Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Showing posts with label معاشرتی. Show all posts
Showing posts with label معاشرتی. Show all posts

17 December 2013

ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔



’ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔ ‘

 ابو نثر

نیویارک سے خوشی کی ایک خبر ملی ہے، جس کی سرخی ہے:
’’امریکا میں جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے پہلے بندر کی پیدائش‘‘
ہماری طرف سے امریکا کو اِس نومولود کی ولادت بہت بہت مبارک ہو۔ہمیں خوشی ہے کہ اب امریکا میں بھی جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ بندر پیدا ہونے لگے ہیں۔سو، اگرپیدائش کا یہ دعویٰ درست ہے توامریکا کو معلوم ہو کہ یہ بندرِ عزیزفقط امریکاہی کا پہلا بندر ہوگا۔ ورنہ ہمارے یہاں تو اِس قسم کے(جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے) بندر بہت پہلے پیدا ہوچکے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں پیداہوچکے ہیں۔سب کے سب ماشاء اﷲ خوب اچھی طرح جینیاتی طورپر تبدیل شدہ ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی چینل کی گُھنڈی گھمائیے۔ مکے لہرا لہرا کر۔۔۔ اورپونچھ پٹک پٹک کر ۔۔۔اُچھلتے ،کودتے، ناچتے:
گرتے ،سنبھلتے، جھومتے
مائک کے منہ کو چومتے
آپ کو یہ جینیاتی دانشوربندر نظرآجائیں گے۔(مگریہ ’’جینیاتی‘‘ ہونے سے پہلے تو ایسے نہ تھے)۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ ہمارے اصلی بندر بالکل فطری بندر ہیں۔جب کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کی ہرچیز بدلی بدلی ۔۔۔ مرے سرکار!۔۔۔ نظر آتی ہے۔نظریں تک بدل جاتی ہیں۔ اُن کا لباس، اُن کا رہن سہن، اُن کا اُٹھنا بیٹھنا، اُن کا حال چال، اُن کی بول چال، اُن کی چال ڈھال، اُن کا چھلانگیں مارنااور اُچھل اُچھل کر ایک پارٹی سے دوسری کی طرف پھلانگنا اوراسی طرح کی مستقل ’’آنیاں جانیاں‘‘ فرماناپھراِس پر اُن کا آپس میں اورباہم خوخیانا۔۔۔ سبھی کچھ اصلی اور نسلی بندروں سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کا چہر ہ بھی ہمارے سیدھے سادے معصوم دیسی بندروں کے چہروں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ’’بندرانہ‘‘ ہوتا ہے۔ ’’قِردۃً خاسئین‘‘ جیسا۔ مگر واضح رہے کہ یہ اپنے آپ کو ’بندر‘ کبھی نہیں کہتے۔ ’’منکی‘‘ ۔۔۔ بلکہ ’’مونکی‘‘ کہتے ہیں۔ اور اِس بات پر(غلط سلط) انگریزی میں فخربھی کرتے ہیں کہ:
’’مِرا مزاج لڑکپن سے منکیانہ تھا‘‘
ہر اصلی چیز کی طرح اب ہمارے یہاں کے اصلی بندر بھی رفتہ رفتہ آثارِ رفتگاں کی طرح معدوم ہوتے جارہے ہیں۔اب یہاں جو بھی بندر ہیں وہ ہماری دھرتی کے بندر نہیں بلکہ ’’جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بندر‘‘ ہیں۔جینز بدل جائیں تو سب کچھ بدل جاتاہے۔خیالات بدل جاتے ہیں، نظریات بدل جاتے ہیں، لب و لہجہ بدل جاتا ہے، یہاں تک کہ کھانا پینا بھی بدل جاتاہے۔ہمارے بندر کو تو اگر کہیں سے ہلدی کی گانٹھ بھی مل جاتی تھی تو وہ اُسی پر صبر شکر کرکے پنساری بن جاتا تھا۔ مگریہ’’ جینیاتی طورپرتبدیل کیے گئے بندر‘‘ تو ہلدی کی گرہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے، اورمحض پنساری بننے پربھی اکتفا نہیں کرتے، سرکاری قرضہ لے کر ہلدی کا پورا کارخانہ لگالیتے ہیں۔
حاضرین، ناظرین، سامعین، اور قارئین کو معلوم ہو کہ اب یہ بندر صاحبان ’کیلا‘نہیں کھاتے۔ ’’بنانا‘‘ کھاتے ہیں۔اور ملک کو بھی ’’بنانا ری پبلک‘‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ اپنے بچوں کے لیے اٹلی سے پیزا(Pizza) منگواتے ہیں۔ اورجب وہ پنجیری کی جگہ پیزا کھانے کے اچھی طرح عادی ہوجاتے ہیں تو اُنھیں امریکا ۔۔۔( نہیں بلکہ ’’اسٹیٹس‘‘)۔۔۔ چھوڑ آتے ہیں۔ اب خوبی قسمت سے اُن کے ہاتھ ناریل نہیں لگتا۔ اگر ہاتھ لگتا ہے توکوالالمپور سے ’’کوکونٹ‘‘اِمپورٹ کرنے کا لائسنس لگ جاتا ہے۔وہ زمانہ بھی لد گیا جب کہا جاتا تھا کہ :
’’بندر کیا جانے ادرک کاسواد؟‘‘
اب تو جس بندر کو دیکھیے وہ آنکھیں میچ کر کہتا ہوا ملے گاکہ:
’’سواد آگیا بادشاہو!‘‘
ہمارے اصلی ونسلی بندرتو مداری کی تربیت اور اُس کی سخت محنت کے بعد ڈگڈگی کی آواز پر ناچا کرتے تھے۔ خود محنت، مشقت کرنے کے بعد اپنا پیٹ پِیٹ پِیٹ کر حقِ محنت مانگا کرتے تھے۔ مگر جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کے لیے دیر تک ڈگڈگی بجانے کی قطعاً ضرورت نہیں پڑتی۔اُن کے جین میں (بلکہ جنین میں) کچھ ایسے خلیات داخل کردیے گئے ہیں کہ یہ ٹیلی فون کال کی محض پہلی گھنٹی پر ہی ناچنے لگتے ہیں۔ ڈالروں کی توصرف جھلک دیکھ کر ہی ناچ اُٹھتے ہیں۔ اس پر یہ گانا مستزاد۔۔۔ جو اِن پر ’حال‘ طاری کردتیا ہے:
’’ناچ میرے بندر ڈالر ملے گا ۔۔۔‘‘
اوراگرڈالر ملنا بند ہوجائیں تو بھنّا بھنّا کرمزید ناچنے لگتے ہیں کہ آخر ہمیں ڈالر کیوں نہیں مل رہے ہیں؟
ہمارے کچھ بندر جینیاتی طورپر کیا تبدیل ہوئے، ہرچیزتبدیل ہو گئی۔سب سے پہلے ۔۔۔ بلکہ بندر سے بھی تیز تیز۔۔۔ بندریا بدل گئی۔ بندریا بدلی تو ظاہر ہے کہ مسٹر اور مسز بندر کے بچے بھی بدل گئے۔بندروں کاسارا معاشرہ یعنی پوری کی پوری ’’بندرگاہ‘‘ہی تبدیل ہو گئی۔حتیٰ کہ ہمارے شہر کراچی کی ’’بندرروڈ‘‘ تک وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔اُس وقت تو ہم لہک لہک کر یہ گایا کرتے تھے کہ:
’’بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر!‘‘
مگر جب اُسی فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے ہم نے یہ تماشا دیکھا کہ اُلٹی گنگا بہ رہی ہے۔ یعنی ’’کیماڑی سے بندر روڈ کی طرف‘‘۔ اور بندرگاہ کی طرف سے ایک قطار بنائے ہوئے اونٹ گاڑیاں چلی آرہی ہیں جو پشت پرامریکی گندم لادکر لا رہی ہیں۔نیز ہر اونٹ کی گردن میں \”Thank You America\” کاقلادہ بھی لٹک رہا ہے۔۔۔ تو ہم بالکل ہی فٹ پاتھ پر ہوگئے۔ امریکی گندم ہماری رگ و پے میں اُتر گیا اور تب سے اب تک ہم فٹ پاتھ پر ہی کھڑے ہیں۔آگے نہیں بڑھ سکے۔
قصہ مختصر یہ کہ سب کے سب بدل گئے اور پل کے پل میں سب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئے۔تعلیم ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔۔۔ تہذیب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئی ۔۔۔ معیشت ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔۔۔ سیاست ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔ حتیٰ کہ حکومت بھی ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔باہر سے جین لا لاکے ہماری خاطر ’’جینیاتی وزیراعظم‘‘ بھی بنائے گئے۔ کھلائے گئے۔ پلائے گئے اورپھرسرپٹ بھگائے گئے۔اوراِن تمام ’’جینیاتیوں‘‘ کے ہاتھوں ہم سب بندروں کی طرح نچائے گئے۔
کہاجاتا ہے کہ: ’’جس کابندر وہی نچائے‘‘۔ سو وہ ان بندروں کو نچاتاتو وہی رہا ، جس نے ان کو بندر بنایاتھا۔ مگر باقیوں کو خود بندروں نے نچایا۔ نچایا اور خوب خوب نچایا۔بلکہ سچ پوچھیے تومحض ایسا نہیں ہوا کہ لوگ ایک ہی دفعہ ناچ کر رہ گئے ہوں۔نچانے والوں نے تو ایسا نچایا ۔۔۔کر تھیاتھیا۔۔۔ کہ ناچ ختم ہوگیا مگر ہم اب تک ناچے ہی جارہے ہیں۔یہ گیس کا ناچ ہے، وہ بجلی کاناچ ہے۔ یہ روٹی کا ناچ ہے، اُدھر دال ناچ رہی ہے۔ اِدھر ساری کی ساری سبزیاں الگ الگ ناچ رہی ہیں۔ مچھلی، گوشت، مرغی اور تازہ پھلوں کے توکیاکہنے۔۔۔ کیاکہنے۔۔۔ انھیں دیکھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا۔۔۔ آسمان پر پریاں ناچ رہی ہیں!


1 November 2013

امریکہ کا فضل



عرب میں ایک عورت تھی اس کا نام اُم جعفر تھا۔ انتہائی سخی تھی۔ لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ دائیں کو بائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی۔ اس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں صدائیں لگاتے۔ ایک کی صدا ہوتی: "الٰہی! مجھے اپنے فضل و کرم سے روزی عطا کر۔ " دوسرا اندھا کہتا: "یا رب مجھے ام جعفر کا بچا ہوا عطا کر۔"

ام جعفر ان دونوں کی صدائیں سنتی اور دونوں کو عطا کرتی۔ جو شخص الله کا فضل طلب کر رہا تھا، اسے دو درہم دیتی جبکہ "ام جعفر" کے فضل کے طلبگار کو ایک بھنی ہوئی مرغی عطا کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسے مرغی ملتی، وہ اپنی مرغی دوسرے اندھے کو دو درہم میں بیچ دیتا۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن ام جعفر اس اندھے کے پاس آئی جو ام جعفر کا فضل طلب کرتا تھا اور اس سے سوال کرتا تھا اور اس سے سوال کیا: "کیا تمہیں سو دینار ملے ہیں؟" اندھا حیران ہو گیا۔ اس نے کہا: "نہیں! مجھے صرف ایک بھنی ہوئی مرغی ملتی تھی جو میں دو درہم میں بیچ دیتا تھا"۔ ام جعفر نے کہا: "جو الله کا فضل طلب کر رہا تھا، میں اسے دو درہم دیتی اور تمہیں بھنی ہوئی مرغی میں دس دینار ڈال کر دیتی رہی۔" اندھے نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ چیخنے اور چلانے لگا: "ہائے میری کمبختی، کاش میں ایسا نہ کرتا۔ میں مارا گیا۔" ام جعفر نے کہا: "یقینا اللہ کا فضل طلب کرنے والا کامیاب ہے اور انسانوں کے فضل کا طلبگار محروم ہے۔"

لاریب! جو الله کے فضل کے سوا دیگر راستے تلاش کرتے ہیں، انھیں دنیا میں گھاٹا ملتا ہے اور آخرت میں رسوائی نصیب ہوتی ہے۔ کم ہی ایسے ہوں گے جو فاقوں سے مر جاتے ہوں گے۔ اس کے باوجود اس دنیا میں ایسوں کی کمی نہیں جو درہم و دینار کی خاطر ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔ حکمران اپنی قوموں کا سودا کر لیتے ہیں۔ بیٹوں کو ڈالروں کے عوض بیچ کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ نتیجے میں کیا ملتا ہے؟ ذلت و رسوائی اور دنیا بھر کی پھٹکار! 64 سال ہو گئے، ہم الله کے فضل کو چھوڑ کر ملکوں اور شخصیات کے فضل تلاش کرنے میں لگے رہے۔ جب انتخابات کا موسم آتا ہے، ہر سیاستداں یہی کہتا ہے کہ آئندہ کسی سے بھیک نہیں مانگیں گے۔ کشکول توڑ دیں گے۔ "الله کے فضل" کے سوا کسی سے فضل کے طلبگار نہیں ہوں گے، مگر حقیقت کی دنیا میں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ پیشروئوں سے زیادہ "بھکاری پن" کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے امریکہ میں یہ محاورہ بن گیا کہ پاکستانی ڈالر کی خطر اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں! خصوصا نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے ڈالر کے لیے جو کچھ کیا، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ بدلے میں کیا ملا؟ معاشی خوشحالی؟؟ نہیں! رسوائی، جگ ہنسائی اور معاشی بدحالی۔  دس سال بعد دامن کو دیکھیے۔ پورا تار تار ہے اور اس میں بھیک کے چند دانوں کے سوا کچھ نہیں۔ گزشتہ دنوں اخبارات میں ایک رپورٹ آئی ہے جس سے امریکہ کا "فضل" تلاش کرنے والوں کی آنکھیں اب تو کھل جانی چاہئیں۔

بتایا گیا کہ قیام پاکستان سے2012  تک 64 برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو 68 ارب ڈالر کی امداد دی۔ 1948 میں پہلی بار7  لاکھ 70 ہزار ڈالر کی رقم معاشی امداد کی صورت میں ملی۔ بدلے میں امریکہ نے سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے پاکستان کے ہوئی اڈے استعمال کرنے کی فرمائش کی۔ ایوب خان کا دور آیا تو ڈھائی ارب ڈالر ملے۔ جب روس کے خلاف نہتے افغانوں نے جہاد شروع کیا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا عہد کیا اس وقت امریکہ بھی اس میں کود پڑا۔ جہاد کے اثرات زائل کرنے کے لیے ایک بار پھر پاکستان کو امداد دی گئی۔

چنانچہ1983  سے1988  تک پاکستان کو ہر سال ایک ارب ڈالر امداد دی گئی۔ امریکہ نے افغان جہاد کے ثمرات سمیٹنے کے بعد آنکھیں پھیر لیں۔ 10 سال تک مختلف بہانوں سے پابندیاں لگائے رکھیں۔ 2001 میں اسے پھر ضرورت ہوئی اور امداد بحال ہو گئی جو 2012 تک مجموعی طور پر محض25  ارب ڈالر بنتی ہے۔

یہ امریکی امداد کی تفصیلات ہیں، لیکن امریکہ کی اس دوستی میں جتنا نقصان پاکستان کا ہوا، وہ اس امداد سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ ان دس برسوں میں امریکہ کے "فضل" کے نتیجے میں پاکستان کو100  ارب ڈالر سے زیادہ معاشی نقصان پہنچ چکا ہے۔ انسانی جانوں کا جو ضیاع ہوا، اسے اعداد و شمار کے دائرے میں لانا ممکن نہیں۔ ان دس برسوں میں بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا۔ ہمارے ان قبائلیوں کو جنہوں نے ہمیشہ مفت کے سپاہیوں کا کردار ادا کیا، اپنے ہی اداروں کے ساتھ لڑا دیا گیا۔ اسی "امریکی فضل" کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے بےگھر ہوئے۔ اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی پر مجبور ہوئے۔ سوات کے وہ قافلے آج بھی یاد آتے ہیں تو آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ وہ عزت مآب مائیں جنھیں کبھی آسمان نے بھی بے پردہ نہیں دیکھا تھا، اس "امریکی فضل" کے نتیجے میں بےپردہ ہوئیں۔ وزیرستان کی کتنی کلیاں ہیں، جو اس "امریکی فضل" کے نتیجے میں کھلنے سے پہلے ہی مسل دی گئیں۔ ان دنوں وزیرستان کے چند لوگ امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کی رودادوں نے وہاں لوگوں کو رلا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تو اس "امریکی فضل" کا بہت معمولی نظارہ ہے۔ اس امریکی فضل نے ہمارے اداروں کو متنازع بنا دیا۔ وہ جنھیں دیکھ کر عقیدت کے آنسو چھلک پڑتے تھے، اسی امریکی فضل نے لوگوں کی نظروں سے گرا دیا۔

ہمارا روشن خیال طبقہ بار بار ہمیں تعنے دیتا ہے کہ امریکہ کی امداد کھاتے ہو۔ ان کے ڈالروں پر پلتے ہو اور ان کے خلاف زبانیں بھی کھولتے ہو۔ کاش! وہ تعصب کی عینک اتار کر تجزیہ کریں کہ امریکہ کی امداد کے نتیجے میں ہم نے کتنی بربادیاں سمیٹیں؟ اپنے ملک کو کتنے مسائل کا شکار کیا؟ سب سے بڑھ کر اس امداد کے نتیجے میں امریکہ اور دنیا میں ہمارا کیا مقام بنا؟ ابھی چند دن قبل جب پاکستانی وزیراعظم امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھ رہے تھے، اخبارات میں تصویر آئی اور خبر میں بتایا گیا کہ ان کے استقبال کے لیے دو تین ادنیٰ درجے کے امریکی اہلکار موجود ہیں۔ آنکھوں کے سامنے وہ ویڈیو گردش کرنے لگی جب صدر ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تھے۔  اس وقت ان کے استقبال کے لیے امریکی صدر بذات خود موجود تھا۔ پھول اور پتیاں نچھاور ہو رہی تھیں، لیکن آج دیکھیے اس "امریکی فضل" نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ امریکہ میں ہی نہیں، پوری دنیا میں ہماری کوئی ساکھ نہیں بچی۔ آپ عام زندگی میں دیکھ لیجیے۔ جو شخص ہر وقت مانگتا رہتا ہو، اس کی معاشرے میں کتنی عزت رہ جاتی ہے! چنانچہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آج اگر ہمارے حکمران یہ فیصلہ کر لیں کہ امریکہ کا فضل تلاش نہں کریں گے، اپنی قوم اور ملک کے وسائل بروئے کار لائیں گے، کسی ملک اور شخص کے "فضل" کے بجائے صرف الله کا فضل تلاش کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہم دنیا میں کیسے اپنا مقام بنا لیتے ہیں۔

نقش جمال
جمال عبداللہ عثمان

18 October 2013

یہ بھی تو کسی ماں کا دُلارا کوئی ہوگا




گلشن اقبال میں ’عید بازار‘ لگا ہوا تھا۔بیل، بکروں اور دُنبوں والا نہیں۔خواتین کو اس عید پر بھی اپنے ہتھیار تیز رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ اشیائے ضروریہ کی خریداری کرنی ہوتی ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ بازارِ اسلحہ و ہتھیار تھا۔ یہاں ہماری طرح کے اکثر ’شکار‘ خود ’شکاریوں‘ کو اپنے خرچہ پر ہتھیار خریدوا رہے تھے۔صاحب! بیویوں کو آج تک کوئی شوہر یہ باور نہیں کراسکا کہ:
قتل کے ساماں ہیں جس کے واسطے، وہ چل بسا
آپ تزئینِ لب و رُخسار رہنے دیجیے
بازار کیا تھا؟ ۔۔۔ ’نگار خانۂ انجم، نگار خانۂ گل‘۔حضرت علامہ اگر بقید حیات ہوتے تو یہ دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے کہ اُن کی یاد میں اور اُن کے نام پر بسائی جانے والی بستی کا بازار بھی ’گُل بن‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔یہ منظر دیکھ کر وہ یقیناًاپنے اس خیال سے رجوع فرما لیتے :
حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
اور ساتھ ہی وہ اپنے ایک اور شعر میں بھی ذرا سی ترمیم کر لیتے کہ:
پھول ہیں ’’گلشن‘‘ میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
(واضح رہے کہ یہاں ’’گلشن‘‘ سے مراد گلشن اقبال کا مذکورہ بالا بازارہی لیا جائے گا)
قصہ مختصر ۔۔۔ کہ ہم ان ہی مناظر اور ایسے ہی خیالات میں کھوئے ہوئے، اہلیہ کے خرید کردہ سامان(بلکہ بقولِ اقبالؔ ؒ شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان) کے بوجھ تلے دبے جارہے تھے کہ ہمیں ایک ننھا منا، سرخ و سفید، گولو مٹولو سابچہ ہر مال بردار اور فرماں بردار شوہر سے دوڑ دوڑ کر یہ پوچھتا نظر آیا:’’بائی! سامان اُٹوائے گا؟ ۔۔۔ بائی سامان اُٹوائے گا؟‘‘
جی تو یہی چاہتا تھا کہ اِس ببلو گبلو کو خود ہی اُٹھا لیا جائے اور گود میں چھپا لیا جائے۔عمر بمشکل آٹھ یا نو سال ہوگی۔اس کے چہرے پر ہمیں خود اپنے بچوں والی معصومیت نظر آئی۔ آنکھوں میں التجا تھی۔سر اوپر اُٹھاکر دیکھنے والا ملتجیانہ انداز ایسا تھا کہ اگر اُس کی جگہ اپنا کوئی جگر گوشہ ہوتا تو دل تڑپ جاتا۔چلتے چلتے یوں ہی پوچھ لیا:’’کتنے پیسے لیتے ہو؟‘‘
بڑی کاروباری ڈپلومیسی کے ساتھ جواب دیا:’’صاب لوگوں کا مرضی ہوتا اے۔دس بیس روپیہ اَم کو دے دیتا اے۔صاب! یہ سامان اَم کو دو۔ تُم ’تک‘ جائے گا۔جو مرضی آئے دے دینا‘‘۔
ہم نے پہلے یہ عذر کیا کہ:’’برخوردار! ہم تو ایک مدت کے تھکے ہوئے ہیں، اور ابھی نہ جانے کب تک تھکنا ہے۔ مگر کیا تم نہ تھک جاؤ گے؟‘‘پھر اپنے سامان میں سے تھوڑا سا سامان اُس کی دلجوئی کے لیے اُسے تھما دیا۔اُس نے بڑی شوخ سی چائیں چائیں کرتی آواز میں احتجاج کیا:’’اَم نئیں تکتا صاب! ۔۔۔ لاؤ سارا سامان اَم کو دو۔۔۔اِدَر لاؤ‘‘۔
یہ کہہ کر سارا سامان ہم سے لے کر اپنی پیٹھ پر لاد لیا اور حالت رکوع میں چلا گیا۔یہ دیکھ کر ہم نے زبردستی کچھ سامان واپس لیا تو سیدھا کھڑے ہونے کے قابل ہوکر پھر احتجاج کیا:’’ تم کیوں اُٹاتا اے صاب؟ ۔۔۔ تم تو پیسا دیتا اے ۔۔۔ چوڑو۔۔۔ سارا سامان اَم کو دو‘‘۔
ہم نے اُس کی سنی اَن سنی کرتے ہوئے اُسی کی گرامر میں اُس سے کہا:’’دیکو! بیگم صاب آگے نکل گیا اے، تیز چلو ۔۔۔ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
نام پوچھنے کا مطلب شاید اُس نے غلط لے لیا۔یا شاید تجربات نے اُسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ کہنے لگا:
’’امارا نام فدائے محمد اے۔مگر صاب! فِکرمَکوا۔ اَم چوری نئیں کرے گا۔اَم چور نئیں اے۔تم کتنا بی دور جائے گا، اَم تمارا سات جائے گا۔تمارا مال حفاظت سے لے جائے گا۔ یہ تمارا امانت اے۔چوری نئیں کرے گا۔۔۔ صاب! اَم چوری کیوں کرے؟۔۔۔ تم اَم کو مزدوری دیتا اے ۔۔۔ اَم حلال کمائی کرتا اے صاب! ۔۔۔‘‘
وہ بولے چلا جارہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ ماں باپ نے اس کا نام رکھ کر جس ذاتِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اس کو فدا کیا ہے، اگر نام کا کچھ اثر ہوتا ہے تو یہ واقعی کبھی چوری نہیں کرے گا۔ ہم نے پوچھا:’’تم یہاں کہاں سے آئے ہو؟‘‘
اُس نے جو جواب دیا اُسے سن کر ہمارے رونگٹے ہی نہیں، چلتے چلتے ہم خود بھی کھڑے ہوگئے:’’صاب! اَم اِدَر وزیرستان سے آیا اے!‘‘
ہم نے ٹٹولنے والی نظروں سے جانچنے کی کوشش کیکہ کہیں اس نے اپنے کرتے کے نیچے کوئی جیکٹ وغیرہ تو نہیں پہنی ہوئی ہے۔مگر ملگجے کرتے کے اندر اس کا سرخ و سنہرا پیٹ اور سینہ لشکارے مارتا نظر آ رہا تھا۔ گھبرا کر پوچھا:’’وزیرستان سے تم یہاں کیوں آگئے؟‘‘
کہنے لگا: ’’امارا گاؤں پر کافروں نے بم مارا۔پورا گاؤں مرگیا۔ امارا بابا شہید ہو گیا۔امارا بڑا بائی مجاہد بن گیا۔امارا امّاں نانا کے سات ام کو اور امارا چوٹا بائی کو لے کر اِدَر آگیا‘‘۔
اب ہمیں اور کوئی بات نہ سوجھی تو ہم نے یہی پوچھ لیا:’’تم مزدوری کیوں کرتے ہو؟ پڑھتے کیوں نہیں؟دُنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کی مہم چل رہی ہے۔ بلکہ مہم جو کو نوبل پرائز بھی۔۔۔‘‘
ہماری بات کاٹ کر کہنے لگا:’’صاب! اَم خود بی پڑے گا۔مگر اَم اپنا چوٹا بائی کو ضرور پڑائے گا۔اُس کے واسطے اَم مزدوری کرتا اے!‘‘
ہم نے پوچھا: ’’تو کیا تمھارا چھوٹا بھائی پڑھ رہا ہے؟‘‘
بڑا دِلنشین قہقہہ لگا کر بولا: ’’ابی کیسے پڑے گا؟ ابی تو وہ دو سال چے مہینے کا ہے‘‘۔
اتنے میں ہم گاڑی تک پہنچ چکے تھے۔ اُس نے سامان گاڑی میں رکھ دیااور دونوں ہاتھ پشت پر ٹیک کر اپنی کمر سیدھی کی۔ اہلیہ نے سخاوت کا مظاہر کرتے ہوئے پانچ پانچ اور دو دو روپئے کے سکوں پر مشتمل سارا چینج اُس کو تھما دیا۔وہ حیرت سے تکنے لگا۔ہم نے پوچھا:
’’پیسے کم تو نہیں ہیں؟‘‘
اُس نے ایک بار پھر اپنی بھری ہوئی مٹھی کو دیکھااور بولا:’’نئیں صاب! بہت ہیں۔۔۔ شکر خدائے پاکا ۔۔۔ یہ بہت ہیں!‘‘
ہم نے پھر پوچھا:’’فدائے محمد!تم خوش تو ہو۔۔۔ ناراض تو نہیں ہو؟‘‘
اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ ’’نئیں صاب!‘‘ کہتے ہوئے وہ مسکرا دیا۔ایسی معصوم مسکراہٹ شاید ہی کبھی دیکھی ہو۔ جیسے گہرے سیاہ بادلوں سے اچانک چاند طلوع ہوجائے ۔۔۔ جیسے تند وتیز لو کے تھپیڑے سہنے والے تھکے ہارے مسافر کو یکایک کسی نخلستان کے بیچ ایک سرد چشمہ اُبلتا دکھائی دے جائے ۔۔۔ جیسے ۔۔۔ مگرسچ پوچھیے تو اُس مسکراہٹ کو اب بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ہم اُسے دیر تک اور دور تک واپس جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ ہمیں دیکھتے دیکھ کر ایک صاحب قریب آئے اورہمدردی سے مشورہ دیا:
’’انھیں سر نہ چڑھایا کریں۔یہی لوگ خود کُش بمبار بنتے ہیں۔یہ لوگ اسلام کے بھی دشمن ہیں اور انسانیت کے بھی!‘‘

ابو نثر


14 October 2013

قربانی: سوچنے کی کچھ باتیں

قربانی :  سوچنے کی کچھ باتیں 

ابویحییٰ


عید الاضحٰی کی آمد آمد ہے۔ ہر سال اس موقع پر قربانی کے جانوروں کی بہار آتی ہے۔ ہر گھر میں اِسی بات کا تذکرہ ہوتا ہے کہ گائے خریدی جائے، بکرا لیا جائے یا کہیں حصہ ڈال دیا جائے۔ جہاں قربانی کے جانور آجاتے ہیں وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ کس کا جانور زیادہ اچھا اور قیمتی ہے۔ جو لوگ مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں وہ بڑے فخر سے اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں۔ جبکہ کمزور جانوروں کے مالک ان کی قیمت زیادہ بتا کر اپنا بھرم رکھتے ہیں۔ غرض مقابلہ بازی کی اک فضا ہر جگہ طاری ہوجاتی ہے۔جو لوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ان کا غم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس مقابلے سے کیوں باہر ہیں۔ یا پھر یہ کہ اِس موقع پر’گوشت‘ کی خود کفالت میں وہ دوسروں کے محتاج ہوں گے۔

جانوروں کی خریداری کے بعد گھر کے مردوں کی اگلی فکر قصائی کی تلاش اور قربانی کے دن اُس کی دستیابی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ خواتین کے سامنے قربانی کے بعد گوشت کی جمع وتقسیم اور پھر اُس کے پکانے کے تھکا دینے والے مراحل ہوتے ہیں۔ بچے جانوروں کو گھمانے اور کِھلانے پلانے میں مگن رہتے ہیں۔ ان کے اس شوق کا منتہائے کمال عید کے دن ذبح ہوتے جانوروں کا نظارہ ہے۔ غرض یہ کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر دینِ اسلام کی یہ عظیم عبادت لوگوں میں اگر کسی پہلو سے اہم ہے تو وہ محض ’جانور‘ اور اُن کے’ گوشت‘ کے حوالے سے ہے۔ دین کے حوالے سے اگر کوئی چیز زیرِ بحث آتی بھی ہے تو وہ قربانی کی عبادت کا تاریخی پس منظر اور اُس کے فقہی مسائل ہیں۔

دینِ اسلام میں قربانی کی حیثیت ایک عبادت کی ہے۔ اور دینِ خداوندی میں عبادات کی حقیقت یہ ہے اُن کے ذریعے سے بندہ اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ قربانی کی یہ عبادت بندہ اور اُس کے رب کے درمیان تعلق کا وہ مظہر ہے جسے سرِ عنوان بنا کر وہ اپنے مالک کی خدمت میں اپنا یہ پیام بندگی بھیجتا ہے۔

’’
اے پروردگار! آج میں ایک جانور تیرے نام پر ذبح کررہا ہوں، اگر تیرا حکم ہوا تو میں اپنی جان بھی اِسی طرح تیرے حضور میں پیش کردوں گا۔‘‘

دراصل اِس دنیا میں بدنی اور مالی عبادات کے مواقع نماز و انفاق وغیرہ کی صورت میں کثرت سے سامنے آتے رہتے ہیں، جن سے ہم اپنے پروردگا کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتے اور اُسے زندہ کرتے ہیں، تاہم خدا کے لیے جان دے دینا ’اسلا م‘ (یعنی اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے) کا سب سے بلند مقام ہے اور اس کے مواقع شاذ ہی زندگی میں آتے ہیں۔ اِس لیے قربانی کی یہ عبادت اُس کے علامتی اظہار کے طور پر مقرر کی گئی ہے۔ گویا ایک بندۂ مومن اِس عظیم عبادت کے ذریعے اپنے رب کے سامنے یہ اقرار کرتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب تیرے لیے ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’
اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی مشروع کی ہے تا کہ اللہ نے اُن کو جو چوپائے بخشے ہیں، اُن پر وہ (ذبح کرتے ہوئے) اُس کا نام لیں۔ پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے چنانچہ تم اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کردو۔ اور خوشخبری دو اُن لوگوں کو جن کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ (الحج ۲۲:۳۴(
یہ آیت بتاتی ہے کہ قربانی کی عبادت اپنی جان کو اپنے معبود کی نذر کردینے کا علامتی اظہار ہے۔ اس کے ذریعے سے بندہ اپنے وجود کو آخری درجہ میں اپنے آقا کے حوالے کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ بندہ مومن کے یہ جذبات اس کے مالک تک پہنچ جاتے ہیں۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ابدی رحمتوں کے لیے چن لیتا ہے۔ مزید براں دنیا میں بھی وہ ان جانوروں کا گوشت انہیں کھانے کی اجازت دے کر انہیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنی جان مجھے دے کر بھی تم مجھے کچھ نہیں دیتے۔ بلکہ دینے والا میں ہی رہتا ہوں۔ یہ گوشت کھاؤ اور یاد رکھو کہ مجھ سے سودا کرنے والا دنیا وآخرت دونوں میں نقصان نہیں اٹھاتا۔

ایک طرف قربانی کی یہ عظیم عبادت اور اس میں پوشیدہ قربت رب کی یہ حکمت ہے اور دوسری طرف ہمارا وہ طرزِ عمل ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا جاچکا ہے۔ جس میں ایک عام آدمی کا ذہن کبھی بھولے سے بھی قربانی کی اِس حقیقت کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔ اِس سے بڑھ کر یہ کہ ریاکاری اور نمود و نمائش کا وہ شائبہ تعلق باللہ کی یاد دہانی کی اِس عظیم عبادت میں اِس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ جس کے بعد لینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔ قربانی کے ذریعے اپنی بندگی کا اظہار تو دور کی چیز ہے، رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق تو مخلوق کی نگاہ میں نمایاں ہونے کی نیت سے آدمی اگر حقیقت میں بھی اپنی جان دے دے تب بھی روزِ قیامت میں ایسے ’’شہید‘‘ کو جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔

ایک آخری بات اِس ضمن میں یاد رکھنے کی یہ ہے کہ دینِ اسلام کا اصل مقصود انسان کا ’تزکیہ‘ ہے۔ یعنی انسان کو پاکیزہ بنانا۔ تاہم قربانی کے اِس عمل میں ہم لوگ نہ صرف جانور ذبح کرتے ہیں بلکہ اسلام کا یہ مقصود یعنی پاکیزگی بھی ذبح کردیتے ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے جو مظاہر عید الاضحیٰ کے موقع پر دیکھنے میں آتے ہیں اس کی توقع کسی اچھے مسلمان سے تو کیا ایک اچھے انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن پاک میں قربانی کے جانوروں کے متعلق ارشاد ہوا ہے:

’’
اللہ کو تمھاری ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا، بلکہ صرف تمھارا تقویٰ پہنچے گا‘‘
﴿الحج ۲۲:۳۷﴾

تقویٰ اور بندگی کی دلی کیفیات تو ہمارے ہاں پہلے ہی ناپید ہیں۔ اس پر مزید ستم ہم یہ کرتے ہیں کہ گوشت اپنے فرج میں رکھ کر ہم، زبان حال سے، رب العالمین کی بارگاہ اقدس میں صرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر بھیجتے ہیں۔ چنانچہ قربانی کے دنوں میں اس کی حکمت و مصلحت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے گھر کی طرح اپنے علاقے کو صاف رکھنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ جس کی خلاف ورزی کم از کم ایک دینی تہوار کے موقع پر اور بالخصوص ایک عبادت کو انجام دیتے ہوئے بالکل نہیں ہونی چاہیے۔