Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

27 January 2012

ملا کا کردار

ملا کا کردار قدرت اللہ شہاب کی نظر میں

سنگلاخ پہاڑیوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔ ان کی معاشرت، ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رومیش علی، صفدر پانڈے، محمود مہنتی، کلثوم دیوی اور پر بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔

ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے۔ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے۔ کوئی شادی طے ہوگئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔

برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا۔ ایک زمانے میں ملّا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟

دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔

یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔


شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب
❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.

18 January 2012

اکسیر جنونِ نسواں

❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿
اکسیر جنونِ نسواں

❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿
میں شیخ صاحب سے مصافحہ کرکے ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ حتی المقدور اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہوئے عرض کیا: اے شیخ میں آپ سے مشورہ کرنے کیلئے حاضر ہوا ہوں۔ پچھلے ایک سال سے شادی کے بعد سے اب تک میرا نہایت ہی برا حال ہے۔
شیخ صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور گویا ہوئے: کیوں برخوردار، ایسی کیا بات ہے؟ الحمد للہ مجھے تو تم اچھے بھلے نظر آ رہے ہو۔

میں نے اپنے سر کو دائیں بائیں انکار میں ہلاتے ہوئے کہا:
نہیں شیخ صاحب، میں ٹھیک نہیں ہوں، میری بیوی، میری بیوی ایک پاگل ہے۔
کام سے تھکا ماندہ شام کو گھر میں آرام کی خاطر لوٹتا ہوں ہوں تو وہ پھٹ پڑنے کیلئے تیار، ڈھاڑتی ہوئی میرے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔

دیر سے کیوں آئے ہو؟
میں نے جو چیزیں منگوائی تھیں کیوں نہیں لائے؟
یہ کیا گندی چیزیں لے کر آ گئے ہو؟
خریداری کا سلیقہ نہیں ہے تمہیں؟
آج جلدی کس لئے آ گئے ہو؟
شام سے صبح تک تمہیں برداشت کرنا ہوتا ہے وہ کیا کافی نہیں ہوتا؟


شیخ صاحب، میں نے بہت صبر کیا ہے مگر اب تو میں بھی اُس سے ہر بار یہی پوچھتا ہوں کہ کیا عذاب کی لغت میں کوئی ایسی بد زبانی یا ایسا طعنہ بچا ہے جو تو نے مجھے نہ مارا ہو! تیری بد زبانی اور بے ہودگی نے میری زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔
شیخ صاحب، اُسکی ایک بات کے جواب میں مجھے دو سنانی پڑتی ہیں مگر اُسے نہ قائل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی خاموش۔ کئی بار لمحے تو کئی بار گھنٹے اس حال میں گزرتے ہیں، اور پھر گھر میں گزرا باقی کا وقت اپنے بال نوچتے یا ناخن چباتے گزرتا ہے۔
لیکن شیخ صاحب: اب میرا ایسی صورتحال سے دل بھر گیا ہے اور مجھے کراہت ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پاگل عورت میرے ہاتھوں قتل ہو، میں اُسے طلاق دینا چاہتا ہوں۔


شیخ صاحب نے سر کو ہلاتے ہوئے کہا: بیٹے، میں تیری مصیبتوں کا سبب جان گیا ہوں۔ میرے پاس تیرے لئے اسکا ایک علاج ہے، اور اس سے تیرے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔

میں نے تعجب سے شیخ صاحب کو کہا: کیا ہے ایسا علاج، جس سے اُسکا پاگل پن ختم ہو جائے گا؟ لیکن میں اُس میں کوئی رغبت باقی نہیں پاتا، میں اُسے طلاق دیکر چھٹکارا پانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی علاج ہے تو آس کیلئے دیجیئے، میرے لئے نہیں۔

شیخ صاحب نے مسکرا کر اپنے ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا، بیٹے اللہ پر بھروسہ رکھو، آؤ عصر کی نماز ادا کرتے آئیں، اسکے بعد میں تمہیں علاج بتاؤنگا۔
نماز سے واپسی پر مجھے واپس بیٹھنے کا اشارہ کرتے شیخ صاحب اپنے گھر تشریف لے گئے۔ واپسی پر ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بوتل تھامے نمودار ہوئے، بوتل کا منہ ایک ڈھکن سے مضبوتی کے ساتھ بند تھا۔۔۔

میرے قریب بیٹھتے ہوئے مجھے مخاطب ہوئے: یہ لو میرے بیٹے، یہ ہے وہ علاج جسکا میں نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا۔اس علاج کو تم نے اپنے پاس رکھنا ہے، جب اپنے گھر لوٹو تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے، بسم اللہ پڑھ کر اس بوتل میں سے ایک ڈھکنا بھر کر منہ میں ڈالنا ہے مگر اِسے آدھا گھنٹہ نہ تو حلق سے نیچے آتارنا ہے اور ہی نہ پینا ہے۔ہاں مگر آدھے گھنٹے کے بعد پی لینے میں کوئی حرج نہیں۔اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم یہ علاج مسلسل بغیر کسی ناغہ کے دس دن تک کرو۔ اور دس دن کے بعد اللہ کے حکم سے تمہاری بیوی ویسی ہی بن جائے گی جس طرح کی تم خواہش کرتے ہو۔

میں نے اپنے سر کو حیرت کے ساتھ جھٹکتے ہوئے شیخ صاحب سے کہا: ٹھیک ہے میں ایسا ہی کرونگا جس طرح آپ حکم دے رہے ہیں، میری اللہ سے دعاء ہے کہ وہ میری بیوی کے پاگل پن کو اس دوا سے شفاء دیدے جسکو پیوں گا تو میں مگر اثر اس پر ہونا ہے۔

اور دوسرے دن، گھر میں داخل ہونے سے قبل، میں نے جیب سے بوتل نکالی، بسم اللہ پڑھ کر ایک ڈھکنا بھر مقدار سائل کو منہ میں ڈالا، آپکی معلومات کی خاطر عرض کردوں کہ میں یہ جان کر حیرت زدہ سا تھا کہ سائل کا ذائقہ پانی سے زیادہ دور نہیں تھا۔ نہ کوئی رنگ، نہ ہی بو اور نہ کوئی مزا۔

شیخ صاحب کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے ہوئے، منہ کو سختی سے بند کئے، میں گھر میں داخل ہو کمرے میں جانے کیلئے کچن کے سامنے سے ہوتا ہوا گزر ہی رہا تھا کہ میری بیوی کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ حسب توقع دائیں آنکھ اوپر اور بائیں نیچے کئے، اس سے پہلے کہ میں سامنے سے ہٹتا، دانتوں کو پیستے ہوئے بولی: آخر کار آ گئے ہیں آپ جناب! لائیے کدھر ہیں وہ چیزیں جو میں نے منگوائی تھیں! یا ہمیشہ کی طرح میرا کہا ہوا تمہارے سر کے اوپر سے گزر گیا تھا اور خالی ہاتھ واپس آ گئے ہو؟ لاؤ مجھے دو، میں دیکھوں تو کیا لائے ہو؟
اور پھر اُس نے میری خاموشی پر حیرت سے میرے چہرے کو دیکھا، ایک انگلی کو خونخوار طریقے سے میرے چہرے کے سامنے ہلاتے ہوئے بولی: زبان حلق میں پھنس گئی ہے کیا؟

موقع ملتے ہی میں کمرے کی طرف دوڑا، تاکہ جا کر علاج کا آدھا گھنٹہ گزاروں۔ حالانکہ مجھے پورا یقین تھا کہ شیخ صاحب کے علاج کا میری بیوی پر کوئی فائدہ نہیں ہونا ۔خاص طور پر آج تو بے اثر ہی رہا تھا۔

دوسرے دن گھر داخل ہونے سے قبل پھر وہی علاج دہرایا، بوتل میں سے ڈھکنا بھر محلول بسم اللہ پڑھ کر منہ میں ڈال کر گھر میں داخل ہو گیا، تا کہ میری بیوی اپنی مغلظات میرے سر پر مارے۔ اور میں اپنے ہونٹ سختی سے بند کیئے علاج کرتا رہوں۔
آج ذرا خیریت رہی، گھر والی بغور میرے چہرے کو دیکھتی رہی، شاید میری خاموشی کا سبب جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔چند لمحے خاموش رہ کر آہستگی سے بولی: کھانا کھاؤ گے، لاؤں؟
*
*
*
*
*
(اور پھر 5 دنوں کے بعد)
شیخ صاحب کے پاس بیٹھنے سے قبل، میں نے انہیں سلام کیا۔ اور پھر پوچھا: شیخ صاحب، بوتل میں کیا ڈالا تھا آپ نے؟

شیخ صاحب میرے چہرے کو دیکھ کر مسکرائے اور بولے: بیٹے پہلے اپنی سناؤ، میرے علاج نے کوئی اثر بھی دکھایا ہے یا نہیں؟
میں نے اپنا سر اوپر سے نیچے کی طرف ہلاتے ہوئے کہا: شیخ صاحب، یہ کچھ ہوا ہے ان دنوں میں اور یہ صورتحال ہے اب تک کی۔ دو دن ہو گئے ہیں میری بیوی تو بالکل ویسی بن گئی ہے جس طرح دلہن بن کر آئی تھی۔ شیخ صاحب، اب تو بتائیے، کیا ڈالا تھا آپ نے اس بوتل میں؟ (میں اس وقت تک اس بوتل کا نام – اکسیر جنونِ نسواں – رکھ چکا تھا)۔

شیخ صاحب نے بولنے سے پہلے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بولے: بیٹے، اس بوتل میں، میں نے تمہیں پانی ڈال کر دیا تھا، اپنے گھر میں رکھے گھڑے میں سے۔
میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، میں نے تعجب سے کہا: پانی؟ صرف پانی؟ کیا اس بوتل میں کوئی دوا نہیں تھی، صرف پانی تھا؟ اچھا برکت کیلئے کم از کم آپ نے اپنا لعاب تو ضرور ڈالا ہو گا اس میں، آخر میری بیوی کو کس طرح شفاء ملی ہے اس سے؟

شیخ صاحب ایک بار پھر مسکرائے اور مجھ سے یوں مخاطب ہوئے: دو باتوں سے تمہارا مسئلہ بڑھ رہا تھا۔
پہلا: سارے دن کے کام کے بعد شام کو تم تھکے ہارے گھر پہنچتے تھے تو تمہارا مطمع نظر محض سکون اور آرام ہوتا تھا بغیر کسی اضافی کام یا مشقت کے۔
دوسرا: تمہاری بیوی سارے دن کی تنہائی، خاموشی اور اُکتاہٹ کا شکار تھی، تمہارے گھر پہنچنے پر وہ تم سے باتیں کرنا چاہتی تھی مگر گفتگو کو شروع کرنے کیلئے کوئی مناسب موضوع نہ ملنے پر وہ طعن و تشیع اور فضول الزم تراشی پر اتر آتی تھی۔

اور اس سب خرابیوں میں تمہارا کردار یہ تھا کہ تم اس طعن و تشیع اور الزم بازی میں تحمل کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ اس رویئے کو نظر انداز کرنا تو در کنار، اُلٹا تم طلاق دینے کی سوچ رہے تھے۔
بیٹے: ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ تم خاموش رہ کر اپنی بیوی کی باتیں سنتے، اُسکی دلجوئی کرتے، سارے دن کی رویداد سنتے یا سناتے، یا اسکو اپنے سینے کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کرتے، یا پھر محض تمہاری خاموشی ہی اسکا علاج تھی۔
تمہارے مرض کی کیفیت کو ذہن میں رکھ کر میں نے جو علاج تجویز بوتل میں بند کر لے تمہیں دیا تھا، وہ محض میرے گھر کے گھڑے کا پانی تھا۔ تاکہ جب تک کچھ آرام پا کر تمہارا موڈ ٹھیک نہ ہو اس وقت تک پانی منہ میں رکھ کر کم از کم تمہارے ہونٹ تو سلے رہیں۔

میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ تم اتنا سا ہی خاموش رہنا سیکھ جاؤ جتنی دیر میں تمہاری بیوی بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی روئیداد نہ سنا لیا کرے۔اور جب وہ بول رہی ہو تو تم توجہ سے اُس کو سن لیا کرو۔
اس طرح اُس کے دل میں یہ بات بیٹھ سکتی تھی کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ اُس کی محبت کیلئے ہے، اور رد عمل کے طور پر وہ بھی ایسا رویہ اپنائے جو تمہاری دل آزاری کا باعث نہ بنا کرے۔

بیٹے تمہاری بیوی کا علاج تمہاری طرف سے شروع ہونا تھا جس کی ابتداء میں نے تمہیں یہ دوا دے کر کی۔ اور اس علاج سے میں یہی بات میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا کہ تمہاری بیوی کی دوا – اکسیر جنونِ نسواں – صرف اور صرف تمہاری خاموشی تھی۔

❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿
عزیزان من، آپ بیشک بہت اچھے مقرر اور بہت اچھی گفتگو کرنے کا فن رکھنے والے ہونگے، مگر کبھی دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دیجیئے، شاید آپ کو اس طرح کچھ فائدہ ہی پونہچے، ورنہ کم از کم آپ کی سماعت سے بولنے والا عزت افزائی تو ضرور ہی محسوس کرے گا ناں! اور یہی کچھ گفتگو کے آداب میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیمات دی ہیں۔
❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿.❤.✿

15 January 2012

اپنی شکل دیکھی ہے کبھی، بڑے آئے ارفع لینے والے




اپنی شکل دیکھی ہے کبھی، بڑے آئے ارفع لینے والے
فراز اکرم 





کل انٹرنیٹ پر ایک مضمون پڑھا جس کا عنوان تھا کہصرف ارفع کریم ہی کیوں؟   
جس میں لکھنے والے نے رب سے شکایات کی تھی کہ صرف ارفع کریم کی کو کیوں بلا لیا، ہم سب بیکار کے لوگ زندہ ہیں اور ارفع چلی گئی۔
آئیےدیکھیں کہ صرف عرفہ کریم کیوں۔

سب سے پہلے ایک اور واقعہ سن لیں

لاہور گرائمر سکول میں 14 جنوری کو میوزیکل شو ہوا، یہ وہی سکول ہے جس میں ارفع کریم رندھاوا اے-لیول کر رہی تھی اور اس منفرد انداز سے جس دن پاکستان کا نام روشن کرنے والی اپنی آخری آرام گاہ کا مسکن بن رہی تھی، اس سکول جس کے لیے اعزاز تھا کا ارفع کریم رندھاوا اس سکول میں پڑھ رہی تھا،جب پورا پاکستان رنج و غم میں تھا، لاہور اور کراچی کے آئی-ٹی سے متعلقہ پروجیکٹ کے نام اس کے نام سے منسوب ہو رہے تھے۔۔۔ وہاں اسی لاہور گرائمر سکول میں ایک گلوکار قرۃ العین بلوچ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی۔۔۔
یہ ہے احساس اپنے ہیروز کے لیے جو دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔۔۔۔

جب ساری قوم کا ضمیر مر جائے تو اسی طرح ہوتا ہے۔ گلی کے نکڑ پر بوری میں لاش پڑی ہوتی ہیں اور محلے میں شادی کے ہنگامے اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ ناچ ، گانے دھمال زوروں پر چل رہے ہوتے ہیں۔ جانور بھی دوسرے مردہ جانور کے پاس سے گزرتا ہے تو کچھ دیر کے لیے رک جاتا ہے۔ ابھی بھی الله کا عذاب نہ آئے

آپ نے رب سے شکایات کی ہیں کہ صرف ارفع کریم کو کیوں بلا لیا، ہم سب بیکار کے لوگ زندہ ہیں اور ارفع چلی گئی۔
ارے بھائی کیا ہم اس قابل تھے کہ ارفع ہمیں دی جاتی؟؟؟
جیسے کہا جاتا ہے کہاپنی شکل دیکھی ہے کبھی بڑے آئے ارفع لینے والے

لال گلابوں کی جگہ خون کی لالی
کھلکھلاتی کلیوں کی جگہ کافور کی خوشبو میں بسے قبرستان
درسگاہوں پر قتل گاہوں کا گمان
چند ٹکوں کے عوض ناچتی ماڈل حیا
جہاں انقلاب پہلے بِکنے پھر بَکنے کا نام ہو
جس ملک کو ارفع مقاصد کے لیئے بنایا ہو
جس نے عرفات کی پاسبانی چھوڑ کر حرم فروشی کی ہو
اس قوم سے ارفع چھین لی جاتی ہے۔
ہم ارفع کے قابل ہی نہیں تھے

12 January 2012

الله کا شکر ہے کہ میں طالبان کی قید میں تھی!

 
الله کا شکر ہے کہ میں طالبان کی قید میں تھی!
"اگر کسی اور قوم کی قید میں ہوتی تو میرا حال گوانتاناموبے اور ابوغریب جیل کے قیدیوں جیسا ہوتا، مجھے اسلام کی دشمنی افغانستان لے گئی، مگر اسلام میری آخری تمنا بن گیا"

ون ریڈلی وہ برطانوی صحافی خاتون ہیں جو 28 ستمبر 2000ء کو خفیہ طور پر افغانستان میں داخل ہوتے ہوئے طالبان کی قید میں چلی گئی تھیں اور 10 دن تک طالبان کی قید میں رہیں۔ اسی قید نے انہیں کفر کی زندگی سے آزادی دلوائی۔ قید سے آزاد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور عیسائیت کو ترک کرکے اسلام قبول کر لیا۔ آج کل وہ اسلام اورامت مسلمہ کے مسائل کی انتہائی سرگرم ترجمان ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں جدھر بھی جاؤں اسلام کی روشنی پھیلا دوں اور اسلام کے لیے لوگوں نے جو تعصب کی آ گ پھیلا دی ہے اسے بجھادوں۔

ون ریڈلی لندن کے اخبار”سنڈے ٹائمز“ میں ایک صحافی کی حیثیت سے کام کرتی تھیں۔ جب امریکی وبرطانوی فوج کی طرف سے افغانستان پر حملہ ہونے والا تھا تو رپورٹنگ کے لیے انہوں نے اپنے اخبار کو افغانستان جانے کی پیش کش کی۔ پاکستان پہنچنے کے بعد انہوں نے افغانستان کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر کامیابی نہ ملی، لیکن انہوں نے افغانستان جانے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا، اس لیے ایک افغانی کی مدد سے جعلی شناختی کارڈ بنواکر وہ افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ ان کا گائیڈ جب ان کو اپنے گاؤں لے کر گیا تو وہاں کے لوگوں نے بڑی محبت سے ون ریڈلی کا استقبال کیا۔ گاؤں والوں کو جب یہ پتا چلا کہ ریڈلی ایک مغربی عورت ہے تو وہ ڈر گئے، کیوں کہ وہاں بلا اجازت غیر ملکیوں سے رابطہ رکھنا جرم تھا لیکن اپنی روایتی میزبانی نے ان کو ریڈلی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ان کی میزبانی سے فارغ ہو کر ریڈلی اپنے گائیڈ کے ساتھ وہاں سے آگے روانہ ہو گئیں۔ کچھ دور وہ دونوں پیدل چلے، اس کے بعد گائیڈ نے ون ریڈلی کو خچر پر سفرکرنے کو کہا۔ ریڈلی نے سوچا پہاڑی راستے پر چلنے سے بہتر ہے کہ وہ خچر پر بیٹھ جائیں۔ ان کے خچر پر بیٹھتے ہی وہ بد کا اور اس نے دوڑ لگا دی اور کچھ دور جاکر رک گیا۔ ون ریڈلی نے دیکھا کہ وہاں مقامی لباس میں ملبوس ایک مسلح شخص کھڑا ہے، وہ ایک خوب صورت نوجوان تھا، جس کے چہرے پر داڑھی تھی ، وہ ون ریڈلی کے گلے میں جھولتے کیمرے کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ وہ ایک صحافی ہیں۔ اس شخص جس کا مجھے کچھ دیر بعد علم ہوا کہ وہ طالبان فوجی ہے نے کیمرہ ان سے لے لیا اور خچر سے اترنے کو کہا ، اسی اثنا میں وہاں پر اور بھی مسلح طالبان آگئے۔

ون ریڈلی کہتی ہیں کہ ” میں نے سوچا اس وقت میں دنیا کے سب سے ظالم اور شیطان طالبان کی قید میں ہوں، اب پتہ نہیں وہ میرا کیا حشر کریں گے؟ “ مسلح لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے، لیکن نہ کسی نے انہیں ہاتھ لگایا اور نہ کسی نے ان سے کوئی بات کی ۔ پھر ان کو اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر وہ آگے بڑھے۔ ایک مقام پر رک کر کھڑے ہو گئے ، وہاں پر بہت سے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ ون ریڈلی نے سوچا شاید ان کو سنگسار کیا جائے گا۔ اتنے میں شور اٹھا، ایک آدمی ایک خاتون کے ساتھ ادھر ہی آرہا تھا۔ اس عورت نے آتے ہی ون ریڈلی کے جسم کو ٹٹولنا شروع کیا۔ پتہ چلا کہ یہ لوگ یہاں رک کر اسی عورت کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ آکر اس کی تلاشی لے سکے۔ ون ریڈلی کہتی ہیں کہ اس وقت میں نے سوچا کہ میں دنیا کے مہذب ترین ملک کی شہری ہوں، لیکن وہاں کسی عورت کی جامہ تلاشی کے لیے اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا، یعنی عموماً مرد سیکورٹی اہلکار ہی خواتین کی جامہ تلاشی لیتے ہیں اور یہ دنیا کے سب سے جاہل اور ظالم فوجی اس بات کا خیال کر رہے ہیں کہ ایک عورت کی جامہ تلاشی مرد نہ لے، بلکہ ایک عورت ہی لے ۔ تلاشی کے دوران ون ریڈلی نے اپنے کپڑے اوپر اٹھا دیے تو وہاں موجود تمام لوگ اپنا چہرہ دوسری طرف کرکے کھڑے ہو گئے۔

گرفتاری کے بعد ون ریڈلی نے اس گروہ کے ایک فرد سے سٹیلائٹ فون کا مطالبہ کیا، تاکہ وہ اپنے گھر اور دفتر والوں کو اپنی گرفتاری کی اطلاع دے سکیں۔ ان کے انکار پر ریڈلی نے بھوک ہڑتال کر دی۔ ون ریڈلی کا خیالی تھا کہ دنیا کی سب سے ظالم فوج کو ان کی بھوک ہڑتال کی کیا پروا ہو گی؟ لیکن وہ لوگ اس کی بھوک ہڑتال سے پریشان ہو گئے اور طرح طرح سے ان کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کی کوشش کرنے لگے ، پھر ایک بزرگ آئے ، وہ ون ریڈلی کو انگریزی میں سمجھانے لگے اور ان کے کھانے سے مسلسل انکار پروہ رونے لگے۔

بھوک ہڑتال کے دوران ایک دن ان کی طبیعت خراب ہو گئی تو ان کے لیے فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ جس فوج کے بارے میں ون ریڈلی نے سن رکھا تھا کہ یہ دنیا کی سب سے ظالم اور شیطانی فوج ہے، ان کے اس رویے سے وہ بہت حیران تھیں۔ ایک دن ان کا ترجمان ان کے پا س آیا ،جو انگریزی جانتا تھا، اس نے ان سے کہا کہ ایک بہت بڑی شخصیت ان سے ملنے آرہی ہے ، ترجمان نے ان سے یہ بھی کہا کہ ان سے کوئی بدتمیزی نہ کرنا۔ اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد دروازہ پردستک ہوئی ۔ یہ بھی ایک عجیب بات تھی کہ وہ ایک قیدی تھیں، لیکن دروازہ کھولنے کا اختیار اور چابی انہیں کے پاس تھی، ون ریڈلی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر وہ تھوڑی خوف زدہ ہو گئیں ، وہ ایک طویل القامت شخص تھا، اس کی لمبی داڑھی تھی اور اس نے لمبا چغہ پہن رکھا تھا، اس کے چہرے سے جیسے ایک نور نکل رہا تھا۔ وہ شخص اجازت لے کراندر داخل ہوا اور ون ریڈلی کا حال واحوال پوچھنے کے بعد اس نے اس سے اسلام کے بارے میں پوچھا۔ ریڈلی نے سوچا اگر اس کے سوال کا جواب نہ دوں گی تو رہائی مشکل ہو جائے گی، لہٰذا اس نے درمیانی بیان دیا کہ اسلام بہت اچھا مذہب ہے ، اسلام امن اورسلامتی کامذہب ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ تم اسلام کیوں قبول نہیں کر لیتیں ؟ ون ریڈلی نے سوچا کہ ابھی اسلام قبول کیا تو سمجھیں گے کہ دباؤ میں اسلام قبول کیا ہے، اس لیے اس نے چالاکی سے کہا کہ اگر مجھے رہا کر دو تو میں وعدہ کرتی ہوں کہ اسلام اور قرآن کا مطالعہ کروں گی۔ جاتے وقت اس شخص نے کہا، تم ان شاء الله جلد گھر چلی جاؤ گی۔

اگلی صبح کچھ فوجی آئے اور اسے لے کر چلے ۔ ون ریڈلی نے سوچا شاید اسے رہاکیا جارہا ہے، مگر وہ اسے خواتین کے قید خانے میں لے گئے۔ جب وہ وہاں داخل ہوئیں تو اس نے دیکھا کہ وہاں کچھ یورپی خواتین دائرہ بنائے با آواز بلند بائبل کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ انہیں ان کی عبادت سے کوئی نہیں روک رہا تھا، کیوں کہ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو اپنی عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہے، البتہ وہ اپنے دین کی تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ون ریڈلی نے سگریٹ پینا چاہا تو ان خواتین نے بتایاکہ نو اسموکنگ ایریا ہے، یہاں مرد اور عورت کوئی سگریٹ نہیں پیتے۔ ایک دن ون ریڈلی نے ایک افسر کے سامنے تھوک دیا، افسروں کو برا بھلا کہنا تو اس کا معمول تھا، ون ریڈلی کو لگا کہ تھوکنے کی وجہ سے اسے سزائے موت ضرور دے دی جائے گی۔ ایک شخص نے کہا کہ تم نے ہمارے لیڈر کے ساتھ بدتمیزی کی ہے، جس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی اور تمہاری سزا یہ ہے کہ آج سبھی قیدی اپنے اپنے گھر فون کریں گی، مگر تمہیں فون کرنے کی اجازت نہیں ملے گی ۔ دنیا میں مشہور ”ظالم“ حکومت نے یہ سزا اسے دی تھی۔

ون ریڈلی اپنی قید کے دوران ہوئے ایک دلچسپ واقعہ کو اس طرح سناتی ہیں کہ ” ہماری جیل میں مرد کم ہی آتے تھے، بس قید خانہ کے دروازہ پر مرد پہرے دار رہتے تھے۔ ایک بار میں نے اپنا زیر جامہ دھو کر سکھانے کے لیے قید خانے کے ایک حصے میں پھیلا دیا۔ کچھ دیر بعد ایک افسر میرے پاس آیا اور زیر جامہ وہاں سے ہٹانے کو کہا، میں نے ہٹانے سے صاف انکار کر دیا، اس پر انہوں نے ایک کپڑا اس کے اوپر ڈالوا دیا، لیکن مجھے انہیں پریشان کرنے میں مزا آتا تھا، میں نے وہ کپڑا اوپر سے ہٹا دیا اور کہا ، تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے، اگر ان کے اوپر کپڑاڈال دو گے تو یہ خشک کیسے ہو گا؟ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا ایک شخص میرے پاس آیا، تعارف کرایا گیا کہ یہ افغان نائب وزیرخارجہ ہیں۔ انہوں نے بھی مجھ سے میرے زیر جامہ وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہاں ہمارے پہرے دار ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے انہیں فاسد خیالات آسکتے ہیں ۔ اس وقت میں سوچتی رہی کہ یا خدا! یہ کیسے لوگ ہیں؟ چند گھنٹوں بعد امریکا وبرطانیہ بھرپور طاقت کے ساتھ ان کے ملک پر حملہ کرنے والے ہیں اور یہ صرف اس خوف سے مجھ سے میرے کپڑے ہٹانے کے لیے گفت گو کرنے آرہے ہیں کہ کہیں ان کے پہرے داروں کے دل میں فاسد خیالات نہ آجائیں۔

امریکی حملے کے دوسرے روز طالبان فوجی ون ریڈلی کے پاس آئے اورکہا کہ ہم تمہیں حفاظت کے ساتھ پاکستان پہنچا دیتے ہیں ۔ ون ریڈلی حیران تھیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں،موت ان کے سروں پر کھڑی ہے اور یہ اسے حفاظت سے یہاں سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں؟ اس کے بعد وہ بحفاظت اُسے سرحد تک لائے اور پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا۔

ون ریڈلی کہتی ہیں کہ میں الله کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں طالبان کی قید میں تھی، اگر کسی اور قوم کی قید میں ہوتی تو میرا حال گوانٹاناموبے اور ابو غریب جیل کے قیدیوں جیسا ہوتا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا حال دیکھ کر وہ الله کا شکر ادا کرتی ہیں کہ وہ امریکا کی قید میں نہیں تھیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ون ریڈلی نے ان کی بہن فوزیہ صدیقی کے ساتھ کئی بار پریس کانفرنس میں حصہ لیا۔

ون ریڈلی نے قید کے دوران طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ رہا ہونے کے بعد قرآن کریم کا مطالعہ کروں گی اس لیے آزادی نصیب ہونے کے بعد انہوں نے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا، ساتھ ہی اسلام میں انسانی حقوق اور عورت کے مقام کو بھی جاننا شروع کیا، طویل مطالعہ کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ اسلام وہ واحد دین ہے جس نے عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دیے ہیں۔

ون ریڈلی جون2002ء میں کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام کے دائرے میں شامل ہو گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے اسلام دشمنی کے لیے افغانستان بھیجا گیا تھا، مجھے کیا پتہ تھا کہ اسلام میرے لیے آخری تمنا بن جائے گا اورمیری زندگی اسلام کے لیے وقف ہو جائے گی۔ الله تعالیٰ میرا حامی وناصر ہو اورمجھے راہ حق پر قائم رکھے۔ آمین

ون ریڈلی نے ایک کتاب بھی لکھی
 (In the hands of taliban)

جس کا اردو ترجمہ "طالبان کی قید میں" یہاں سے ڈاؤنلوڈ کیا جا سکتا ہے




Tags:
Yvonne Ridley, maryam, taliban, captive, (یو آنے رڈلے سے مریم تک )
Accepted islam

11 January 2012

victory is near: we are rising

Victory is coming alhamdolilah.
see how the world changed in past 20-30 years and whats going to happen next



tags:
sheikh imran hosein
black flags from khurasan
adan abyan, army of imam mehdi
condition of muslim world
revival of muslim ummah

9 January 2012

مشنری سکولوں کی تباہ کاریاں




پشاور کے دو مشہور ڈاکٹر لندن میں کسی کام سے گئے تھے کہ اس دوران انکو اطلاع ملی کہ فلاں جگہ پر پشاور سے آئے ہوئے ایک مشہور سکالر خطاب کریں گے ، تو ان دونوں پاکستانی ڈاکٹروں نے یہ سوچا کہ شائد کوئی دینی رہنماء یا پاکستان کے کسی یونیورسٹی کا چانسلر ہوگا لھذا انہوں نے بھی اس پروگرام میں شرکت کا ارادہ کیا۔

جب یہ پاکستانی ڈاکٹر اس پروگرام میں پہنچے تو انکو یہ جان کر سخت حیریت ہوئی کہ پشاور سے آیا ہوا ایک بوڑھا انگریز تقریر کر رہا تھا اور تقریر کے دوران وہ اپنے ادارے کیلئے چندے کا مطالبہ کر رہا تھا۔
مجمع میں سے ایک انگریز نے اُٹھ کر یہ پوچھا کہ تمھارے ادارے کا کیا فائدہ ہے تو اس نے جواب میں ایک فلم چلائی ۔ فلم کیا تھی پشاور کے ایڈورڈ کالج کے میں داخل ہونے والے لڑکے کا کیرئیر ریکارڈ تھا۔
لڑکا جب کالج میں داخل ہوا تھا تو پکا مسلمان لیکن جب وہ دو سال بعد کالج سے فارغ ہوا تو اسلام کے نام پر ایک کالا دھبہ تھا اور اسلام دشمن طاقتوں سے زیادہ اسلامی نظام کیلئے خطرناک ۔

بوڑھے پرنسپل نے کہا کہ میرے ایڈورڈ کالج میں جب لڑکا داخل ہوتا ہے تو مسلمان لیکن کالج سے فارغ ہونے کے بعد اسکا نام تو مسلمانوں والا رہ جاتا ہے لیکن اندر سے وہ اسلام سے بالکل خالی ہوتا ہے۔
اور یہی میرا اصل مقصد ہے۔

اب یہ اس طالب علم پر منحصر ہے کہ وہ ایڈورڈ کالج کے ماحول سے کتنا اثر لیتا ہے۔
نیز اس نے یہ بات بھی بتائی کہ اس ایڈورڈ کالج پشاور کا دھوبی کالج کے لڑکوں کو باقاعدہ اور منظم طریقے سے شراب مہیا کرتا تھا تاکہ یہ مسلمان لڑکے کالج کے دور سے ہی شراب کے عادی بن جائیں۔
نیز انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے دو گورنروں کے علاوہ سارے کے سارے گورنر ایڈورڈ کالج کے پڑھے ہوتے تھے اور یہ کام منصوبہ بندی کے سبب ہوتا تھا۔
اسی طرح لاہور کے ایچیسن کالج اور ایف سی مشنری کالج کا بھی یہی حال ہے کہ وہاں ڈیگال اور شیکسپیر کی تاریخ تو پڑھائی جاتی ہے لیکن حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کا تعارف تک نہیں کرایا جاتا۔
اور یہ ہمارے ملک کے بڑے بڑے سب ان مشنری کالجوں اور اکسفورڈ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اور اسی لئے یہ لوگ اسلام سے زیادہ عیسائیت کے وفادار ہوتے ہیں۔

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
اس پر تھوڑا غور ضرور کیجیے..... اپنے بچوں کو سکول داخل کرتے وقت یہ دیکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ وہاں سے کیا حاصل کر کے نکلیں گے.
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬


ایک اور واقعہ بھی سن لیں

 
مولانا حس جان صاحب کہتے تھے کہ میں حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں تھا تو چارسدہ کے نامور اور مشہور وکیل میرے پاس آئے اور پوچھا کہ مولانا صاحب کیا محمد (صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم) مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے، تو حسن جان صاحب نے ان سے کہا کہ وکیل صاحب مذاق کر رہے ہو یا سچ میں آپکو معلوم نہیں تو وکیل صاحب نے کہا کہ جی واقعی مجھے اس بات کا علم نہیں کہ محمد (صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم) کب گذرے ہیں۔

پھر مولانا صاحب نے اس کم علمی کا سبب پوچھا تو وکیل صاحب نے جواب دیا کہ جی میں نے سارا تعلیم مشنری سکولوں میں حاصل کیا ہے، اور وہاں تو صرف ہمیں ڈیگال اور جارج واشنگٹن اور ہٹلر کے بارے میں بتایا جاتا ہے، اور محمد عربی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کا تو تعارف تک نہیں کرایا جاتا ۔ یہ وکیل اب اگرچہ عمر رسیدہ ہے لیکن پشاور کے قریب چارسدہ کا مشہور وکیل گذرا ہے۔اور اب بھی زندہ ہے۔




tags
مشنری سکولوں کے عزائم اور مقاصد.
missionary schools in Pakistan
avoid, 
what generation we are creating with these missionary schools

christian preecher insulted Prophet and got killed by a dog








In the year 1258 (675 A.H.), there lived a tyrant Mongolian leader by the name of Haloko, who invaded Baghdad and killed thousands of Ulama. This paved the way for Christian missionaries to preach Christianity and convert peoples openly. Haloko himself was married to a Christian woman. One day, a delegation of the most notable Christians headed for Baghdad to attend a grand party to celebrate the conversion of a key Mongolian leader to Christianity. The Mongolian leader had his favorite hunting dog on a leash nearby.

One of the Christians then began congratulating the Mongolian leader on his wise decision and then proceeded to revile the blessed character of our Beloved Rasool (Sallallahu Alaihi Wasallam). The dog started acting violently and jumped on the Christian, scratching him badly. It took several men to make the dog let go of the Christian. 


One of the attendees turned to the Christian and said, “The dog did this because of what you said about Muhammad (Sallallahu Alaihi Wasallam).” The Christian brushed aside the man’s comment and arrogantly said, “No, that was not the reason for the dog’s reaction. When I was speaking, I pointed with my hand and the dog thought that I was going to hit him.”

The Christian appeared unmoved by the incident and continued to insult the Holy Prophet (Sallallahu Alaihi Wasallam). At that time the dog, in such a rage, cut itself loose, jumped on the Christian and sank its molars in the man’s neck. It snatched his throat out and the man died immediately. This incident caused 40 000 Mongolians to embrace Islam. [Ad-Durar al-Kaaminah, Vol. 3, page 202]

 

pléáśé ŕéćíté dáŕőőd őńé tímé

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
"O Allah, let Your Blessings come upon Muhammad and the family of Muhammad, as you have blessed Ibrahim and his family. Truly, You are Praiseworthy and Glorious. Allah, bless Muhammad and the family of Muhammad, as you have blessed Ibrahim and his family. Truly, You are Praiseworthy and Glorious".







Read this in urdu









Tags

A Dog's Love for Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam.

christian missionary killed by a dog.

christian Preecher insult of Prophet,
Prophet Muhammad (PBUH)
history,









6 January 2012

sopore massacre




سوپور کے قتل عام کی 19 ویں برسی

سرینگر سے 48کلومیٹر کے فاصلے پر سوپور میں 6 جنوری 1993ء کے دن بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کے قتل عام اور ان کے مکانات اور دکانوں کو جلا کر خاکستر کرنے کی برسی منائی گئی۔ اس دن بھارتی فوجیوں کی گولیوں سے کم ازکم ساٹھ بے گناہ کشمیری شہید ہوئے جبکہ سینکڑوں مکانات، دکانیں اور کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادوں کو جلا کر خاک کر دیا گیا۔ فوجیوں نے یہ کارروائی اپنے ایک ساتھی کے زخمی ہونے اور اسکی رائفل چھن جانے کیخلاف انتقام لینے کیلئے کی۔

اس خونی واقعہ کے 19 سال گزرنے کے بعد بھی لوگ 6 جنوری 1993ء کو پیش آنیوالے قتل عام اور تباہ کاریوں کو نہیں بھول سکے۔ اس دن سوپور کی مارکیٹوں کو نوے منٹ کے اندر جلا کر زمین بوس کر دیا گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مدت میں ہزاروں دکانوں اور مکانات کو آگ لگا کر تباہ کرنے کے علاوہ کم ازکم ساٹھ افراد جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے شہید کر دیئے گئے جن میں سے کئی بھارتی فوجیوں نے زندہ جلا دیئے۔ اس واقعے کے ایک عینی شاہد محمد رمضان نے بتایا کہ لوگ جو جلتے ہوئے مکانوں اور دکانوں میں پھنسے ہوئے تھے مدد کیلئے چیخ وپکار کر رہے تھے لیکن کوئی بھی ان کی مدد کیلئے نہیں پہنچ رہا تھااور نہ ہی سول حکام اور پولیس نے انہیں بچانے کی کوشش کی۔ بھارتی فوجیوں نے یہ قتل عام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا۔ جب فوجیوں نے چاروں طرف سے فائرنگ شروع کر دی تو لوگ پناہ لینے کیلئے دکانوں میں گھس گئے لیکن فوجیوں نے دکانوں کو آگ لگا دی جس سے کئی افراد زندہ جل گئے۔ ایک خاتون نے اپنے بچے کیساتھ ایک دکان میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن فوجیوں نے اسکا بچہ اس سے چھین کر آگ میں پھینک دیا اور بعد ازاں اسے بھی گولی مار کر شہید کر دیا۔ ایک اور عینی شاہد غلام رسول نے بتایا کہ فوجیوں نے ایک مسافر بس کو روک کر اس میں سوار تمام مسافروں کو ہلاک کر دیا۔ علاقے کے لوگ تین دن تک جلے ہوئے مکانات اور دکانوں کے ملبے سے لاشیں نکالتے رہے۔ اس واقعے کیخلاف کئی دن تک زبردست مظاہرے کئے گئے لیکن مجرموں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کئی گئی۔


January 6, : In occupied Kashmir, massacre in Sopore town 19 years back, when the apple town witnessed the worst incident of arson at the hands of troopers of Border Security Forces leading to death of at least 57 people, a dozen of them roasted alive, besides reducing 350 shops and residential houses to rubble and ashes on 6 January, 1993.

The ‘Time’ magazine had titled the news report (on January 18, 1993) “Blood tide rising: Indian forces carry out one of the worst massacres in Kashmir’s history.” The publication described the massacre, and the protests that ensued thus: “Perhaps there is a special corner in hell reserved for troopers who fire their weapons indiscriminately into a crowd of unarmed civilians. That, at least, must have been the hope of every resident who defied an army-enforced curfew in the Kashmiri town of Sopore to protest a massacre that left 55 people dead and scores injured.”

The memories of the bloodiest of the massacres carried against the civilian population in Valley remains fresh in hearts and minds of the people particularly denizens of the apple town even after eighteen years.

The local residents regard the incident as one of the worst massacres in the history of Kashmir.

“I cannot forget that horrendous incident till I am alive; the troops were on rampage; I lost two relatives in the incident,” said Ali Muhammad, an eyewitness and survivor of the carnage. “I wonder can doomsday be worse,” he says.



(¯`v´¯) 
 `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤ 
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥