لئے روانہ کردیں گے، یہ لوگ بہترین لوگ ہوں گے۔آنحضرت انے فرمایا کہ :میں ان کو جانتا ہوں کہ کس قبیلے کے لوگ ہیں اور ان کے باپوں کے نام کیا کیا ہیں اور گھوڑوں کے رنگ کیا ہیں؟ یہ لوگ تحقیق کرلیں گے، لیکن معلوم ہوجائے گا کہ یہ افواہ تھی اور دجال کے متعلق یہ خبر غلط تھی، مگر کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ اچانک دجال کا خروج ہوجائے گا۔


دجال مشرق کی جانب سے نکلے گا اور ایران کے شہر اصفہان میں آکر نمودار ہوجائے گا ۔ اصفہان کے ستر ہزار یہودی اس سے آکر مل جائیں گے، پہلے وہ نبوت کا دعویٰ کرے گا ،پھر اصفہان میں آکر خدائی کا دعویٰ کرے گا ۔دجال کے ایک ہاتھ میں اس کی جنت اور دوسرے میں اس کی دوزخ ہوگی ۔ تمام دنیوی اسباب سے لیس ہوگا اور استدراج سے بھر پور فائدہ اٹھائے گا ۔اس کی پیشانی پر ”ک ف ر “ لکھا ہوگا، جس کو مسلمان پڑھ لے گا، یعنی کافر لکھا ہوگا۔ اس کے پاس بڑا استدراج ہوگا، مخالفین کا دانہ پانی بند کرے گا۔ خروج دجال سے پہلے تین سال تک قحط آچکا ہوگا، لوگ محتاج ہوں گے۔ دجال اس حالت سے خوب فائدہ اٹھائے گا، اس کے ساتھ زمین کے سارے خزانے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے، دوستوں پر بارش برسائے گا، مخالفین پر سب کچھ بند کرے گا، دنیا کے بہت سارے ممالک پر چکر لگائے گا، صرف مکہ اور مدینہ نہیں جاسکے گا، وہاں سے فرشتے اس کو بھگا دیں گے۔ یہ پھر شام کی طرف متوجہ ہوگا، وہاں مہدی جنگی تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔ عصر کی اذان ہوچکی ہوگی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ ڈالے ہوئے آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینار پر جلوہ افروز ہوجائیں گے اور سیڑھی منگا کر نیچے آجائیں گے اور پھر حضرت مہدی سے ملاقات ہوجائے گی۔ حضرت مہدی ان کو نماز پڑھانے کا کہیں گے اور فوجی کمان سنبھالنے کی درخواست بھی کریں گے، مگر وہ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ امامت اس امت کے ہاتھ میں ہوگی، میں صرف دجال کو مارنے کے لئے آیا ہوں۔

جمعہ کے دن نماز عصر کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال پر حملہ کردیں گے اور لشکر اسلام دجال کے لشکر پر حملہ آور ہوجائے گا، شدید جنگ کے بعد دجال شکست کھا کر بھاگ جائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور باب لُد میں جاکر اس کو نیزہ مار کر قتل کردیں گے، باب لد میں آج کل اسرائیل کا ایک ایسا ائیرپورٹ ہے جو صرف دجال کے بچاؤ کے لئے بنایا گیا ہے، وہاں جہاز تیار کھڑا ہے ،تاکہ ضرورت کے وقت دجال بھاگ جائے، مگر وہاں دجال مارا جائے گا، اس کے بعد یہودیوں کا قتل عام شروع ہوجائے گا، کوئی پتھر یا درخت کسی یہودی کی پناہ نہیں دے گا، بلکہ شکایت کرے گا کہ اے مسلمان !آجا۔ یہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا بیٹھا ہے، اس کو ماردو، صرف غرقد نامی درخت شکایت نہیں کرے گا ،کیونکہ یہ یہود کا وفادار درخت ہے۔(آج کل یہودیوں نے اسرائیل کو اس درخت سے بھر دیا ہے، لیکن مسلمان اندھے نہیں ہوں گے، اگر غرقد درخت شکایت نہ بھی کرے، مسلمانوں کو آنکھوں سے یہودی نظر آئیں گے اور ان کو قتل کریں گے)

دنیا پر دجال کی چالیس دن تک حکومت رہے گی، اس میں ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا، دوسرا ایک ماہ کے برابر ہوگا ، تیسرا ایک ہفتے کے برابر ہوگا اور باقی ایام معمول کے مطابق ہوں گے، دجال ایک گدھے پر سوار ہوکر پوری دنیا کا چکر لگائے گا، ہوسکتا ہے حقیقی گدھا ہو اور ہوسکتا ہے کہ جدید دور کا کوئی جہاز ہو، اس سے پہلے تفصیل کرچکا ہوں۔ بہرحال جب دجال کا فتنہ ختم ہوجائے گا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی دونوں مل کر ان شہروں کا دورہ کریں گے اور مصیبت رسیدہ لوگوں میں مال تقسیم کریں گے، جن شہروں میں دجال نے فساد برپا کیا تھا۔ امام مہدی کی خلافت میں عدل وانصاف ہوگا۔ حضرت مہدی کی حکومت نو سال تک رہے گی، سات سال تک عیسائیوں سے جنگیں ہوں گی اور آٹھویں سال میں دجال کا فتنہ ہوگا اور نویں سال میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مل کر ملکی انتظام ٹھیک کریں گے اور ۴۹ سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوجائے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کی نماز جنازہ پڑھادیں گے۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام خلیفہ بن جائیں گے۔ کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وحی ہو جائے گی کہ اپنے تمام مسلمانوں کو لے کر کوہ طور پر جاکر پناہ لے لو، اس لئے کہ میں اپنی مخلوق میں سے ایک طاقتور مخلوق ظاہر کرنے والا ہوں، جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام مسلمانوں کے ساتھ وہاں جاکر قلعہ بند ہوجائیں گے اور ادھر زمین پر یاجوج ماجوج کا خروج ہوجائے گا۔ یاجوج ماجوج یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں اور روس کے پیچھے کوہ قاف کے پاس کاکیشیا کے ساتھ درہٴ داریال کے علاقوں میں سد سکندری کے پیچھے بند ہیں۔ یاجوج ماجوج زمین پر نکل کر اس کو چاٹ لیں گے، پانی ختم ہوجائے گا۔ زمین کے جانداروں کو ختم کرکے کھاجائیں گے اور پھر آسمان کی طرف پتھر پھینکیں گے اور خوش ہوجائیں گے کہ اب ہم نے آسمان والوں کو بھی ختم کردیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مسلمانوں پر زندگی اتنی تنگ ہوجائے گی کہ گائے کا ایک کلَّہ ایک سو دینار میں فروخت ہوگا، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام یاجوج ماجوج پر بددعا کریں گے، جس سے وہ سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں چالیس سال تک زندہ رہیں گے، پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مدینہ منورہ میں حضور اکرم ا کے پہلو میں مدفون ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد یمن کا ایک باشندہ آپ کا قائم مقام ہوجائے گا، جس کا نام جہجاہ ہوگا، وہ دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا اور پھر وفات پائے گا۔ پھر کچھ غلط بادشاہ آجائیں گے اور دنیا ایک بار پھر جہل اور کفر سے بھر جائے گی اور زمین کے دھنسنے کے واقعات شروع ہوجائیں گے۔ پھر دنیا پر چالیس دن تک دھواں چھا یا رہے گا اور پھر ایک رات لمبی ہو جائے گی، لوگ پریشان ہوجائیں گے کہ صبح کیوں نہیں ہورہی ہے؟ اتنے میں سورج مغرب کی جانب سے طلوع ہوجائے گا، لوگ اسی پریشانی میں ہوں گے کہ اچانک دابة الارض کا خروج ہو جائے گا، دابة الارض کوہ صفا سے نکل کر آئے گا، یہ ایک عجیب الخلقت جانور کی شکل میں ہوگا ،مسلمان کی پیشانی پر ”م“ لکھے گا اور کافر کی پیشانی پر ”ک“ لکھے گا۔ مسلمان پر عصائے موسیٰ سے سفید نورانی نشان پڑ جائے گا اور کافر پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی سے سیاہ نشان بن جائے گا۔ دابة الارض کے خروج سے نفخ صور تک ۱۲۰ سال کا عرصہ ہوگا ،پھر جنوب کی طرف سے ایک ہوا چلے گی، جس سے نیک لوگ مر جائیں گے اور بعد میں برے لوگ مرجائیں گے۔ مسلمانوں کے مرجانے سے حبشہ کے لوگ غلبہ حاصل کریں گے اور فتنہ وفساد شروع کرلیں گے، اسی دوران وہ کعبہ مشرفہ کو گرادیں گے اور اس کے نیچے سے خزانہ لوٹ لیں گے، اس کے بعد جنوب کی طرف سے ایک بڑی آگ آجائے گی اور لوگوں کو شام کی طرف دھکیلے گی، یہ قیامت کی بڑی بڑی علامت ہوگی۔ اس کے بعد تین چار سال تک لوگ عیش وعشرت کی زندگی گزاریں گے اور مکمل غافل ہوجائیں گے کہ اللہ اللہ کہنے والا دنیا میں کوئی نہیں ہوگا، پھر ایک دن جمعہ کے روز دس محرم کو لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے کہ سائرن کی آواز شروع ہوجائے گی، یہ آواز بڑھتی جائے گی ،یہاں تک کہ لوگوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے اور پھردل پھٹ جائیں گے، لوگ مرجائیں گے ،پھر زمین میں زلزلہ شروع ہوجائے گا اور پھر آسمان ٹوٹ پھوٹ کرگر جائیں گے ،پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر اڑ جائیں گے اور سمندر ابل کر جوش ماریں گے، حتی کہ یہ موجودہ کائنات بالکل فنا ہوجائے گی اور قیامت قائم ہوجائے گی-



Tags:
qayamat ki nishanian, End of times in the light of ahadees
kayamat se pehle kya kuch ho ga, hadith, islam, Imaam mehdi, yajooj majooj, hazrat esa(as), dajjal, kharooj e dajjal, soraj ka maghrab se talooh hona, 
Source

4 September 2011

Hijab for Muslim women

آج بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ اقوام و مذاہب عالم کے سمندروں میں طوفان حوادث نے تباہی و بربادی مچائی ہوئی ہے۔ عمل اور انکشاف کی دنیا میں ایک ہیجان برپا ہے۔ موت و حیات کی کشمکش شروع ہوگئی ہے۔ مظالم، نا انصافیاں، دہشت گردی، خونی ہنگامہ آرائی مشرق کو مغرب میں تبدیل کرنے کیلئے پنجہ آزما ہو رہی ہیں۔
 
ایک شور اور ایک طوفان ہے جو پاکستان، ایران، امریکہ، فرانس اور یورپ میں اٹھ رہا ہے اور شمال کو جنوب اور جنوب کو شمال اور مشرق کو مغرب بنانے کے درپے ہے۔ صدیوں کے بعد اب شہادت گاہیں سنسان مقامات پر قائم ہوگئی ہیں دارور سن کی خونی اور وحشیانہ نمائش گاہیں سر بازار کھل گئی ہیں۔ جانوں کی قیمت اور خون ریزی کے بازار سجادیئے گئے ہیں۔ اہل اسلام کا خون پانی سے بھی زیادہ سستا ہوچکا ہے۔ سولی پر چڑھی ہوئی لاشیں یہ صدائیں لگارہی ہیں۔ اے اسلام کے نام لیواؤ! اے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاسبانو! خواب غفلت سے جاگو۔ کیا دیکھتے نہیں آج مغرب نے کمر باندھی ہے کہ وہ ممالک اسلامیہ کو نیست و نابود کردے۔ ان کی تہذیب و تمدن کے سوتے خشک کردے۔ ان کو ان کی اسلامی اقدار سے دور کرکے ان کو اپنے جیسا وحشی بنادے۔
عزیزان گرامی!
اسلامی تہذیب و ثقافت سے کسی کا کیا جاتا ہے جو وہ اس کے درپے ہیں۔ اگر مسلمان عورت خود کو حجاب میں محفوظ تصور کرتی ہے تو ان کا کیا بگڑتا ہے اور اگر عیسائی سکولوں میں خواتین اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے اسکارف سر پر لینے پر آزاد ہے تو باپردہ عورتوں کو مطعون کیوں کیا جاتا ہے۔ ان پر کفن پوش، دقیانوسیت کی پھبتیاں کیوں کسی جاتی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ان کی ثقافت پر طعن و طنز کے تیر کیوں برسائے جاتے ہیں؟ کیا ان خواتین کو جینے کا کوئی حق نہیں؟ یہود ونصاری کیوں اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے کے درپے ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلے سے پورا عالم اسلام دو چار ہے۔
مصر میں حجاب کی مخالفت
مصر میں ترقی و روشن خیالی کے داعی قاسم امین نے آزادی نسواں کے حق میں ایک کتاب 1899ء میں ’’تحریر المراۃ‘‘ کے نام سے شائع کی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام میں بے پردگی کی مخالفت نہیں۔ اس کتاب نے مصر کی اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے میں کیا کردار ادا کیا؟ اسکندریہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین اپنی کتاب ’’التجاہات الوطنیۃ فی الادب المعاصر‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اس دعوت و تحریک کے نتیجے میں عورتوں میں بے پردگی اور بے حجابی، آزادی و بے قیدی کا جو رجحان پیدا ہوا اس سے اسلامی خیال کے لوگ گھبراگئے، عورتوں کے خیالات میں قدیم آداب و رسوم، باپ اور شوہر کے اقتدار کے خلاف بغاوت کا جو جذبہ پیدا ہورہا تھا اس کو انہوں نے شدت سے ناپسند کیا۔ وہ استعجاب اور پریشانی کے عالم میں لباس کی تبدیلیوں اور تیزی کے ساتھ ڈھیلے ڈھالے اور ساتر مصری لباس کے مقابلے میں چست و کوتاہ مغربی لباس کو دیکھ رہے تھے جو اس تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا تھا کہ جس کا ان کو پہلے سے کوئی اندازہ نہ تھا‘‘۔
افغانستان میں حجاب کی مخالفت
 1960ء سے قبل افغانستان میں اسلامی ثقافت اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم تھی۔ حجاب کا باحیا تصور یہاں موجود تھا لیکن اسلامی تہذیب و ثقافت کے دشمنوں کی آنکھ میں گلستان خار بن کر چبھنے لگا اور انہوں نے اس چمن کو روند ڈالا۔ ٹائمز آف انڈیا (Time of India) کا یورپین نامہ نگار Ritchie Colder جس نے 1963ء کے افغانی جشن استقلال میں شرکت کی تھی اس اخبار کی 28 جولائی 1963ء کی اشاعت میں لکھتا ہے۔ تین سال قبل یہاں (افغانستان) کی عورتیں پردہ میں تھیں۔ اس وقت اگر ایسے مواقع پر اسے باہر نکلنے کی اجازت ملتی بھی تو اسے چادر میں ملفوف ہوکر آنا پڑتا جو اسے سر سے پیر تک ڈھکے رہتی اورنقاب اس کے چہرہ کو ڈھانپے ہوئے ہوتا جس میں دیکھنے کے لئے سوراخ بنے ہوتے۔ لیکن اب ان کو اپنا چہرہ کھلا رکھنے کی آزادی نصیب ہو چکی ہے اور عورتوں کی بڑی اکثریت بے نقاب ہوچکی ہے۔
(
مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، ص 35 بحوالہ ٹائمز آف انڈیا)
بخارا میں حجاب کی مخالفت
عورتوں کو گمراہ کرنے کے لئے سب سے زیادہ حجاب شکنی پر زور دیا گیا اور اپنی تمام تر توانائیاں پردے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ سب سے پہلے نظر پھر دل اور پھر نفس بہکتا ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کو صرف مصر اور افغانستان میں ہی کچلا نہیں گیا بلکہ بخارا میں بھی مغربی تہذیب کے نفاذ کی کوشش کی گئی۔ بخارا کے اندر جب روسی کمیونسٹ داخل ہوئے تو انہوں نے بنات اسلام کے سروں سے چادریں کھینچ لیں۔ ان کی عزت و آبرو کے گوہر کو لوٹا اور معاشرے میں بگاڑ کے لئے ایسے ہتھکنڈے اپنائے کہ یہ نادان لڑکیاں ان کے جال میں پھنستی چلی گئیں۔ بخارا کی سڑکوں پر برقعوں کو جلایا گیا اور جن غیرت مند خواتین نے برقعہ اتارنے سے انکار کیا ان کے سروں سے زبردستی برقعے نوچ لئے گئے۔ بخارا کا انقلابی شاعر تاق ابوالقاسم لکھتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
’’کتنی بری بات ہے کہ تم پردے میں ہو اور دنیا آزاد ہے۔ افسوس کہ تم محو خواب ہو اور دنیا بیدار ہے۔ چادر چھوڑو مکتب جاؤ اور تعلیم حاصل کرو۔ جہالت کی شاخ پر پسماندگی کے سوا کوئی پھل نہیں لگتا‘‘
اُف یہ پادری ص 337 بحوالہ عبرت نامہ بخارا)
 
افغانستان کے ہمسایہ ملک بخارا میں 18 مارچ 1921ء کو ایک بڑی تقریب میں برقعوں کا ڈھیر نذر آتش کردیا گیا۔ پردہ ترک کروانے کے لئے مسلمان عورتوں پر تشدد سے بھی کام لیا گیا۔ اس تقریب میں پانچ ہزار مسلمان عورتیں آئی تھیں جنہوں نے مزاحمت کی اور پردہ ترک کرنے سے انکار کیا۔ ان کے سروں سے برقعے نوچ کر الاؤ میں ڈال دیئے گئے۔ رشتہ داروں کی منت سماجت اور ترغیب سے بالآخر انہیں بے پردگی اختیار کرنا پڑی۔ جبراً پردہ اتارنے کی مہم روسی عورتوں نے انجام دی۔ 18 مارچ کو قومی دن کی حیثیت حاصل ہوگئی اور ہر سال یہ رسم منائی جانے لگی۔ (روزنامہ نوائے وقت ملتان 18 اپریل 1996ء)
غالباً ایسے ہی ایک جلسے کا حال اعظم ہاشمی مرحوم نے اپنے سفر نامہ ہجرت میں لکھا ہے کہ
( ایک دن) کمیونسٹ پارٹی نے نماز مغرب کے بعد (بخارا کی) تمام بڑی بڑی مساجد میں جلسے منعقد کئے۔ اہل محلہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی پردہ نشین بہو، بیٹیوں اور بیویوں کو لے کر مسجد میں آئیں۔ مسلح پولیس کے سپاہی ایک سرخ فوجی کی سرکردگی میں گھر گھر گئے اورمردوں اور عورتوں کو جانور کی طرح ہانک لائے۔ مسجد کے دروازے پر دو کمیونسٹ کھڑے تھے جو مستورات کے سروں سے برقعے، چادریں اور دوپٹے اتار اتارکر مسجد کے صحن میں ڈھیر کر رہے تھے۔ رات کے دس بجے سب لوگوں کو سامنے سارے ڈھیر کو آگ لگادی گئی۔ اس کے بعد تقریریں شروع ہوگئیں۔ کمیونسٹ مقررین یکے بعد دیگرے پردے کے خلاف آتشیں تقریریں کرتے اور منہ سے جھاگ اڑاتے رہے۔ ایک باشقرستانی یہودی کمیونسٹ نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔
’’پردہ مردوں کے ظلم کی نشانی ہے۔ اب عورتیں آزاد ہوگئیں ہیں۔ وہ دفتر میں نوکری کر سکیں گی۔ فرغانہ کے غیور باشندے اس حقیقت کو پا چکے ہیں۔ ان کی عورتیں آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہو چکی ہیں۔ نکاح اور طلاق کا جھنجھٹ اب باقی نہیں رہا۔ وہ مردوں کے ظلم سے آزاد بڑے آرام و سکون کی زندگی بسر کررہی ہیں‘‘
۔( اف یہ پادری، ص 337 بحوالہ سمر قند و بخارا کی خونی سرگزشت)
ایران میں حجاب کی مخالفت
ایران میں رضا شاہ پہلوی کے دور میں برقعہ پہننے پر پابندی عائد تھی۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی نے 1935ء میں برقعہ ممنوع قرار دے دیا۔ (ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ جلد3 ص 226)
یہ عین وہی زمانہ تھا جب برصغیر پاک و ہند میں اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس روشن خیالی صلیب کے سامنے سینہ سپر تھے۔ اکبر الہ آبادی لکھتے ہیں۔
بے پردہ کل جو نظر آئیں چند بیبیاں
اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

ترکی میں حجاب کی مخالفت
 پاشا نے ترکی کو جدید ترکی میں تبدیل کرنے کے لئے تہذیب و ثقافت کو جسطرح کچلا وہ تاریخ کے صفحات پر واضح ہے اس نے ترکی ٹوپی اور سر کے ہر لباس، حجاب، اسکارف کو خلاف قانون قرار دیا اور ہیٹ کا استعمال لازمی قرار دیا۔ آیئے دور حاضر میں اس ترکی کی روشن خیالی کا مطالعہ کرتے ہیں۔
جاوید چوہدری اپنے کالم زیرو پوائنٹ میں لکھتے ہیں۔
میڈم مروے کا تعلق فضیلت پارٹی سے تھا وہ 18 اپریل 1999ء کے الیکشن میں ترک پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئی۔ مئی میں حلف برداری کا موقع آیا تو مروے سر پر اسکارف لے کر پارلیمنٹ چلی گئیں۔ یہ جدید ترکی کی 76 سالہ تاریخ کا حیران کن واقع تھا کیونکہ جب 29 اکتوبر 1923ء کو ترکی آزاد ہوا تو کمال اتا ترک نے عربی رسم الخط، دینی تعلیم اور اذان کے ساتھ سر ڈھانپنے اور حجاب لینے پر پابندی لگادی تھی۔ کمال اتا ترک کا کہنا تھا اگر ہم ترکی کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے سیکولر ثابت کرنا ہوگا۔ اس وقت سے ترکی میں عورت کا ننگا سر اور سیکولرازم ایک ہوچکے ہیں لیکن مئی 1999ء میں مروے نے اسکارف کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہوکر سیکولرازم کے ترک فلسفے کو چیلنج کر دیا۔ مروے کی اس حرکت میں پارلیمنٹ میں زلزلہ آگیا۔ سیکولر ارکان نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ ترکی میں سیکولرازم کی ضامن فوج نے بھی مروے کی جسارت کا سنجیدگی سے نوٹ لیا۔ لہذا صدر سلیمان ڈیمرل نے مروے کی رکنیت اور شہریت دونوں منسوخ کر دیں۔ یہ ایک سیکولر سٹیٹ کا ایک ایسے آزاد شہری سے انتقام تھا جو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ 29 اکتوبر 2003ء کو یہ صورت حال ایک بار پھر شدت کے ساتھ سامنے آئی۔ اس دن ترک قوم نے اپنا 80 واں یوم آزادی منایا، قومی دن کی روایات کے مطابق صدر ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی عہدیداروں کے اعزاز میں ایک دعوت کرتا ہے جس میں ارکان کی بیگمات بھی شریک ہوتی ہیں لیکن اس بار کیونکہ ترکی میں طیب اردگان کی سربراہی میں ایک اسلامی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی حکومت ہے اور اس پارٹی کے زیادہ تر عہدیداروں کی بیگمات سروں پر اسکارف باندھتی ہیں۔ لہذا صدر کے لئے ان تمام حضرات کو دعوت دینا مسئلہ بن گیا۔ صدر نے طویل غور و خوض کے بعد اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ انہوں نے حکومت پارلیمنٹ کے ارکان اور حکمران پارٹی کے چیدہ چیدہ ممبروں سے درخواست کی کہ آپ تقریب میں بیگمات کو نہ لائیں۔ صدر کے اس فارمولے کی زد میں وزیراعظم طیب اردگان بھی آگئے کیونکہ ترکی خاتون اول بھی سر پر اسکارف لیتی ہیں۔ اس اقدام پر جسٹس ڈیویلپمنٹ پارٹی نے صدارتی تقریب کا بائیکاٹ کیا اور صدر احمد نجات سیزا نے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔
(روزنامہ جنگ لاہور 8 نومبر 2003ء)

فرانس میں اسکارف کی مخالفت فرانس کے وزیر داخلہ چارلس پاسقوا اور وزیر تعلیم فرینکواٹس بائرو (Francois Bayrow) نے تمام پبلک اسکولز میں زیر تعلیم مسلمان طالبات پر حجاب پہننے پر پابندی لگا دی اور پھر فرانس میں اسکارف اوڑھ کر تعلیم حاصل کرنے پر ان کو اسکول سے خارج کردیا گیا۔ ان پر تعلیم کے دروازے بند کردیئے گئے۔ فرانسیسی وزیر داخلہ نے اپنی پارلیمنٹ کو بتایا کہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اسلامی عقائد کو ہمارے معاشرتی رسم و رواج کا حصہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے کے لئے پوری دنیا یہود ونصاریٰ اور ان کے مہروں نے اپنی پوری طاقت استعمال کی۔لیکن اس تہذیبی و ثقافتی دہشت گردی پر کسی روشن خیال اور ترقی پسند نے اپنے قلم یا زبان سے مذمت نہیں کی۔ آخر کیوں؟ کیا مسلمانوں کو اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق نہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حجاب، اسکارف فرانس کے سیکولر نظام سے متصادم نہیں اور اگر ہے تو وہاں عیسائی بچے صلیب اور یہودی طالب علم اپنے سروں پر مخصوص ٹوپی کیوں پہنتے ہیں؟۔ روزنامہ نوائے وقت کی درج ذیل رپورٹ ملاحظہ فرمایئے۔

یاد رہے کہ فرانس کے اسکولوں میں بچیوں کو صلیب لٹکانے اور سر پر مخصوص ٹوپی پہننے کی اجازت ہے عیسائیوں اور یہودیوں کی مخصوص مذہبی علامات ہیں۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور 5 نومبر 1994ء)
ملت اسلامیہ کی باوقار بیٹیو!پردہ ان کو کیوں کھٹکتا ہے؟ ا سلئے کہ حجاب ان کے دیگر مقاصد کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے، فحاشی،لہو و لعب، موسیقی، فلم اور خاندانی انتشار کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ لازمی سی بات ہے جب عورت بے پردہ ہوگی تو اس کے چہرے پر غلیظ نظریں بھی پڑیں گی اورجب میڈیا کے ذریعے فحاشی و عریانیت کا سیلاب اور حکومتوں کے ذریعے زنا کاری کے پرمٹ جاری ہوں گے اور آزادانہ اختلاط کن فتنوں کو جنم دے گا وہ آپ پر پوشیدہ نہیں۔ اور اس کے جو خوفناک نتائج بن بیاہی کنواری ماؤں کی صورت میں جو نکلیں گے اس کے لئے مغرب کی مثال آپ کے سامنے موجود ہے۔
اس دہشت گردی میں مغرب کے اہل قلم ہی نہیں بلکہ اس غیر ملکی ثقافت کو عام کرنے کے لئے اور ان کو پھیلانے کے لئے ملک کے بڑے بڑے ادباء، اہل قلم اور مصنفین رضا کارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کر رہے تھے اور اس مہم کو تیز کرنے میں قلمی مزدوروں کی بھی کمی نہ تھی۔ ان ہی قلمی مزدوروں نے یہ تاثر دیا کہ کلچر کا تعلق مذہب سے نہیں۔ ایک ادیب یوں رقمطراز ہیں۔
 
’’مسلم کلچر نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہر مسلمان کا کلچر دوسرے سے مختلف ہے۔ تمام مسلمان ممالک میں دینی اعتقادات بے شک ایک ہیں لیکن ان کا کلچر ایک نہیں ہوسکتا‘‘۔
(روزنامہ جنگ 15دسمبر 1991ء)
 
یہ تہذیب و ثقافت کو زمین سے وابستہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلامی اخوت کا شفاف آئینہ چکنا چور ہوگیا۔ اس افسوسناک حقیقت کا ادنیٰ سا منظر ہر سال پاکستان میں دیکھا جاتا ہے کہ یوم آزادی کے دن پاکستان کے مسلمان سندھی، ہندو سندھیوں سے یکجہتی کے لئے کنٹرول لائن کی طرف جاتے ہیں۔ وہ ان حد بندیوں کو توڑ دینا چاہتے ہیں لیکن دوسرے صوبوں کے پنجابی، پٹھان، مہاجر کا وجود انہیں برداشت نہیں۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ اسی طرح ایک اور قلمی مزدور اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
’’عصر حاضر میں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی معاشرے میں حجاب یا دوپٹے کے بغیر راہ چلتی عورت کو کوئی تنگ نہیں کرتا تو کیا وہاں بھی چادر اور دوپٹہ اوڑھنا ضروری ہو جائے گا۔ میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ اکثر غیر ملکی مہذب معاشروں میں مسلمان عورتیں کسی محرم کے بغیر بلاخوف و خطر طویل سفر اختیار کر سکتی ہیں اور کوئی نامحرم ہمسفر اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا‘‘۔
(روزنامہ جنگ 4 تا 7 جولائی 1985ء میں عورت، پردہ اور جدید زندگی کے مسائل پر پروفیسر وارث میر کے مضامین)
 
وارث میر صاحب کے مضمون پر میں کیا تبصرہ کروں روزنامہ جنگ کی یہ رپورٹ ملاحظہ کیجئے۔ اس وقت مہذب دنیا میں ہر 45 سیکنڈ کے بعد ایک عورت کو بے آبرو کر دیا جاتا ہے۔ (روزنامہ جنگ 12نومبر 1995ء)
 
اس بات کا اعتراف تو بے نظیر بھٹو نے بھی کیا ہے لکھتی ہیں۔
’’ہماری ابتدائی کلاس میں ہمیں زنا بالجبر کے خطرات کے متعلق جو لیکچر دیئے جاتے تھے، ریڈ کلف میں سن کر وحشت ہوتی تھی۔ میں نے امریکہ آنے سے قبل زنا بالجبر کے بارے میں کبھی سنا تک نہیں تھا اور اب اس امکان کی وجہ سے میں اگلے چار سال کبھی رات کو اکیلی گھر سے باہر نہیں نکلی‘‘۔
دختر مشرق از بے نظیر بھٹو ص 86
 
محترمہ کے اس بیان سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ پاکستان میں جس جرم کے متعلق بے نظیر نے سنا تک نہیں تھا امریکہ کے بے لگام معاشرے میں ایک ہولناک حقیقت تھا۔
یہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو اس لئے مٹانا چاہتے ہیں کہ کہیں ان کے حرص و ہوس کے بے قابو نفس جن کے لئے عورت ایک دل لبہانے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ان کے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ انہیں سیکولر نظام کی پرواہ نہیں بلکہ اپنی بدمست جوانی کی سفلی خواہشات کی پرواہ ہے۔ کیونکہ یہ جانتے ہیں اسلامی تہذیب و ثقافت اپنے اندر کتنا بڑا ظرف رکھتی ہے۔
اسلامی تہذیب کو دیکھنا ہو تو یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا منظر نگاہوں کے سامنے لے آیئے۔ ہم یہاں صرف چند ایک اقتباس پیش کرتے ہیں کہ کس طرح یورپ کی خواتین کے لئے اسلامی ثقافت، حجاب کی اہمیت تھی۔ رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے۔
’’سسلی کے پایہ تخت میں تین ہزار سے زیادہ جامہ باف تھے۔ ان کی تیار کردہ عباؤں، قباؤں اور چادروں پہ قرآنی آیات بھی ہوتی تھیں جنہیں عیسائی بادشاہ اور پادری فخر سے پہنتے تھے۔ سسلی میں عیسائی عورتیں نقاب اوڑھتی تھیں‘‘۔ ( از غلام جیلانی برق یورپ پر اسلام کے احسانات ص 125 مطبوعہ شیخ غلام علی سنز)
مزید آگے لکھتے ہیں۔
’’اسلامی تہذیب نے حیات مغرب کے ہر پہلو پر اثر ڈالا۔ ان لوگوں کے لباس بدل گئے۔ طور طریقے تبدیل ہوگئے۔ تعمیرات میں مشرقیت آگئی۔ عورتوں کا احترام بڑھ گیا اور انہوں نے حریص نگاہوں سے بچنے کیلئے نقاب اوڑھ لئے‘‘۔(یورپ پر اسلام کے احسانات ص 150 بحوالہ رحلۃ ابن جبیر)
’’جو عیسائی لڑکیاں شاہی محل میں داخل ہوتی ہیں۔ وہ مسلم کنیزوں کی نیکی، پاکیزگی اور نماز سے متاثر ہوکر مسلمان ہوجاتی ہیں‘‘۔(ایضاً ص 152)
 
آیئے اس زندہ حقیقت کو دور حاضر میں ملاحظہ فرمایئے۔

حجاب اور نومسلم خواتین نومسلم ہندو دو شیزہ کملا داس جن کا اسلامی نام ثریا ہے ایک انٹرویو میں اس سوال پر کہ آپ کو اسلام میں سب سے زیادہ پرکشش بات کیا لگی؟ کہا:
مجھے مسلمان عورتوں کا برقعہ بہت پسند ہے۔ میں پچھلے 24 برسوں سے پردے کو ترجیح دے رہی ہوں۔ جب کوئی عورت پردے میں ہوتی ہے تو اس کو احترام ملتا ہے۔ کوئی اس کو چھونے اور چھیڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ اس سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ 

(ہفت روزہ ’’نئی دنیا‘‘ نئی دہلی 28 دسمبر 1999ء)
 

ثریا نے اب برقعہ کا استعمال بھی شروع کردیا ہے۔ وہ پردے کے بغیر زندگی کو آزادی نہیں سمجھتی بلکہ ایسی آزادی کو عورت کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے۔ اس نے اس سوال پر کہ کیا برقعہ آپ کی آزادی کو متاثر نہیں کرتا؟ کہا:
’’مجھے آزادی نہیں چاہئے۔ اب تو آزادی میرے لئے ایک بوجھ بن گئی ہے۔ مجھے اپنی زندگی کو باضابطہ اور باقاعدہ بنانے کیلئے گائیڈ لائن کی ضرورت تھی۔ ایک خدا کی تلاش تھی جو تحفظ دے۔ پردے سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ پردہ تو عورت کے لئے بلٹ پروف جیکٹ ہے‘‘
 ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں ص 116
نو مسلم عیسائی خولہ لگاتا کہتی ہیں۔ ’’پہلے مجھے حیرت ہوتی تھی کہ مسلم بہنیں برقعے کے اندر کیسے آسانی سے سانس لے سکتی ہیں۔ اس کا انحصار عادت پر ہے۔ جب کوئی عورت اس کی عادی ہوجاتی ہے تو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ پہلی بار میں نے نقاب لگایا تو مجھے بڑا عمدہ لگا۔ انتہائی حیرت انگیز، ایسا محسوس ہوا گویا میں ایک اہم شخصیت ہوں۔ مجھے ایک ایسے شاہکار کی مالکہ ہونے کا احساس ہوا جو اپنی پوشیدہ مسرتوں سے لطف اندوز ہو۔ میرے پاس ایک خزانہ تھا جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہ تھا۔ جسے اجنبیوں کو دیکھنے کی اجازت نہ تھی‘‘۔
 (ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں 204)
 
نو مسلم دوشیزہ صونی رولڈ کی سرگزشت۔ ’’میں نے سر ڈھانپنا شروع کیا تو میرے باپ کا تبصرہ یہ تھا کہ بڈھی کھوسٹ لگنے لگی ہو۔ یہ تبصرہ آج کل عام ہے۔ لوگ سر پر اسکارف باندھنا ترک کر چکے ہیں اس لئے شاید وہ مجھے عجوبہ سمجھتے ہیں۔ بہر حال میں تو اپنے آپ کو عجوبہ نہیں سمجھتی ہوں۔ میں مسلمان ہوں اور میں ناروے میں غیر ملکی ہوں۔ میرے مسلم احباب زیادہ تر عرب یا پاکستانی ہیں اس ماحول میں مجھے گرمجوشی، تدبر اور دانائی ملتی ہے، ایسی دانش جو ناروے کے انفرادیت پرست ماحول سے کوسوں دور ہے‘‘۔
(ہم کیوں کفر سے اسلام میں داخل ہوئیں ص 224)
 
ثقافتی دہشت گردی کو اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں اسلام عالمی مذہب نہ بن جائے اور وہ خواب جو یہودی دنیا پر حکومت کرنے کا دیکھ رہے ہیں چکنا چور نہ ہوجائے۔ اس لئے اسلامی تہذیب و ثقافت کو کچلنے کی یہ مہم جاری و ساری ہے۔
بنات اسلام! کیا پردہ ایک ظلم ہے؟ کیا حجاب ایک جبر ہے؟ کیا برقعہ ایک قید خانہ ہے؟ اگر یہ ظلم ہے تو ہر عورت کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر یہ جبر ہے تو ہر عورت کے ساتھ جبر ہے۔ اگر یہ قید خانہ ہے تو ہر عورت کے لئے قید خانہ ہے۔ خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی، یہودی ہو یا مشرک۔ لیکن! ذرا سوچئے! ظلم و ستم، جبرو قید خانے کا پروپیگنڈہ صرف مسلم ممالک میں کیوں؟ مسلم خواتین اس پروپیگنڈے کا شکار کیوں؟ کیا عیسائیت میں ننیں اپنے سروں کو اسکارف سے ڈھانپ کر نہیں رکھتیں۔ اگر یہ جبر ہے تو یہ ایک عیسائی نن پر بھی جبر ہے؟ لیکن یہ نن خواہ برطانیہ کی ہو یا فرانس کی، اٹلی کی ہو یا جرمنی کی جب سر پر اسکارف لیتی ہے تو پورا یورپ اسے جھک کر سسٹر یا مدر کہتا ہے لیکن یہی اسکارف ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا، سعودی عرب اور پاکستان کی عورت سر پر رکھ لیتی ہے تو اسے نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اسے جاہل، گنوار، غیر ترقی یافتہ اور فنڈ امنٹلیسٹ کہا جاتا ہے۔

اس وقت پورے یورپ میں چھوٹے بڑے 7 لاکھ چرچ اور مذہبی اسکول ہیں۔ امریکہ کے اندر ایک لاکھ 22 ہزار چرچ ہیں۔ ان 8 لاکھ 22 ہزار چرچوں میں 26 لاکھ ننیں (سسٹرز اینڈ مدرز) ہیں اور یہ تمام ننیں اپنے سروں پر اسکارف لیتی ہیں اور برقعہ نما ڈھیلا ڈھالا گاؤن پہنتی ہیں۔ اگر ان کے گاؤن اور اسکارفوں کے باوجود وہاں ترقی ہوئی تو مسلم دنیا ترقی نہیں کرسکتی؟ بنات اسلام! یہ حجاب کے خلاف تہذیبی و ثقافتی دہشت گردی اس لئے ہے کہ تم سے تمہاری قوم کا مستقبل وابستہ ہے۔ تمہاری گود سے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی صورت میں فلاح امت کی صبح پھوٹ سکتی ہے۔ تمہاری غیرت، ارتقاء و بقا کی تاریخ رقم کر سکتی ہے۔ تمہاری حیا زندگی کے چمن میں بہار کے شگوفے کھلا سکتی ہے، تمہارے رتجگے ملت کا مقدر جگا سکتے ہیں۔
دختران ملت!اس جنگ میں تمہارا کردار بھی بہت اہم ہے۔ تمہیں اپنی پاک تہذیب و ثقافت میں نقب لگانے والوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ خود بھی اسلامی تہذیب پر عمل پیرا رہنا اور دیگر مسلمان دوشیزاؤں کو بھی اسلامی ثقافت سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ تمہارے سر سے چادریں اور تمہارے چہروں سے نقاب کھینچنے کے لئے اگر مغرب کے ہاتھ بڑھتے تو ہم ضرور کاٹ ڈالتے۔ تمہارے برقعوں کو جلانے کے لئے اگر کوئی آگ سلگاتا تو ہم اسے اسی آگ میں جلا ڈالتے۔ ہمیں کمینے دشمن سے واسطہ ہے جس نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے نام نہاد ادیبوں کے ذریعے، عقل سے پیدل دانشوروں کے سہارے اور روشن خیال حکمرانوں کے بل بوتے پر تمہاری تہذیب و ثقافت پر شب خون مارنے کی تیاری کی۔ یہ شب خون، یہ حملہ تمہارے سروں سے چادریں اپنے ہاتھوں سے نہیں کھینچے گا بلکہ تمہارے ذہنوں کو اس روشن خیالی کے لئے میڈیا کے ذریعے اور زرد صحافت کے ذریعے، بعض نام نہاد روشن خیال سیکولر عورتوں کے ذریعے، تمہارے ذہنوں کو پراگندہ کرکے نوچے جائیں گے۔ بس فرق اتنا ہوگا پہلے تمہیں بے آبرو کرنے کے لئے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور آج تم بے آبرو ہونے کے لئے خود تیار ہوگی۔ سازش بہت ہولناک ہے۔ میرا قلم اس کو لکھنے سے عاجز ہے۔ اس جنگ کو تمہارے بھائی ایک حد تک لڑ سکتے ہیں مگر یہ جنگ تمہیں خود لڑنی ہوگی۔۔ اور اگر تم اس جنگ میں ثابت قدم رہیں تو قسم خدا کی! تمہاری قوم پھر بام عروج پر اپنا جھنڈا لہرائے گی۔ تمہیں ہمت نہیں ہارنی، جنگ شروع ہوچکی ہے۔ اب ہمت اور استقامت کے ساتھ اس کے مقابلے کے لئے تیار رہو۔

4 septebmer 2011 Hijaab day

٤ ستمبر عالمی یوم حجاب