Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Showing posts with label mazah. Show all posts
Showing posts with label mazah. Show all posts

24 January 2013

چاچا چَوَ ل

 

’چاچا چَوَ ل‘

 میرے محلے میں ایک صاحب رہتے ہیں جن کا نام کثرتِ رائے سے ’’چاچا چَوَ ل‘‘ منظور ہوچکا ہے۔چاچے کا طریقہ واردات بڑا نرالا ہے، عموماً لوگ قرض مانگنے والوں سے کنی کتراتے ہیں ،لیکن چاچا ،قرض مانگنے والوں کی تلاش میں رہتاہے۔اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر شخص اس سے قر ض مانگے۔ابھی تک محلے کے تین سو سے زائداس سے قرض لے چکے ہیں۔چاچے کی ایک ’’مکروہ‘‘ خصوصیت یہ بھی ہے کہ چاچا عام حالات میں قرض واپس نہیں لیتا۔ اگر کوئی اسے قرض واپس کرنے کی کوشش بھی کرے تو چاچے کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے۔لیکن چاچا بڑی شے ہے، جس کو قرض دیتا ہے، پھر ساری زندگی اس سے کام نکلواتا رہتاہے اور قرض کا تقاضا ہمیشہ اُس وقت کرتا ہے جب اسے پورا یقین ہوجائے کہ اب مقروض بالکل بھی قرض چکانے کی پوزیشن میں نہیں۔ایسے حالات میں چاچے کا رویہ خودبخود سخت ہوجاتاہے، وہ مقروض کو انتہائی خوفناک طریقے سے گھورتاہے، باربار اس کے گھر کی بیل بجا کر پیغام بھجواتا ہے کہ ’’مجھ سے فوراً ملو۔‘‘ اس کے موبائل پر Missed کالیں مارتاہے اور کئی دفعہ تو اس کے دروازے پر کاغذ بھی چپکا آتا ہے جس پر لکھا ہوتاہے کہ ’’آج شام 5 بجے تک ہر حال میں مجھے پیسے مل جانے چاہئیں۔‘‘مقروض بیچارہ اس خطرناک صورتحال سے گھبرا کرچاچے کی منت سماجت کرتاہے، تاہم تھوڑی سی بحث و تمہید کے بعد چاچا اسے خطرناک نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے مزید مہلت دینے پر آمادہ ہوجاتاہے۔

چاچے کا قرض پانچ ہزار سے زیادہ کا نہیں ہوتا، وہ عموماً ریڑھی والوں، چھوٹی دوکانوں والوں اور قلفیاں بیچنے والوں کو قرض دیتاہے اور پھر ان سے مفت چیزیں کھاتاہے۔وہ بیچارے اصل رقم سے زیادہ کی چیزیں کھِلا کر بھی چاچے کے مقروض ہی رہتے ہیں لیکن زبان کھولنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ چاچا اُسی وقت رقم کا تقاضا کر سکتاہے۔چاچے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر اُس بندے کو قرض دے جس سے وہ اچھے خاصے کام نکلوا سکتاہے، ایسے میں کوئی بندہ قرض نہ بھی مانگے تو چاچا زبردستی اسے قرض دے کر اپنا مقروض بنا لیتاہے، میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔میں لارنس گارڈن میں ایک دوست کے انتظار میں اکیلا ہی واک کر رہا تھا کہ اچانک چاچے نے مجھے گھیر لیا۔
’’ننگے پیر چل رہے ہو۔۔۔جوتی کیوں نہیں خرید لیتے؟‘‘
میں نے منہ بنایا۔۔۔’’چاچا میرے پاس جوتی موجود ہے، میں ویسے ہی گھاس پر ننگے پیر چلنا پسند کرتاہوں‘‘۔
’’اچھا بہانہ ہے۔۔۔‘‘چاچے نے گہرا سانس لیا۔۔۔’’سفید پوش لوگ مرجاتے ہیں اپنی ضرورت نہیں بتاتے۔ بھئی کوئی پیسے ویسے چاہئے ہوں تو بلاجھجک بتانا‘‘۔
’’بڑی مہربانی چاچا۔۔۔فی الحال تو اللہ کا شکر ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لیکن مجھے لگتا ہے تم کچھ چھپا رہے ہو‘‘۔۔۔چاچے نے مشفقانہ انداز میں کہا۔میں چاچے کی بات پر کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ چاچے نے میری بات کاٹی اور دوبارہ بولا’’بیٹا! انسان کی ضرورت کا کچھ پتا نہیں ہوتا، چلو ضرورت بے شک نہ بتاؤ، پیسے تو لے لو۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے چاچے نے اپنا دائیاں ہاتھ واسکٹ کی جیب میں ڈال دیا۔
میں نے جلدی سے کہا۔۔۔’’چاچا میں سچ کہہ رہا ہوں کہ مجھے۔۔۔‘‘ لیکن میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی چاچے نے پانچ ہزار کاکڑکڑاتا نوٹ میری مٹھی میں دبا دیا اوراپنی نم آلود آنکھوں کو رومال سے صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔’’خدا برا وقت کسی پر نہ لائے، انسان خود تو بھوکا سو سکتاہے لیکن بیوی بچوں کی بھوک نہیں دیکھی جاتی۔بس اب انکار مت کرنا ، مجھے پتا ہے تمہاری غیرت گوارہ نہیں کر رہی ہوگی لیکن بیٹا! مجھ سے کیسی شرم؟‘‘ یہ کہہ کر چاچے نے اطمینان سے اپنی واسکٹ درست کی اور یہ جا وہ جا! آج اس بات کو ایک سال ہوچکا ہے۔چاچا روزانہ میرے موبائل سے چھ سات کالیں کرتاہے، مہمان آجائیں تو ان کے قیام و طعام کا بندوبست بھی میرے گھر پر ہوتاہے، چھ سات مرتبہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے کپڑے مانگ کے لے جاچکا ہے، اس کے بچوں کو سکول سے آنے میں دیر ہوجائے تو ان کو لانے کا فریضہ بھی مجھے ہی سرانجام دینا پڑتاہے، شام کا کھانا اور چائے اکثر چاچا میرے ساتھ ہی پیتا ہے، کبھی کبھی چھوٹی موٹی ضرورتوں کے لیے سو دو سو ادھار بھی لے جاتاہے جو کبھی واپس نہیں ہوتے،کیبل والے کو بتائے بغیر اس نے اپنے گھر کی کیبل کٹوا کرنے میری کیبل میں جوائنٹ لگوا لیا ہے جس کی وجہ سے اس کے گھر کی کیبل بالکل صاف آتی ہے اور میرے ہاں صرف لہریں رقص کرتی ہیں، بیوی بچوں کو سیر کرانے کے لیے وہ میری گاڑی ہر دوسرے دن لے جاتاہے۔۔۔اور تو اور اس نے یہ ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال دی ہے کہ اس کے میٹرک فیل بیٹے کو اچھی سی نوکری بھی میں دلواؤں۔
خدا کی قسم !!!۔۔۔میں ہر طرح سے چاچے کا قرض لوٹانے کی پوزیشن میں ہوں، کئی بارکوشش کرکے زبردستی چاچے کی جیب میں پانچ ہزار کا نوٹ ڈال چکا ہوں لیکن چاچا شور مچا دیتاہے، چیختا ہے، چلاتاہے ، واسطے دیتاہے اور مجھے مجبوراً نوٹ واپس جیب میں رکھنا پڑ جاتاہے۔پورے محلے کو پتا چل چکا ہے کہ میں چاچے کا ’’قرضئی‘‘ ہوں۔میرے ساتھ والا ہمسایہ’’حامد‘‘ بھی چاچے کا قرضئی ہے اور اسی بناء پر پورے محلے میں’’حامد قرضئی‘‘ مشہور ہے۔ ہم دونوں چاچے کو سخت بات کہنے سے گھبراتے ہیں، میں نے کئی بار سوچا کہ میں چاچے کے ساتھ ذرا غصے سے پیش آؤں لیکن پھر سوچتا ہوں محلے والا کیا سوچیں گے کہ جس سے قرض لیا،اُسی کو آنکھیں دکھاتاہے۔اب تو حد ہوچکی ہے، چاچے نے اپنے بیٹے کو کمپیوٹر سیکھنے کے لیے میرے پاس بھیجنا شروع کر دیا ہے۔میں نے بارہا چاچے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کمپیوٹر میرے ذاتی استعمال کے لیے ہے، لیکن چاچا ہر دفعہ مسکرا کر کہتاہے۔۔۔’’بیٹا! میں نے بھی پانچ ہزار ذاتی استعمال کے لیے رکھے تھے ،لیکن میرا ایمان ہے کہ محلے داروں کے بارے میں ذاتیات سے بلند ہوکر سوچنا چاہیے‘‘۔ یہ جواب سن کر میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ چاچے کے بیٹے کو کمپیوٹر سکھانا شروع کر دوں حالانکہ اُس نے کمپیوٹر خاک سیکھنا ہے، وہ آدھے سے زیادہ وقت تاش والی گیمیں کھیلنے میں لگا رہتاہے۔میں کچھ کہنے کے باوجود بھی اس کو سخت الفاظ نہیں کہہ سکتا ، آخرمیں اس کے باپ کا قرضئی ہوں۔چاچا میرے حواس پر حاوی ہوتا جارہا ہے، مجھے لگتا ہے کہ عنقریب میں ہر کام اس کی مرضی سے کیا کروں گا۔چاچا نہ ہوا ’’آئی ایم ایف‘‘ ہوگیا۔
 
اپنی زبان اردو سے کاپی کیا گیا  
 

24 August 2012

نوجوانوں کی گرتی پینٹ!!


نوجوانو آپ کی پینٹ ڈھیلی کیوں پڑتی جا رہی ہے؟

اس کو تھام کر رکھیں اور اپنی بیلٹیں ٹائٹ کریں۔
 (اگر بیلٹ نہیں خرید سکتے تو اپنی گرتی ہوئی پینٹ کو سہارا دینے کے لیے ازار بند کا استعمال کریں) 
شکریہ  
نوٹ: یقین کیجیے آپ کی بیک دیکھنے کا کسی کو بھی شوق نہیں۔


4 May 2012

کاش کرکٹ رولز پڑھائی میں بھی لاگو ہو جائیں








کاش کرکٹ رولز پڑھائی میں بھی لاگو ہو جائیں



کرکٹ ٹی ٹوینٹی اور آئی پی ایل کی وجہ سے بہت بہتر ہوئی ہے ہمیں‌ بھی اپنے ایگزیمینیشن سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے یہی اقدام لینے چاہییں

١۔ ہر پیپر ڈیڑھ گھنٹے اور ٥٠ نمبرز کا ہونا چاہیے

٢۔ ہر تیس منٹ کے بعد مشورے کے لیے بریک ہونی چاہیے

٣۔ ہمیں‌ایک فری ہٹ دیں‌ جس میں‌سٹوڈنٹ اپنی مرضی کے ایک سوال کا اپنی مرضی کا جواب دیں۔

٤۔ پہلے بیس منٹ کا پاور پلے جس میں‌ ایگزامینر ہال سے باہر رہے۔

٥۔ اگر کسی سوال کا جواب غلط ہو تو ریویو کی آپشن ہونی چاہیے تاکہ سٹوڈنٹ بُک سے کنفرم کر لیں۔

پلیز چینج دی سسٹم

آج نہیں‌ بولو گے تو کل بُھگتو گے


19 April 2012

پرچے اور تماشے

پرچے اور تماشے

آج کل میں اپنے آفس بوائے کو چوتھی دفعہ میٹرک کروا رہا ہوں اور یقین کامل ہے کہ یہ سلسلہ مزید پانچ چھ سال تک جاری رہے گا، ہر دفعہ وہ پوری تیاری سے پیپر دیتا ہے اور بفضل خدا، امتیازی نمبروں سے فیل ہوتا ہے- اس دفعہ بھی پیپرز میں وہ جو کچھ لکھ آیا ہے وہ یقینا تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا- اسلامیات کے پرچے میں سوال آیا کہ ”مسلمان کی تعریف کریں؟“ موصوف نے جواب لکھا کہ مسلمان بہت اچھا ہوتا ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، وہ ہوتا ہی تعریف کے قابل ہے، اس کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے، جو اس کی تعریف نہیں کرتا وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے، میں بھی اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اس کی تعریف کرتا رہتا ہوں، مسلمان کی تعریف کرنے سے بڑا ثواب ملتا ہے، ہم سب کو ہر وقت مسلمان کی تعریف کرتے رہنا چاہیے “-

اسی طرح مطالعہ پاکستان المعروف”معاشرتی علوم“ کے پرچے میں سوال آیا کہ پاکستان کی سرحدیں کس کس ملک کے ساتھ لگتی ہیں، موصوف نے پورے اعتماد کے ساتھ لکھا کہ ”پاکستان کے شمال میں امریکہ، مشرق میں افریقہ، مغرب میں دبئی اور جنوب میں انگلستان لگتا ہے“-

سائنس کے پرچے میں سوال تھا کہ ”الیکٹران اور پروٹان میں کیا فرق ہے؟“ عالی مرتبت نے پورے یقین کے ساتھ جواب لکھا کہ ”کچھ زیادہ فرق نہیں، سائنسدانوں کو دونوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے“-


اردو کے پرچے میں ساغر صدیقی کے اس شعر کی تشریح پوچھی گئی ”زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے……جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں“- جواب میں لکھا ”اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ویسے تو میں نے بہت سے جرم کیے تھے، چوری بھی کی، ڈاکا بھی ڈالا، دہشت گردی بھی کی، لڑکیوں کو بھی چھیڑا، دو تین بندے بھی قتل کیے، لیکن یہ جو مجھے جج صاحب نے سزا دی ہے اس کا مجھے بالکل بھی پتا نہیں چل رہا کہ یہ کون سے والے جرم کی سزا ہے؟


انگلش کے پرچے میں سوال تھا کہ اس جملے کی انگلش بنائیں ”جاؤ میرا سر مت کھاؤ“- جواب لکھا  “Go, do not eat my head”-

مجھے بےاختیار اپنا میٹرک کا زمانہ یاد آ گیا جب ڈیٹ شیٹ گوند لگا کر الماری کے ساتھ چپکا دی جاتی تھی اور ایک کونے میں بیٹھ کر کتابوں کے درمیان ”عمران سیریز“رکھ کر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ دن رات پڑھائی شروع کر دی جاتی تھی، ماں صدقے واری جاتی تھی کہ میرا بچہ تین گھنٹے سے مسلسل پڑھ رہا ہے- پانی تک پینے کے لیے نہیں اٹھا- صبح پیپر دینے کے لیے اٹھتے تھے تو دل کانپ جاتا تھا، تا ہم ایسے مواقع پر ماں جی سورہ یٰسین پڑھ کر پھونک دیا کرتی تھیں اور دل مطمئن جو جاتا تھا کہ اب کوئی مسئلہ نہیں- گھر سے نکلنے سے پہلے امتحانی گتے کے ہمراہ کافی سارے پین اور روشنائی کی شیشی ہمراہ رکھ لی جاتی تھی مبادا پرچے کے دوران یہ سارے پین ختم ہو جائیں- امتحانی مرکز میں پہنچتےہی کوئی کمینہ سا لڑکا اچانک یہ کہہ کر”تراہ“ نکال دیتا تھا کہ ”فلاں سوال آ رہا ہے“- یہ سنتے بھی ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے اور جلدی سے کسی لڑکے سے کتاب پکڑ کر ”فلاں سوال“پر ایک نظر ڈال لی جاتی تھی کہ کچھ نہ کچھ تو ذہن میں رہ جائے- پیپر شروع ہوتا اور جونہی سوالیہ پرچہ سامنے آتا فوراًالٹا کر کے رکھ لیا جاتا تھا، پہلے تین چار سورتیں پڑھ کے دعائیں مانگی جاتی تھیں، پھر پرچے کو آہستہ آہستہ الٹ کر دیکھا جاتا تھا، سوال مرضی کے ہوتے تو ٹھیک ورنہ جواب مرضی کے لکھنا پڑ جاتے تھے- جس سوال کا جواب دینا ہوتا تھا اس پر پین سے نشان لگا دیا جاتا، سب سے پہلے مارکر سے حاشیے لگائے جاتے، پھر سرخ مارکر سے سوال لکھ کر جواب کا رخ کیا جاتا، کوشش کی جاتی کہ جو سوال پوچھا جا رہا ہے وہ جواب کے شروع میں تفصیلاً دہرا دیا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ صفحہ بھرا جا سکے، مثلاً اگر سوال ہوتا کہ ”قائداعظم کے چودہ نکات بیان کریں“تو جواب کچھ یوں شروع کیا جاتا

جیسا کہ سوال میں پوچھا گیا ہے کہ قائداعظم کے چودہ نکات بیان کریں تو یہ چودہ نکات تفصیل سے بیان کیے جا رہے ہیں کیونکہ ان چودہ نکات کی بڑی اہمیت ہے، لہذا قائداعظم کے چودہ نکات باری باری درج کیے جا رہے ہیں، سوال میں پوچھے گئے قائداعظم کے چودہ نکات کا پہلا نکتہ یہ ہے….. “

ایسے میں پرچہ شروع ہوئے بمشکل آدھا گھنٹہ ہی گزرتا تھا کہ کونے سے کسی لڑکے کی آواز آتی ”سر ایک شیٹ دے دیں“- اور دل اچھل کر حلق میں آ جاتا تھا، سمجھ نہیں آتی تھی کہ کمبخت نے آدھے گھنٹے میں ایسا کیا لکھ لیا ہے کہ آٹھ صفحے بھر گئے ہیں، ایسے لڑکے پرچے کے بعد فخر سے بتایا کرتے تھے کہ وہ دس شیٹیں ایکسٹرا لگا کر آئے ہیں، میری حسرت ہی رہی کہ کاش میں کم از کم ایک شیٹ ہی ایکسٹرا لگا سکوں، لیکن ایسی نوبت کبھی نہ آ سکی، الٹا جب میں پرچہ ختم کرتا تو ایک صفحہ خالی رہ جاتا-

پرچہ شروع ہونے کے مراحل بھی بڑے دلچسپ ہوا کرتے تھے، جیسے ہی سوالیہ پرچہ تقسیم ہو جاتا، قرب و جوار کے لڑکوں میں سر گوشیاں شروع ہو جاتیں، سب کا ایک دوسرے سے ایک ہی سوال ہوتا تھا ”یار! صرف پہلا لفظ بتا دو“- کسی لڑکے کو اگر اتفاق سے سارے سوالوں کے جوابات یاد ہوتے تو وہ”فرعون“ بن جاتا تھا، اس کا سگا بھائی بھی اس کی منتیں کرتا تو اس کی ایک نہ سنتا بلکہ شان بے نیازی سے کندھے اچکا کر رہ جاتا، بلکہ کئی دفعہ تو نگران کو بھی کہہ دیتا کہ سر! ”یہ دیکھیں یہ مجھے تنگ کر رہا ہے“-

پیپر کے دوران ”بوٹیاں“ لگانے کا رواج عام تھا تاہم اس دور میں بڑی ”دیسی“ قسم کی بوٹی لگائی جاتی تھی، مثلاً باتھ روم میں کتاب رکھ دی اور بعد میں ہر دو منٹ بعد ایک پھیرا لگا آئے، یا قمیض کی اندر والی سائیڈ پر کچی پنسل سے کچھ ”نوٹس“ لکھ لیے، کچھ بے باک لڑکے کاغذوں کی چٹیں بھی چھپا کر لے آتے تھے- میرا ایک دوست ایک دفعہ اسی طرح چٹ سے نقل لگاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، لیکن اول درجے کا ہوشیار تھا، اس سے پہلے کہ نگران ثبوت کے طور پر اس سے چٹ چھینتا، اس نے جلدی سے کاغذ کا گولا بنایا اور منہ میں ڈال کر نگل لیا، نگران منہ پھاڑے دیکھتا ہی رہ گیا- سب سے دلچسپ پیپر ریاضی کا ہوتا تھا، سوال بیشک کسی کو نہ آتے ہوں، لیکن سب اپنے جواب ضرور ملا لیا کرتے تھے، اس مقصد کے لیے کلاس کے سب سے ہونہار لڑکے سے سرگوشی میں پوچھا جاتا تھا کہ جواب کیا آیا ہے؟ اگر وہ کہتا کہ 56، تو تھوڑی دیر میں سب کے پرچوں پر 56 تحریر ہو چکا ہوتا تھا- جو لڑکا سب سے پہلے پرچہ ختم کر کے اٹھتا، اسے پکا پکا فیل تصور کر لیا جاتا تھا- مزے کی بات یہ کہ ایسے تمام تر جوابات لکھنے کے باوجود لڑکوں کی اکثریت 33 نمبر لے کر پاس ہو جاتی تھی کیونکہ الحمدللہ پیپر چیک کرنے والے بھی ہماری طرح کے ہوتے تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ”گٹھیں“ ناپ کر نمبر دیتے ہیں- اللہ ان سب کی مغفرت کرے کہ انہی کی بدولت آج میرے جیسے بہت سے جاہل، عزت دار بنے ہوےٴ ہیں-