Test Footer 2

22 November 2011

یکم محرم: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم شہادت


    


یکم محرم: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم شہادت
  
دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی آئے جنہوں نے اپنی دانشمندی،عمل،جرات وبہادری اورلازوال قربانیوں سے ایسی تاریخ رقم کر گئے کہ قیامت تک ان کے کارنامے لکھے اورپڑھے جاتے رہیں، ان ہی میں سے ایک شخصیت جن کے بارے میں سیدالانبیاء حضرت محمد صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا تھا کہ”اگرمیرے بعد کوئے نبی ہوتا تو عمر فاروق ہوتے“۔

آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں، اس کے انداز حکمرانی کو دیکھتے ہوئے ایک غیرمسلم یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ”اگرعمرکو10 سال اور ملتے تو دنیا سے کفر کا بالکل نام ونشان تک نہ ملتا۔
ان کا نام مبارک عمر، لقب فاروق، کنیت ابو حفض، جو کہ دونوں رسول خدا کے عطیے ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں جاکر رسول اکرم صلى الله عليہ وسلم سے ملتا ہے۔


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا تھا کہ ”حضرت عمر رضی اللہ کا مسلمان ہو جانا فتح اسلام تھا اور ان کی ہجرت نصرت الٰہی تھی اور ان کی خلافت اللہ کی رحمت تھی
۔ شجاعت وبہادری میں اپنی مثال آپ تھے ، غزوہ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو میدان جنگ میں اپنے ہاتھ سے قتل کیا،  غزوہ بنی مطلق میں مقدمہ لشکرآپ کی ما تحتی میں تھا، اس غزوہ میں آپ نے دشمن کے ایک جاسوس کو گرفتار کر کے دشمن کی تمام چالیں معلوم کر لیں، غزوہ خیبر میں میمنہ لشکر کے افسر آپ ہی تھے اس غزوہ میں ہر رات ایک صحابی پہرہ دیتا تھا، جس رات آپ کی باری تھی آپ نے ایک یہودی کو گرفتار کیا اور تمام حالات اس سے معلوم کر لیے ان پر عمل کر کے خیبر کوفتح کیاگیا۔

غزوہ حنین میں جماعت مہاجرین کا ایک جھنڈا آپ کے سپرد تھا،
رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا جنازہ نہ پڑھانے کا مشورہ آپ رضی اللہ نے رسول اللہ کو دیا تھا، اگر غصے کے دوران میں کوئی شخص اللہ کا نام یا قرآن مجید کی کوئی آیت پڑھ دیتا تو آپ فوراغصہ ختم کر دیتے تھے ایسے جیسے غصہ آیا ہی نہ تھا۔
آپ رضی اللہ کا رعب اتنا کے قیصر و کسرا کے درو بام آپ رضی اللہ کا نام سن کر کانپنے شروع ہو جاتے ۔
آل مجوس پر تو رعب اس قدر چھایا کہ آج بھی ایران ( آل مجوس ) عمر نام سے کانپتے ہیں ۔
پورے فارس ایران میں کسی کو عمر نام رکھنے کی اجازت نہیں جو رکھ لے اسکو شناختی کاغذات تک جاری نہیں کرتے ۔
اللہ کے دشمنوں پر عمر رضی اللہ کے رعب کی یہ وضح مثال ہے ۔

تمام زمانہ خلافت میں کبھی خیمہ آپ کے پاس نہ رہا ،سفر میں منزل پر پہنچ کردھوپ یابارش سے بچنے کے لیے کسی
 درخت پر کپڑا تان کرگزارہ کر لیتے تھے۔اپنی مملکت میں ہرایک کا خیال رکھتے تھے حتیٰ کہ جن عورتوں کے خاوندجہاد کے لیے گئے ہوتے تو ان کے دروازوں پرجاکر سلام پیش کرتے،ان کے لیے سودا سلف خرید کر لاتے اورجن کے پاس پیسہ نہ ہوتا اپنے پاس سے لے کر دیتے، جب فوجی لوگوں کے خط آتے تو خودگھروں میںجا کر دیتے، اگر گھر میں پڑھنے والا کوئی نہ ہوتا تو دروازے کے پیچھے کھڑے ہوکرخودسناتے اور ان سے کہہ آتے کہ ڈاک فلاں دن جائے گی آپ خط لکھ رکھنامیں آ کرلے جاں گا، خودکاغذ قلم اور دوات لے کرہرگھر میں جاتے جس نے لکھوایا ہوتا لے لیتے اوراگر نہ لکھوایا ہوتا پوچھ کر خود لکھ دیتے۔

حضرت عمر رضی اللہ رسول اکرم کے رشتے داروں کا بہت خیال رکھتے تھے اسی لیے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ کا وظیفہ 3ہزار اور حسنین کریمین کا 5،5 ہزار،اور اسامہ بن زید کا4 ہزار مقرر فرمایا ۔
حضرت عمر رضی اللہ 10برس 6 مہینے 5دن خلافت کو زینت بخشی 27ذوالحجہ بروز چہار شنبہ کی صبح کومسجد تشریف لائے اورصفوں کو درست کرنے کے بعد نماز کی امامت شروع کی تو آپ رضی اللہ پر ابو لو ءلوء مجوسی نے حملہ کیاآپ کے گرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ نے عبدالرحمن بن عوف کو ہاتھ سے پکڑکر آگے کر دیا تو انہوں نے نماز مکمل کرائی۔

ابولولو نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ پر حملہ کرنے کے بعد دائیں بائیں نماز میں کھڑے لوگوں پر وار کیا جس سے 13افراد زخمی ہوئے ،جن میں سے 9بعد میں شہید ہو گئے۔
یکم محرم کو اتوار والے دن آپ رضی اللہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ کے حجرہ مبارک میں رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔

آپ کی نمازجنازہ حضرت صہیب رضی اللہ نے پڑھائی جبکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ ، حضرت علی رضی اللہ ،حضرت زبیر رضی اللہ ،حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ ،حضرت سعد رضی اللہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ نے قبر مبارک میں اتارا ۔ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مداح تھے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو عمر (رضی اللہ عنہ) کیلئے اُس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔
اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی :{اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیونکہ میں اکثر و بیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔
میں، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے ۔۔۔ تو اسی لیے مجھے (پہلے سے) امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گا۔}
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) تھے جو یہ دعا کر رہے تھے۔
(صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ)

 

 



Yakam muharam, Youm e shahadat hazrat umer (RA)

 

0 comments:

Post a Comment