Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Showing posts with label eid. Show all posts
Showing posts with label eid. Show all posts

14 October 2013

قربانی: سوچنے کی کچھ باتیں

قربانی :  سوچنے کی کچھ باتیں 

ابویحییٰ


عید الاضحٰی کی آمد آمد ہے۔ ہر سال اس موقع پر قربانی کے جانوروں کی بہار آتی ہے۔ ہر گھر میں اِسی بات کا تذکرہ ہوتا ہے کہ گائے خریدی جائے، بکرا لیا جائے یا کہیں حصہ ڈال دیا جائے۔ جہاں قربانی کے جانور آجاتے ہیں وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ کس کا جانور زیادہ اچھا اور قیمتی ہے۔ جو لوگ مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں وہ بڑے فخر سے اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں۔ جبکہ کمزور جانوروں کے مالک ان کی قیمت زیادہ بتا کر اپنا بھرم رکھتے ہیں۔ غرض مقابلہ بازی کی اک فضا ہر جگہ طاری ہوجاتی ہے۔جو لوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ان کا غم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس مقابلے سے کیوں باہر ہیں۔ یا پھر یہ کہ اِس موقع پر’گوشت‘ کی خود کفالت میں وہ دوسروں کے محتاج ہوں گے۔

جانوروں کی خریداری کے بعد گھر کے مردوں کی اگلی فکر قصائی کی تلاش اور قربانی کے دن اُس کی دستیابی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ خواتین کے سامنے قربانی کے بعد گوشت کی جمع وتقسیم اور پھر اُس کے پکانے کے تھکا دینے والے مراحل ہوتے ہیں۔ بچے جانوروں کو گھمانے اور کِھلانے پلانے میں مگن رہتے ہیں۔ ان کے اس شوق کا منتہائے کمال عید کے دن ذبح ہوتے جانوروں کا نظارہ ہے۔ غرض یہ کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر دینِ اسلام کی یہ عظیم عبادت لوگوں میں اگر کسی پہلو سے اہم ہے تو وہ محض ’جانور‘ اور اُن کے’ گوشت‘ کے حوالے سے ہے۔ دین کے حوالے سے اگر کوئی چیز زیرِ بحث آتی بھی ہے تو وہ قربانی کی عبادت کا تاریخی پس منظر اور اُس کے فقہی مسائل ہیں۔

دینِ اسلام میں قربانی کی حیثیت ایک عبادت کی ہے۔ اور دینِ خداوندی میں عبادات کی حقیقت یہ ہے اُن کے ذریعے سے بندہ اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ قربانی کی یہ عبادت بندہ اور اُس کے رب کے درمیان تعلق کا وہ مظہر ہے جسے سرِ عنوان بنا کر وہ اپنے مالک کی خدمت میں اپنا یہ پیام بندگی بھیجتا ہے۔

’’
اے پروردگار! آج میں ایک جانور تیرے نام پر ذبح کررہا ہوں، اگر تیرا حکم ہوا تو میں اپنی جان بھی اِسی طرح تیرے حضور میں پیش کردوں گا۔‘‘

دراصل اِس دنیا میں بدنی اور مالی عبادات کے مواقع نماز و انفاق وغیرہ کی صورت میں کثرت سے سامنے آتے رہتے ہیں، جن سے ہم اپنے پروردگا کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتے اور اُسے زندہ کرتے ہیں، تاہم خدا کے لیے جان دے دینا ’اسلا م‘ (یعنی اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے) کا سب سے بلند مقام ہے اور اس کے مواقع شاذ ہی زندگی میں آتے ہیں۔ اِس لیے قربانی کی یہ عبادت اُس کے علامتی اظہار کے طور پر مقرر کی گئی ہے۔ گویا ایک بندۂ مومن اِس عظیم عبادت کے ذریعے اپنے رب کے سامنے یہ اقرار کرتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب تیرے لیے ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’
اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی مشروع کی ہے تا کہ اللہ نے اُن کو جو چوپائے بخشے ہیں، اُن پر وہ (ذبح کرتے ہوئے) اُس کا نام لیں۔ پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے چنانچہ تم اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کردو۔ اور خوشخبری دو اُن لوگوں کو جن کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ (الحج ۲۲:۳۴(
یہ آیت بتاتی ہے کہ قربانی کی عبادت اپنی جان کو اپنے معبود کی نذر کردینے کا علامتی اظہار ہے۔ اس کے ذریعے سے بندہ اپنے وجود کو آخری درجہ میں اپنے آقا کے حوالے کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ بندہ مومن کے یہ جذبات اس کے مالک تک پہنچ جاتے ہیں۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ابدی رحمتوں کے لیے چن لیتا ہے۔ مزید براں دنیا میں بھی وہ ان جانوروں کا گوشت انہیں کھانے کی اجازت دے کر انہیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنی جان مجھے دے کر بھی تم مجھے کچھ نہیں دیتے۔ بلکہ دینے والا میں ہی رہتا ہوں۔ یہ گوشت کھاؤ اور یاد رکھو کہ مجھ سے سودا کرنے والا دنیا وآخرت دونوں میں نقصان نہیں اٹھاتا۔

ایک طرف قربانی کی یہ عظیم عبادت اور اس میں پوشیدہ قربت رب کی یہ حکمت ہے اور دوسری طرف ہمارا وہ طرزِ عمل ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا جاچکا ہے۔ جس میں ایک عام آدمی کا ذہن کبھی بھولے سے بھی قربانی کی اِس حقیقت کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔ اِس سے بڑھ کر یہ کہ ریاکاری اور نمود و نمائش کا وہ شائبہ تعلق باللہ کی یاد دہانی کی اِس عظیم عبادت میں اِس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ جس کے بعد لینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔ قربانی کے ذریعے اپنی بندگی کا اظہار تو دور کی چیز ہے، رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق تو مخلوق کی نگاہ میں نمایاں ہونے کی نیت سے آدمی اگر حقیقت میں بھی اپنی جان دے دے تب بھی روزِ قیامت میں ایسے ’’شہید‘‘ کو جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔

ایک آخری بات اِس ضمن میں یاد رکھنے کی یہ ہے کہ دینِ اسلام کا اصل مقصود انسان کا ’تزکیہ‘ ہے۔ یعنی انسان کو پاکیزہ بنانا۔ تاہم قربانی کے اِس عمل میں ہم لوگ نہ صرف جانور ذبح کرتے ہیں بلکہ اسلام کا یہ مقصود یعنی پاکیزگی بھی ذبح کردیتے ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے جو مظاہر عید الاضحیٰ کے موقع پر دیکھنے میں آتے ہیں اس کی توقع کسی اچھے مسلمان سے تو کیا ایک اچھے انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن پاک میں قربانی کے جانوروں کے متعلق ارشاد ہوا ہے:

’’
اللہ کو تمھاری ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا، بلکہ صرف تمھارا تقویٰ پہنچے گا‘‘
﴿الحج ۲۲:۳۷﴾

تقویٰ اور بندگی کی دلی کیفیات تو ہمارے ہاں پہلے ہی ناپید ہیں۔ اس پر مزید ستم ہم یہ کرتے ہیں کہ گوشت اپنے فرج میں رکھ کر ہم، زبان حال سے، رب العالمین کی بارگاہ اقدس میں صرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر بھیجتے ہیں۔ چنانچہ قربانی کے دنوں میں اس کی حکمت و مصلحت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے گھر کی طرح اپنے علاقے کو صاف رکھنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ جس کی خلاف ورزی کم از کم ایک دینی تہوار کے موقع پر اور بالخصوص ایک عبادت کو انجام دیتے ہوئے بالکل نہیں ہونی چاہیے۔

7 August 2013

خوشیاں بھاری ہوتی ہیں


 ۔ ۔ خوشیاں بھاری ہوتی ہیں۔ ۔ 

چار جوڑے کپڑوں کے
چار جوڑے جوتوں کے
تھوڑی چینی تھیلی میں
ایک پیکٹ کھیر کا
ایک ڈبہ دودھ کا
دس یا بیس والی ہو
ایک گڈی نوٹوں کی
کل وزن بتاؤ تو
کتنا ان کا بنتا ہے
ہلکے پھلکے تھیلے میں
ڈال دو تو آئے گا
جس قدر یہ ساماں ہے
اگلے پچھلے خرچوں کو
آگے پیچھے کر کے بھی
تھیلا چار چیزوں کا
مجھ سے بھر نہیں پاتا
عید جیسے ہوتی ہے
ویسے کر نہیں پاتا
روز جو اٹھاتا ہوں
بوجھ وہ ٹنوں میں ہے
تھیلا چار چیزوں کا
میں اٹھا نہیں پاتا
پہلی بار دیکھا ہے
غم تو ہلکے ہوتے ہیں
خوشیاں بھاری ہوتی ہیں
خوشیاں بھاری ہوتی ہیں

عابی مکھنوی

عید کی پیشگی مبارک باد....!





عید کی پیشگی مبارک باد....!

ان تڑقتے نحیف کاندھوں پر
اپنے کنبے کا بوجھ ڈھوتا ہوں
اور جب دل کا بوجھ بڑھتا ہے
بیوی بچوں سے چھپ کے روتا ہوں
ضبط_غم کی نہیں کوئ میعاد
عید کی پیشگی مبارک باد

بجھتی آنکھیں،ستا ہوا چہرہ
یہی انجام_سخت کوشی ہے
جوڑتا ہوں رقم کفن کے لیے
یہی اصل_سفید پوشی ہے
ہر تگ و دو کی ہے یہی بنیاد
عید کی پیشگی مبارک باد

سیٹیاں بج رہی ہیں کانوں میں
سسکیوں اور ٹھنڈی آہوں سے
عید کا چاند کیا نظر آۓ
ڈبڈباتی ہوئ نگاہوں سے
عرض بے نطق،بے صدا ارشاد
عید کی پیشگی مبارک باد

کہہ رہی ہے زبان_حال مری
میں نے کی ہے ترقئ معکوس
روز چھپتا ہوں قرض خواہوں سے
کیسے بنواؤں خوش نما ملبوس
ہر ضرورت ہے بانجھ،بے ایجاد
عید کی پیشگی مبارک باد

تھک گیا ہے مرا رفوگر بھی
یوں ادھڑتا ہے چاک سل سل کر
کہتے ہیں عید ہنس کے ملتے ہیں
میں اگر رو پڑا گلے مل کر؟
مجھ کو اس رسم سے رکھو آزاد
عید کی پیشگی مبارک باد

ایک پتھر ہے میرے سینے میں
یا دل_ناصبور رکھتا ہوں
عید پر خوش لباس بچوں سے
اپنے بچوں کو دور رکھتا ہوں
آپ ہی صید آپ ہی صیاد
عید کی پیشگی مبارک باد

عید کے دن کہیں نکلتے نہیں
میں، مری اہلیہ، مری اولاد
اس لیے دوستوں کی خدمت میں
عید کی پیشگی مبارک باد

خوش رہیں سب بقدر _استعداد
عید کی پیشگی مبارک باد...!!




عظیم راہی


10 July 2013

ایک امت، ایک آسمان، ایک چاند








ایک امت، ایک آسمان، ایک چاند 
  
میں اکثر سوچتا ہوں کہ عین رمضان کے مہینے اور شوال کی عید کے دنوں میں ان لوگوں کی روحیں کس قدر خوش ہوتی ہوں گی، اپنی کامرانی پر ناز کرتی ہوں گی، جنہوں نے امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں۔ ڈیورنڈ لائن کے ایک جانب عید اور دوسری جانب روزہ، پاکستان کے شہر تفتان میں روزہ اور چند قدم دور ایران کے میر جادہ میں عید، اردن میں عید اور شام میں روزہ، سعودی عرب میں عید اور عراق میں روزہ۔ میں پہلے یہ سمجھتا تھا کہ یہ عید اور رمضان پر چاند کا اختلاف صرف پاکستان کا ہی خاصہ ہے  لیکن 2005 میں برطانیہ اور 2007 میں ایران میں رمضان گزار کر مجھے اس امت مسلمہ کی بےبسی، کسمپرسی اور بیچارگی پر بہت ترس آیا۔ سب سے زیادہ حیرت تو مجھے برطانیہ کے مسلمانوں پر ہوئی جہاں ملک بھی ایک، مطلع بھی ایک، دیکھنے والے بھی ایک، لیکن کوئی دلیل لاتا ہے کہ چاند سعودی عرب نکل آیا ہے عید کرو، کوئی کہتا ہے کہ چاند ایران میں نکل آیا عید کرو، کوئی اردن اور کوئی انڈونیشیا، حیرت کی بات یہ ہے کہ جو علماءکرام وہاں عید کی نماز پڑھاتے ہیں وہ ہزاروں میل دور چاند دیکھنے کی گواہی پر روزہ بھی رکھواتے ہیں اور عید بھی پڑھاتے ہیں لیکن جب یہ سب اپنے ملک میں ہوتے ہیں تو ہر ایک کو اپنا ملک، اپنا مطلع، اپنی گواہی اور اپنی رویت یاد آ جاتی ہے۔

ملت اسلامیہ کو ملکوں میں تو کفار نے ایک سازش کے تحت تقسیم کیا اور ان کی لکیریں کھینچیں لیکن ہم نے ان حدود میں قید ہو کر جس طرح امت مسلمہ کو تقسیم کیا اس سے تمسخر ہمارے علماء کا اڑا، مذاق اور تضحیک کا نشانہ بھی وہی بنے۔ ایران میں ہماری طرح ایک رویت ہلال کونسل ہے۔ رمضان آیا تو 29 شعبان کے بعد لوگوں کو یوم شک کا روزہ رکھنے کے لیے کہا گیا جس کے بارے میں اعلان یہ  تھا اگر دوپہر بارہ بجے تک چاند نظر آنے کا اعلان نا ہوا تو روزہ توڑ دیا جائے۔ اگلے دن ساڑھے گیارہ بجے اعلان کیا گیا کہ چاند نکلنے کی شرعی شہادتیں موصول ہوئی ہیں اس لیے آج پہلا روزہ ہے۔ میں گاڑی میں تہران شہر میں گھوم رہا تھا، ریڈیو پر اعلان ہوا، میرا ڈرائیور مسکرایا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا "ہمراہ آفتاب آمد" یعنی آج چاند سورج کے ساتھ ساتھ تشریف لایا ہے۔ یہ ایرانی حس مزاح کا ایک خاص پیرایہ تھا لیکن اس اعلان، اس طرح روزہ اور اس صورت پر میں جس جگہ بیٹھا، جس جگہ گیا، صرف زیر لب تبصرے تھے، مذاق تھا اور تمسخر تھا... اور نشانہ علماء۔۔ میں نے ان دونوں ملکوں میں لوگوں سے طرح طرح کے سوال کیے، سائنسدانوں سے ملا، مطلع کی بحث اور فقہ کی کتابیں کھنگالیں، لمبی لمبی طویل اور خشک بحثیں پڑھیں اور میں سوچنے لگا کہ یہ چاند کے اختلاف اور رویت اور علاقوں کی تقسیم پر امت میں اختلاف کا مسئلہ کب سے شروع ہوا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب تک خلافت عثمانیہ کی مرکزیت قائم تھی یا مسلمان اسے مرکز کی حیثیت سے تسلیم کرتے تھے، پوری امت میں ایک دن عید اور ایک دن روزہ ہوتا تھا۔

اس زمانے میں لکھے گئے مولانا محمود الحسن اور مولانا حسین احمد مدنی کے سفرناموں سے پتہ چلتا ہے کہ عرب اور ہندوستان میں چاند کی ایک تاریخ چلتی تھی۔ مولانا سید محمد میاں نے اسیران مالٹا کے نام جو سفرنامے ترتیب دیے ہیں ان میں بھی حجاز اور ہندوستان میں ایک ہی تاریخ کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن یورپی طاقتوں نے جب مسلمانوں کو نسل، رنگ اور زبان کی بنیاد پر اس طرح تقسیم کیا جسے میز پر رکھ کر کیک کاٹا جاتا ہے اور ہر ایک کی اپنی اپنی سلطنت وجود میں آئی اور ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ مطلع، علیحدہ علیحدہ چاند اور علیحدہ علیحدہ عید، سب کا علیحدہ علیحدہ حج، علیحدہ علیحدہ یوم عرفات جس میں الله تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے، اور علیحدہ علیحدہ لیلتہ القدر، اگر میرے الله کو یہی مقصود اور مطلوب ہوتا تو وہ قران پاک میں لیلتہ القدر یعنی قدر والی رات کی جگہ لیلات القدر یعنی قدر والی راتوں کا ہی تذکرہ کر دیتا کہ مسلمانوں کو ان راتوں کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کا موقع مل سکے۔  مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس مسئلے پر اختلاف کا عالم تو ہماری فقہ میں نظر نہیں آتا۔

رسول الله صلى الله عليه وسلم کی احادیث کا مطالعہ کریں تو وہ مشہور حدیث جسے بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو دونوں سے روایت ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ دو اور اگر بادل چھائے ہوں تو شعبان کی گنتی پوری کرو یعنی چاند دیکھنا ضروری ہے جسے رویت کہتے ہیں۔ اسی رویت کی بنیاد پر امت کا اختلاف غیروں کی ہنسی کا باعث ہے۔ یہ چاند اندھے، ضعیف العمر، قیدی، بچے، مسافر اور بہت سے لوگ نہیں دیکھ پاتے تو کیا ان پر روزہ فرض نہں ہوتا۔ فرض ہوتا ہے لیکن دوسروں کی شہادت کی بنیاد پر جنہوں نے چاند دیکھ لیا۔ اب اس ایک شہادت یا دو شہادتوں یا کئی شہادتوں کو ایک ملک کی حدود تک کس نے محدود کر دیا۔ حدود بھی وہ جو یورپی مشرک قوتوں نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے بنائی تھیں۔ اس شہادت کا اطلاق ڈیورینڈ لائن پر آ کر کیسے رک جاتا ہے؟۔ ایران میں شہادت کا اطلاق زاہدان پہنچ کر کیوں ختم ہو جاتا ہے۔ کیا امت مسلمہ کی حد اور الله  تعالیٰ کے چاند کی حدیں بھی اسی طرح بانٹی ہوئی ہیں۔ ترمزی اور سنن ابو دائود میں جو مشہور حدیث درج ہے کہ ایک اعرابی رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے چاند دیکھا ہے۔ آپ  صلى الله عليه وسلم نے پوچھا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلى الله عليه وسلم الله کے رسول ہیں۔ اس نے کہا ہاں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا بلال! اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں۔ اس حدیث میں رسول خدا صلى الله عليه وسلم نے اعرابی سے نہ اس کا علاقہ دریافت کیا اور نا فاصلہ پوچھا بلکہ صرف مسلمان ہونے کی گواہی لی اور اس گواہی کی بنیاد پر سب کو روزہ رکھنے کو کہہ دیا۔ نہ اختلاف مطلع کی بات ہوئی اور نا دوری اور نزدیکی کی۔

فقہ کی تمام کتب کو دیکھنے کے بعد میں حیرت میں گم ہو جاتا ہوں کہ یہ سب تو ایک امت اور ایک خیال کی طرف رہنمائی کر رہی ہیں۔ احناف میں الہدایہ اور الدرالمختار میں تو یہاں تک کہہ دیا کہ اہل مشرق پر اہل مغرب کی رویت دلیل ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ اگر اہل مغرب چاند دیکھ لیں تو اہل مشرق پر روزہ فرض ہو جاتا ہے۔  مالکیوں کی کتابوں ھدایة ال مجتہد، مواہب الجلیل اور قاضی ابو اسحاق نے ابن الماج ثون میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر لوگوں کے بتانے سے یہ معلوم ہو جائے کہ دوسرے ملک والوں نے چاند دیکھ لیا ہے تو روزے کی قضا واجب ہو جائے گی۔ یہی کچھ شافیوں کے ہاں المغنی اور حنابلہ کے ہاں الاحناف میں درج ہے۔ ان سب کا مفہوم یہ ہے کہ اگر امت میں کسی ایک جگہ چاند نظر آ جائے، گواہ عادل ہوں تو پوری امت پر روزہ فرض ہو جاتا ہے۔ یہ وہ قول ہے جو عین سائنس کے اصولوں کے مطابق ہے۔ ہر چاند 29 دن 12 گھنٹے 28 سیکنڈ کے بعد اس دنیا کے مطلع پر طلوع ہوتا ہے۔ جس جگہ بھی وہ طلوع ہوا اگر وہاں کوئی مسلمان اسے دیکھے اور آج کے ذرائع ابلاغ کے دور امن پوری دنیا پر نشر ہو تو سب کو اطلاح ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا کا آپس میں اوقات کا فرق 12 گھنٹے نفی اور 12 گھنٹے جمع ہوتا ہے اور مسلم امہ کی اکثریت مراکش سے انڈونیشیا تک صرف چھ سات کے ٹائم زون میں رہتی ہے۔ اب جب چاند ایک مقام پر ایک دفع طلوع ہو گیا تو وہی اول یا پہلی کا چاند ہے جو اپنا سفر جاری رکھتا ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتا۔  29 دن اور 12 گھنٹے میں سے اس کا ایک دن کم ہو جاتا ہے۔ اگلے دن جس مطلع پر بھی نظر آئے وہ اپنی عمر سے ایک دن کم کر چکا ہو گا۔ مگر کمال ہے ہمارا کہ ہم اس کے تین بلکہ بعض دفعہ چار دن گزرنے کے بعد بھی اسے پہلی کا چاند، ہلال عید ہی کہتے ہیں اور پوری دنیا ہمارا تمسخر اڑاتی ہے۔
    
ہم قبلے کا رخ مقناطیسی سوئی سے کرتے ہیں اور سب اس پر متفق ہوتے ہیں۔ نمازوں کے اوقات کا تعین سورج کے سائنسی اعداد و شمار پر کرتے ہیں لیکن پوری امت مل کر ایک ایسا طریقہ کار وضع نہیں کرتی کہ مشرق و مغرب میں جس جگہ بھی پہلے چاند دیکھا جائے اس کا اطلاق پوری امت پر کر دیا جائے۔ اس لیے کہ الله اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کے نزدیک امت کی حدود نا تو تورخم پر ختم ہوتی ہیں اور نہ تفتان سے شروع ہوتی ہیں۔ کیا اسلامی ملکوں کی تنظیم جسے ایک خاموش اور مردہ تنظیم کی حیثیت حاصل ہے اپنے وسائل سے مراکش سے لے کر برونائی تک چاند کی رویت کا اہتمام نہیں کر سکتی تا کہ مسلمانوں کی بیک وقت عید ہو، رمضان شروع ہو، ایک لیلتہ القدر ہو، ایک یوم عرفات اور یوم حج ہو، یہ وہ واحد نقطہ ہے کہ اگر صرف ایک نقطے پر عمل کر لیا گیا تو دیکھنا کیسے اس امت میں افتراق ڈالنے والا مغرب بے چین ہو گا، اس کی راتوں کی نیند حرام ہو گی لیکن کیا کریں ہماری تو دکانیں اختلاف سے سجتی ہیں۔ ہم برطانیہ میں ایک مطلع اور ایک ملک ہونے کے باوجود تین تین عیدیں پڑھاتے ہیں۔ ہمیں اپنے اپنے ملک کی رویت ہلال کمیٹیاں عزیز ہیں۔ ہم کسی دوسرے ملک کے چاند کو اس لیے امت مسلمہ کا چاند نہیں مانتے کہ وہاں کا مسلک ہمارے مخالف ہے حالانکہ چاند تو میرے رب کا ایک ہے، ساری کائنات کے لیے، سارے مسلمانوں کے لیے، ہم کتنے ظالم ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کی بعثت کو پوری دنیا کے انسانوں کے لیے مانتے ہیں لیکن چاند اپنے مطلع پر طلوع کرتے ہیں۔ اس لیے کہ تمام مطلع مغربی استعمار نے ہمارے درمیان تقسیم کر رکھے ہیں۔

 اوریہ مقبول جان
 


17 August 2012

عید مبارک



امید کرتا ہوں کہ آپ سب ٹھیک ٹھاک ، ایمان کی بہترین حالت میں‌ اس پیغام کو پڑھ رہے ہونگے۔ میری طرف سے آپ سب کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں اور اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ آپ ہمیشہ خوشیوں سے بھرپور عیدیں منائیں ۔آمین

میری سب قارئیں سے التماس ہے کہ خوشی کے اس موقع پر اپنے مصیبت زدہ بہنوں اور بھائیوں کو مت بھولیں ۔ جو غربت کی سطح سے نیچے زندگیاں گزار رہے ہیں اور ان کے لئے گھر میں‌ایک وقت کی ہانڈی روٹی کرنا بھی محال ہے۔ اور وہ لوگ بھی جب شام کو گھروں کو لوٹتے ہیں تو ان کے بچے ان کی طرف حسرت بھری اور پُر امید نظروں سے دیکھتے ہیں کہ شاید ان کا باپ یا بھائی ان کے لیے کوئی عید گفٹ لایا ہو لیکن وہاں کچھ نہ پاکر ان کے معصوم چہروں پہ مایوسی پھیل جاتی ہے ان کے معصوم ذہنوں پہ اس وقت کیا گزرتی ہے اس کیفیت کے بارے میں‌ یا تو اللہ پاک بہتر جانتا ہے یا وہ لوگ جو اس کیفیت سے گزرتے ہیں۔ میری اللہ پاک سے التجا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی کو کسی کا محتاج نہ کرے۔ ہم سب کو چاہئیے کہ ہم ان لوگوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں کیونکہ ہماری طرح ان کا بھی ان خوشیوں کو منانے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہمارا ہے۔ بھلے ابھی ان کےلئے حالات سازگار نہیں ہیں لیکن ان شا اللہ یہ وقت بھی بدل جائے گا۔ لیکن آج کی آپ کی ان کے ساتھ کی گئی نیکی، مسکراہٹ کے ساتھ بڑھایا گیا ہاتھ یہ وہ لمحے ہیں جن کو وہ کبھی بھی بھلا نہیں‌ پائیں گے۔ اور ان کے دلوں سے آپ کے لئے سچی دعائیں نکلیں گی۔

عید کے موقع پر اپنے ان مسلمان بھائی بہنوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں جنھیں مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے

اللہ ہم سب کو نیکی کرنے کی توفیق دے۔ آمین

ایک بار پھر آپ سب کو میری طرف سے بہت بہت عید مبارک ہو۔

تَقَبَّلَ اللَّہ ُ مِنَّا و مِنکُم