Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

Showing posts with label 14 August. Show all posts
Showing posts with label 14 August. Show all posts

13 August 2012

پینسٹھواں یوم آزادی


پاکستانی قوم آج اپنا پینسٹھواں یوم آزادی منا رہی ہے۔ اس موقع پر ہم رسمی خوشی تو منا سکتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم آزاد تو نہیں ہیں کیونکہ جس مقصد کے لیے آزادی کا نعرہ لگایا گیا تھا اس میں تو رتی بھر بھی کوئی کام نہی کیا۔ پاکستان حاصل کرتے وقت جو قربانیاں ہمارے اسلاف نے دی تھیں وہ ہمارے آج کے ماحول کے لئے نہیں دی تھیں بلکہ وطن عزیز کے حصول کا واحد اور اولین مقصد اس سرزمین میں اسلام کا نفاذ کرنا اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنا تھا۔ ایسی سرزمین جس میں ہر پاکستانی کو برابر کے حقوق حاصل ہوتے اور ملک میں امن و امان کا دور دورہ ہوتا۔ لیکن آج کے پاکستان کی جو تصویر ہمارے سامنے ہے وہ ہمارے اسلاف کا ہرگز مقصد اور مقصود نہ تھی۔

آج تمام ملک امن و امان سے محروم ہو چکا ہے ۔ ہم اپنے ہی گناہوں کی سزا میں جکڑے جا رہے ہیں اور ہمارے گناہوں کی سزا ہمیں کسی نہ کسی صورت میں ملتی رہتی ہے۔ پاکستان دو لخت ہوا تو ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا جبکہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے یہ نعرہ لگایا گیا کہ دو قومی نظریہ (جو پاکستان کے قیام کی بنیاد تھی) خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہم پاکستان کو ہر قسم کی مار دیں گے۔ انہوں نے ہمارے ملک میں ثقافتی نوعیت کی سرگرمیوں، فلموں اور ڈراموں کی صورت میں اور ثقافتی طائفوں کی صورت میں ایک یلغار کر دی تو بھی ہم نے سبق حاصل نہ کیا ۔


ہم نے امریکی غلامی کو قبول کیا، اسلام کے خلاف جنگ کے صف اول کے اتحادی بنے۔ ہم نے مسلمانوں کا قتل عام خود بھی کیا اور کرنے میں کفار کو مدد بھی فراہم کی۔ جس کے بعد ہم مزید عذابوں میں ڈبو دیے گئے۔ کبھی ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے زلزلے آئے، کبھی سیلاب۔ لیکن ہم نے آنکھ نہی کھولی، ہم گمراہی اور ذلالت کی دلدل میں مزید دھنستے چلے گئے۔ قدرت نے کبھی ہمیں حادثات کے زریعے جگانے کی کوشش کی اور کبھی ہمارے سروں پر ایک مربع کلومیٹر لمبا چوڑا برفانی تودہ دے مارا۔ لیکن ہم خواب غفلت سے جاگنے کو تیار نہ ہوئے۔

آج ہر ایک پاکستانی کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ کہیں یہ عذاب، زلزلے و سیلاب، ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کا عذاب اور مہنگائی کا طوفان ہمارے ان اعمال کی سزا تو نہیں کہ ہم نے اللہ سے یہ وعدہ کر کے یہ ملک حاصل کیا تھا کہ ہم اس خطہءزمین میں تیرا نظام، اسلام کا نظام نافذ کریں گے۔ اور پھر ہم اپنے وعدے سے مکر گئے۔ ھم نے ہر ہر موقع پر الله سے وعدہ خلافی کی، اس کے قوانین کا مذاق اڑایا۔


اور اب ہم اس انتظار میں ہیں کہ الله کا حکم آ جائے کہ ہمیں تبدیل کر کے یہاں کسی اور قوم کو آباد کر دیا جائے۔

اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے ﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور ﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے
 سورة المائدة 54


اللہ تعالی ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ۔ آمین۔




Tags:
independance day pakistan 14 august
kya ham aazad hain?
are we really independent
65th birthday of pakistan
pakistan hamari jan
کیا ہم آزاد ہیں



7 August 2011

Independance day

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو 


پاکستان کا قیام جمعہ کے دن، شب نزول قرآن مجید کے مہینے میں ہوا جب شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں. پاکستان کے قیام میں اللہ کی خاص رحمت شامل ہے. انشاءاللہ پاکستان قیامت تک زندہ و آباد اور قائم و دائم رہے گا. کوئی طاغوتی طاقت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی. دشمن کی کوئی چال کوئی حربہ پاک سر زمین کو نقصان نہیں پہنچا سکتا. ہم کل بھی آزاد تھے آج بھی آزاد ہیں اور اپنے رب کی عطا سے کل بھی آزاد ہونگے. آج ہم اس پاک سر زمین کے مرغزاروں، ریگزاروں، آباد قصبوں اور شہروں میں آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں. یہاں کی سر سبز و شاداب وادیاں ہمیں زندگی کے جبر سے بے خبر کئے ہوئے ہیں. اس کے دامن میں جاری دریا اور اس کی تہوں میں چھپے خزانے ہماری توانائیوں کے جواب میں اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہیں. یہاں کے پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندر کی وسعتیں ہماری ہمتوں کی آزمائش کے لئے محو انتظار ہیں. اس خطہ ارضی کے دامن میں قدرت کے ان گنت عطیات پوشیدہ ہیں. لیکن افسوس ہماری تمام تر توانائیاں سہل انگاری کی نظر ہو گئیں، ہماری خوابیدہ صلاحیتں کسی معجزہ کے ظہور کا انتظار کر رہیں ہیں. لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سہل انگاری اور معجزوں کے تصور سے باہر نکلیں اور اپنے ان دشمنوں کو پہچانیں جنہوں نے ہمیں 63 برس تک قیام پاکستان کے اصل مقصد سے دور رکھا ہوا ہے.

پاکستان ہمارے پاس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک امانت ہے. یہ امانت ان شہداء کی ہے جن کا گرم لہو پاکستان کی بنیادوں میں شامل ہے. یہ امانت ہے ہماری آئندہ نسلوں کی جنہیں کل اس کا پاسبان بننا ہے. پاکستان ایک حقیت ہے یہ عطیہ خداوندی ہے ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیئے. آپ اپنے آپ پر غور کریں اور سوچیں کیا ہم اس عطیہ کی قدر کر رہے ہیں یا اس کا مذاق اڑا رہے ہیں. ہم جشن آزادی کیسے مناتے ہیں؟ کون سی ایسی غیر اخلاقی حرکت ہے جو ہم نہیں کرتے اگر آج ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں. آج اگر پاکستان ڈوب رہا ہے اور باطل اس قوم کی تباہی و بربادی پر ہنس رہا ہے تو اس کی وجہ ہمارے اعمال ہیں. 14 اگست کے دن سائیلنسر فری موٹر سائیکلوں کا بے ہنگم شور کانوں کے پردے پھاڑ دیتا ہے، نوجوان راہ چلتی لڑکیوں اور عورتوں کے سروں سے دوپٹے کھینچ کر لے جاتے ہیں. مادر پدر آزادی کے متوالے ایک پہیئے پر موٹر سائیکل چلا کر ماؤں کی گود ویران کر جاتے ہیں. بیہودہSMS کے ذریعے پاکستان کے وجود کا مذاق آڑایا جاتا ہے. باقی کسر یوم آزادی پر منائی جانے والی Special Nights پوری کر دیتی ہیں. جب رات کے اندھیرے میں پاکستان کی عزت اور غیرت کے سودے ہوتے ہیں، شراب کو حلال کیا جاتا ہے اور آزادی کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے. کیا یہ سب باتیں اللہ تعالٰٰی کو پسند آئیں گی ان حالات میں ہم پر عذاب نہیں نازل ہوں گے تو کیا اللہ کی رحمت ہو گی.



 ١٤اگست کا دن قریب ہے اب سے ٹھیک 63 سال قبل 14 اگست ہی کے دن برصغیر پاک و ہند کے مسلمان بےتحاشہ قربانیاں دے کر آلام و مصائب کے دریاؤں کو عبور کر کے ظلم و ستم کو برداشت کرکے آزادی کی نعمت سے ھمکنار ہوئے. آزادی یوں ہی نہیں مل جاتی آزادی بہت قیمت مانگتی ہے. تازیخ اٹھا کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے ہر دور میں انسان نے اس کی قیمت ادا کی ہے. دنیا کے نقشے پر آزاد ممالک کا نام بے پایاں کٹھنائیوں ، قربانیوں اور دکھوں کے بعد تحریر ہوا ہے. الجزائر کے لوگ اس وقت تک منزل آزادی سے ہمکنار نہیں ہوئے جب تک بن نیلا کے بدن پر زخموں کے ستر نشان ثبت نہیں ہوئے. انڈونیشیا کی عوام کے لیے غلامی کی سیاہ رات اس وقت تک نیں بدلی جب تک انہوں نے اپنے زخمی ہاتھوں سے اپنے لہو کے چراغ نہیں جلائے اور پاکستان اس وقت تک نقشہ عالم پر نہیں ابھرا جب تک شہروں ، بستیوں ، گلیوں اور بازاروں میں خون کی ہولی نہیں کھیلی گئی. آزادی اللہ تعالٰی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے. آزادی جنت جبکہ غلامی دوزخ ہے. کھلی فضاءوں میں سانس لینا انسان کی فطرت کا تقاضا ہے. آزادی سے قبل دو سو سال تک مسلمان انگریز کے محکوم رہے انگریزوں نے ان سے آزادی کی دولت چھین کر ان کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا. انگریز نے اپنے دورحکومت میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے اور ان پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور ان کو اپنے بے پناہ ظلم و تشدد کا جس طرح نشانہ بنایا وہ ہر تاریخی شعور رکھنے والے شخص سے پوشیدہ نہیں.

بہرحال مسلمان 14 اگست 1947 کو انگریز کی غلامی سے آزاد ہوئے. ان کو یہ آزادی بہت آسانی سے نہیں ملی ان کو یہ آزادی کیسے ملی اس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں. پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا اور برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں نے اس کی تعمیر و تشکیل کے لیے بیش بہا قربانیاں دیں ، در حقیقت پاکستان اسلام اور مسلم قومیت کی بنا پر معرض وجود میں آیا. جیسا کہ مولانا محمد علی جالندھری نے 8 مارچ 1944 ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طلباء و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ مسلم لیگ کو قائداعظم محمد علی جناح جیسا زیرک ، عقیل و فہیم ، راست باز ، نیک و کار ، بااصول ، محنتی ، مخلص، مستعد قائد نصیب ہوا ، جس نے اپنے ناخن تدبیر سے الجھے ہوئے مسائل کو سلجھا دیا. مسلم لیگ کی اس لحاظ سے بھی بہت بڑی کامیابی تھی کہ علمائے کرام کی بہت بڑی جماعت نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا بلکہ قائداعظم کے ساتھ شانہ بشانہ چلے. پاکستان محمد علی جناح کی شب و روز کی کوششوں اور ان کی مساعی جمیلہ سے معرض وجود میں آیا.


14 اگست 1947 کو جب جشن آزادی منایا جانے لگا تو علمائے کرام کی تاریخی خدمات کے طور پر مشرقی پاکستان کا پرچم شیخ الاسلام حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی نے اور مغربی پاکستان کا پرچم حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی نے اپنے دست مبارک سے تلاوت اور مختصر تقریر کے بعد آزاد فضاء میں لہرا کر دنیا کی اس سب سے بڑی اسلامی مملکت کو اسلامی ممالک کی برادری میں شامل کرنے کا افتتاح کیا. پاکستانی فوجوں نے پرچم پاکستان کو پہلی مرتبہ سلامی دی اور سب نے مل کر یہ ترانہ گایا

اونچا رہے یہ نشاں ہمارا
یہ چاند اور یہ تارہ

Independance day, youm e azadi, 14 august, pakistan day, urdu article on 14 august,
Urdu speech pakistan day
 

28 July 2011

قیام پاکستان اور اس کے اہم تقاضے






قیام پاکستان اور اس کے اہم تقاضے








مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان ، دنیا کے نقشے پر
ایک منفرد محل وقوع ، جغرافیائی عوامل ، معدنی ذر
ائع ، نظریاتی تشخص اور
ثقافتی وجود رکھتی ہے ۔ اگر اس خطے میں مسلم تاریخ کا کھوج لگایا جائے تو
بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ کے بقول پاکستان تو اسی روز معرضِ
وجود میں آ گیا تھا ، جب کسی مسلمان نے سب سے پہلے اس خطے پر قدم رکھا تھا ۔
711ءمیں محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ برصغیر میں پہلی اسلامی ریاست کا
آغاز ہوگیا ۔ اگرچہ اس سے پہلے عہدِ فاروقی میں مکران ( بلوچستان ) کے
علاقے میں صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمہ اللہ کی ایک جماعت قدم رنجہ
فرما چکی تھی ۔ ان کی قبور آج بھی وہاں پر موجود ہیں ، جن کی نسبت سے پنج
گور کا قصبہ معروف ہے ۔ صحاح ستہ کے ایک مجموعے کے مدون امام ابوداؤد رحمہ
اللہ کا تعلق سجستان سے ہے ، جو اُس عہد میں بلوچستان کی جغرافیائی حدود
میں تھا ۔ یوں برصغیر میں اسلامی سلطنت کو اصل قوت سندھ اور بلوچستان کے
راستے سے فراہم ہوئی ہے ۔ امویوں اور عباسیوں نے سندھ میں اپنے گورنر مقرر
کئے جس کے نتیجے میں282 سال تک عرب خاندانوں کی حکومت سندھ میں قائم رہی ۔
اس کے بعد مقامی سومرہ خاندان کی حکمرانی شروع ہوئی ۔ اس مقامی حکومت نے
باطنی مذہب کو اپنا لیا ، جس کے باعث اس کی سیاسی وفاداریاں فاطمینِ مصر کے
ساتھ قائم ہو گئیں ۔ اسی دور میں افغانستان میں غزنوی برسرِ اقتدار آئے ۔
ہندوستان میں اس زمانے میں جے پال کی حکومت تھی جو غزنویوں کے بڑھتے ہوئے
اقتدار کو روکنا چاہتا تھا مگر سبکتگین نے اسے غزنی کے قریب شکست دی اور
نتیجۃً وہ صلح پر مجبور ہو گیا ۔ غزنوی سلطنت کی سرحدیں پشاور تک قائم
ہوگئیں ۔ محمود غزنوی نے1022ءمیں پنجاب کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا اور
لاہور کو پایہ تخت بنایا جہاں918 سال بعد بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ
اللہ کی صدارت میں دوقومی نظرےے پر مبنی ایک اسلامی ریاست کے قیام کی
قرارداد منظور ہوئی ۔








برصغیر کی ملتِ اسلامیہ ایک ہزار سالہ اقتدار کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے
ہاتھوں سیاسی اقتدار سے محروم ہو کر قعر مذلت میں گر گئی ۔ لیکن بہت جلد اس
میں آزادی کی تحریکیں اٹھیں اور انہوں نے مسلمانوں کے تنِ خستہ میں ایک
نئی روح ڈال دی ۔ تحریکِ مجاہدین نے ایک ولولہ تازہ دیا ۔ اکبر الٰہ آبادی
کی شاعری نے مغربی تہذیب کا نقاب اتار دیا ۔ حالی کی مسدس نے ماضی کے
جھروکوں سے مستقبل کی درخشندگی کی تصویر دکھائی ۔ اقبال نے ملت کی خاکستر
میں چھپی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ بنا دیا ۔ ملتِ اسلامیہ کی درماندگی پر
فطرت کو رحم آ گیا اور بانی پاکستان محمد علی جناح رحمہ اللہ کی صورت میں
وہ بطلِ جلیل اور مردِ حریت سامنے آیا جس نے ملی قیادت کے پرچم کو سربلند
کر دیا ۔ بیسویں صدی کی ملتِ اسلامیہ کے پاس قائداعظم رحمہ اللہ سے بہتر
سیاسی بصیرت اور تدبر رکھنے و الی کوئی اور شخصیت نہ تھی ۔ متوسط درجے کے
کاٹھیاواڑی تاجروں کے سپوت نے انگریز کے پٹھوؤں اور ان کے کاسہ لیس
جاگیرداروں کی دوغلی پالیسی کے باوجود منزل مراد کو حاصل کر لیا ۔ یہ
بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ تھا ۔






نگہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پرسوز



یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے


( اقبال )





پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں ۔ یہ عرصہ قوموں کی
زندگی میں کوئی معمولی اہمیت نہیں رکھتا ۔ کم از کم تین نسلیں اس میں پرورش
پا چکی ہیں ۔ مگر قومی اور ملی سطح پر ابھی تک ہم بہت سی محرومیوں اور
مایوسیوں کا شکار ہیں ۔ سولہ کروڑ کی آبادی کا موجودہ پاکستان عالم اسلام
کی پہلی ایٹمی قوت ہے ۔ اس کے زرعی اور معدنی وسائل ایسے ہیں کہ ہمیں خود
انحصاری پر مبنی معیشت کو رواج دینا چاہئیے ۔ مگر ہماری معاشی صورتِ حال
مسلسل قرضوں کے باعث مفلوج ہو چکی ہے ۔ مہنگائی کا عفریت منہ کھولے وسیع تر
آبادیوں کو نگل رہا ہے ۔ ناخواندگی اور جہالت کی دلدل سے ہم ابھی تک باہر
نہیں نکل سکے ۔ جمہوری کلچر ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہے مگر وقفے وقفے سے
اس پر شب خون مارے جاتے ہیں ۔ اس کا باعث اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے
کہ ہمارے ہاں اداروں کی نہیں افراد کی حکومت ہے ، جو قومی تشکیل اور ملی
مقاصد کے لیے کوئی مفید راہِ عمل نہیں ہے ۔ ہماری انتظامیہ قوم کی خدمت میں
یکسر ناکام رہی ہے ۔ انتظامی اور عدالتی اداروں کے زخم خوردہ لوگ ابھی تک
غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل نہیں کر سکے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی جس کی اس
ملک کو سب سے زیادہ ضرورت ہے ، ابھی تک مفقود ہے ۔ نوجوان نسل بیروزگاری کے
چنگل میں گرفتار ہے ، اسے نجات دلانے کا کیا راستہ ہے ، ہمیں اس کی چنداں
فکر دکھائی نہیں دیتی ۔ معاشرے کے بعض طبقات میں انتہا پسندی کی علامتیں
پائی جاتی ہیں ۔ ہم ایک امتِ وسط اور اعتدال کے رویوں کو حاصل کیوں نہیں کر
سکے ، اس پر مسلسل توجہ کی ضرورت ہے ۔






ہماری مملکت کا ایک واضح دستور ہے جس کی حقیقی روح پر عمل نہ کرنے کے نتیجے
میں صوبائی منافرت کے جراثیم ملی وجود کو بیمار کر رہے ہیں ۔ توانائی کا
بحران ہماری قومی اور صنعتی کارکردگی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ، اس کے
خاتمے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کیوں نہیں ہے ؟ معاشرے میں جرائم کی مسلسل
بڑھتی ہوئی لہر کہیں رکنے کا نام نہیں لیتی ، اس کے اسباب و وجوہ پر غور کر
کے اس کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر کاوش کیوں نہیں کی جاتی ؟ ہمارا تعلیمی
نظام اعلیٰ معیارات سے بہت دور ہے ۔ تحقیق ہمارے تعلیمی نظام میں وہ
اعتبار حاصل نہیں کر سکی جو کسی قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ثابت ہو سکتا
ہے ؟ دینی مدارس میں جو نصابِ تعلیم پڑھایا جا رہا ہے ، اس کے نتیجے میں
فرقہ وارانہ سوچ اور تنگ نظری پیدا ہو رہی ہے ۔ اس میں عصری تقاضوں سے ہم
آہنگ ملی مقاصد کو بروئے کار لانے کی سوچ کیوں مفقود ہے ؟ فقہ کا تقابلی
مطالعہ اور جدید تمدنی مسائل پر اجتہادی بصیرت پیدا کرنے کے ذرائع پر توجہ
کیوں نہیں دی جارہی ؟ اردو زبان ساٹھ سال گزرنے کے باوجود اپنا صحیح مقام
حاصل نہیں کر سکی ۔ علاقائی زبانوں کی ترقی کے ساتھ اس قومی زبان کی
سرپرستی نہ کرنے کی بنا پر ہم اپنی ملی تشکیل اور قومی مزاج سے محروم ہیں ۔
ذرائع ابلاغ نے اگرچہ ملک میں بہت ترقی کی ہے مگر وہ سولہ کروڑ افراد کو
ایک متحد الفکر قوم بنانے کے فریضے سے غافل ہیں ۔ میڈیا شعور تو پیدا کر
رہا ہے مگر اس کے نتیجے میں ذہنی انتشار میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ عورتوں کے
حقوق معاشرے میں پامال ہیں اور کم عمر بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے
بجائے ایک بہت بڑی تعداد میں قبل از وقت ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ، جس کے
باعث ان کی موزوں ذہنی تربیت پر ہماری کوئی توجہ نہیں ۔ ایسے گوناگوں اسباب
کی وجہ سے ہمیں عالمی سطح پر سامراجی قوتیں خوف زدہ کر رہی ہیں کہ پاکستان
ایک ناکام ریاست ہے اور یہ معاذ اللہ بہت جلد اپنا وجود کھودے گی ۔ بہت سے
عناصر اس قسم کی مایوسی پھیلا کر قوم میں بے عملی ، انتشار اور انار کی
پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔








ہمارے نزدیک قومی سطح پر سب سے پہلے ہمیں اس مایوسی اور افسردگی کی فضا سے
نکلنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان خدا کے فضل و کرم سے ایک توانا قوم اور موزوں
وسائلِ معیشت کا ملک ہے ، جس میں ترقی و تعمیر کے تمام تر امکانات موجود
ہیں ۔ اس ملک کی جغرافیائی صورتِ حال پر توجہ کریں تو جا بجا قدرت کی
فیاضیاں دکھائی دیں گی ۔ قومی اور ملی قیادت کا بحران اگر ختم ہو جائے تو
ہم اپنے وسائل پر زندہ رہنے کی مکمل اور بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس ضمن
میں ہمیں جن اہداف پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، ان کا سنجیدگی سے جائزہ لیا
جانا چاہئیے ۔






ہمیں سب سے پہلے نظریاتی تشخص کا دفاع کرنا چاہئیے ۔ قومیں معاشی بحران سے
ختم نہیں ہوتیں مگر نظریاتی اور ثقافتی شناخت کھو کر تاریخ میں مرقع عبرت
بن جاتی ہیں ۔ غربت بلاشبہ ہمارا بنیادی مسئلہ ہے مگر اس کا علاج معاشی
ناہمواریوں کو ختم کر کے سادگی کے کلچر کو اپنانے میں مضمر ہے ۔ قومی سطح
پر ہم ایک سادہ طرزِ زندگی کے خوگر نہیں رہے ۔ اس سلسلے میں حکام بالا اور
خوش حال طبقے کو مثال قائم کرنا ہو گی ۔ ہمارے بہت سے وسائل غیر تعمیری
کاموں پر صرف ہو رہے ہیں ۔ قرضوں کی معیشت کو ختم کر کے خود انحصاریت کے
کلچر کو رواج دینا ہوگا ۔






جہالت اور خواندگی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ دوسرے تمام مسائل
اس کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں ۔ قومی سطح پر بہت جلد ایسی تعلیمی پالیسی
بنانا چاہئیے جس میں کم سے کم وقت میں مکمل خواندگی کی سطح کو حاصل کیا
جاسکے ۔ قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو
سکے گا ۔ بیسیوں قسم کے نصاب ہائے تعلیم کے بجائے قومی سطح کے ایک مربوط
نصابِ تعلیم کو جو ہماری نظریاتی اور ثقافتی قدروں سے ہم آہنگ ہو ، فروغ
دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ تعلیمی معیار اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا ، جب تک
کہ اساتذہ کی ہمہ وقت تربیت اور ان کی ذہنی آسودگی کا اہتمام نہ کیا جائے ۔
ہمارے ہاں اساتذہ کی علمی ، تدریسی اور تحقیقی ترقی کے لیے موزوں ادارے
نہیں بنائے گئے ہیں ۔






دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کو اب سنجیدگی سے اپنے نصابات
کی تشکیلِ جدید پر توجہ دینا ہو گی ، وگرنہ جس قسم کے ائمہ اور خطیب وہ
پیدا کر رہے ہیں‘ نئی نسلیں ان سے مطمئن نہیں ہیں ۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور
معاشرتی وحدت کا نقیب ہے ۔ ہم نے اس دینِ فطرت کو فقہی تنگ نائیوں کا شکار
کر رکھا ہے اور یہ جدید تمدنی اور سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔
علمائے کرام اگر اخلاص اور شعور سے توجہ دیں گے تو وہ ایک ایسی راہِ عمل
ترتیب دے سکتے ہیں ، جس سے ان کے علمی اور معاشرتی وقار میں اضافہ بھی ہو
گا اورامت کی وحدت کے سامان بھی پیدا ہوں گے ، جن کی موجودہ ماحول میں اشد
ضرورت ہے ۔












قومی وحدت کے فروغ میں ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے کردار کی
اہمیت ہر صاحب نظر پر واضح ہے ۔ مگر ہمارے چینل حالاتِ حاضرہ پر تبصرے تو
بہت اچھے کرتے ہیں لیکن قومی وحدت کے حصول کے لیے کوئی نمایاں خدمات انجام
نہیں دے رہے ۔ ہمیں ابلاغ کے ان ذرائع سے یہ بھی اختلاف ہے کہ وہ تفریح کے
مثبت پروگرام پیش کرنے کا تخلیقی شعور نہیں رکھتے ۔ ان کی کمرشل ضرورتوں کا
احترام بجا مگر پروگراموں کی علمی اور ثقافتی سطح کو اپنے مخصوص نظریاتی
تشخص کے حوالے سے پیش کرنا ، ایک قومی ضرورت ہے ۔ میڈیا کو اگر قومی تقاضوں
سے ہم آہنگ کیا جائے تو قوم کو بہت جلد مایوسیوں سے نکال کر عصری چیلنجوں
کا مقابلہ کرنے کے لائق بنایا جا سکتا ہے ۔












معاشی سطح پر نوجوانوں کو میٹرک کے بعد ایسی فنی اور ووکیشنل تعلیم فراہم
کی جائے ، جس کے باعث وہ محض دفتروں میں ملازمت تلاش کرنے کے بجائے اپنی
فنی مہارتوں کے ذریعے سے معاشرے کی خدمت کرنے کے ساتھ اپنے لیے باوقار
معیشت کا انتظام بھی کریں ۔ اسی طرح گھریلو خواتین کے لیے بالخصوص دیہاتوں
میں ایسے صنعت و حرفت کے منصوبے بروئے کار لائے جائیں جس سے ان خاندانوں کی
معاشی کفالت میں مدد ملے اور قومی معیشت کو بھی اس سے سہارا ملے ۔ قوم کی
سیاسی ، معاشی ، عدالتی اور تعلیمی اصلاح سے زیادہ اخلاقی تربیت کی ضرورت
ہے ۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کا دستوری تقاضا ہے کہ ہم
باشندگانِ وطن کو بہترین مسلمان بنائیں ۔ ان کی اخلاقی تربیت کے لیے تمام
قسم کے تعلیمی ، دعوتی اور ابلاغی وسائل کو بروئے کار لائیں ۔ اس سلسلے میں
ایک ملک میں عوامی کتب خانوں کو رواج دینا چاہئیے ۔ نیز بچوں کے لیے تعلیم
و تربیت کا ایک مستقل تعلیمی چینل ترتیب دینا چاہئیے جو ان کی دینی اور
اخلاقی تربیت کے مقاصد کو پورا کر سکے ۔






پاکستان میں مایوسی کی جو لہر دکھائی دیتی ہے ، یہ عالمی استعمار اور اس کے 


مقامی گماشتوں کی پیدا کردہ ہے ۔ یہ ملک آج سے ساٹھ سال پہلے جن حالات میں
معرضِ وجود میں آیا ، اس کی نسبت تو آج ہم بہت ترقی کر چکے ہیں ۔ ہم ایک
ایٹمی قوت ہیں ۔ ہمارے وسائلِ زندگی میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے ۔ ہم
تعلیم اور ابلاغ کی منزلوں کو طے کر رہے ہیں ۔ ہمارا ایک روشن مستقبل ہے
اور ہمیں انشاءاللہ اس وطن عزیز کو عالم اسلام کے لیے ایک ماڈل بنانا ہے
اور امنِ عالم کے فروغ میں اپنا مثبت کردار انجام دینا ہے ۔ معاشرے میں ہر
نوع کے ذمہ داران اٹھیں اور مملکت کی عزت اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا
کریں ۔ حکمرانوں اور قیادت کی اپنی ذمہ داریاں ہیں مگر علمائے کرام ،
اساتذہ اور ابلاغ کے اداروں پر بھی اس تبدیلی کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے
۔ ع







وہ جو چاہے تو اٹھے سینہ صحرا سے حباب


















Pakistan 14 august, urdu speech, independance day.
youm e pakistan, pakistan k masael ore un ka hal.
Paksitan ki ehmeat


9 June 2011

قائد اعظم ؒ کا تصورِپاکستان!





قائد اعظم ؒ کا تصورِپاکستان!





سید منورحسن





قیام پاکستان ایک معجزہ اور انسانی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ مسلمانان
برصغیر نے انگریز سامراج کی سازشوں اور ہندو بنیے کی چالبازیوں کے باوجود
اپنی بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوںکے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی
مملکت کے قیام کو ممکن کردکھایا۔ ایک الگ مملکت کا خواب علامہ اقبال ؒنے
دیکھاتھا لیکن اسکی تعبیر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قسمت میں
لکھی تھی جنھوں نے مسلمانان برصغیر کو ایک منظم قوم میں بدلا اوراپنے
اخلاص، بلند کردار، جرأت و استقامت،اصول پسندی اور دو قومی نظریے پر یقین
کے نتیجے میں پاکستان بنانے میں کامیابی حاصل کی۔




بیسویں صدی میں جابجامسلم ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے ہیں،جغرافیہ اور
تاریخ بدلی ہے۔اور ظاہر ہے کہ کسی نے طشت میں رکھ کر مسلمانوں کو آزادی
پیش نہیں کی ہے بلکہ کشمکش اور آگ اور خون کے دریا پار کرکے آزادی حاصل
کی گئی ہے۔ ہر ایک جو اپنا پاکستان بنا رہاتھایا اپنے ہی ملک کے اندر
استعمار کو بھگا رہاتھا،توہر جگہ کے لحاظ سے نعرہ یہی تھا’’ پاکستان کا
مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘،اور یہ اسلام کا مضبوط حوالہ تھاجس نے لوگوں کے
اندر کردار،جدوجہداور کوشش و کاوش کا ایک عنوان اور بڑے پیمانے پر قربانیاں
دیکر کشمکش مول لینے کا کلچر پیداکیا۔لہٰذا اس اعتبار سے یہ بات بلاخوف
تردید کہی جاسکتی ہے کہ آج اگر ستاون ملک دنیا کے نقشے پر آزاد مسلمان
ملک کہلاتے ہیں تو حقیقتاً ان کی بڑی تعداد اسلام اور کلمے کے نام پرآزاد
ہوئی ہے۔ خود برصغیر پاک و ہند میں لاکھوں انسان آگ اور خون کے دریا سے
گزرے۔ بہنوں بیٹیوں کے دامن عصمت تار تار ہوئے اور لوگ لٹے پٹے قافلوں کی
صورت میں پاکستان پہنچے۔ظاہر ہے کہ یہ قربانی اورجدوجہدکسی مادی مفاد کیلئے
نہ تھی بلکہ اس اسلامی نظریے کیلئے تھی جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہونے
جارہا تھا۔ دینی و مذہبی احساس، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب اور
اس کی خاطر ہر قربانی کو انگیز کرنے کا جذبہ، یہ وہ عناصر ترکیبی ہیں جو
قیامِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد ہیں۔



بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جب بھی حصول پاکستان کے مقاصد
کا ذکر کیا توان مقاصد میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام سرفہرست تھا
جہاں قرآن و سنت کی فرمانروائی ہو۔انھوں نے بارہا کھل کر یہ بات کہی کہ
ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطے کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک ایسی
سرزمین کے حصول کی کوشش ہے جہاں مسلمان اسلامی ضابطہ حیات، اپنی روایات
اور اسلامی قانون کیمطابق زندگی گزار سکیں۔



 
نومبر21, 1945ء فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 



’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطہ حیات، اپنے
تہذیبی ارتقاء ، اپنی روایات اور اسلامی قانون کیمطابق حکمرانی
کرسکیں۔ہمارا دین، ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو
ہمیں آزادی حاصل کرنے کیلئے متحرک کرتے ہیں۔‘‘




اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ



’’لیگ ہندوستان کے اْن حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام
کی عَلم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ وہاں اسلامی قانون کے
مطابق حکومت کرسکیں۔‘‘




قائد اعظم نے جب بھی اسلام اور پاکستان کے تشخص اوربرصغیر کے مسلمانوں کے
ایک جداگانہ قوم ہونے کی بات کی تو یہ کسی مصلحت یا رسمی اور روایتی طور
پرنہیں تھی بلکہ انھوں نے ایک عملی حقیقت کے طور پراسے بیان کیا۔وہ
مسلمانوں کے ملّی تشخص کے دل سے قائل اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام
کے آرزو مند تھے۔



گاندھی سے خط و کتابت کے دوران ستمبر 1944ء میں انھوں نے گاندھی کو لکھا:



’’ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان
اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں جو ‘‘قوم ’’کی ہر تعریف اور معیار پر پوری اترتی
ہیں۔ ہم دس کروڑ کی ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک
مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور فنِ تعمیر، احساس
اقدار و تناسب، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج اور تقویم
(کیلنڈر)، تاریخ اور روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصہ بحث یہ
ہے کہ زندگی اور اسکے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویہ
نگاہ ہے۔ اور قانونِ بین الاقوامی کی ہر دفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔‘‘




اور 11 اکتوبر 1947ء کو کراچی میں مسلح افواج کے افسروں سے خطاب میں فرمایا :



’’قیام پاکستان، جس کیلئے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں
تھے، اللہ کے فضل و کرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام
دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذات خود کوئی مقصد نہیں۔ تصور یہ تھا
کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں اور آزاد افراد کی
حیثیت سے سانس لے سکیں۔ جسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے
سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ ‘‘



قائداعظم کی یہ دیرینہ خواہش رہی کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور
مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جہاں کے باشندے اپنے عقیدے کیمطابق
اپنے مذہب پر عمل کر سکیں اور اسلام کے نظام عدل و انصاف سے مستفید ہوسکیں۔



قائد اعظم کی تقاریر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کوصرف چند
عقیدوں،روایتوں اورروحانی تصورات کا مجموعہ نہیںبلکہ ہر مسلمان کیلئے ایک
ضابطہ سمجھتے تھے جو اسکی زندگی اور کردار کو سیاست و معیشت اور انفرادی و
اجتماعی معاملات میں انضباط عطا کرتا ہے۔ انھوں نے متعدد مقامات پر کہا کہ
اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میںقرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے۔قرآن مجید
کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔
روحانی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی سمیت زندگی کا کوئی پہلوایسا نہیں جو
قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔قرآن مجیدکے احکام ہی سیاست و معاشرت
میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ قائد اعظم کے تصور
پاکستان کے یہ وہ خدوخال ہیں جو ان کی مختلف تقریروں میں جابجا بکھرے ہوئے
ہیں اور ایک اسلامی ریاست کا وہ تصورپیش کرتے ہیں جس کو عملی جامہ پہنا
کرہم نہ صرف موجودہ چیلنجز سے عہدہ براء ہوسکتے ہیں بلکہ ایک باوقار اور
ترقی یافتہ قوم کی صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔






Quaid e azam's ideology of pakistan.




During the Allahabad session of the All-India Muslim League in 1942, Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah was asked as to what type of state Pakistan would be, he replied: "It will be an Islamic state on the pattern of Medina state with human rights, liberalism, democracy and complete tolerance and freedom of conscience to all citizens without any distinction of colour, creed, language, and race as granted by the Prophet of Islam Muhammad (Peace Be Upon Him) to Christians, Jews, idol worshippers and all others. Justice, brotherhood, liberty, equality and fraternity will reign supreme." 

In his speech at the Frontier Muslim League Conference on 21 November 1945, Quaid-e-Azam said: “We have to fight a double-edged battle, one against the Hindu Congress and the other against British imperialists, both of them being capitalists. The Muslims demand Pakistan where they could rule according to their own code of life and according to their own cultural growth, traditions, and Islamic Laws.” 

Similarly, in his Eid message to the nation in 1945, Quaid-e-Azam said: “From the Atlantic to the Ganges, the Quran is acknowledged as the fundamental code, not of theology but of civil and criminal jurisprudence, and the laws which regulate the actions and the properties of mankind are regulated by the immutable sanctions of the Will of Allah”. He said, “Everyone, except those who are ignorant, knows that the Quran is the general code of the Muslims. A religious, social, civil, commercial, military, judicial, criminal penal code; it regulates everything from the ceremonies of religion to those of daily life; from the salvation of the soul to the health of the body; from morality to crime, from punishment here to hereafter and our Prophet (Peace Be Upon Him) has enjoined on us that every Muslim should possess a copy of the Quran and be his own priest. Therefore, Islam is not confined to the spiritual tenets and doctrines and rituals and ceremonies. It is a complete code regulating the whole Muslim society in every department of life, collective and individually.” Pakistan emerged as an independent state on 14th August 1947 as a result of an ideology. The strength of the ideology can be judged from the fact that only religion acts as a binding force for five distinct provinces of Pakistan, as each province has a discrete identity in term of customs, norms, traditions, languages and dialects. 

Today Objective Resolution serves as the preamble of our Constitution. No doubt, Objective Resolution should be our ultimate goal. We cannot hide the truth by closing our eyes or burring of old syllabus in our country and confiscating translations of Holy Quran, only because it talks about why Pakistan was created and what is our final destination. The Basic Principle Committee was appointed by a resolution of the Constituent Assembly, dated 12 March 1949, to report, in accordance with the Objective Resolution, on the main principles on which the future constitution of Pakistan should be framed. The Interim Report of the Basic Principle Committee was presented to the Constituent Assembly on September 28, 1950. In accordance with the Resolution of the Constituent Assembly dated November 21, 1950, the interim report was published for inviting suggestions from the public. These suggestions were to be received in the Secretariat of the Constituent Assembly by January 31, 1951. After examinations of bulk of the suggestions, the Basic Principle Committee submitted recommendations as the basis on which the future constitution of Pakistan should be drafted. It is pertinent to mention here that the Basic Principle Committee also appointed five members from minorities through the resolution dated March 12, 1949, including Sir Muhammad Zafrullah Khan, Jogendra Nath Mandal, Kamini Kumar Dutta, Sris Chandra Chattopadhyaya and Prem Hari Barma. 






 


quaid e azam ka tasawur e pakistan.


by syed munawar hassan


pakistan is a miracle and historically great incident


14 AUGUST, Independance day article





Forex trading


21 March 2011

Jinnah: the leader of modern times

Jinnah: the leader of modern times



The period between March 23, 1940 and August 14, 1947 can play an integral part in helping Pakistanis realise the importance of certain ideas in life; whether it's the life of an individual or of an entire nation. To understand all of this, just reading about the steps that the Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah took during these seven vital years can be sufficient enough.
The Pakistan Resolution passed on this very day in the year 1940 bears testimony to the fact that the Quaid had a vision and he was fearless not only to declare it but also to work upon realising it despite numerous hurdles that came in his way. When Jinnah delivered his speech at Minto Park, Lahore and emphasised that by any definition of international law, Muslims of the United India were a separate entity; millions in India identified with his message. Only true leaders can expect to receive this kind of response from the masses.

In 1942, when the British initiated the Cripps Mission, Jinnah and his Muslim League associates were vigilant so as not to fall for the loopholes in that proposal. Through the Cripps Mission, the British had proposed that they would grant full dominion status to the Indian Union, right after the then ongoing Second World War ended. More importantly, it was also said that some provinces would be given the choice to opt out of this perceived Union. While the Congress rejected the proposal for giving this choice of withdrawal to some provinces, the Muslim League also resisted it. The reason for doing so was that Jinnah's men outrightly stated that the proposal was only suited to provinces and the choices they could exercise whereas the majority of Muslims in India were pursuing nothing less than a separate state. 

A leader is one who has immensely powerful foresight. While Gandhi is known the world over for waging a civil disobedience movement against the British and starting the Quit India Movement in 1942, Jinnah was careful in taking sides at that time. Hence, the Muslim League preferred to neither support nor oppose the British and did not press for the British quitting India so quickly and haphazardly that the demand of the Muslims -- for a separate homeland -- remained unmet and neglected.

When the Gandhi-Jinnah talks took place in 1944, Gandhi put forward the idea that at that point in time, Congress and Muslim League should work together to make the British leave India first and later work upon the technicalities of a separate state for Muslims. However, he also stated that even when the British would leave, areas such as defence and foreign policy should remain with the central authority. Jinnah eyed this dual policy on the part of Congress and reiterated that Muslims demanded a separate country at all costs, and they were not ready to be the part of an Indian federation in future. The Quaid also told Gandhi explicitly that by initially stating that the creation of Pakistan could be worked upon and then talking of a central authority, Congress had itself clearly exhibited the low strength of its promise towards Muslims and Pakistan.  In the 1945-46 elections in India, it took a man of unfazed dedication and strength such as Muhammad Ali Jinnah to obtain the overwhelmingly positive results for Muslim League. Election results showed that Congress had been able to obtain 91 per cent of the general votes whilst the Muslim League had won 87 per cent of the Muslims vote, grabbing every single Muslim seat in the Central Legislature. It must be noted here that people often tend to label Gandhi as the peoples' leaders while Jinnah is usually referred to as the legal-minded individual. However, this massive victory of the Muslim League shows just how popular he and his party were.

In 1946, it was the Cabinet Mission plan which tested Quaid-i-Azam's persistence again. The Cabinet Mission put two options in front of him: Either accept Sindh, West Punjab, North West Frontier Province, Balochistan and East Bengal as a separate state or agree to a loose federation constituting the whole of Punjab and Bengal provinces with portfolios such as defence, communications, and foreign policy lying with the centre. Jinnah had the courage to reject both these options. According to him, Pakistan would be mutilated from its very beginning if major provinces such as Punjab and Bengal were not included in their whole forms with Pakistan. The latter option of a loose federation was again totally unacceptable for Indian Muslims. It must have required a great deal of perseverance and a dash of risk-taking from Jinnah to keep refusing all these offers in order to acquire a Pakistan which was the exact replica of how he had imagined it to be for his people.

August 1946 arrived, with little hopes of anything concrete and positive happening for Muslims in the coming days. With every passing day, the feeling that the British might leave India without tackling Muslims' issues increased and thus created uncertainty among India's Muslim population. This was when Jinnah decided to use people's power as the last and final resort. Muslim League gave a call for Direct Action Day on August 16, 1946 with the fact that they would attain independence exactly a year from then unbeknownst to them. The Direct Action Day was observed to get Muslim force registered in the minds of Hindus and British alike. Demonstrations took place across India, with riots taking place in Calcutta, leaving thousands of people dead; of them more Muslims than Hindus.

This action immediately spelt trouble for the Muslims. The British government, just ten days after these protests, announced that an interim government was to be made within a month's time and it would not have any representative from Muslim League in it.
By May 1947, considerable progress had been made and Jinnah's Pakistan was slowly inching closer towards Muslims. The last Viceroy of India, Lord Mountbatten announced that India would be partitioned by June 3, 1948 and by default, the constitution of both separate states India and Pakistan would be the 1935 Government of India Act. It was announced that a Boundary Commission would be established for demarcating boundaries officially and princely states would have the liberty to join India, Pakistan or even stay independent.

Controversies abound to this day. The first one is that just a couple of days after the announcement of the June 3 Plan, it was suddenly announced that the British would leave India much earlier; as early as August 15, 1948. The demarcation of boundaries did not take place as had been formally planned, leaving Pakistan in a quite weak position strategically. The division of financial and military assets was not up to the mark as well.

Still, Jinnah took all of this in his stride and did not complain, for that would have lowered the morale of his followers. Instead, he insisted that Pakistanis must remain positive and look ahead. Despite all these injustices, there was never a streak of negativity in any of his speeches. In his words, it is evident that he wanted to give Indian Muslims a country of their own and at the same time never sound prejudiced against people of other religions. His demand appears clear: Give Muslims their due rights and let others coexist peacefully, whether in Pakistan or on the other side of the border.

It takes centuries to produce people who are so apt at exploiting time to its utmost potential. Jinnah was given just seven years to actualise the words he had spoken at Minto Park, Lahore and he showed us all that it was both possible and achievable.

27 October 2010

Need to revive two nations theory for the betterment of nation


Need to revive two nations theory for the betterment of nation

part 1

Rana Abdul baqi




































To read Part 2 click HERE

17 October 2010

Do Qomi Nazriya-Waqt ke zarorat



Do Qomi Nazriya Waqt ke zarorat tha ore hai



Two nations theory

M. Afzal































Two nation thoery was the need of time and it is still needed.

do qoumi nazriya waqt ki zarorat tha ore hai.
a beautiful articles in urdu written on 14 august pakistan independence day by Muhammad Afzaal

14 august speech

15 September 2010

Tashkeel e Pakistan ke Rohani Bishartein.










Tashkeel e Pakistan ke Rohani Bishartein. Ahem Iqtabasat k ainay main





by GM saqib published in Monthly Mirat ul Arifeen International





Courtesy Alfaqr.net.





Aalmi Tanzeem ul aarfeen


























Page_5






14 august pakistan independance day
jashn e azadi.
a beautiful article writen by G.M saqib
published in monthly iraat ul arifeen international.



History of pakistan

spritual dimentions of pakistan

Why was pakistan made.

Nazriya-e-Pakistan(Sahibzada Sultan Ahmed Ali)










Nazriya-e-Pakistan.





An article written by Sahibzada Sultan Ahmed Ali









Page-1





























Page-2




Nazriya e pakistan An article written by sahibzada sultan ahmed ali on 14 august independance day.

Jashan e Azadi Mubarak

Pakistan independance day

13 August 2010


بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز ساتھیو آج 14 اگست ہے یہ وہروز سعید ہے کہ جس روز مسلمانان ہند کی ایک صدی پر محیط کاوشیں اور قربانیاں رنگ لائیں اور ہم اس قطعہ ۓ زمین کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے
پاکستان : اس ریاست کا یہ نام چوہدری رحمت علی نے اگرچہ بہت بعد میں تجویز کیا مگر اس ریاست کے خدوخال سندھ کی اس ریاست میں 900 سال پہلے نظر آگئے تھے جسے سترہ سالہ محمد بن قاسم نے ایک مسلم دوشیزہ کی عصمت کی حفاظت کے لئے ایک سرکش راجہ کو شکست فاش دینے کے بعد قائم کیا تھا
اس ریاست کی بنیاد تو اسی دن رکھ دی گئی تھی جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا 

اس ریاست کے قیام کا مقصد علاقائی حدود کی حفاظت نہیں بلکہ نظریاتی حدود کی حفاظت تھا جس کی حفاظت مسلمانان ہند کا مقصد اولین اور ان کی ضرورت تھی ۔
اس لئے کہ دینی سماجی معاشی ثقافتی تمدنی سیاسی بنیادوں پر مسلمانوں کا ایک الگ قومی تشخص ہے ۔

1:ہندوں کی گاو ماتا ہے جب کہ مسلمانوں کا ذبیحہ
2: ہندوں کی چٹیا ہے جب کہ مسلمانوں کا ختنہ
3: ہندوں کے مندر کا ناقوس جبکہ مسلمانوں کی مسجد کی اذان
ہندوں کی چھوت چھات جب کہ مسلمانوں کی اخوت و مساوات غرضیکہ کہیں بھی میل ملاپ کی گنجائش نہ تھی نہ ہے اور نہ ہو گی ۔
پاکستان کو حاصل کرنے کا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام تھا جس میں رب ذوالجلال کی حاکمیت کے سائے تلے مسلمان دین متین کے سنہری اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔
سیالکوٹ کے اصغر سودائی نے اس تمام مقصد کو اپنی تمام جامعیت کے ساتھ اس نعرہ میں سمو دیا اور یہی نعرہ برصغیر میں بسنے والے ہر مسلمان کا نعرہ بن گیا ۔
پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ
پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
پاکستان کیا ہے مختصر اور جامع تعریف یوں ہو سکتی ہے کہ
1: پاکستان 1857ئ کی جنگ آزادی کی تکمیل کی طرف ایک مثبت قدم ہے
2: سر سید احمد خان کی علمی تحریک علی گڑھ کا منطقی ارتقاء ہے ۔
3: علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر جو انہوں نے خطبہ الا آباد میں پیش کیا۔
4: مسلمانوں کی بے پناہ قربانیوں کا ثمر
5: قائداعظم کی بے لوث ،بے لاگ ،بے بل ،بے خوف ،ایماندارانہ اور مدبرانہ قیادت کا ثمر ہے ۔
اس ریاست کے حصول کے لئے مسلمانان ہند نے بہت قربانیاں دیں ۔
کتنے لوگ تہہ تیغ ہوئے ؟ کتنی عصمتیں لٹیں ؟کتنے معصوم بچے مارے گئے؟
اس سوال کا جواب تاریخ دان دینے سے قاصر ہیں اس کا جواب صرف پاکستان کی بنیادوں میں محفوظ ہے ۔

کسی بہن کی عصمت تو کسی ماں کی عفت کسی معصوم کی جان تو کسی سہاگن کا جہان کسی ماں کا سپوت تو کسی باپ کا لاڈلہ پوت
یہ سب پاکستان کے نام ہو گئے اس لئے کہ پاکستان کا قیام ایک مقصد تھا ایک ضرورت تھی
مسلم کی آن ، مسلم کی شان ،مسلم ی جان ،مسلم کی پہچان پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان
اسی لئے مسلمانان ہند نے اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا اپنا تن ،من ، دھن اس اسلامی جمہوریہ پر وار کر پھینک دیا ۔پاکستان کے قیام ،اسلام کی سربلندی کے لئے انہیں خون کا دریا پار کرنا پڑا ۔
جب 15 اگست کو بھارت پر آزادی کی دیوی کا نزول ہوا تو امرتسر نے اس روز سعید کو عجب طور منایا کہ آسمان و زمین تھرا اٹھے ۔

جان کونیل نے اپنی کتاب آکنلیک میں لکھا ہے کہ اس روز سکھوں کے ایک ہجوم نے مسلمان عورتوں کو برہنہ کر کے ان کا جلوس نکالا یہ جلوس شہر کے گلی کوچوں میں گھومتا رہا پھر سارے جلوس کی عصمت دری کی گئی اس کے بعد کچھ عورتوں کو کرپانوں سے ذبح کر دیا گیا باقی ککی عورتوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔نعرے لگے واہ گرو کا خالصہ ۔واہ گرو کی فتح
نہیں بلکہ وہ فتح تو ان ماوں بیٹیوں کی تھی جو پاکستان کے نام قربان ہو کر امر ہو گئیں آج کا دن ان کی قربانیوں کو یاد کرنے کا دن ہے ان کی عظمتوں کو سلام کرنے کا دن ہے آج کا دن ہم سے بار بار یہ سوال کرتا ہے

تھے وہ آباء تو تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

یہ دن ہمیں ایک عہد کی یاد دلاتا ہے  
کہ
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلا ب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

والسلام
پاکستان پائندہ باد