یہ عطا الحق قاسمی صاحب کا ایک فکر انگیز کالم ہے جو تھوڑی سی تبدیلی و توسیع کے بعد پیش خدمت ہے.
اس کالم کا انگریزی ترجمہ یہاں پڑھ سکتے ہیں
اقبال کی شاعری کو بین کردینا چاہئے
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو
مگر اقبال کے کلام کے صرف اس حصے کو عوام سے چھپا چھپا کر رکھنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ ضروری ہے کہ اقبال کا سارا کلام دریا برد کردیا جائے کیونکہ ہم جس ڈھب پر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اور یہ زندگیاں ہمیں بہت عزیز ہیں۔ اقبال اسے زندگی نہیں، موت قرار دیتا ہے اور یوں ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے، مثلاً ہم مطمئن ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے گھرپیدا کیا بلکہ ہم اس کے دین کی پیروی کرتے ہوئے نماز، روزے میں کبھی غفلت نہیں برتتے لیکن اقبال اس کے باوجود ہمیں کچوکے دیتا رہتا ہے، وہ ہمارے ان نام نہاد ہی سہی مذہبی پیشواؤں کو بھی نہیں بخشتا جن کے ہم ہاتھ چومتے ہیں اور جنہوں نے ہمیں یقین دلا رکھا ہے کہ تم جتنی چاہو دنیا داری کرو، ہم تمہاری انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے اور داروغہ جنت بس منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ اقبال کی ساری شاعری اس طرح کی باتوں سے بھری پڑی ہے ،مثلاً وہ کہتا ہے۔
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
==================
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
==================
کس کومعلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مدت سے خموش
==================
دل ہے مسلماں تیرا نہ میرا
تو بھی نمازی ، میں بھی نمازی
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
==================
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
==================
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ نظر کا فساد==================
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
وغیرہ وغیرہ…اور یہ وغیرہ وغیرہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ اقبال کے کلام میں اس طرح کے اور بہت سے کچوکے ہیں جن سے وہ ہمارے دلوں کو زخمی کرتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد ہمیں اپنی ساری عبادات بے معنی لگنے لگتی ہیں کیونکہ اس کے نزدیک ہم عبادات کی اصل روح سے بے گانہ ہوچکے ہیں۔
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا؟
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب لامکاں تیرا ہے یا میرا؟
اسی کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
روز حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
اورآخر میں اقبال کی شاعری کو بیان کرنے کی چند وجوہات میں اسی کی زبان میں بیان کرکے آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجو دیرو حرم کی نقشبند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
گاہ میری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں
توسیع
اقبال کی شاعری پر پابندی ہونی چاہئیے بلکہ اس کی ساری شاعری سمندر میں پھینک دینی چاہئیے. اقبال ہمیں سونے نہی دیتا، نیند میں خلل ڈالتا ہے۔
ابھی چند صدیاں ہی تو ہوئی ہیں سوئے ہوئے اور اقبال کہتا ہے کہ
معمار حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز
اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس (تباہ و برباد) جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اٹھ کھڑا ہو، (لیکن تُو تو خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہے) اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔۔
اب بتائیں یہ کوئی کرنے والی بات ہے؟
اور پھر اوپر سے اقبال مردار کھانے سے روکتا ہے. اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ
"اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی"
یا پھر
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اقبال بہت کچوکے لگاتا ہے ہمیں۔
ہم نے ویسے تو بہت کوشش کی اقبال کی شاعری کو بوسیدہ کرنے کی. اس کا بےدریغ استعمال کیا ہر جگہ. جعمہ کا خطبہ ہو یا سیاسی تقریر، ہمارے سیاستدان ہوں یا مولوی، علما، دانشور، فقیر یا جرنلسٹ، وکیل ہو یا جج، استاد ہو یا شاگرد .. کسی کی تقریر اقبال کے شعر کے بغیر مکمل نہی ہوتی.....اپنی اپنی مرضی کے مفہوم نکالنے اور اس کے شعروں کو گڈمڈ کرنے کی بہت کوشش کی. حتیٰ کہ کلام اقبال کو ہم نے قوالیوں میں گا گا کر بوسیدہ کرنے کی کوشش کی. ٹیلی ویژن چینلوں پر اقبال کے اشعار گائے اور پڑھے جاتے ہیں اقبال کے نام پر بننے والے اداروں کے سربراہ سکرین پر آکر رٹی رٹائی تقریریں کرتے ہیں اور پھر
بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں
اس سب کے باوجود بھی اقبال کا پیغام اپنی تاثیر نہی کھو رہا. اب ایک ہی حل ہے کہ اسے دریا برد کر دیا جاے. ورنہ یہ ہماری نیندیں حرام کرتا رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
aap ne jo kuch b kaha hai sub baqwas ki hai..................IQBAL ki poetry jo na samjh sky na samjhy,in ki poetry ki har Urdu ki book mein COMPULSORY kr dena chahiye,TOHEED,SADAQAT,JAZBA-E-IMAANI,HUBB-UL-WATNI k samandur ki poetry ko bann krny ki baat krty ho ap.
ReplyDeletesharam kro
Beta Umair First Read then Reply.. u Duffer...
Deleteآپ کو اگر مضمون سمجھ نہیں آیا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے،ہم یہی درخواست کر سکتے ہیں کہ دوبارہ پڑھیں
ReplyDeleteدوستو ! یہ طنزومزاح پر مبنی ایک عمدہ مضمون ہے اس میں سیریس نہیں ہونا چاہیئے
ReplyDeletegood work faraz... and my request to others who hav commented after just reading (not studying)... plz try to comprehend whats written...
ReplyDeleteBohat hi zbardast likha hy ap ne.. Khuda kare k Bhereay numa Hukamran ham ko aese nai chorenge jab tak hamare andar Iqbal k Shaheen wala josh aur walwla nai hoga..
ReplyDeleteآپ نے بالکل درست فرمایا ہے۔جب تک ہمارے اندر علامہ اقبال کا شاہین نہیں بنیں گے تب تک یہ بھڑئے نما حکمران ہم کو توڑ مروڑ کر کھاتے رہینگے۔ہمیں ہمارے اندر ایک جزبہ ، جوش اور ولولہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ReplyDeleteبھائی جان،کالم لکھنے والے(فراز اکرم) کا کوئی قصور نہیں وہ بچارہ تو ہم سب کو بیدار کر رہا ہے کہ ہم نے اس مجددِدین وملت،قلندر درویشں کی تعلمیات کوصرف سالانہ مجالس ،کسی اقبال کانفرس ،کسی سیاسی جلسے یا اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا استعمال کرتے ہیں۔ ہماری فلسفہ خودی کے امام کے ساتھی واجبی محبت کی وجہ سے کالم نگار نے ہمارے معاشرے کا حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ رویے کا زوایہ کھنیچا ہے۔ برائے مہربانی پہلے بات کو تولو پھر بولو۔ فراز اکرم آپ کی اچھی کوشش ہے جونواں کی حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی باقاعدہ تعلمیات کی ضرورت ہے ہم نے ایک ادارہ قائم کیا تعمیرِخودی کے نام سےجو حضرت صاحب کی اصل پغیام فلسفہ خودی کو اجاگر کرنے کے لیے بنیا گیا ہے۔ آپ سب کو اس کی دعوت دی جاتی ہے۔ ویب سائٹ کا نام ہے۔رابطہ فرمائیں
ReplyDeletewww.tameer-e-khudi.com
info@tameer-e-khudi.com
بہت شکریہ شہباز صاحب۔۔۔
Deleteتعمیر خودی کی ویب سائٹ نہیں کھل رہی۔