Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Showing posts with label جمہوریت. Show all posts
Showing posts with label جمہوریت. Show all posts

19 November 2013

جہاں یہ خچر لے جائے!



’میرا کیا ارادہ؟جہاں یہ خچر لے جائے!‘

ابو نثر 




اسد اﷲ خان غالبؔ کو الطاف حسین حالیؔ نے ’’حیوانِ ظریف‘‘ قراردیاتھا۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بیگم اسد اﷲ خان غالب ؔ نے غالباً اِس دولفظی ترکیب کے لفظِ اوّل سے حرف بہ حر ف اتفاق کرلیا تھا۔ (اُن کے کھانے کے برتن وغیرہ الگ کر دیے تھے)۔ مگر ہم احتراماً صرف جزوِ دوم کی صداقت سے اتفاق کریں گے۔ 
وہ زمانہ تو شاید غالبؔ نے بھی نہ دیکھا ہو جب سفر کا واحد ذریعہ’ گیارہ نمبر کی بس‘ تھی۔ یعنی بے بسی کے ساتھ پاپیادہ سفر۔ پیاں پیاں منزلیں مارتے چلے جانا۔ بستر سے اُٹھے۔ کمر کسی۔زادِ سفر بغل میں دابا۔ اسبابِ سفر کی پوٹلی بانس میں باندھی۔بانس کندھے پر لٹکایا اورنکل کھڑے ہوئے کسی قافلے کی تلاش میں کہ جو منزلِ مقصود( یامنزلِ موہوم) کی طرف جانے کو تیار کھڑا ہو۔یہ نہ ہوا۔۔۔ یعنی تلاش میں نکلنے کو آدابِ کاہلی کے خلاف جانا۔۔۔ تو۔۔۔ کوئی میرتقی میرؔ ٹائپ کا ’ٹریول ایجنٹ‘ خود آکر مطلع کرگیا۔۔۔
کیاقافلہ جاتا ہے گر تُو بھی چلاچاہے!
راہِ سفر سے ناواقفیت کا حل یہ نکالاگیا کہ کسی واقفِ راہ کو۔۔۔ ’راہبر‘۔۔۔ بناڈالا گیا۔اب رہبر صاحب تیز تیز قدموں سے لپکتے جھپکتے چلے جارہے ہیں اورقافلہ اُن کے آگے پیچھے، دائیں بائیں یا بالکل ہی پیچھے پیچھے ہانپتاکانپتابھاگتا چلاجارہاہے۔ بھلااتنے بڑے ہجوم میں ہم جیسا (عقل سے بھی) پیدل رہرو اپنے (ہرطرح سے) پیدل رہبر کو کیسے پہچان سکتا ہے؟ پس ظریف الطبع غالب نے بھی اُسے پہچاننے کی کوشش میں بڑی بھاگ دوڑ کی اور اِسیبھاگڑ کے بعد اپنی پھولی ہوئی سا نسوں کے ’مابین‘بتایا:
چلتاہوں تھوڑی دُور ہراِک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
آج جب کہ رہرو انِ جہاں،آواز سے بھی تیز رفتار طیاروں کو رہوارِسفر بنائے ہوئے اُڑے جارہے ہیں ہیں، ہم چچاغالبؔ کے بھتیجے اب بھی سفر زندگی کی ہر سڑک پر دیکھتے ہیں کہ۔۔۔ ’دِوادَو ہر طرف بھاگڑ مچی ہے‘ ۔۔۔ ہم اب بھی ’رہبر‘ کی تلاش میں ہیں اور ہم میں سے ہر شخص آج بھی چچا غالبؔ کا مندرجہ بالا شعر جھوم جھوم کر گنگنائے جارہا ہے۔
سوچیے تو سہی۔۔۔ کہ اگر رہبر نامعلوم ہوں تو منزل کسے معلوم ہوگی؟مگرہمیں تو منزل معلوم تھی پھر بھی نہ پہنچ سکے۔۔۔ ارے بھائی! :
کیسے منزل پہ پہنچتا کوئی
راہ میں راہ نُما بیٹھے تھے
ہمارے راہ نُماکہنے کو تویہ کہتے ہیں کہ ہماری منزل جمہوریت ہے۔۔۔سو وہ بھی کیا معلوم؟۔۔۔اگرپوچھیے کہ اِس منزلِ موہوم کی طرف ہماری رہبری ورہنمائی کون فرمائے گا؟۔۔۔تو وہ بھی نا معلوم۔۔۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے رہبروں کا بھی یہی حال ہے کہ انھوں نے جہاں کسی کو ذرا تیز قدموں سے چلتے دیکھاتُر تُر تُر تُراُس کے پیچھے پیچھے دوڑلیے۔(قریبی تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں)۔ پیاسے کو کسی طرف سے بھی پانی کی جھلک دکھائی دیتی ہے تو وہ اِس حیص بیص میں نہیں پڑتا کہ یہ سراب تو نہیں؟ بس دوڑ پڑتاہے! خواہ بعد میں خشک ’لٹ پٹاتی‘ زبان باہر نکال کرمزید ہانپنا کیوں نہ پڑجائے۔ ہم نے بڑے بڑے دانشوروں کے۔۔۔ ’مُنھ کو اگرچہ لٹکا دیکھا ‘۔۔۔ مگر اُنھیں کوئے سیاست کے شب نوردوں سے یہی آس لگائے۔۔۔’ بِھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا‘ ۔۔۔کہ ہمیں ہماری منزل تک یہی شب نورد پہنچاآئے گا۔ ان شب نوردوں میں بعض شیوخ بھی شامل ہوئے۔۔۔(اوران شیوخ میں ایک عدد’شیخ الاسلام‘ بھی !)۔
اکبرؔ کو اطلاع ملی تھی کہ۔۔۔’خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں‘۔۔۔ مگراب تو پہلے پوچھنا پڑتاہے کہ :’’ شرع الشیخ‘‘ ہے کیا ؟ شرعِ پیغمبر یا شرعِ فرنگ؟ میخانۂ مغرب کے نرالے دستور کے تحت سرور میں آنے کے لیے وہ اندھیرے اُجالے میں چوکتا بھی نہیں۔اُس کی اِسی چُوک سے عام آدمی کو ایسی شدید غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اسے دور کرنے اور سمجھانے کے لیے پروفیسر اقبال عظیم کو آنا پڑتاہے:
شیوخِ شہر کو تُم دیکھ کر پلٹ آئے؟
کسی سے پوچھ تو لیتے یہ میکدہ ہی نہ ہو
جہانِ مغرب کے میکدوں میں جہانِ مشرق کے میخواروں کوعموماً ’خواجگی کے خواب‘ دکھائے جاتے ہیں۔اوراکثر یہ خواب ’ہاتھی والے‘ ہی دکھاتے ہیں( ’اصحاب الفیل)۔بھلاہاتھی پر بیٹھ کر ’خواجہ بلندبام‘ بننے کا شوق کسے نہیں ہوتا۔ مگر جب نادرشاہ دُرّانی نے ہاتھی پر بیٹھ کر سواری کی لگام طلب کی تو اُس کوبریفنگ دی گئی :
’’ یہ سواری بے لگام ہے۔ اس کی ڈرائیونگ کے لیے ’ڈرائیور‘ الگ سے رکھنا پڑتا ہے۔ جسے’ فیل بان‘ کہتے ہیں۔ اسٹیئرنگ اُسی کے ہاتھ میں رہتا ہے‘‘۔
جہاں بان اور جہاں دیدہ نادرشاہ دُرّانی نے ایسی سواری پربیٹھنے سے انکار کردیا جس کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ ہواور جس کا اسٹیئرنگ دوسرا کنٹرول کرتا رہے۔
مگرہمارے رہبرتو ایک مدت سے اپنی نامعلوم اور موہوم منزل کی طرف سفر کرنے کے لیے بیٹھتے ہی ایسے اونٹ پر ہیں جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔اوراونٹ بھی وہ، جسے ’ شتر بے مہار‘ کہاجاتا ہے۔اب انھیں یہ اونٹ جہاں چاہے لے جائے۔ یہ ٹھمک ٹھمک چلتے چلے جائیں گے۔ ادھر عوام انتظار فرمائیں گے کہ دیکھیں یہ اونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھتاہے۔اسی عمل کو ہم اپنے یہاں ’جمہوریت‘ کہتے ہیں۔
آیت اﷲ مطہری نے اپنی دس تقاریر کے مجموعہ ’’دَہ گفتار‘‘ میں’ جمہوریت‘ کی مثال ملانصرالدین کے خچر سے دی ہے۔ ملا کو خچر پر بیٹھ کر جاتے دیکھا تو کسی نے پوچھا:
’’ملاصاحب!کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘
ملانے جواب دیا:
’’اجی حضرت!میرا کیا ارادہ؟جہاں یہ خچر لے جائے!‘‘
مطہری کا کہناہے کہ مغربی جمہوریت بھی ملانصرالدین کا خچر ہے۔ ’’جہاں چاہے لے جائے‘‘۔ اقبالؔ نے جمہوریت کوخچر نہیں سمجھا، اُنھوں نے گدھے کی مثال دی۔فرمایا:۔۔۔ ’کہ از مغزِ دو صدخر فکرِ انسانے نمی آئد۔۔۔(دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے) ۔۔۔ پہلے مصرع میں اقبالؔ ہمیں ’طرزِ جمہوری سے حذرکر کے ‘ سرکارِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’غلامے پختہ کارے‘‘ بننے کی تلقین کرتے ہیں۔
صاحبو!آج کل وطن عزیز میں جو ’جمہوری تماشا‘ ہورہاہے، یہ کبھی نہ ہوتا اگر ہمارا اعرابی ’انگلستان‘ کے رستے پر بھٹکتے پھرنے کے بجائے مکہ کی راہ پر چل پڑا ہوتا۔ ایسی سواری پر بیٹھنا عاقبت اندیشی نہیں‘جس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں نہ ہو۔۔۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر خطرناک بات ۔۔۔ کہ جس کا کنٹرول نامعلوم اور غیرمرئی ہاتھوں میں ہو۔


12 October 2013

امن کا نوبل انعام


ملالہ اور عبیرقاسم حمزہ الجنابی


جب تک ملالہ نوبل انعام کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی، اس ملک کے میڈیا میں ایک شور برپا تھاہمارا سر فخر سے بلند ہے، ایک بچی جس کی جدوجہد علم کیلئے تھی، جو خواتین کے حقوق کی پاسداری کیلئے نکلی تھی اور آج پوری دنیا میں ہمارے ملک کا نام روشن کررہی ہے۔ پوری دنیا اس کی جرات کو سلام کررہی ہے، اس کے مشن کو جاری رکھنے اور تعلیم کو عام کرنے کیلئے سرمایہ دے رہی ہے۔ اس ملک کےعظیم اورباشعوردانشوروں کے یہ نعرے میرے کانوں میں گونجتے تھے اور میں سوچتا تھا کہ وہ امن کا نوبل انعام، جسے یہ قوم عزت کا تاج سمجھ رہی ہے، کیسے کیسے ظالموں، قاتلوں اور انسانیت کے دشمنوں کے سر سجتا رہا ہے۔

ملالہ کا سب سے بڑا وکیل گورڈن برائون وہی ہے جس نے عراق پر حملہ کرنے کیلئے نہ صرف برطانوی پارلیمنٹ میں ووٹ دیا بلکہ دھواں دار تقریر بھی کی تھی ۔ عراق پر وہ جنگ مسلط کی گئی جس نے لاکھوں لوگوں سے صرف تعلیم کا نہیں بلکہ زندگی کا حق بھی چھین لیا۔عورتوں کے حقوق کے یہ عالمی چمپین وہ ہیں جن کے ہاتھ مظلوم عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور سروں میں عورتوں کی عزت سے کھیلنے کی ہوس رچی ہوئی ہے۔

12مارچ 2006 کو ملالہ کی ہم عمر عمر چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ جو عراق کے چھوٹے سے قصبے المحمدیہ میں رہتی تھی، اس پر کیا بیتی؟ دل تھام کر پڑھیے: عبیر کا والد قاسم حمزہ رحیم اور ماں فخریہ طہٰ محسن اپنی اس بیٹی عبیر،6 سالہ بیٹی حدیل،9 سالہ احمد اور 11 سالہ محمد کے ساتھ اپنے گھر میں خوش و خرم رہ رہے تھے۔ عبیر کو اس کے والدین بہت کم گھر سے باہر جانے دیتے کہ سامنے گورڈن براؤن کے جمہوری ووٹ سے شروع ہونے والی عراق جنگ کے سپاہیوں کی چیک پوسٹ تھی جس پر چھ سپاہی پاول کورٹر، جیمز بارکر، جیسی سپل مین، برائن ہاورڈ، سٹیون گرین اور انتھونی پرایب موجود تھے۔ جب کبھی یہ بچی باہر نکلتی تو وہ اسے چھیڑتے اور وہ گھبرا کر اندر بھاگ جاتی۔ ایک دن یہ ان کے گھر گھسے، تلاشی لی اور عبیر کے گال پر سٹیون گرین نے انگلی پھیری جس نے سارے گھر کو خوفزدہ کر دیا۔ جب کبھی وہ اپنے والدین کے ساتھ باہر نکلتی، وہ اس کی طرف دیکھ کر غلیظ اشارہ کرتے ہوئے ویری گڈ کہتے۔ 12مارچ 2006 کی صبح وہ شراب پینے میں مشغول تھے کہ عبیر کے دونوں بھائی سکول کے لیے روانہ ہوئے۔ عبیر کو اس لیے سکول سے اٹھا لیا گیا تھا کہ والدین ان سپاہیوں سے خوفزدہ تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ مکان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں بند کیا اور عبیر کو دوسرے کمرے میں۔ سٹیون گرین نے اس کے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں لے جا کر قتل کر دیا اور دوسرے کمرے میں باقی دو سپاہی اس چودہ سالہ بچی سے زیادتی کرتے رہے۔ اس کے بعد گرین کی آواز آئی، میں نے انہیں قتل کر دیا اور پھر وہ بھی عبیر پر پل پڑا۔ اس کے بعد ان سپاہیوں نے اس کے سر پر گولی مار کار قتل کر دیا۔ جاتے ہوئے ایک سپاہی نے اس کے زیر جامے کو لائٹر سے آگ دکھائی اور کمرے میں پھینک دیا۔ گھر سے دھواں نکلا تو پڑوسی دوڑے ہوئے آئے اور انہوں نے جس حالت میں اس مظلوم چودہ سالہ بچی کو دیکھا وہ ناقابل بیان ہے۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا اور چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ الجنابی کی تصویر دیکھی تو کئی راتیں بے چینی اور اضطراب سے سو نہ سکا تھا۔

نوبل پرائز دینے والوں اور ملالہ یوسف زئی  کی وکالت کرنے والوں کے ہاتھ عبیر جیسی بے شمار معصوم لڑکیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو ان کے خوف سے گھروں سے نہیں نکلتی تھیں۔ جنہوں نے ان کی بدمعاش اور غلیظ نظروں کے خوف سے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ عبیر تو ان کے خلاف کوئی ڈائری بھی تحریر نہیں کر رہی تھی جو دنیا کا کوئی بڑا چینل نشر کرتا۔ اس نے تو انھیں ظالم، تعلیم کے دشمن اور انسانیت کے قاتل بھی نہیں کہا تھا۔ اس کا والد کسی این جی او کا سربراہ یا کارپرداز نہیں تھا کہ اپنی بیٹی تو ان سپاہیوں کے خلاف اکساتا، اس کی ایک فرضی نام سے ڈائری لکھنے میں مدد کرتا اور پھر دنیا بھر میں داد سمیٹتا۔ عبیر کو اس ظلم کی وجہ سے سہم سی گئی تھی۔ اس کے زندہ بچ جانے والے بھائیوں نے بتایا کہ جس دن سٹیون گرین نے اس کے گال پر انگلی پھیری، ہمارے والد نے اسی دن اسے اسکول سے اٹھا لیا تھا۔ وہ اس دن بہت روئی۔ اسے گھر کے باہر لگی ہوئی سبزیوں کو پانی دینے، دیکھ بھال کرنے کا بہت شوق تھا، لیکن اس دن کے بعد سے وہ بس کھڑکی سے انھیں دیکھتی رہتی۔

اس عالمی یا مقامی میڈیا میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے سینے میں دل ہو، جس کے دل میں بیٹی کی محبت جاگتی ہو، جس کی آنکھ سے ظلم پر آنسو نکل آتے ہوں؟ وہ اٹھے اور کہے، آؤ ہم مل کر ایک اور امن انعام کا آغاز کرتے ہیں، ان بچوں کے لیے جوصابرہ و شطیلہ میں مارے گئے، ان مظلوموں کے لیے جو ٹینکوں تلے کچل دیے گئے، ان قیدیوں کے لیے جن پر کتے چھوڑے گئے، ان بہنوں کے لیے جو ان درندوں کے ہاتھوں اس وقت تک درندگی کا شکار ہوتی رہیں جب تک ان کا سانس باقی تھا، عبیر کے لیے جس سے اس کا اسکول چھوٹ گیا، جس کے لیے گھر سے نکلنا عذاب ہو گیا۔

لیکن ہم بے حس ہیں۔ نوبل انعام کی چکا چوند نے ہماری غیرت کے بچے کچے گھروندے کو بھی ملیامیٹ کر دیا ہے۔ اٹھارہ کروڑ کی قوم نے ایک مغربی چینل کے پروگرام میں اپنی اس ہونہار بیتی کا یہ فقرہ کیسے سن لیا کہ ہم عورتیں وہاں قیدیوں کی طرح ہیں، ہم مارکیٹ نہیں جا سکتیں۔ کراچی سے پشاور اور گوادر سے گلگت تک کیا پاکستان یہ ہے جس کی تصویر ملالہ نے اس پروگرام میں پیش کی؟ اس نے کہا، ایسے لگتا تھا ہم جیل میں ہیں۔ میں نے بلوچستان کے دور دراز گائوں سے لے کر لاہور، کراچی، پشاور اور چھوٹے چھوٹے قصبوں تک عورتوں کو ہر موڑ اور ہر مقام پر دیکھا ہے۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں، دفتروں اور فیکٹریوں میں، بازاروں اور ہوٹلوں میں۔ کیا یہ ہے ملالہ کا قیدخانہ؟ کیا یہ کالک ہے جو وہ اس قوم کے منہ پر مل کر نوبل انعام کی سیڑھی پر چڑھنا چاہتی ہے؟ اس قوم کا ہردانشور،مفکر اور اینکر پرسن عوام کو خوشخبری سناتا ہے، اسے پاکستان کا وقار بلند ہونے کی نوید قرار دیتا ہے۔ ملالہ نوبل امن انعام حاصل کرنے والوں کی صف میں ہی ٹھیک تھی جس میں اسرائیل کے تین قاتل وزرائے اعظم بیگن، اسحق رابین اور شمعون پیرس بھی کھڑے ہیں۔ نوبل انعام لیتے ہوئے ان کے ہاتھ ہزاروں معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ اس فہرست میں ڈرون حملوں سے معصوموں کی جانیں لینے والا بارک اوباما اور مسلم امہ کا سب سے بڑا دشمن ہنری کسنجر بھی کھڑا ہے۔ یہ غیرت کے سودے ہوتے ہیں جو غیرتمند قوموں کے غیرت مند افراد کیا کرتے ہیں کہ ایسے امن انعامات پر لعنت بھیج دیتے ہیں۔ ویتنام کا لیڈر لوڈو تھو (LU DUE THO) امریکہ سے امن مزاکرات کر رہا تھا۔ جب اسے ہنری کسنجر کے ساتھ امن کا انعام دیا تھا تو اس نے انکار کر دیا۔ ژاں پال سارتر کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تو اس نے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اپنے نام کے ساتھ نوبل انعام یافتہ لکھ کر اپنے ساتھ گھٹیا مذاق نہیں کرنا۔

پاکستان کی ایک مسلمان بیٹی کو مغرب کے قاتل حکمران ہمارے منہ پر کالک ملنے کیلئے استعمال کرتے رہے، اس کے سر پر ایسے ہاتھ امن کا تاج پہنانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ عبیر قاسم جیسی کئی مسلمان بچیوں سے رنگے ہوئے ہیں، یہ بچیاں جنہیں ان ظالموں کے خوف سے گھروں میں قید ہونا پڑا، ان کا اسکول چھوٹ گیا، وہ گھروں میں قید ہوگئیں لیکن پھر بھی وہ ان کی ہوس سے اپنی عفت بچا سکیں نہ زندگی۔

اوریا مقبول جان






7 October 2013

جھوٹ، فراڈ اور دھوکے کا کاروبار




نوے کی دہائی کا آغاز تھا۔ گجرات سے جنم لینے والا انڈسٹریل کوآپریٹیو بینک اپنی پوری آب و تاب سے چل رہا تھا۔ اچانک شہر میں افواہ پھیلی کہ بینک بند ہو رہا ہے۔ صبح سویرے اس بینک کی برانچوں کے باہر لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں جو اپنی رقوم نکالنا  چاہتے تھے۔ چند ایک تو کیش ہوئے پھر بہانے شروع ہو گئے..... کیش منگوایا ہے، ابھی آتا ہی ہو گا، ہیڈ کوارٹر سے وین چل پڑی ہے۔ گیارہ بجے تک ملازمین بینک کو تالا لگا کر بھاگ گئے۔ یہ صرف ایک شہر میں پھیلی ہوئی چھوٹی سی افواہ کا نتیجہ تھا۔ لوگ صرف بینک سے اپنے کاغذ کے نوٹ مانگ رہے تھے لیکن دھوکے باز، جھوٹی اور فراڈ پر مبنی سودی بینکاری کی اوقات یہ تھی کہ صرف دو گھنٹے میں یہ عمارت زمین بوس ہو گئی۔ ابھی تو نوبت کاغذ کے نوٹوں تک پہنچی تھی جس پر یہ عبارت تحریر ہوتی ہے:


"بینک دولت پاکستان ایک سو روپیہ، حاملِ ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔ حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا"۔ 
   
اس عبارت کے نیچے گورنر سٹیٹ بینک کے دستخت ثبت ہوتے ہیں۔ یعنی یہ ایک رسید ہے، ایک وعدہ ہے، ایک حلف نامہ ہے کہ اس کے بدلے میں جب اور جس وقت رسید کا حامل سونا، چاندی، اجناس یا جو چیز طلب کرے حکومت پاکستان اس کو ادا کرے گی۔  اس وقت ملک میں ایک ہزار سات سو ستتر ارب کے نوٹ گردش میں ہیں۔ اگر ایک صبح اٹھارہ کروڑ عوام کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دیں کہ ہم ان ردی کے ٹکڑوں کو نہیں جانتے، تم نے اس پر جو تحریر لکھی ہے، جو وعدہ کیا ہے، جو اسٹامپ پیپر ہمیں دیا ہے، اس کے مطابق ہمیں ان کاغذوں کے بدلے سونا، چاندی یا کوئی بھی جنس جو تم بہتر تصور کرتے ہو، دے دو، تو صرف پانچ منٹ میں یہ سود اور کاغذ کے نوٹوں پر کھڑی عمارت دھڑام سے گر جائے گی اور اس کے ملبے کے نیچے جمہوری حکومت ہو یا آمریت سب دفن ہو جائیں گے۔ اس مکار، چالاک، فریبی اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے اصولوں پر مبنی بینکاری کے اس معاشی نظام پر ہم بیش بہا کتابیں لکھتے ہیں۔ اس کے مستحکم اور غیر مستحکم ہونے کے اصول وضع کرتے ہیں۔ معاشیات یعنی اکنامکس کا مضمون یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ پندرہ بیس سالوں کی تعلیمی محنت میں انہوں نے یہ سمجھنے کی مہارت حاصل کی ہوتی ہے کہ یہ کاغذ کے اسٹامپ پیپرز جنھیں کرنسی نوٹ کہا جاتا ہے اور یہ بینکاری نظام کیا ہے؟ کیسے ناپا جائے کہ اس کاغذ کی قیمت اوپر ہو گئی ہے یا نیچے؟ افراط زر کی چڑیا کس گراف کے فراٹے بھرتی ہے؟ کرنسی کے نوٹ جو سٹیٹ بینک چھاپتا ہے ان سے دولت(Money) کیسے جنم لیتی ہے؟ بینک کیسے انہی نوٹوں کو اپنے کھاتوں میں دو گنا اور تین گنا کر لیتا ہے جسے M1 اور M2 کا نام دیا جاتا ہے؟ بینک دیوالیہ ہو جائیں تو اس سودی نظام کو بچانے کے لیے کیسے حکومت عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ انہیں دیتی ہے؟ کس طرح بینکوں کو بچانے کے لیے انہیں انشورنس کمپنیوں کے ذریعے آکسیجن فراہم کی جاتی ہے؟ عام آدمی کے پیسے سے ایک پورا متبادل نظام وضع کیا جاتا ہے کہ بینکوں کا سارا خسارہ ان انشورنس پالیسیوں سے پورا کیا جائے جو بینکوں نے خریدی ہوتی ہیں۔ لیکن اس نظام کے پیچھے ایک کاغذ ہے جس پر ایک چھوٹی اور بےسروپا عبارت تحریر ہے کہ "حامل ھذا کو مطالبے پر ادا کرے گا"۔

دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ ہو یا برطانیہ، فرانس ہو یا جرمنی، بھارت ہو یا چین اپنا یہ لکھا ہوا وعدہ پورا نہیں کر سکتے۔ اس لیے کے اس وعدے کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہے۔ چند ماہ پہلے جب یونان میں معاشی بحران آیا تو لوگ بینکوں کے دروازوں پر نوٹ حاصل کرنے جمع ہو گئے۔ اس ملک کے تین شہر تو ایسے تھے کہ دکانداروں نے گاہکوں سے نوٹ لینے بند کر دیے اور کہا کہ گھر سے کوئی چیز بھی اٹھا لاؤ، ہم اس کے عوض سودا دے دیں گے لیکن اس بیکار، ردی کے ٹکڑے پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ جس پر ایک چھوٹی سی عبارت تحریر ہے۔

یہ ایک خون چوسنے والا اور ظالم نظام ہے۔ اس کے رکھوالوں نے پچاس برس سے یہ طرز عمل اختیار کیا ہے کہ عام آدمی کی بجائے حکومتوں کو قرض دو۔ عام آدمی مر بھی سکتا ہے، دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے، وہ کاروبار میں نقصان اٹھانے لگے تو اسے رعایت بھی دینی پڑتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ پتا بھی چلتا رہتا ہے کہ اس نے پانچ لاکھ قرضہ لیا تھا اور اب تک پندرہ لاکھ ادا کر چکا ہے لیکن پھر بھی اس پر قرض باقی ہے۔ لیکن حکومت کو قرض دینا کتنے فائدے کا سودا ہے۔ حکومت ایک تو اربوں میں قرض لیتی ہے اور شرح سود بھی اچھی ملتی ہے۔ عوام نے جو پیسہ یا بچت، بینکوں میں جمع کروائی ہوتی ہے یہ سودی بینکار حکومت کو اگر پندرہ فیصد شرح سود پر دیتے ہیں تو اس میں سے پانچ یا چھ فیصد اپنے پاس رکھ کر آٹھ یا نو فیصد سود لوگوں کو دے دیتے ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ حکومت یہ سود اور قرض کیسے واپس کرتی ہے؟ کوئی اے جی این قاضی، شعیب، شوکت عزیز، حفیظ پاشا یا اسحٰق ڈار انہی عوام پر ٹیکس لگاتا ہے۔ بجلی، پیٹرول، گیس سب پر ٹیکس لگا کر پیسہ وصول کرتا ہے اور پھر انہی بینکوں کو لوٹا دیتا ہے جو اس سود کے کاروبار سے اس قوم کا خون چوس رہے ہوتے ہیں۔

جھوٹ اور فراڈ کا عالم یہ ہے کہ اس وقت 313 ارب روپے کے سونے کے ذخائر موجود ہیں اور اگر اس میں4.6  ارب روپے کے سونے کے وہ ذخائر بھی شامل کر لیے جائیں جو انگلستان میں بینک آف انڈیا کے پاس پڑے ہیں جو 1947سے آج تک واپس ہی نہیں کیے گئے تو یہ کل 318 ارب روپے کا سونا بنتا ہے۔ اس محدود سونے پر حکومت پاکستان نے جو رسیدیں یعنی کرنسی نوٹ جاری کیے ہیں اور جن پرلکھا ہے کہ "مطالبے پر ادا کرے گا" وہ ایک ہزار سات سو ارب کی مالیت کی ہیں۔ یہ تو سٹیٹ بینک کے نوٹوں کی کہانی ہے، اس کے بعد سود خور بنکوں کا مرحلہ آتا ہے۔ بنکوں کو ایک خاص شرح "ریزرو" نوٹ رکھ کر مصنوعی دولت تخلیق کرنے کا اختیار ہے۔ اکتوبر 2007سے تمام بینک 7فیصد نوٹ اپنے پاس رکھ کر کر باقی سرمایا اپنی خط و کتابت یعنیtransactions سے دولت بنا سکتے تھے۔ لیکن نومبر 2012 میں یہ شرح کم کر کے 3 فیصد کر دی گئی اور یہ آج تک قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنک اصل نوٹوں کے مقابلے میں چالیس گنا زیادہ سرمایہ تخلیق کر سکتے ہیں جسے معیشت کی زبان میںM2 کہتے ہیں۔ اس وقت اس سرمائے کی کل مقدار نو ہزار آٹھ سو اٹھائیس ارب روپے ہے۔ کیا خوبصورت طریقہ ہے بنک کا! یہ کاغذ شوگر مل، کھاد والے، دوائیوں والے، مشینری والے، ملبوسات والے اور غرض مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اور ان میں نا اصل نوٹ گھوم رہے ہوتے ہیں اور نا ہی اس کا کوئی متبادل۔ لوگ اپنی مصنوعات خرید و فروخت کرتے ہیں لیکن بنک کو امیر سے امیر تر بناتے جاتے ہیں؛ یعنی اگر اس وقت اس ملک کے تمام کھاتے دار اپنے چیک لے کر بنکوں کے دروازوں پر کھڑے ہو جائیں اور کہیں کہ ہماری رقم واپس کرو تو چند منٹوں میں یہ پورا نظام زمیں بوس ہو جائے گا۔
  
کوئی اس جھوٹ اور فراڈ کے خلاف ایسی تحریک نہیں چلاتا، کوئی سیاسی پارٹی یہ نہیں کہتی کہ حکومت جو جھوٹ بول کر نوٹ چھاپ رہی ہے، اس رسید کو لینے سے انکار کر دو اور اس کے بدلے میں کوئی جنس طلب کرو جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ اس لیے کہ اس پورے سودی نظام کو تحفظ دینے کے لیے جمہوریت، پارلیمنٹ اور اس طرح کے ادارے قائم کیے گئے جن کا کام ہی اس جھوٹ اور فراڈ کی معیشت کو سہارا دینا ہوتا ہے۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہے۔ پوری دنیا کے اربوں انسانوں کو اسی دھوکے، فراڈ اور جھوٹی رسیدوں کے ذریعے پاگل بنایا گیا ہے۔ کس قدر بودا کمزور اور بے بنیاد ہے یہ پورا سودی نظام جسے صرف ایک گھنٹے کے اندر زمین بوس کیا جا سکتا ہے۔

 اوریا مقبول جان 


٧ اکتوبر ٢٠١٣


Tags
Jhoot Froud and Dhokay Ka Karoobar Orya Maqbool Jan
urdu article, economic system, paper money, sood, riba, bank banking system,