Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Showing posts with label faraz. Show all posts
Showing posts with label faraz. Show all posts

11 July 2013

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے مفتیان کرام سے چند سوالات





مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے مفتیان کرام سے بصد احترام چند سوالات

١) جب بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا تو ان کا چاند ایک تھا یعنی بنگال میں چاند نظر آنے پر ہم روزہ رکھتے اور عید کرتے تھے تو آج ان کا چاند کس دلیل پر الگ الگ ہو گیا؟

٢) اگر آج ہندوستان اور افغانستان ایک ملک بن جائیں تو کیا ان کا چاند الگ الگ ہو گا یا ایک ہوگا تو کس دلیل پر ہو گا؟

٣) افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر ایک پہاڑ پر بیٹھے ہوئے دو مسلمان چاند کو دیکھتے ہیں لیکن صرف افغان روزہ رکھتے ہیں تو پاکستانی روزہ کیوں نہیں رکھتے اس کی کیا دلیل ہے؟

٤) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کے لئے جاتے تھے تو مدینہ منورہ کی تاریخ کے حساب سے جاتے تھے یا مکہ والوں کی تاریخ کے حساب سے جاتے تھے؟

٥) عرفہ کے روزہ کی فضیلت آپ کو معلوم ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے کہ اس سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور عرفہ وہ ہے کہ جس دن حجاج کرام عرفہ کے میدان میں کھڑے ہوں عرفہ اپنے اپنے ملک کا نہیں صرف ایک ہی عرفہ ہے جس روزعرفہ ہوتا ہے تو ہم عرفے کا خطبہ بذریعہ ریڈیو یا ٹی وی سنتے اور دیکھتے ہیں اور اسی دن ﷲ عزوجل آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے جس طرح اُس کی شان کے لائق ہے؟(صحیح مسلم) کیونکہ یہ حدیث عرفہ کے دن کی ہے اور عرفہ تمام امت کے لیے ہے یا کہ صرف مکہ والوں کے لیے؟

٦) کیا ہم عرفے کا روزہ اس دن رکھیں گے جب حاجی میدان عرفہ میں ہوں یا جب عرفہ کا دن گزر جائے تو پھر اپنے ملک کے حساب سے رکھیں گے؟

٧) لیلۃ القدر کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ با برکت رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اوراس رات میں فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے خیر و برکت کےساتھ اترتے ہیں.... اب سوال یہ ہے کہ جس لیل میں ملائکہ سعودیہ میں نزول فرمائیں گے لیلۃ القدر کی برکات کے ساتھ کیا وہ سعوری عرب کی انگریز کی مقرر کی ہوئی فضائی سمندری بری حد کو پار نہیں کرنے پائیں گے یا نہیں کریں گے کہ پاکستان کا بھی چکر اسی رات لگا لیں؟ جبکہ اہل علم سے سننے میں آیا کہ وہ ایک رات میں ساری زمین کا چکر لگا کر چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے مولوی کہتے ہیں کہ نہیں وہ اگلی رات پاکستان آئیں گے۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا وہ بھی ہماری طرح علیحدہ علیحدہ رویت ہلال کمیٹی کا اہتمام کرتے ہیں یا انکے ہاں ایک ہی چاند طلوع ہوتا ہے۔



12 February 2013

منہاجیوں کا ہر بات میں سے کرامت تلاش کرنا


جب سے طاہر القادری صاحب کےکارنامے “بےنقاب ہوئے ہیں تو منہاجی دوستوں نے ایک نئی بات پھیلانا شروع کی ہے کہباقی سب باتیں چھوڑو اور یہ دیکھو کہ قادری صاحب سو سے زائد کتب لکھ چکے ہیں، کچھ جگہ تو یہ تعداد ہزار بتائی جا رہی ہے۔
اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک کرامت ہے اتنی زیادہ کتب لکھنا ورنہ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں (یعنی منہاجی قادری صاحب کو انسان تسلیم نہیں کرتے :) )

بہت سی جگہوں پر لوگوں نے منہاجیوں سے پوچھا کہ ان ہزار کتابوں کو اگر آن لائن فراہم نہیں بھی کر سکتے تو کم از کم ان کے ناموں کی فہرست اور ساتھ یہ کہ کس پبلشر نے اسے شائع کیا ہے ان کے نام ہی فراہم کر دیجیے تا کہ ہم دیکھ سکیں کہ اس میں کونسی کرامت کہاں کہاں چھپی ہوئی ہے۔ ابھی تک تو کسی منہاجی نے یہ ہزار والی لسٹ نہیں فراہم کی۔

منہاجی بھائیو آپ کی اگر پیری کا میعار صرف اتنا ہے کہ یہ شخص سو کتابیں لکھ چکا ہے، اور کوئی دو تین سو خواب سنا چکا ہے تو میں آپ کو اس سے بڑا پیر دکھاتا ہوں۔

جس پیر کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ ابھی تک 900 سے زائد بین الاقوامی تحقیقی مقالاجات لکھ چکے ہیں، یاد رکھیں کہ تحقیقی مقالہ کوئی  اونگی بونگینہیں ہو سکتی اور متعلقہ شعبے کے اعلیٰ ترین پڑھے لکھے لوگ اس کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد شائع کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اس جائزے میں نہ صرف زبان، گرائمر اور سٹائل کو دیکھا جاتا ہے بلکہ اس بات کو بخوبی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ یہ مقالہ انسانیت کو کوئی فائدہ بھی دے سکتا ہے یا نہیں؟ اور جو چیز اس مقالے میں بیان کی گئی ہے وہ آج سے پہلے کبھی کسی اور نے تو نہیں لکھی اور یہ نئی تحقیق ہے۔ اور ہاںکاپی پیسٹکی تو بالکل بھی گنجائش نہیں ہو سکتی اس میں۔

ان 900 مقالاجات کے ساتھ ساتھ وہ 150 سے زائد مکمل کتب اور 56 کتب کے باب(
book chapters) لکھ چکے ہیں ، اور اس کے نام پر 28 پیٹنٹ patent بھی ہیں۔ 
اسے ان  کی کارکردگی پرانھیں  تمغہ امتیاز، ستارہ امتیاز، حلال امتیاز، نشان امتیاز،
UNESCO پرائز، اور بہت سے قومی اور بین القوامی ایوارڈ مل چکے ہیں۔

منہاجی بھائی اب آپ کوئی اور دلیل سوچ رہے ہیں، اور جو آپ سوچ رہے ہیں میں اس کا بھی جواب دے دیتا ہوں۔۔ اس شخص نے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں طاہر القادری سے کئی گنا زیادہ خطبات اور لیکچر دیے ہیں جن میں قابل ذکر وہ سو سے زائد خطبات ہیں جو وہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں دے چکے ہیں اور تقریبا اتنی ہی کانفرنسیں وہ خود بھی منعقد کروا چکے ہیں، ان کے کم از کم 77 (کم از کم اس لیے کہا کہ یہ تعداد پرانی ہے، اب تک بڑھ چکی ہو گی) شاگرد ان کی شاگردی میں
پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔


تو اب بتائیے کیا یہ طاہر القادری سے زیادہ بڑی کرامت نہیں؟؟؟؟
جی ہاں!! ہے تو سہی، تو اب یوں کریں کہ قادری کو چھوڑیں اور اس شخص کو  
پیر پکڑیں 

او ہاں!! یاد آیا میں نے اس پیر کا نام پتا تو بتایا ہی نہیں، اس کا نام ہے
ڈاکٹر عطا الرحمن۔  یہ پاکستان کے ایک نامور سائنسدان اور سکالر ہیں۔ کل سے سارے منہاجی پہنچ جائیں ان کے گھر۔

واللہ اعلم بالصواب

3 January 2013

سو پیاز اور سو جوتے



ایک بادشاہ نے اپنے ایک وزیر کو اس کی کسی سنگین غلطی پر سزا دینا چاہی اور کہا کہ یا تم 100 کچے پیاز ایک ہی نشست میں کھا لو اور یا پھر دربار میں سرعام 100 جوتے کھا لو۔

وزیر نے سوچا کہ سب کے سامنے 100 جوتے کھانے سے تو بہت بے عزتی ہو گی اس لئے 100 پیاز کھا لیتا ہوں۔

جب اسے پیاز کھانے کو مہیا کئے گئے تو چند پیاز کھانے کے بعد اس کی حالت بگڑنے لگی۔

اب وہ بولا مجھ سے مزید پیاز نہیں کھائے جاتے، آپ مجھے جوتے لگا لو۔

دو چار جوتے پڑے تو ہوش ٹھکانے آگئے، اب وہ بولا کہ مجھے جوتے مت مارو، میں پیاز کھاؤں گا۔

کرتے کرتے ۔۔۔ وہ جوتے بھی کھاتا گیا اور پیاز بھی۔ آخر پر جب 100 پیاز کا عدد پورا ہوا تو وہ 100 جوتے بھی کھا چکا تھا۔

یہی حال اس وقت امریکہ کا ہے، وہ میدان جنگ میں جوتے کھا کر تھکتا ہے تو مزاکرات کے پیاز کھانے پر راضی ہو جاتا ہے۔

مزاکرات کی شرائط سن کر پھر سے جوتے کھانے کے لیے میدان میں آ جاتا ہے۔
اور وہ بھی سو جوتے اور سو پیاز مکمل کرنے کے بعد ہی واپس جائے گا۔

طالبان نے مزاکرات کی پہلی شرط یہ رکھی ہے کہ امریکہ و اتحادی افواج افغانستان چھوڑ دیں، ہم پھر بات کریں گے۔
------------------------------------------------------------

آج کی خبر ہے کہ امریکہ نے طالبان کو آدھا افغانستان دینے کی پیشکش کی ہے
۔ جسے طالبان نے مسترد کر دیا 
 

یعنی امریکہ کی دم پر طالبان کا پاؤں آ چکا ہے اور وہ بری طرح بوکھلا گیا ہے۔
امریکہ نے جان چھڑانے کے لیے ایک بار پھر طالبان سے رابطہ کیا ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ اگر طالبان چاہیں تو فوری طور پر جنوب مشرق کے 14 صوبوں کا کنٹرول ان کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ مگر طالبان قیادت نے اس پر بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اپنا پرانا موقف دہرایا ہے کہ جب تک غیر ملکی فورسز افغانستان سے نکل نہی جاتیں، امریکہ سے کوئی بات نہی کی جا سکتی۔ افغانستان ایک اکائی ہے۔ امریکی فوری طور پر یہاں سے نکل جائیں، بصورت دیگر ان سے جنگ جاری رہے گی۔




20 April 2012

آخر کیوں؟




آخر کیوں؟ آخر یہ سب عذاب ہم پر کیوں آتے ہیں؟
تحریر : فراز اکرم


کبھی ہم نے غور کیا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے ہمارے ساتھ؟ کبھی زلزلے، کبھی سیلاب، کبھی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کا عذاب اور کبھی ظالم حکمران مسلط ہونے کا عذاب؟

آئیں تھوڑا پس منظر میں جاتے ہیں جہاں ہمارے آباء و اجداد الله سے وعدہ کر رہے تھے کہ اے الله ہمیں ہندو اور انگریز کی دھری غلامی سے نجات دے، ہمیں ایک آزاد ملک دے جہاں ہم تیرے دین کا بول بالا کریں گے۔ تیرے نبی کا دیا نظام قائم کریں ۔ ہم اسلام کے نظام کو قائم کر کے یہاں سے امّت مسلمہ کا احیا کریں گے۔۔ ہم نے نعرے لگائے کہ پاکستان کا مطلب کیا  لا الہ الا اللہ
الله نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور ہمیں زمین کی حکمرانی دی ۔۔

قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو سورة الأعراف(129 (

پھر اس کے بعد ہم اپنے وعدے سے مکر گئے۔ الله نے کہا کہ

وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَٰهٌ
اور وہی (ایک) آسمانوں میں معبود ہے اور (وہی) زمین میں معبود ہے۔
سورة الزخرف 84

مگر ہم نے کہا نہیں الله آسمانوں کا إله تو ہو گا زمین کا نہیں ہے۔ زمین کے حکمران ہم خود ہیں
"Sovereignty belongs to peoples"
یہاں اس کا بنایا قانون مانا جائے گا جو عوام سے ووٹ لے کر حکمران بنتا ہے، حاکمیت صرف اسی کی ہو گی، وہ چاہے خلاف قران قانون بنائے ہم سر تسلیمِ خم کرتے ہیں۔۔ پھر حکمرانوں نے امریکہ کو اپنا إله بنا لیا اور ہم دیکھتے رہے ۔ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں ہم نے انفرادی اور اجتماہی سطح پر وہ وہ جرائم کیے، وہ وہ ظلم کیے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہم نے ہر وہ کام کیا جو اسلام کے خلاف تھا ۔ ہم نے اسلام کا نام لینے والوں پر مساجد میں بمباری کی، ان پر فاسفورس بم پھینکے۔ ہم نے اپنے ملک کے اندر سیاست کے لیے قتل و غارت اور ظلم و ستم کا بازار گرم کیا۔۔

پاکستان بننے سے پہلے ہم الله سے وعدے کرتے تھے کہایک ہوں گے مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے، اور پاکستان بننے کے بعد ہم نے نیشنلزم کو پروان چڑھایا۔ ہم نے کہا کہ عراقی و افغانی مسلمان سے ہمارا تو کوئی تعلق نہیں ہم نےسب سے پہلے پاکستانکے نعرے لگائے۔ اور اس تازہ صلیبی جنگوار اگینسٹ اسلاممیں صلیبیوں کےفرنٹ لائن اتحادیبنے۔ اسلام نے نام پر قائم ہونے والی اسپاک سر زمینسے ستاون ہزار بار امریکی طیارے اڑ اڑ کر ہمارے پڑوس میں غریب اور مظلوم مسلمان بچوں کے چیتھڑے اڑاتے رہے اور ہم ڈالر لے کر ناچ گانوں اور فحاشی و عریانی پھیلانے میں مصروف ہو گئے۔۔ آج بھی صلیبی افواج(نیٹو) کا سامان رسد ہماری سرزمین سے، ہماری نگرانی میں جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہم خود کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں ۔ ہم نے ڈالروں کی خاطر اپنی بیٹیوں کو فروخت کیا ۔۔ اپنے بچوں، خواتین اور بزرگوں کو ڈرون حملوں میں شہید کروایا۔ ہمارے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔۔۔ ہم نے تو پڑوس کے اسلامی ملک کے سفیر تک تو نہیں چھوڑا اسے بھی تمام سفارتی آداب کو بالا طاق رکھتے ہوئے امریکہ کو فروخت کر دیا۔

ہم نے ہر ہر موقع پر الله سے وعدہ خلافی کی، اس کا قوانین کا مذاق اڑایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم پر ایک عذاب نازل ہو رہا ہے۔

وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ
اور ہم چکھاتے رہیں گے ان کو چھوٹے چھوٹے عذاب اس بڑے عذاب سے پہلے تاکہ یہ لوگ باز آجائیں (اپنی سرکشی سے (
سورة السجدة 21

یہ چھوٹے عذاب ہیں ہمیں جنجھوڑنے کے لیے ، کبھی زلزلہ آ گیا، کبھی سیلاب آ گیا ، کبھی طیارے گرے، کبھی تودے گرے، کبھی ملک دو لخت ہوا، کبھی ہم بوری بند لاش بنے۔ ہم نے اسالْعَذَابِ الْاَدْنٰىسے بھی کوئی سبق نہی سیکھا، ابالْعَذَابِ الْاَكْبَرِسروں پر کھڑا ہے ۔ قوموں پر بڑا عذاب دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ اس قوم کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے ۔ یعنیتمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ۔

کسی نے یہ بقراط سے جاکے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا  دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
دوا اور پر ہیز سے جی چرائیں
یو نہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفان بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی

لیکن ہم ابھی تک سو رہے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ الله کا حکم آ جائے کہ ہمیں تبدیل کر کے یہاں کسی اور قوم کو آباد کر دیا جائے۔

اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے
سورة المائدة 54



کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا لہذا اس کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ اگر یہ سچ ہے کہ اللہ نے اس زمین کو کسی خاص مقصد کیلئے وجود بخشا ہے تو اللہ اتنی اہم زمین پر ہم جیسے بزدلوں، خودغرضوں، خواہشات کے غلاموں اور الله کے نافرمانوں کا وجود کبھی برداشت نہیں کریگا۔ پاکستان ضرور باقی رہے گا بلکہ اس کی حدود کشمیر سے لیکر کینیا تک پھیل جائیں گی لیکن یہاں موجود وہ لوگ جو عظیم مقصد کو پورا کرنے کے بجائے اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں ان کو مٹادیا جائے گا اور اس ملک کو ایسے ہاتھوں میں دے دیا جائے گا جنہیں دیکھ کر 1947ء کے شہداء کی روحیں خوش ہو اٹھیں گی۔




Tags:
Pakistan, airplane, aeroplane, crash, azaab, sailab, zalzalay, wajoohat,
qaim rahay ga. Toba

28 March 2012

ایک یہودی اسکالر کے کھلے خط کا دانت توڑ جواب




تحریر: فراز اکرم  




اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بھائیو اور بہنو کل ایک معروف یہودی سکالرڈاکٹر طوواہرٹمین کا پاکستانیوں کے نام
ایک خط دیکھنے کو ملا. خط کا عنوان ہے
پاکستانی ہم سے کب تک بلاوجہ نفرت کرتے رہیں گے


یہ خط اصل غلیظ یہودی ذہنیت سے بھرپور ہے. اس خط کے زریعے ایک طرف تو مسلمانوں میں آپس میں نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دوسری طرف اسرائیل اور یہودیوں کو معصوم اور مظلوم ثابت کرنے کی کوشش. خط کا مدھا یہ تھا کہ پاکستان کو چاہئیے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے اور دوستانہ تعلقات رکھے.

یہ خط پاکستانیوں کو بیوقوف بنانے اور اپنے حق میں رائے تیار کرنے کی ایک کوشش ہے. یہ تحریر تفصیل کی متحمل نہیں لہٰذا پہلے ہم ڈاکٹر طوواہرٹمین کے کلمات نقل کریں گے اور ساتھ ساتھ ان پر مختصر تبصرہ کر تے جائیں گے.



محترمہ فرماتی ہیں کہ



"پاکستان کے بارے میں قائدِاعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلمانانِ ہند کیلئے ایک ایسی تجربہ گاہ ہوگا جہاں اسلام کے بتائے ہوئے زریں اصولوں عملی طور پر نافذ کیے جا سکیں۔ مسلمانانِ ہند کی لازوال جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی اور مسلمانوں کی ایک نظریاتی آزاد ریاست پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 پر ابھر آئی۔
ایسی ہی ایک آزاد ریاست کا خواب بنی اسرائیل کے راہنماؤں نے بھی دیکھا۔ ایک ایسی امن پسند ریاست جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دربدر ظلم و ستم کا شکار یہودیوں کا اپنا گھر کہلا سکے، جہاں دنیا کے ذہین ترین لوگ بلا خوف و خطر اپنی صلاحتیں بنی نوح انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر سکیں، نئی نئی ایجادات کی جاسکیں،"




جواب(
کہنے کی حد تک تو یہ میٹھی میٹھی باتیں بہت پیاری ہیں پر حقیقت اس کے برعکس ہے.
اگرامن پسند ریاستاسے کہتے ہیں جو لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کی لاشوں پر تعمیر کی جائے تو ایسی امن پسند ریاست کو صفہ ہستی سے مٹانا ہم اپنا فرض جانتے ہیں۔ اور ہم آپ کی اس تقسیم یعنی عربی مسلمان، عجمی مسلمان، پاکستانی مسلمان اور افغانی مسلمان کو بھی تسلیم نہی کرتے، آپ نے پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست تو کہا لیکن شاید آپ کو سہی طرح ہمارے نظریات سے واقفیت نہی. ہمارے نظریات بہت واضح ہیں۔ ہم امت مسلمہ کا حصہ ہیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والا مسلمان چاہے کسی بھی رنگ، کسی بھی نسل کا ہو، جو بھی زبان بولتا ہو وہ ہمارا بھائی ہے۔ اس کی تکلیف ہماری تکلیف ہے، اس کا درد ہمیں محسوس ہوتا ہے۔ یہ امت ایک جسد واحد کی طرح ہے۔ اس لیے آپ کی یہ دلیل کہ چوں کہ آپ نے پاکستانیوں پر کوئی ظلم نہی کیا عربوں پر کیا ہے، اس لیے ہمیں آپ سے پیار محبت کا رشتہ بنانا چاہئیے بالکل بھی کارآمد نہی ہو سکتی۔۔

آپ کے پورے خط کی بنیاد صرف ایک ہے نقطہ ہے کہ یہ جنگ یہودیوں اور عربوں کی ہے اس لے پاکستانیوں کو بیچ میں نہی کودنا چاہئیے۔ اس لیے آپ کے پورے خط کی عمارت کو گرانے کے لیے میرا اتنا جواب ہی کافی ہے۔  لیکن میں کچھ اور باتوں کی وضاحت بھی کرنا چاہوں گا۔

آپ کا پاکستان اور اسرائیل کے قیام کو ایک جیسا کہنا بھی بالکل خرافات ہے. قیام پاکستان کے لیے اس سرزمین پر بسنے والوں کا قتل عام کر کے باہر سے کسی قوم کو لا کر نہی بسایا گیا. پاکستان جہاں قائم ہے وہ مسلمانوں کو اپنی زمین ہے۔
اس کے برعکس یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین منتقل کیا گیا، فلسطین کے اصلی و حقیقی باسیوں کی زمین پر بزور طاقت قبضہ کیا گیا. بات صرف مسلمانوں کے ایک علاقے پرغاصبانہ قبضے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس حصے کو مسلمانوں کی صفوں پر حملے کرنے اور ان کی خواہشات اور آرزؤں کو کچلنے کے لئے محاذ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

-------------------------------------------------------------------------------


ڈاکٹر طوواہرٹمین)

عجمی مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ عرب مسلمان حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں اور یہودی حضرت یعقوب کی اولاد جنکا لقب اسرائیل تھا جبکہ دونوں کے دادا جان حضرت ابراہیم ایک ہی ہیں جن پر سلامتی اور انکی اولاد آلِ ابراہیم کی سلامتی جس میں لامحالہ یہودی بھی شامل ہیں، کیلئے ہر مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نماز میں درود بھیجتا ہے۔ ایک ہی مذہب، زبان، کلچر کے ہوتے ساتے امتِ مسلمہ کو تقسیم در تقسیم کرنے والے خلافتِ عثمانیہ کے باغی عربوں کی مملکت اسرائیل سے ناحق دشمنی سراسر نسلی منافرت ہے جسے انہوں نے اسلام اور کفر کی جنگ کا رنگ دیکر دیگر عجمی مسلمان ممالک کو بھی اسرائیل کی مخالفت میں جھونک ڈالا ہے۔
مسلمانوں کی اپنی لاعلمی یا پھر عربوں سے عقیدت ہے تو انہیں یہ باور کرنا چاہیے کہ ابو جہل بھی عرب تھا اور کفارِ مکہ بھی عرب تھے جنکی اولاد آج آلِ سعود کے نام سے سرزمینِ حرمینِ شریفین پر پھر سے قابض ہے
----------------------------------------------------------------------------------------------------------


جواب(

میں اس بات کی وضاحت پہلے بھی کر چکا ہوں کہ ہماری محبت اور نفرت کا معیارعرب اور غیرعرب نہی، اسلام ہے۔ اور دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان سے ہم محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ کفار مکہ اسلام قبول کرنے کے بعد اصحاب رسول کے درجے پر فائز ہوے تھے۔ حضرت خالد بن ولید کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا اور آپ چوں کہ ایک سکالر ہیں تو بہت کچھ جانتی بھی ہوں گی۔ خالد بن ولید نے مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں حصّہ لیا، مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، غزوہ احد کا  پانسہ مسلمانوں کے خلاف پلٹنے میں ان کا اہم کردار تھا پر حقیقت کا ادراک ہونے کے بعد سیف الله یہنی اللہ کی تلوار کا لقب ملا اور اسلام کے عظیم مجاہد بنے۔
ہم آپ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضے کو چھوڑ دیں، ان کا علاقہ انھیں لوٹا دیں۔ اور الله کی زمین پر فساد برپا مت کریں۔

 
آپ نے تاریخ کی بہت سی باتیں بھی کیں (جنھیں میں کہوں گا کہ آپ نے گپ لگائی) ۔ آپ کی تاریخ تھوڑی سی کلیئر کرتا چلوں۔ تفصیل لمبی ہو جائے گی صرف ایک دو باتیں یاد کروا دیتا ہوں۔

صہیونیت اپنی شرارتوں، اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں (علیہم السلام) کی گستاخیوں حکم عدولیوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے ایک معروف سزایافتہ قوم ہے۔ اس پر مزید قتل انبیاء (علیہم السلام ) کا جرم ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور انسانوں کی نگاہ میں بھی ایک جرم عظیم ہے۔ یہ قوم آخری وحی کے مطابق ایک ’مغضوب علیہم‘ قوم ہے۔

صہیونیت کو ایک سزا ملی حضرت عیسیٰ کے بزعم خویش قتل اور سولی دینے کے منصوبے پر عمل کرنے سے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے حضرت عیسیٰ کو بچا لیا کہ اپنے رسولوں کو دشمنوں سے بچانا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے مگر اس منصوبے کے مطابق بنی اسرائیل کے اس گروہ نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ سزا تھی ۔۔۔آج سے1940ء سال پہلے مشرق وسطی پر ایک رومی فاتح ٹائٹس نامی جنرل حملہ آور ہوا اس نے یروشلم کو برباد کیا اور یہود کو جلاوطن کر دیا۔ یہ سزا تھی بنی اسرائیل کے لئے۔ اس طرح یہ بنی اسرائیل جہاں سینگ سمائے پھیل گئے اور ہوتے ہوتے ساری دنیا کے اہم مراکز میں جا قدم جمائے۔ صہیونیت ایک نسلی مذہب اور اجتماعیت ہونے کی وجہ سے دنیا میں منتشر ہونے کے باوجود حد درجہ منظم رہے۔ یہ اُن کا دورِ انتشار(DIASPORRA) کہلاتا ہے۔ یہ دورتقریباً دوہزار سال پر پھیلا ہوا ہے۔
اس دوران یہ اصفہان، عراق، ہند، یونان، یورپ ، قسطنطنیہ، چین ،سپین وغیرہ میں سرگرم رہے۔ اس دورِ انتشار کا (خود ان کے بقول) سب سے اچھا پرامن حسین اور یادگار دور۔۔۔ مسلم سپین میں ان کا قیام ہے۔ جو آٹھ صدیوں پر محیط ہے مگر عربی محاورے کے مطابقاپنے لاغر کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو وہ ایک دن تمہیں ہی کاٹ لے گاسپین میں مسلم اقتدار کے خاتمے کا سبب یہی یہود۔۔۔ بنی اسرائیل کا بگڑا ہوا گروہ یا صہیونیت کے علمبردار تھے۔ صہیونی ڈکشنری میں نیکی اور احسان کے بدلے میں شاید ایسا ہی درج ہے۔

یہ بات بھی صہیونیت پر مسلمانوں اور بالخصوص حضرت عمر کا احسان ہے (جس کا بدلہ وہ انہیں گالیاں دے کر ادا کرتے ہیں) کہ جب بیت المقدس عیسائیوں کے پاس تھا تو یہودیوں کو وہاں داخلے کی بھی اجازت نہیں تھی اور جب مسلمانوں نے فتح کیا تو حضرت عمر نے یہودیوں کا مقدس مقام ہونے کی وجہ سے ان کو بھی وہاں آنے جانے کی اجازت دے دی۔ مگر اس پر پابندی رہی کہ صہیونیت کے علمبردار بیت المقدس میں آباد نہیں ہوسکتے۔

صہیونیت کا چہرہ مکروہ اور کرتوت سیاہ ہیں جس کی وجہ سے ماضی میں بھی بدنام ہوئے اور اب بھی ان شاء اللہ ناکام و مامراد ہوں گے۔

آپ نے یہ بھی فرمایا کہ
 
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
 
ڈاکٹر طوواہرٹمین)
 
"پاکستانی عوام کو اسرائیل کی ایکچیومنٹس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ انکے پاسپورٹ پر یہ ہدایت درج کی جاتی ہے کہ یہ پاسپورٹ ماسوائے اسرائیل تمام ممالک کیلئے کارآمد ہے۔ حالانکہ حکم الہیٰ ہے کہ تمام کی تمام دنیا اللہ کی ہے "
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
 
جی یقیناً تمام کی تمام زمین الله کی ہے۔ اور اللہ کی زمین کو فساد سے پاک کرنے کا حکم بھی ہے۔ جو ابھی تک ہماری کوتاہی کی وجہ سے نہی ہو سکا، ہم نقشے میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ فساد(اسرائیل) دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ آپ نے یہ خط لکھ کر اچھا کیا کہ اہمیں یاد کروا دیا۔ ہم یہ بات بھولے بیٹھے تھے(سب نہی کچھ)۔ اب یاد رکھیں گے کہ ہم نے الله کی زمین کو فساد(اسرائیل) سے پاک کرنا ہے۔

فلسطینی ریاست پر فلسطینی عوام اور مسلمانوں کی حکومت کے علاوہ کوئی بھی اقتدار غاصبانہ اقتدار ہے اور الله کی زمین میں فساد ہے۔


----------------------------------------------------------------------------------------------------------
طوواہرٹمین)
پاکستان ہم سے بلا کسی وجہ کے کب تک نفرت کرتا رہے گا؟
----------------------------------------------------------------------------------------------------------


اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہوجائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیئے“(

یہ نفرت تب تک رہے گی جب تک آپ فساد برپا کر رہے ہیں۔ فساد سے باز آجائیں نفرت ختم ہو جائے گی۔ پر آپ کی تاریخ یہ بتاتی ہے (اور آپ کا خط بھی یہی بتاتا ہے) کہ آپ فساد سے باز آنے والوں میں سے نہی۔ آپ کو تاریخ میں ہمیشہ جو مار پڑی ہے وہ آپ کے اپنے فسادات کی وجہ سے پڑی ہے۔ یہاں ایک غور طلب بات آپ کو بتاتا چلوں کہ یہودیوں کو جتنی مار پڑی ہے تاریخ میں وہ زیادہ تر عیسائیوں سے پڑی ہے.اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہی ہے کہ کہاں کہاں اور کتنی پڑی ہے اور پڑی اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے. مسلمانوں نے آپ کو ہمیشہ سکون فراہم کیا ہے پر آپ کی کتے والی فطرت اب آپ کو اس مقام پر لے آئی ہے کہ اس بار آپ کا سارا شر مسلمانوں کے خلاف ہے لیکن یاد رکھیے گا کہ یہ شرارت آپ کی آخری شرارت ہو گی۔ ان شا الله