Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Showing posts with label halat e hazra. Show all posts
Showing posts with label halat e hazra. Show all posts

17 December 2013

ہم درآمدی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ بلاول زرداری


پیپلزپارٹی کے شیر خوار چیئرمین (کچھ لوگ انہیں چیئرپرسن لکھتے ہیں پتہ نہیں یہ املاکی غلطی ہے یا خیال کی ) بلاول علی بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم درآمدی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ (حوالہ )
 
درآمدی اسلام ؟ اسلام تو ہے ہی درآمدی۔ عربستان سے آیا۔ قرآن وہیں پر نازل ہوا تھا اور رسول عربی ؐ بھی وہیں کے تھے۔ بلاول کیا کہنا چاہتے ہیں، وہ کوئی دیسی اسلام بنائیں گے یا پہلے سے موجود کسی دیسی مذہب کو ترویج دیں گے۔ دیسی مذہب اس علاقے میں چار چار ہیں جس میں پاکستان واقع ہے ہندومت، سکھ مت، بدھ مت اور جین مت۔ آخری دو مذہب تو ہندو مت نے نگل لئے۔ جین مذہب یہیں کہیں گم گما گیا، بدھ مذہب پہاڑوں کے پار تبّت نکل گیا اور وہاں سے گھومتا گھماتا چین، جاپان اور مشرق بعید کا بڑ ا مذہب بن گیا۔ سکھ مذہب البتہ نیا ہے اور اس بات کے لئے تیار نہیں کہ ہندو توا اسے نگل جائے۔
 
بلاول ان میں سے کس دیسی مذہب کو پسند کرتے ہیں؟ یا پھر وہ کسی نئے دھرم کی گھڑنت کرنے والے ہیں،اور اس نومولود کا نام کیا ہوگا؟ زرداری مت؟ یا سب سے بھاری مت؟ عیسائیت کو تو وہ مانیں گے نہیں کہ وہ بھی درآمدی ہے۔
 
اور اسلام صرف یہیں درآمد نہیں ہوا، عربستان سے نکلا تو سارے شمالی افریقہ، ایران، ترکستان اور وسط ایشیا اور افغانستان سے لے کر شمالی ہندوستان کے سارے خطے کو تسخیرکرتا چلا گیا۔۔ اور مشرق بعید تک پھیلا۔ حیرت ہے، اتنے سارے علاقوں میں کسی شخص یا گروہ کو خیال نہیں آیا کہ وہ درآمدی اسلام نہیں مانیں گے، اپنا اسلام بنائیں گے۔ یہ خیال اس سے پہلے بھی کسی کو آیا تو اسی برصغیر میں آیا یعنی مرزا غلام احمد کو۔ اس نے اپنا اسلام بنایا لیکن جزوی طور پر۔ بلاول کا کیا ارادہ ہے۔ سارا نیا نکورہوگا یا مرزا کی طرح ملا جلا۔

ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔



’ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔ ‘

 ابو نثر

نیویارک سے خوشی کی ایک خبر ملی ہے، جس کی سرخی ہے:
’’امریکا میں جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے پہلے بندر کی پیدائش‘‘
ہماری طرف سے امریکا کو اِس نومولود کی ولادت بہت بہت مبارک ہو۔ہمیں خوشی ہے کہ اب امریکا میں بھی جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ بندر پیدا ہونے لگے ہیں۔سو، اگرپیدائش کا یہ دعویٰ درست ہے توامریکا کو معلوم ہو کہ یہ بندرِ عزیزفقط امریکاہی کا پہلا بندر ہوگا۔ ورنہ ہمارے یہاں تو اِس قسم کے(جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے) بندر بہت پہلے پیدا ہوچکے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں پیداہوچکے ہیں۔سب کے سب ماشاء اﷲ خوب اچھی طرح جینیاتی طورپر تبدیل شدہ ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی چینل کی گُھنڈی گھمائیے۔ مکے لہرا لہرا کر۔۔۔ اورپونچھ پٹک پٹک کر ۔۔۔اُچھلتے ،کودتے، ناچتے:
گرتے ،سنبھلتے، جھومتے
مائک کے منہ کو چومتے
آپ کو یہ جینیاتی دانشوربندر نظرآجائیں گے۔(مگریہ ’’جینیاتی‘‘ ہونے سے پہلے تو ایسے نہ تھے)۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ ہمارے اصلی بندر بالکل فطری بندر ہیں۔جب کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کی ہرچیز بدلی بدلی ۔۔۔ مرے سرکار!۔۔۔ نظر آتی ہے۔نظریں تک بدل جاتی ہیں۔ اُن کا لباس، اُن کا رہن سہن، اُن کا اُٹھنا بیٹھنا، اُن کا حال چال، اُن کی بول چال، اُن کی چال ڈھال، اُن کا چھلانگیں مارنااور اُچھل اُچھل کر ایک پارٹی سے دوسری کی طرف پھلانگنا اوراسی طرح کی مستقل ’’آنیاں جانیاں‘‘ فرماناپھراِس پر اُن کا آپس میں اورباہم خوخیانا۔۔۔ سبھی کچھ اصلی اور نسلی بندروں سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کا چہر ہ بھی ہمارے سیدھے سادے معصوم دیسی بندروں کے چہروں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ’’بندرانہ‘‘ ہوتا ہے۔ ’’قِردۃً خاسئین‘‘ جیسا۔ مگر واضح رہے کہ یہ اپنے آپ کو ’بندر‘ کبھی نہیں کہتے۔ ’’منکی‘‘ ۔۔۔ بلکہ ’’مونکی‘‘ کہتے ہیں۔ اور اِس بات پر(غلط سلط) انگریزی میں فخربھی کرتے ہیں کہ:
’’مِرا مزاج لڑکپن سے منکیانہ تھا‘‘
ہر اصلی چیز کی طرح اب ہمارے یہاں کے اصلی بندر بھی رفتہ رفتہ آثارِ رفتگاں کی طرح معدوم ہوتے جارہے ہیں۔اب یہاں جو بھی بندر ہیں وہ ہماری دھرتی کے بندر نہیں بلکہ ’’جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بندر‘‘ ہیں۔جینز بدل جائیں تو سب کچھ بدل جاتاہے۔خیالات بدل جاتے ہیں، نظریات بدل جاتے ہیں، لب و لہجہ بدل جاتا ہے، یہاں تک کہ کھانا پینا بھی بدل جاتاہے۔ہمارے بندر کو تو اگر کہیں سے ہلدی کی گانٹھ بھی مل جاتی تھی تو وہ اُسی پر صبر شکر کرکے پنساری بن جاتا تھا۔ مگریہ’’ جینیاتی طورپرتبدیل کیے گئے بندر‘‘ تو ہلدی کی گرہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے، اورمحض پنساری بننے پربھی اکتفا نہیں کرتے، سرکاری قرضہ لے کر ہلدی کا پورا کارخانہ لگالیتے ہیں۔
حاضرین، ناظرین، سامعین، اور قارئین کو معلوم ہو کہ اب یہ بندر صاحبان ’کیلا‘نہیں کھاتے۔ ’’بنانا‘‘ کھاتے ہیں۔اور ملک کو بھی ’’بنانا ری پبلک‘‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ اپنے بچوں کے لیے اٹلی سے پیزا(Pizza) منگواتے ہیں۔ اورجب وہ پنجیری کی جگہ پیزا کھانے کے اچھی طرح عادی ہوجاتے ہیں تو اُنھیں امریکا ۔۔۔( نہیں بلکہ ’’اسٹیٹس‘‘)۔۔۔ چھوڑ آتے ہیں۔ اب خوبی قسمت سے اُن کے ہاتھ ناریل نہیں لگتا۔ اگر ہاتھ لگتا ہے توکوالالمپور سے ’’کوکونٹ‘‘اِمپورٹ کرنے کا لائسنس لگ جاتا ہے۔وہ زمانہ بھی لد گیا جب کہا جاتا تھا کہ :
’’بندر کیا جانے ادرک کاسواد؟‘‘
اب تو جس بندر کو دیکھیے وہ آنکھیں میچ کر کہتا ہوا ملے گاکہ:
’’سواد آگیا بادشاہو!‘‘
ہمارے اصلی ونسلی بندرتو مداری کی تربیت اور اُس کی سخت محنت کے بعد ڈگڈگی کی آواز پر ناچا کرتے تھے۔ خود محنت، مشقت کرنے کے بعد اپنا پیٹ پِیٹ پِیٹ کر حقِ محنت مانگا کرتے تھے۔ مگر جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کے لیے دیر تک ڈگڈگی بجانے کی قطعاً ضرورت نہیں پڑتی۔اُن کے جین میں (بلکہ جنین میں) کچھ ایسے خلیات داخل کردیے گئے ہیں کہ یہ ٹیلی فون کال کی محض پہلی گھنٹی پر ہی ناچنے لگتے ہیں۔ ڈالروں کی توصرف جھلک دیکھ کر ہی ناچ اُٹھتے ہیں۔ اس پر یہ گانا مستزاد۔۔۔ جو اِن پر ’حال‘ طاری کردتیا ہے:
’’ناچ میرے بندر ڈالر ملے گا ۔۔۔‘‘
اوراگرڈالر ملنا بند ہوجائیں تو بھنّا بھنّا کرمزید ناچنے لگتے ہیں کہ آخر ہمیں ڈالر کیوں نہیں مل رہے ہیں؟
ہمارے کچھ بندر جینیاتی طورپر کیا تبدیل ہوئے، ہرچیزتبدیل ہو گئی۔سب سے پہلے ۔۔۔ بلکہ بندر سے بھی تیز تیز۔۔۔ بندریا بدل گئی۔ بندریا بدلی تو ظاہر ہے کہ مسٹر اور مسز بندر کے بچے بھی بدل گئے۔بندروں کاسارا معاشرہ یعنی پوری کی پوری ’’بندرگاہ‘‘ہی تبدیل ہو گئی۔حتیٰ کہ ہمارے شہر کراچی کی ’’بندرروڈ‘‘ تک وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔اُس وقت تو ہم لہک لہک کر یہ گایا کرتے تھے کہ:
’’بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر!‘‘
مگر جب اُسی فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے ہم نے یہ تماشا دیکھا کہ اُلٹی گنگا بہ رہی ہے۔ یعنی ’’کیماڑی سے بندر روڈ کی طرف‘‘۔ اور بندرگاہ کی طرف سے ایک قطار بنائے ہوئے اونٹ گاڑیاں چلی آرہی ہیں جو پشت پرامریکی گندم لادکر لا رہی ہیں۔نیز ہر اونٹ کی گردن میں \”Thank You America\” کاقلادہ بھی لٹک رہا ہے۔۔۔ تو ہم بالکل ہی فٹ پاتھ پر ہوگئے۔ امریکی گندم ہماری رگ و پے میں اُتر گیا اور تب سے اب تک ہم فٹ پاتھ پر ہی کھڑے ہیں۔آگے نہیں بڑھ سکے۔
قصہ مختصر یہ کہ سب کے سب بدل گئے اور پل کے پل میں سب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئے۔تعلیم ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔۔۔ تہذیب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئی ۔۔۔ معیشت ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔۔۔ سیاست ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔ حتیٰ کہ حکومت بھی ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔باہر سے جین لا لاکے ہماری خاطر ’’جینیاتی وزیراعظم‘‘ بھی بنائے گئے۔ کھلائے گئے۔ پلائے گئے اورپھرسرپٹ بھگائے گئے۔اوراِن تمام ’’جینیاتیوں‘‘ کے ہاتھوں ہم سب بندروں کی طرح نچائے گئے۔
کہاجاتا ہے کہ: ’’جس کابندر وہی نچائے‘‘۔ سو وہ ان بندروں کو نچاتاتو وہی رہا ، جس نے ان کو بندر بنایاتھا۔ مگر باقیوں کو خود بندروں نے نچایا۔ نچایا اور خوب خوب نچایا۔بلکہ سچ پوچھیے تومحض ایسا نہیں ہوا کہ لوگ ایک ہی دفعہ ناچ کر رہ گئے ہوں۔نچانے والوں نے تو ایسا نچایا ۔۔۔کر تھیاتھیا۔۔۔ کہ ناچ ختم ہوگیا مگر ہم اب تک ناچے ہی جارہے ہیں۔یہ گیس کا ناچ ہے، وہ بجلی کاناچ ہے۔ یہ روٹی کا ناچ ہے، اُدھر دال ناچ رہی ہے۔ اِدھر ساری کی ساری سبزیاں الگ الگ ناچ رہی ہیں۔ مچھلی، گوشت، مرغی اور تازہ پھلوں کے توکیاکہنے۔۔۔ کیاکہنے۔۔۔ انھیں دیکھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا۔۔۔ آسمان پر پریاں ناچ رہی ہیں!


16 December 2013

تلاش گمشدہ- لبرل و سیکولر حضرات




مُلاعبدالقادر کی پھانسی کے ہنگام میرے کچھ محترم مہربان اور عزیز دوست، جو حقوق انسانی مشغلہ کرتے ہیں، لاپتہ ہو گئے ہیں۔ سوچتا ہوں احباب اپنی کچھ خبر دیں گے یا مجھے ماما قدیر اور آمنہ مسعود جنجوعہ سے درخواست کرنا پڑے گی کہ اپنی تلاش گمشدہ میں ہماری ان معتبر شخصیات کو بھی شامل کر لیں؟ جناب آئی اے رحمان، محترمہ عاصمہ جہانگیر، محترمہ طاہرہ عبداللہ، محترمہ حنا جیلانی، محترمہ فرزانہ باری، جناب اعتزاز احسن، جناب اطہر من اللہ! ہمیں آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے،آپ ہمیں اپنی سلامتی سے مطلع کریں گے یا ہم یہ سمجھ کر چپ رہیں کہ آپ کو بھی کوئی ’ خفیہ ہاتھ‘ لے اڑا؟

سیکولر احباب کا تعصب ،غیظ و غضب اور فکری بددیانتی دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کیا واقعی انسان اشرف المخلوقات ہے۔ صبح شام یہ حضرات حقوق انسانی کی مالا چبتے ہیں، قیمتی ملبوسات زیب تن کر کے اور مہنگا میک اپ تہہ در تہہ تھوپ لینے کے بعد جب انہیں فراغت کے اوقات بتانا مشکل ہو جاتا ہے تو یہ حقوق انسانی کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔وقت بھی گزر جاتا ہے اور بیرون ملک شناخت کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔شاید پیٹ کے مسائل بھی حل ہو جاتے ہوں کیونکہ اشرافیہ کے پیٹ کو صرف ڈالر راس آتے ہیں، یہ ننھے اور نازک معدے روپوں کی کثافت برداشت نہیں کر پاتے۔ ان کے ہاں کتوں بلیوں لومڑوں اور گدھوں تک کے حقوق کا تصور موجود ہے، یہ ان کے غم میں رو رو کے جان ہلکان کر لیں گے لیکن جب بات کسی مسلمان گروہ کی آئے تو یہ گونگے بہرے اور اندھے بن جاتے ہیں۔ ان کے ہاں ظلم کا اپنا ایک تصور ہے۔ یہ صرف اس ظلم کی مذمت کرتے ہیں جو ان کی تعریف پر پورا اترے۔ ان کے نزدیک ظلم صرف وہ ہے جو مسلمان کریں اور مظلوم صرف وہ ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنے۔

اس سیکولر گروہ کو آج تک توفیق نہیں ہوئی کہ عافیہ صدیقی کے حق میں آواز اٹھا لے کیونکہ اس کا ایمان ہے:’’ امریکہ جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے‘‘۔ اب سیکولر احباب کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ جماعت اسلامی کے کسی آدمی پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائیں۔ چنانچہ ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے۔ یہ احباب اٹھتے بیٹھتے ہمیں بتائیں گے کہ قصاص کا قانون ٹھیک نہیں ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ سزائے موت ختم کی جائے، ان کا دعوی ہے کہ یہ غیرانسانی سزا ہے،لیکن جب یہ سزا کسی ایسے آدمی کو دی جائے جس کا تعلق اسلامی تحریک سے ہو تو ان کے سینے میں ٹھنڈ پڑجاتی ہے، انہیں سارے تصورات بھول جاتے ہیں اور یہ بوتل میں گردن دے کر کہتے ہیں:’’ سانوں کی‘‘۔

یہی سزا اگر بنگلہ دیش کی بجائے افغانستان میں طالبان نے دی ہوتی، ملا عبدالقادر کی جگہ ٹام ہیری اور ڈک ہوتا یا کوئی ایسا مسلمان جو ان احباب کے بقول ’’ نان پریکٹسنگ مسلم‘‘ ہوتا تو پھر آپ ان کا اچھلنا کودنا دیکھ دیکھ حیران ہوتے۔ یہ تو توہین رسالت جیسے گھناؤنے جرم میں بھی ریاست کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ وہ سزائے موت کا نفاذ کرے لیکن جب بات ملا عبدالقادر کی ہو تو انہیں اپنے تصورات یاد نہیں آتے۔ اس سے بڑا بغض، اس سے شرمناک تعصب اور اس سے غلیظ خبثِ باطن اور کیا ہو سکتا ہے؟



Tags:
Mullah Abdul Qadir, death, hanged,
I A rehman, Aasma Jahangir, Tahira Abdullah, Hina jeelani,
Farzana Bari, Aitzaz Ahsan, Athar Minallah, Lapata afraad,
secular, liberal, dollar, Human rights,

4 November 2013

دو جرنیل، دو کہانیاں...کس سے منصفی چاہیں ۔۔۔۔۔۔انصار عباسی




امریکا نے پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دینے کے لیے وہی کیا جس کی اُس سے توقع تھی اور جس کو وہ ماضی میں بار بار دہرا چکا ہے۔ مگر ہمارے کچھ لوگ ہیں جن کی حکیم اللہ محسود کی ڈرون سے مرنے پر باچھیں کھل گئیں گویا کہ دہشتگردی ختم ہو گئی۔ اُن کے خیال میں امریکا نے حکیم ا للہ کو مار کر ہم پر بڑا احسان کیا۔ یہی احسان پہلے بھی بار بار ہم پر کیے گئے مگر ہر ایسے احسان کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ ہوا جو ہمارے ـ’’محسن‘‘ امریکا کا اصل مقصد ہے۔ مجھے تعجب ریٹائرڈ میجر جنرل کو سن کر ہوا۔ جناب فرماتے ہیں کہ امریکا نے ڈرون حملہ سے حکیم اللہ کو مار کر در اصل پاکستان کی مدد کی ہے۔ کوئی عام شخص یہ کہتا تو اس کی بات کو سنی ان سنی کیا جا سکتا تھا مگر ایک ایسا شخص جس کا تعلق پاکستان کی فوج سے رہا ہواور جو میجر جنرل کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوا اگر وہ یہ کہے تو بڑی مایوسی کی بات ہے۔ کوئی جنرل کسی غیرملکی فوج کی اپنے ملک میں غیر قانونی کارروائی کو یہ رنگ دے تو میرے نزدیک تو یہ بڑے شرم کی بات ہے۔ شکر ہے موصوف میجر جنرل بن کر ریٹائرہو گئے ورنہ ایسا کوئی افسر فوج کا سپہ سالار بن جائے تو پھر تو امریکا اور اس کی فوج کو اپنی مدد کے لیے کب کے پاکستان میں آنے کی دعوت دے چکے ہوتے۔ میں سمجھتا تھا کہ جنرل مشرف ہی اپنی ایسی اوصاف میں یکتا تھے مگر یہاں تو اور بھی جرنیل ایسے ہیں جو امریکا کی جارحیت کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنی فوج پر ہر سال تقریباً چھ سو ارب روپے خرچ کرتی ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہماری فوج کا کوئی جنرل غیر ملکی جارحیت کو سراہے اور یہ کہے کہ امریکا نے ہماری سرزمین میں ہمارے کسی مطلوب مجرم کو مارکر ہماری مدد کی تو سوال یہ پیدا ہوتا کہ پھر ایسی فوج اور ایسے جنرل کس مرض کی دوا ہیں۔ اگر غیرملکی فوج کی ایسی کارروائی کسی بھی طور پر جائز قرار دی جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے تو اپنی خود مختاری کا سودا کردیا۔ میری ذاتی رائے میں فوج کی ہائی کمانڈ کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ فوج میں ایسی شکست خوردہ سوچ نے کیوں جنم لیا۔ اس امر کو بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسی سوچ کے حامل افراد فوج میں اعلیٰ عہدوں پر کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں افواج پاکستان کے تربیتی نظام، پروموشن سسٹم اور افسروں کو جانچنے کے طریقہ کار کو باریکی سے دیکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہمارے سسٹم میں اُس خرابی کو دور کیا جائے جس کی وجہ سے جنرل مشرف اور اس ریٹائرڈ میجر جنرل جیسے لوگ آرمی کی اعلیٰ کمانڈ تک پہنچ کر غیر ملکی فوج کو پاکستان کے اندر ڈرون حملے کرنے کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ اُسے پاکستان کے لیے مدد تصور کرتے ہیں۔ایسے جرنیلوں کے لیے میںایک اور سابق جرنیل ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ کے کچھ اقتباسات پیش کررہا ہوں۔ جنرل عزیز لکھتے ہیں:

Lieutenant-General Shahid Aziz
’’دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ اصل میں سیاسی نظریہ اسلام کے خلاف جنگ ہے......... امریکہ اور اُس کے پجاریوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو دین کے ایسے رنگ میں ڈھال لیا جائے، کہ سیکولر سوچوں کو ترقی پسند کہا جائے تا کہ دیندار لوگ جہالت کے الزام کے خوف سے منہ چھپاتے رہیں........اللہ نے صاف کہا تھا کہ یہ شیطان کے پجاری کبھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ مگر دوست تو کیا، ہم نے تو انہیں اپنا ولی بنا لیا، اپنا آقا مان لیا، اپنا رازق۔ اور یہ بھی اللہ نے کہا تھا کہ شیطان کے ساتھی تمھارے کھلے دشمن ہیں۔ آج ان کی دشمنی کسی سے چھپی ہوئی تو نہیں۔ اگر ان کی سازشوں کے جالوں سے نہیں، تو چالوں سے تو سب ہی واقف ہیں۔ چلو ہم اللہ کے احکامات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ دنیا داری جو کرنی ہوئی۔ کہتے ہیں ملک تو ان ہی بنیادوں پر چلتا ہے تم جہالت کی باتیں نہ کرو۔ دنیا کے ساتھ ملک کر چلنا ہو گا۔ بارہ سال ہو گئے۔ امریکہ کے قدم سے قدم ملاتے، جوتے چاٹتے، کافروں سے مل کر مسلمانوں کا قتل کرتے۔ کیا دہشتگردی ختم ہو گئی؟ کیا معیشت سنبھل گئی؟ کاروبار چمک گئے؟ بے روزگاری دور ہو گئی؟ بھوک مٹ گئی؟ کیا آج پاکستان پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گیا؟ عورتوں کو امن، عزت اور تحفظ مل گیا؟ کیا ہمارے چہروں کی مسکراہٹیں لوٹ آئیں؟ کیا کوئی امید کی کرن باقی رہ گئی؟ کس شیطانی دھوکے پر ہم امریکہ کے پیچھے چلتے تھے؟ جس راہ پر انصاف نہیں، اُس پر امن کی کوئی امید نہیں..........

امریکہ کے اعلان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ بہت لمبے عرصے تک چلے گی، یوں کہیے کہ ختم ہونے والی نہیں۔ اگر امریکہ اس خطے میں امن چاہتا، تو امن کی کوئی راہ تلاش کی ہوتی۔ انہیں یہاں امن کی نہیں، دہشت گردی کی ضرورت ہے اور وہ اپنی کارروائیوں سے اور ـ’’دہشت گرد‘‘ پیدا کر رہے ہیں۔ ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں پاکستان میں تمام تخریبی کارروائیوں میں شامل ہیں اور ہماری حکومت کے پاس ان سب کے ثبوت موجود ہیں، مگر خاموش رہتے ہیں......‘‘ جنرل عزیز جنہوں نے مشرف کی پالیسیوں کو بہت قریب سے دیکھا ایک اور جگہ کتاب میں لکھتے ہیں: ’’پھر ایک اسلامی مملکت کو امریکہ کے ہاتھوں بکتے دیکھا۔ ـ’قومی مفاد کی خاطر‘ اور آہستہ آہستہ ایک طاقتور حکمران کو چھپ چھپ کر، ٹکڑوں میں، سوئی ہوئی قوم کی آزادی کا سودا کرتے دیکھا، لال مسجد میں انسانوں کو جلتے دیکھا، انصاف کی دھجیاں اُڑتے دیکھیں۔ سب ’قومی مفاد کی خاطر‘ اور نجانے اس ملک میں کیا کیا ہو گا، ’قومی مفاد کی خاطر‘۔‘‘


1 November 2013

امریکہ کا فضل



عرب میں ایک عورت تھی اس کا نام اُم جعفر تھا۔ انتہائی سخی تھی۔ لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ دائیں کو بائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی۔ اس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں صدائیں لگاتے۔ ایک کی صدا ہوتی: "الٰہی! مجھے اپنے فضل و کرم سے روزی عطا کر۔ " دوسرا اندھا کہتا: "یا رب مجھے ام جعفر کا بچا ہوا عطا کر۔"

ام جعفر ان دونوں کی صدائیں سنتی اور دونوں کو عطا کرتی۔ جو شخص الله کا فضل طلب کر رہا تھا، اسے دو درہم دیتی جبکہ "ام جعفر" کے فضل کے طلبگار کو ایک بھنی ہوئی مرغی عطا کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسے مرغی ملتی، وہ اپنی مرغی دوسرے اندھے کو دو درہم میں بیچ دیتا۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن ام جعفر اس اندھے کے پاس آئی جو ام جعفر کا فضل طلب کرتا تھا اور اس سے سوال کرتا تھا اور اس سے سوال کیا: "کیا تمہیں سو دینار ملے ہیں؟" اندھا حیران ہو گیا۔ اس نے کہا: "نہیں! مجھے صرف ایک بھنی ہوئی مرغی ملتی تھی جو میں دو درہم میں بیچ دیتا تھا"۔ ام جعفر نے کہا: "جو الله کا فضل طلب کر رہا تھا، میں اسے دو درہم دیتی اور تمہیں بھنی ہوئی مرغی میں دس دینار ڈال کر دیتی رہی۔" اندھے نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ چیخنے اور چلانے لگا: "ہائے میری کمبختی، کاش میں ایسا نہ کرتا۔ میں مارا گیا۔" ام جعفر نے کہا: "یقینا اللہ کا فضل طلب کرنے والا کامیاب ہے اور انسانوں کے فضل کا طلبگار محروم ہے۔"

لاریب! جو الله کے فضل کے سوا دیگر راستے تلاش کرتے ہیں، انھیں دنیا میں گھاٹا ملتا ہے اور آخرت میں رسوائی نصیب ہوتی ہے۔ کم ہی ایسے ہوں گے جو فاقوں سے مر جاتے ہوں گے۔ اس کے باوجود اس دنیا میں ایسوں کی کمی نہیں جو درہم و دینار کی خاطر ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔ حکمران اپنی قوموں کا سودا کر لیتے ہیں۔ بیٹوں کو ڈالروں کے عوض بیچ کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ نتیجے میں کیا ملتا ہے؟ ذلت و رسوائی اور دنیا بھر کی پھٹکار! 64 سال ہو گئے، ہم الله کے فضل کو چھوڑ کر ملکوں اور شخصیات کے فضل تلاش کرنے میں لگے رہے۔ جب انتخابات کا موسم آتا ہے، ہر سیاستداں یہی کہتا ہے کہ آئندہ کسی سے بھیک نہیں مانگیں گے۔ کشکول توڑ دیں گے۔ "الله کے فضل" کے سوا کسی سے فضل کے طلبگار نہیں ہوں گے، مگر حقیقت کی دنیا میں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ پیشروئوں سے زیادہ "بھکاری پن" کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے امریکہ میں یہ محاورہ بن گیا کہ پاکستانی ڈالر کی خطر اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں! خصوصا نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے ڈالر کے لیے جو کچھ کیا، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ بدلے میں کیا ملا؟ معاشی خوشحالی؟؟ نہیں! رسوائی، جگ ہنسائی اور معاشی بدحالی۔  دس سال بعد دامن کو دیکھیے۔ پورا تار تار ہے اور اس میں بھیک کے چند دانوں کے سوا کچھ نہیں۔ گزشتہ دنوں اخبارات میں ایک رپورٹ آئی ہے جس سے امریکہ کا "فضل" تلاش کرنے والوں کی آنکھیں اب تو کھل جانی چاہئیں۔

بتایا گیا کہ قیام پاکستان سے2012  تک 64 برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو 68 ارب ڈالر کی امداد دی۔ 1948 میں پہلی بار7  لاکھ 70 ہزار ڈالر کی رقم معاشی امداد کی صورت میں ملی۔ بدلے میں امریکہ نے سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے پاکستان کے ہوئی اڈے استعمال کرنے کی فرمائش کی۔ ایوب خان کا دور آیا تو ڈھائی ارب ڈالر ملے۔ جب روس کے خلاف نہتے افغانوں نے جہاد شروع کیا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا عہد کیا اس وقت امریکہ بھی اس میں کود پڑا۔ جہاد کے اثرات زائل کرنے کے لیے ایک بار پھر پاکستان کو امداد دی گئی۔

چنانچہ1983  سے1988  تک پاکستان کو ہر سال ایک ارب ڈالر امداد دی گئی۔ امریکہ نے افغان جہاد کے ثمرات سمیٹنے کے بعد آنکھیں پھیر لیں۔ 10 سال تک مختلف بہانوں سے پابندیاں لگائے رکھیں۔ 2001 میں اسے پھر ضرورت ہوئی اور امداد بحال ہو گئی جو 2012 تک مجموعی طور پر محض25  ارب ڈالر بنتی ہے۔

یہ امریکی امداد کی تفصیلات ہیں، لیکن امریکہ کی اس دوستی میں جتنا نقصان پاکستان کا ہوا، وہ اس امداد سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ ان دس برسوں میں امریکہ کے "فضل" کے نتیجے میں پاکستان کو100  ارب ڈالر سے زیادہ معاشی نقصان پہنچ چکا ہے۔ انسانی جانوں کا جو ضیاع ہوا، اسے اعداد و شمار کے دائرے میں لانا ممکن نہیں۔ ان دس برسوں میں بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا۔ ہمارے ان قبائلیوں کو جنہوں نے ہمیشہ مفت کے سپاہیوں کا کردار ادا کیا، اپنے ہی اداروں کے ساتھ لڑا دیا گیا۔ اسی "امریکی فضل" کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے بےگھر ہوئے۔ اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی پر مجبور ہوئے۔ سوات کے وہ قافلے آج بھی یاد آتے ہیں تو آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ وہ عزت مآب مائیں جنھیں کبھی آسمان نے بھی بے پردہ نہیں دیکھا تھا، اس "امریکی فضل" کے نتیجے میں بےپردہ ہوئیں۔ وزیرستان کی کتنی کلیاں ہیں، جو اس "امریکی فضل" کے نتیجے میں کھلنے سے پہلے ہی مسل دی گئیں۔ ان دنوں وزیرستان کے چند لوگ امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کی رودادوں نے وہاں لوگوں کو رلا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تو اس "امریکی فضل" کا بہت معمولی نظارہ ہے۔ اس امریکی فضل نے ہمارے اداروں کو متنازع بنا دیا۔ وہ جنھیں دیکھ کر عقیدت کے آنسو چھلک پڑتے تھے، اسی امریکی فضل نے لوگوں کی نظروں سے گرا دیا۔

ہمارا روشن خیال طبقہ بار بار ہمیں تعنے دیتا ہے کہ امریکہ کی امداد کھاتے ہو۔ ان کے ڈالروں پر پلتے ہو اور ان کے خلاف زبانیں بھی کھولتے ہو۔ کاش! وہ تعصب کی عینک اتار کر تجزیہ کریں کہ امریکہ کی امداد کے نتیجے میں ہم نے کتنی بربادیاں سمیٹیں؟ اپنے ملک کو کتنے مسائل کا شکار کیا؟ سب سے بڑھ کر اس امداد کے نتیجے میں امریکہ اور دنیا میں ہمارا کیا مقام بنا؟ ابھی چند دن قبل جب پاکستانی وزیراعظم امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھ رہے تھے، اخبارات میں تصویر آئی اور خبر میں بتایا گیا کہ ان کے استقبال کے لیے دو تین ادنیٰ درجے کے امریکی اہلکار موجود ہیں۔ آنکھوں کے سامنے وہ ویڈیو گردش کرنے لگی جب صدر ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تھے۔  اس وقت ان کے استقبال کے لیے امریکی صدر بذات خود موجود تھا۔ پھول اور پتیاں نچھاور ہو رہی تھیں، لیکن آج دیکھیے اس "امریکی فضل" نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ امریکہ میں ہی نہیں، پوری دنیا میں ہماری کوئی ساکھ نہیں بچی۔ آپ عام زندگی میں دیکھ لیجیے۔ جو شخص ہر وقت مانگتا رہتا ہو، اس کی معاشرے میں کتنی عزت رہ جاتی ہے! چنانچہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آج اگر ہمارے حکمران یہ فیصلہ کر لیں کہ امریکہ کا فضل تلاش نہں کریں گے، اپنی قوم اور ملک کے وسائل بروئے کار لائیں گے، کسی ملک اور شخص کے "فضل" کے بجائے صرف الله کا فضل تلاش کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہم دنیا میں کیسے اپنا مقام بنا لیتے ہیں۔

نقش جمال
جمال عبداللہ عثمان