Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

23 September 2012

میڈیا کے ظالمو! تمہاری چیخیں آج ہی کیوں نکلیں؟





ناموس رسالت کے جلوسوں میں اگر کچھ تخریب ہوئی اور مسلمانوں کے اپنے ہی جان ومال کا نقصان ہوا، تو اس کی تائید کوئی بھی نہیں کرتا۔ یہاں صرف الیکٹرانک میڈیا کا اصل تعصب دکھانا مقصود ہے جو اس موقع پر ہونے والے جان و مال کے نقصان کو بنیاد بنا کر اِس پورے ایشو کو منفی انداز میں پینٹ کررہا ہے۔ حالانکہ یہ جن ایشوز کو اٹھانے پر زور لگا رہا ہوتا ہے (جیسے افتخار چودھری کی بحالی کے وقت تھا یا بی نظیر کے قتل پہ تڑپ اٹھنے کا مسئلہ تھا، حالانکہ ڈھیروں نقصانات اُس وقت بھی ہوئے تھے) وہاں یہ نقصانات کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرتا جتنا کہ اُس ’’ایشو‘‘ کو اٹھانے اور ہائی لائٹ کرنے پر جوکہ معاملے کی اصل جان ہوتی ہے۔ مگر یہاں یہ ناموس رسالت کے ایشو کو نہیں اٹھا رہا البتہ اس سے سامنے آنے والے نقصانات کو ہائی لائٹ کرتا جارہا ہے۔ سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا خباثت کارفرما ہے۔

میڈیا کے ظالمو!

تمہاری چیخیں آج ہی کیوں نکلیں؟

نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر حرف اٹھانے والی اس ملعون فلم کے منظرعام پر آئے کتنے دن ہوچکے؟

کتنی دیر سے دنیا بھر کی سکرینوں اور اخباری صفحات پر خیرالبشر صلى اللہ علیہ وسلم کا ٹھٹھہ اور مذاق ہورہا ہے؟

اس پر تمہاری چیخیں کیوں نہ نکلیں؟

یہ پریشانی جو آج تمہارے تن بدن میں نظر آرہی ہے، اتنے دن کہاں روپوش رہی؟

اسلام پسندوں کے پرامن مظاہروں کو تم نے کوریج دی ہی کب ہے۔
اسلام پسندوں کے بعض جذباتی طبقوں میں یہ فرسٹریشن پیدا کرنے کے ذمہ دار تو تم خود ہو

اسلام پسندوں کے ایشوز کو موت کی نیند سلانے میں ہی تو آج تک تمہاری تمام تر مہارت صرف ہوئی ہے اور اب اس صورتحال کو پیدا کرنے کے بعد تم ’پرامن‘ کی گردان کرنے لگے ہو

یعنی جب وہ ’پرامن‘ ہوتا ہے تو کسی توجہ کے قابل نہیں ہوتا
اور جب وہ ’پرامن‘ نہیں رہتا تو مذمت کے قابل ہوتا ہے۔

تمہارا خیال ہے کوئی اس خباثت کو نہیں سمجھتا۔۔۔

یاد رکھو، یہاں ایک آتش فشاں کھول رہا ہے
تمہارا وہ مغرب نواز اور قادیانیت نواز کردار بہت کھل کر سامنے آرہا ہے
اس ملک کو رخ دینے کا تمہارا یہ خواب پورا ہونے والا نہیں

ناموس رسالت کے مسئلہ سے اٹھنے والا یہ سیلاب، جو شعور اور آگہی کی منزلیں تیزی کے ساتھ طے کرنے لگا ہے، عنقریب تمہارا بہت کچھ بہا لے جانے والا ہے۔

22 September 2012

سنو للکارنے والو ! کسے للکارتے ہوتم ؟





سنو للکارنے والو!
کسے للکارتے ہوتم ؟!
یہ کس پہ وار کرتے ہو!!
کہ ہاہاکار کرتے ہو
مگر یہ بھول جاتے ہو
یہ کس سے جنگ چھیڑی ہے۔۔۔
کسے تسخیر کرنے کی ادھوری کوششوں میں تم مگر مصروف رہتے ہو
چمن پہ قہر ڈھاتے ہو ، گُلوں کو روند دیتے ہو
ستم کی فصل بوتے ہو!
امام الانبیاءؐ کے تم کبھی خاکے بناتے ہو
کبھی افکار کو انؐ کے ، نشانے پر سجاتے ہو
مگر یہ جانتے ہو کیا!؟

سگ ِآ وارگاں کی جب بری آوازگونجے تو
مسلماں جاگ جاتے ہیں!
فصیلیں ٹوٹ جاتی ہیں!
قلعے تسخیر ہوتے ہیں!
ستم کی فصل بوتے وقت ہمیشہ سوچ لینا تم
مری تاریخ کہتی ہے
کہ جب یہ فصل اگتی ہے نہایت تلخ ہوتی ہے
یہ اپنے ہاریوں کے خون سے سیراب ہوتی ہے!
سنو للکارنے والو! نہایت غور سے سن لو !
میرے آقاؐ کے بارے میں زبانیں زہر جب اگلیں
تو انؐ کے چاہنے والے سروں کو کاٹ دیتے ہیں

شاعر: عدیل احمد عدیل

19 September 2012

ہمارا کیا بنے گا ۔ اوریا مقبول جان


17 September 2012

عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور برداشت



برداشت
جاوید چوہدری


وہ یہودی تھا اور اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا‘ میری اس سے پیرس میں ملاقات ہوئی‘ پیرس میں دنیا کا بہت بڑا اسلامک سینٹرہے اوریہ سینٹر علم کا خزانہ ہے‘ فرانسیسی ماضی میں بے شماراسلامی ممالک کے حکمران رہے‘ یہ ان ممالک سے قلمی نسخے‘ قدیم کتابیں اور قدیم مکتوبات جمع کرتے رہے‘ پیرس لاتے رہے اور پیرس میں اسلامک سینٹر بنا کر یہ خزانہ اس میں رکھ دیا۔

یہ عمارت دریائے سین کے کنارے واقع ہے‘ عمارت وسیع بھی ہے‘ خوبصورت بھی‘ جدید بھی اور آٹھ دس منزلہ بھی۔ عمارت کی چھت پر چار شاندار کیفے اور ریستوران ہیں‘ آپ چھت پر بیٹھ کر کافی بھی پی سکتے ہیں‘ کھانا بھی کھا سکتے ہیں اور پیرس شہر اور دریائے سین کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ کا زیادہ تروقت اسی سینٹر میں گزرتا تھا‘ وہ سینٹر کے قریب رہتے تھے ‘ ان کی مسجد بھی سینٹر سے چند قدم کے فاصلے پر تھی‘ میں جب بھی پیرس جاتا ہوں۔

اس سینٹر کا چکر ضرور لگاتا ہوں‘ میں اسلام پر قدیم اور جدید کتابیں دیکھتا ہوں‘ شام کو سینٹر کی چھت پر بیٹھ کر کافی پیتا ہوں‘ اسلامی دنیا کی عقل پر ماتم کرتا ہوں اور یہ سوچتا ہوا لفٹ سے نیچے آ جاتا ہوں ’’اسلامی ممالک میں ایسا سینٹر کیوں نہیں؟‘‘ ہم نے علم کا یہ خزانہ کیوں جمع نہیں کیا اور ان لوگوں نے عیسائی ہونے کے باوجود اسلامی کتابیں کیوں جمع کر رکھی ہیں۔

وہ یہودی ربی مجھے اس سینٹر کی چھت پر ملا ‘ وہ اپنی نشست سے اٹھا‘ مجھے اسلام علیکم کہا اور عربی میں گفتگو شروع کر دی‘ میں نے اس سے معذرت کی اور عرض کیا ’’میں عربی نہیں جانتا‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘ میںنے جواب دیا ’’الحمداللہ‘‘۔ اس نے حیرت سے پوچھا ’’پھر آپ کو عربی کیوں نہیں آتی‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں پاکستانی مسلمان ہوں اور پاکستان میں بچوں کو عربی کے بجائے انگریزی پڑھائی جاتی ہے‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے بھی قہقہہ لگایا اور میں نے بھی۔ وہ مجھے مصری مسلمان سمجھ کر میرے پاس آیا تھا‘ یورپ اور امریکا کے عیسائی اور یہودی مصریوں کو بہت پسند کرتے ہیں‘ اس کی شاید دو وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ‘ مصری لوگوں میں ہمارے مقابلے میں زیادہ برداشت ہوتی ہے‘ یہ لوگ ہر قسم کی بات سہہ جاتے ہیں جب کہ ہم جلد بھڑک اٹھتے ہیں۔ دوسری وجہ‘ یہودیت اور عیسائیت دونوں نے اس خطے سے جنم لیا ‘ ماضی میں شام‘ لبنان‘ فلسطین اور اردن مصر کا حصہ ہوتے تھے چنانچہ یہودیت ہو یا عیسائیت ان کی بنیاد مصری علاقوں میں پڑی لہٰذا یہ لوگ مصریوں سے ڈائیلاگ میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔

مصری لوگ ہمارے مقابلے میں زیادہ پڑھے لکھے بھی ہیں‘ یہ دین‘ سائنس اور ادب تینوں شعبوںمیں مسلم ممالک سے آگے ہیں‘ یورپ اور امریکا کے دانشور انھیں پسند کرتے ہیں مگرمیں پاکستانی بھی نکلا اور مجھے عربی بھی نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود کیونکہ وہ میرے پاس آ چکا تھا چنانچہ اس نے واپس جانا خلاف تہذیب سمجھا اور وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔

میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو‘‘ وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟‘‘ اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا ’’میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔

یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘ یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا‘ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ وہ بولا ’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے‘ یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرمﷺ کی ذات تھی‘ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔

آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسولﷺ کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوںیا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسولؐ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔

چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘ اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا‘ اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا‘ کندھے پر رکھا‘ سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں‘ میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میںاس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا‘ میں جان گیا رسول اللہﷺ سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے‘ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔

ہم سب مسلمان جتنے بھی گناہگار‘ لبرل‘ ماڈرن اور برداشت کے چیمپئن ہو جائیں‘ ہم نبی اکرمﷺ کی ذات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حد تک حضرت اویس قرنیؓ ہے۔ حضرت اویس قرنیؓ ایک آدھ بار کے علاوہ کبھی یمن سے باہر نہیں نکلے‘ آپ کی والدہ علیل تھیں چنانچہ آپ والدہ کی خدمت کرتے رہے اور رسول اللہﷺ کی ذات سے عشق۔ اللہ تعالیٰ کو یہ خدمت اور یہ عشق اس قدر بھایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اویس قرنیؓ کو آپؐ کے دیدار کے بغیر صحابی ڈکلیئر کر دیا‘ آپ رسول اللہﷺ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپ کو معلوم ہوا جنگ احد میں رسول اللہﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔

آپ نے اپنے تمام دانت توڑ دیے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں آپؓ نے خلیفہ کو کوئی مشورہ دینا تھا‘ آپؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو مدینہ کی سرحد پر بلوایا‘ خود مدینہ کی حد سے باہر کھڑے رہے اور حضرت عمرؓ کو مدینہ کی حدود میں کھڑا کر کے مخاطب ہوئے‘ حضرت عمرؓ نے اس عجیب و غریب حرکت کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا ’’عمر! میں اس زمین پر کیسے پاؤں رکھ سکتا ہوں جس میں نبی اکرمﷺ آرام فرما رہے ہیں‘‘ ہم مسلمان حضرت ابودجانہؓ بھی ہیں‘ حضرت ابودجانہؓ احد کے میدان میں آپ ﷺ کی حفاظت کر رہے تھے‘ رسول اللہﷺ پر تیر برس رہے تھے‘ حضرت ابودجانہؓ نے محسوس کیا میں اگر لڑوں گا تو میری پشت آپﷺ کی طرف ہو جائے گی اور یہ بے ادبی ہو گی چنانچہ آپؓ اپنا سینہ رسول اللہﷺ کی طرف کر کے کھڑے ہو گئے اور آپؓ نے تمام تیر اپنی پشت پر سہے۔

ہم سب کے اندر بھی ایسا ہی جذبہ موجزن ہے‘ تیر لوہے کا ہو یا توہین کا ہم اسے اپنی پشت اور سینے دونوں پر سہتے ہیں لیکن توہین یا زیادتی کا کوئی تیر رسول اللہﷺ کی ذات کی طرف نہیں جانے دیتے۔ یورپ اور امریکا کو اگر یقین نہ آئے تو یہ پاکستان سے لے کر طرابلس تک پھیلی آگ دیکھ لے‘ یہ آگ ’’انوسینس آف مسلمز‘‘ نام کی اس فلم کے بعد بھڑکی جو ٹیری جونز جیسے بدبودار پادری کی تحریک پر سام باسیل جیسے یہودی ڈائریکٹر نے بنائی اور اس کے لیے سو متعصب یہودیوں نے 50لاکھ ڈالرز سرمایہ فراہم کیا۔

یہ فلم محض فلم نہیں بلکہ یہ توہین کا وہ گٹر ہے جس کا ڈھکنا متعصب یہودیوں اور عیسائیوں نے عالم اسلام کی برداشت دیکھنے کے لیے کھولا چنانچہ آج پوری دنیا میں امریکی اور یورپی سفارتکاروں کی زندگی دائو پر لگ گئی۔ آپ حد ملاحظہ کیجیے‘ لیبیا کے مسلمانوں نے اس بن غازی میں امریکی سفیر کو قتل کر دیا جس پر اس وقت امریکا کا قبضہ ہے جب کہ لیبیا‘ مصر‘ تیونس‘ لبنان‘ اردن‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ نائیجریا‘ مراکش‘ بنگلہ دیش اور پاکستان میں امریکی سفارتکار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں‘ اہل مغرب کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور انھیں ٹیری جونز اور سام باسیل جیسے لوگوں کے خلاف قانون سازی کرنی چاہیے۔

انھیں فیصلہ کرنا چاہیے یورپ اور امریکا کا کوئی شہری ہمارے رسولﷺ کی توہین نہیں کرے گا ورنہ دوسری صورت میں جو لوگ رسول اللہﷺ کی محبت میں اپنے منہ کے سارے دانت توڑ سکتے ہیں وہ گستاخوں کے دانتوں کے ساتھ ساتھ جبڑے بھی توڑ دیں گے۔ آپ ہم سب کی برداشت کا امتحان لے لیں لیکن آپ ہمارے عشق کا امتحان نہ لیں کیونکہ ہم عشق رسولﷺ میں جان دینے والے لوگ ہیں‘ ہم گستاخیاں برداشت نہیں کریں گے۔

بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس ، 16۔ستمبر۔2012ء

13 September 2012

ہارتا ہوا امریکہ


ہارتا ہوا امریکہ…!…نقش خیال…عرفان صدیقی

نائن الیون کے فوراً بعد جارج ڈبلیو بش نامی شہنشاہ عالم پناہ کی رعونت بھری پھنکار سنائی دی تھی۔ ”ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگون کو نشانہ بنانے والوں کو نشان عبرت بنادیا جائے گا۔ اس دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو ”انصاف“ کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو ”انصاف“ کو ان تک پہنچا دیا جائے گا“۔ اس اعلان کے صرف ستائیس دن بعد امریکی انصاف کا قہرناک لشکر افغانستان کی لٹی پٹی بستیوں کی ادھڑی ہوئی منڈیروں تک پہنچ گیا۔ اس شب تقریباً چالیس لڑاکا بمبار طیاروں نے بہ یک وقت کابل، جلال آباد، قندھار اور مزار شریف پر حملہ کیا۔ جن پر حملہ ہوا ان کے پاس نہ فضائی معرکہ لڑنے والے لڑاکا طیارے تھے، نہ انہیں نشانہ بنانے والی توپیں، نہ طیارہ شکن میزائل نہ آتش و آہن کی اس برسات کا مقابلہ کرنے کا کوئی سامان۔ دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت، دنیا کی سب سے نہتی قوم پر ٹوٹ پڑی تھی۔ وہ قوم جو گزشتہ دو دہائیوں سے ایک طویل جنگ کی تباہ کاریوں سے نڈھال تھی
اگلے روز بش نے شاداں و فرحاں امریکی قوم سے عہد کیا۔ ”طالبان کو حکم عدولی کی قیمت ادا کرنا ہوگی“۔ اس کی ہمنوائی میں اخلاقیات کی ساری حدیں پھلانگ جانے والے ٹونی بلیئر نے اعلان کیا۔ ”ہمارا الٹی میٹم نہ ماننے والے طالبان اب نتا ئج کا سامنا کریں۔ ”تب اسلام آباد کے ایک گھر میں، جسے افغانستان کا سفارت خانہ کہا جاتا تھا۔ بیٹھے ملا عبدالسلام ضعیف نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ”امریکہ کے اتحادی دراصل مٹھی بھر غلام ہیں جو کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور امریکہ کو ان حملوں کی ایسی قیمت ادا کرنا پڑے گی جس کا وہ اس وقت تصور بھی نہیں کرسکتا“۔

امریکہ کو واقعی اس قیمت کا کچھ اندازہ و گمان نہ تھا جو وہ گزشتہ گیارہ برس میں ادا کرچکا ہے اور جنگ کے باضابطہ خاتمے کے بعد بھی سالہاسال تک ادا کرتا رہے گا۔ 2011ء میں امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز نے آئزن ہاور ریسرچ پروجیکٹ کے تحت ”کاسٹ آف وار“ (Cost of War) نامی ایک خصوصی گروپ تشکیل دیا۔ اس گروپ میں نامی گرامی معیشت دان، ماہرین آئین و قانون، سیاستدان اور معاشرے کے نمائندہ افراد شامل تھے۔ اس گروپ نے زبردست محنت و ریاضت کے بعد اپنی مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا کہ تمام اخراجات کو یکجا کیا جائے تو افغانستان اور عراق پر امریکی یلغار کا مجموعی خرچہ 32کھرب ڈالر سے 40کھرب ڈالر تک ہے۔ جنگ کے سمٹاؤ کا عمل شروع ہوجانے کے باوجود اگلے آٹھ برس کے دوران پنٹاگون کو کم از کم 450 ارب ڈالر مزید خرچ کرنا پڑیں گے۔
عراق، افغانستان اور بالواسطہ پاکستان پر مسلط کی جانے والی اس حیاباختہ جنگ کے لئے امریکہ کو کھربوں ڈالر کا قرضہ لینا پڑا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ساری کی ساری جنگ ادھار کے پیسوں پر لڑی گئی۔ امریکی قرضوں کا حجم 160 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد قرضے بے قابو ہوگئے۔ 2003ء سے سالانہ پانچ سو ارب ڈالر قرضوں کا اضافہ شروع ہوا۔ 2008ء میں یہ دس کھرب ڈالر سالانہ تک جاپہنچا۔ 2010ء میں امریکہ نے سترہ کھرب ڈالر ادھار لیا۔ امریکی معیشت کے کھوکھلے پن کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب اسے ہر سال اپنی مجموعی قومی پیداوار کے مساوی رقم قرض لینا پڑتی ہے۔ 2001ء میں ، نائن الیون سے پہلے مجموعی قومی پیداوار اور قرضوں کا تناسب 56 فیصد تھا جو اب بڑھ کر سو فیصد ہوچکا ہے۔ امریکیوں کو ہر سال پانچ سو ارب ڈالر سے زیادہ رقم سود کی مد میں ادا کرنا ہوتی ہے۔ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے براہ راست جنگی اخراجات ایک سو ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہیں یعنی 9ارب ڈالر ماہانہ۔

بارک اوباما نے شہنشاہ عالم پناہ کا منصب سنبھالا تو اس کے عزائم کچھ اور تھے۔ فروری 2008ء میں اوباما نے امریکیوں کے ایک پرجوش ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”خوف کے زیر اثر پالیسیاں بنانا کوئی اچھا دستور العمل نہیں۔ میں زخموں سے چور امریکیوں کو وطن واپس آتے دیکھتے دیکھتے تھک گیا ہوں۔ وہ جو نفسیاتی طور پر بھی زخم خوردہ ہیں اور جسمانی طور پر بھی۔ سب پر واضح ہوجانا چاہئے کہ ہم اربوں ڈالر پھونک کر بھی دنیا کو پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ بنا رہے ہیں۔ ”یہی اوباما جب قصر سفید نامی آسیب گھر میں داخل ہوا تو اس کی کایاکلپ ہوگئی۔ اسے یقین دلادیا گیا کہ طالبان کو فیصلہ کن شکست دے کر افغانستان کو ایک مضبوط امریکی اڈہ بنایا جاسکتا ہے۔ وہ انہی اندھی راہوں پر چل نکلا جو آدم خور امریکی حکام نے تراشی تھیں۔ فیصلہ کن یلغار کیلئے اس نے 36ہزار تازہ دم امریکی فوجی افغانستان بھیجے۔ ان کیلئے 33ارب ڈالر کا اضافی بجٹ منظورکیا۔ امریکی فوج کے سربراہ نے کہا۔ ”ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ اس یلغار میں کتنے طالبان ہلاک ہوتے ہیں۔“

ایک لاکھ امریکی افواج کے ساتھ، پینتالیس اتحادیوں کے لشکر بھی افغانستان میں خیمہ زن ہیں لیکن خبر ہے کہ امریکہ ہار چکا ہے۔ پسپائی کا محفوظ راستہ مانگنے اور اپنے پٹھوؤں کی جانوں کی ضمانت لینے کیلئے وہ ان طالبان کی منت سماجت کررہا ہے جن کا لہو پینے کیلئے اس نے کھربوں ڈالر جھونک دیئے اور جن کو نابود کرنے کی مہم میں اسے گیارھواں برس جارہا ہے۔ نیٹو کی ایک خفیہ رپورٹ کے بعض اجزاء منظر عام پر آئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ قید کئے گئے طالبان، القاعدہ، عرب ممالک سے آئے مجاہدین اور گرفتارشدہ عام شہریوں کے انٹرویوز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی پراعتماد ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ امریکہ رخصت ہورہا ہے اور آنے والا دور طالبان کا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق کرزئی حکومت کے کل پرزے بھی طالبان سے رابطے کررہے ہیں اور امریکیوں کے انخلاء کے ساتھ ہی وہ بھی طالبان سے جاملیں گے۔ عام شہری طالبان کی حکومت کو موجودہ بدعنوان، نااہل اور عوام دشمن نظام پر ترجیح دے رہے ہیں۔ چار ہزار قیدیوں سے کئے گئے 27000 انٹرویوز پر مشتمل نیٹو رپورٹ نے امریکیوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ خود فریبی کے جال سے نکلیں اور اس حقیقت کا سامنا کریں جسے وہ گیارہ برس سے نظرانداز کررہے تھے اورجو صدیوں سے افغانستان کے کوہساروں پہ کندہ ہے۔

اس سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل، پاکستان نے اکنامک سروے آف پاکستان کے ذریعے باضابطہ طور پر قوم کو آگاہ کیا تھا کہ اس بے چہرہ جنگ میں پاکستان 68ارب ڈالر پھونک چکا ہے۔ ڈالر کے موجودہ ریٹ کے مطابق یہ رقم 6100 ارب روپے سے زائد ہے ۔ یاد رکھئے کہ ہم صرف اس لئے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو 300ارب روپے ادا نہیں کرسکتے۔ طالبان اور افغان عوام کے خلاف امریکہ کا دست و بازو بن جانے کے اقدام کو میں ڈالروں اور روپوں کے پیمانے سے نہیں ماپتا یہ ایسی زیاں کاری ہے جس نے ہماری تہذیبی، اخلاقی، مذہبی، قومی، تاریخی اور انسانی اقدار و روایات کی بنیادیں تک ہلادی ہیں۔ ہمیں وہ کچھ بنادیا گیا ہے جس کے تصور سے بھی گھن آتی ہے۔

گزرجانے والی شب میں دیر تک سوچتا رہا کہ کھربوں ڈالر پھونک کر، لاکھوں افراد کا خون ناحق اپنی گردن پر لے کر، اپنے ہزاروں فوجی اس بے ننگ و نام بھٹی میں جھونک کر، امریکی نسلوں کو چالیس کھرب ڈالر کے نئے قرضوں میں جکڑ کر اور زمانے بھر کی رسوائیاں سمیٹ کر، امریکہ نے گھنی داڑھیوں، بھاری پگڑیوں اور لمبی عباؤں والے قبیلے کا کیا بگاڑا ہے؟ ملا محمد عمر کی داڑھی کے کچھ بال ضرور سفید ہوگئے ہوں گے لیکن کیا وہ گیارہ سال پہلے سے کہیں زیادہ سرکشیدہ و سر بلند نہیں ہے؟ کیا اس نے منوا نہیں لیا کہ موت سے ذرا نہ ڈرنے والے فاقہ کش ہی سرخرو ہوتے ہیں۔
میرے ذہن کی لوح پر قندھار کے پہلو سے گزرتے دریائے ارغنداب کی وہ سانولی سی شام اتر رہی ہے جب ہم نے ملا محمد عمر کی اقتداء میں مغرب کی نماز پڑھی تھی اور اس مرد قلندر نے بڑی سادگی سے کہا تھا۔ ”ہمیں صرف اپنے اللہ پر بھروسہ ہے۔


12 September 2012

ایک ہسپانوی نو مسلم کا واقعہ ،میں کیسے مسلمان ہوا؟


ایک ہسپانوی نو مسلم کا واقعہ ،میں کیسے مسلمان ہوا؟


ایک رات کا واقعہ ہے کہ میں بالکل اکیلا سپین کے شہر بالینسیا میں واقع ایک ڈسکو کلب میں شراب پی رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے نزدیک موجود لوگوں کو غور سے دیکھ رہا تھا، اپنی زندگی کے بارے میں سوچتے ہوئے میرے ذہن میں یہ بات آ رہی تھی کہ میری اور میرے گرد موجود لوگوں کی زندگی کتنی خشک اور خالی ہے، اور میں اپنی زندگی کا مقصد سوچ رہا تھا ۔میں اکثر زندگی کے دھکوں اور دیگر ذہنی پریشانیوں سے بچنے کے لیے الکوحل اور شراب کے نشے میں پناہ لینے کی کوشش کرتا تھا اور اپنا پیسہ اسی طرح ڈسکو اور نائٹ کلبوں میں خرچ کرتا تھا ۔
ہمیں بچپن سے جو بات بتائی جاتی ہے کہ یہ دنیامحض ایک حادثے کا نتیجہ ہے اس بات پر میرا یقین نہیں ٹھہرتا تھا اور میں ہمیشہ سے یہ سوچتا تھا کہ کوئی اور ایسی ذات ضرور موجود ہے جو ہم سب سے اعلیٰ اور بلند ہے ۔میں نے محسوس کیا کہ مجھے کسی اور ایسے راستے کی تلاش کرنی چاہیے جو کہ اس دنیا کے خالق و مالک کا راستہ ہے جس نے اس ساری کائنات میں موجود اشیاء کو بالترتیب بنایا ہے اور جس کے حکم سے انسانیت کا وجود ہے اور ہمارے اندر عقل و دماغ موجود ہیں ۔
جو مذہب میرے والدین نے مجھے سکھایا تھا وہ میرے روحانی سوالات کا جواب نہیں دیتاتھا اور میں کسی ایسی چیز کو بنیاد نہیں بنا سکتا تھا جو تضادات سے بھرپور ہو، ان تضادات کی وجہ تاریخ انسانیت میں آسمانی صحائف میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں، میں کسی ایسی چیز کو بنیاد نہیں بنا سکتا تھا جس کو انسانوں نے بنایا ہو اور اس میں غلطیوں کا امکان بھی موجود ہو، خدا کے سامنے عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ سے بنی ہوئی تصاویر کی عبادت کرنے والی بات بھی میری عقل سے بالاتر تھی۔میرے اندر موجود روحانی خلاء کو فِل کرنے لیے میں جن چیزوں کا استعمال کرتا تھا ان سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ مجھے مزید خالی و کھوکھلا کرتی جاتی تھیں اور میرے اندر اعتماد کی کمی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا اور ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا کہ میں مزید پریشان اور دکھی ہوتا چلا گیا ۔
اپنی نوجوانی کے دوران میرا عربی دوستوں سے بہت واسطہ رہا، وہ سب میرے بہت اچھے دوست تھے لیکن میں نے کبھی ان سے دین اسلام کے بارے میں معلومات نہیں لیں اور نہ ہی یہ بات میرے ذہن میں آئی تھی ۔میں نے بدھ مت، ہندومت سمیت دنیا کے دیگر مذاہب ۔۔۔۔ کے بارے میں تحقیق کی لیکن اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے کا کبھی نہیں سوچا اور نہ ہی یہ چیز میرے ذہن میں آئی۔ اسلام کے بارے میں میرے اندر کچھ ایسے خیالات موجود تھے جن کی وجہ سے اسلام کے بارے میں سوچنے کا دور دور تک خیال ہی نہ آیا ۔
لیکن ایک دن مجھے ایک مراکشی بھائی ملا تو میرے اندر تجسس پیدا ہوا، کیونکہ اس کی چال چلن اور اسکا   زندگی کے مسائل کو حل کرنے کا ایک مخصوص طریقہ تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے ایسے سوالات کرنے شروع کر دیے جو عام طور پر ایک جاہل کافر کرتا ہے۔سوالات کا جواب دیتے وقت میری طرف سے اس کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مجھ جیسے ضدی اور بے عقیدہ انسان کو منانا آسان کام نہیں تھا
میرے اس رویہ کے سامنے اس نے ہمیشہ سکون اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ مجھ سے نہ جیت سکے۔ میں ہمیشہ یہ سمجھتا تھا کہ میری بات صحیح ہے اور میں اگلا سوال کرنے سے پہلے تھوڑا وقفہ چھوڑ دیتا تھا۔ اصل میں میری مزاحمت سچ کے سامنے جھوٹ کے علاوہ کچھ اور نہ تھی، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سچ کو پہچاننا اور ماننا کافی مشکل ہے (سچ کڑوا ہوتا ہے)،اور اسلام کے صحیح طریقہ سے سمجھانا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ تو ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ میری دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا لیکن ہمیشہ میں نے اپنی مزاحمت کو برقرار رکھا ۔کچھ مہینوں کے بعد میں نے خنزیر کا گوشت کھانا چھوڑ دیا اور شراب پینی بھی چھوڑ دی کیونکہ میرے اندر ایک تبدیلی آچکی تھی اور اب میں ان چیزوں کو اپنا دشمن تصور کرتا تھا ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیدائش کے وقت ہم سب کا دین اسلام ہی ہوتا ہے (لیکن بعد میں والدین کوئی اور راستہ سکھا دیتے ہیں ) اور جب میں نے اسلام کو اپنے دل پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا تو اس وقت صرف یہ ہوا کہ میں اپنے اصلی دین کی طرف واپس پلٹ آیا جس پر میں پیدا ہوا تھا، میں نے اپنے اسلام کو دوبارہ پا لیا اور اسی وجہ سے حوش و حواس کے سات میرا جسم ان چیزوں (شراب و خنزیر)سے نفرت کرنے لگ گیا ۔ اس کے علاوہ بہت سارے اسلامی رسم و رواج میرے اندر پہلے سے موجود تھے بیشک میں خنزیر کھاتا تھا لیکن ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ نہ کھاؤں، خدا کو ہمیشہ میں واحد جانتا تھا تثلیث کے عقیدے پر میرا ایمان نہ تھا، میرا یقین تھا کہ خدا کی کوئی جنس یا تعداد نہیں ہو سکتی، کہ میں خدا کو مذکر یا مونث نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی میں خدا کے بارے میں یہ تصور کرتا تھا کہ وہ کوہ قاف کے کسی اونچے خاندان کی ایک با ریش اور قوی ہیکل شخصیت ہے ۔
اصل اور سچے اسلام تک پہنچنے کے لیے مجھے ان تمام غلط اور جھوٹے اعتراضات کا رد کرنا پڑا جو عام طور پر اسلام سے منسوب کیے جاتے ہیں اور ان پر میں اپنے بچپن کے معصوم دور سے اب تک یقین کرتا آیا تھا۔ جب میں نے یہ سب کچھ سوچا تو مجھے دلی طور پر گہرا دکھ پہنچا۔ کیونکہ میرے معاشرے نے اتنا عرصہ اسلام کو غلط پیش کیا اور میں سچ تک نہ پہنچ سکا۔مجھے محسوس ہوا کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کا ایک فلسفہ اور مکمل ضابطہ ہے، اور یہ انسان کو اس کی زندگی میں پیش آنے والے ہر کام میں مدد کرتا ہے ۔ الغرض اسلام ایک تہذیب  کا نام ہے۔ اس مراکشی بھائی سے اتنی لمبی گفتگو کے بعد اب میں  نے اس حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا کہ میں اور میرے  عزیز واقارب سب  غلط تھے۔
میں نے اپنے یقین کو مکمل کرنے کے لیے یکم اگست 1997 کو زندگی میں پہلی مرتبہ ایک مسجد جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنے اس مراکشی بھائی کو کہا کہ وہ مجھے ساتھ لے کر جائے تاکہ میں جان سکوں کہ وہاں جا کر میں اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنے اس دن کو مکمل تفصیلات کے ساتھ تاحیات یاد رکھوں گا۔ میں اپنے ان جذبات کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتا جو مسجد میں داخلے کے وقت میرے اندر موجود تھے۔مجھے میرے مراکشی دوست نے مسجد میں نماز کی جگہ دکھائی اور میں نے اذان بھی سنی اس کے بعد ہم امام مسجد کے حجرہ کی طرف آئے۔ اس وقت نمازِ ظہر کا وقت تھا اور جمعہ کا دن تھا اس لیے امام نے مجھے کہا کہ تم یہاں کمرے میں رہو اور نمازِ جمعہ کے بعد بات کریں گے۔ امام کے کمرے میں اس طرح بیٹھا کہ مجھے ساری مسجد کا منظر نظر آرہا تھا کیونکہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سب لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کو نماز پڑھتے دیکھ کر میرے ایمان میں مکمل مضبوطی آگئی۔میرے اندر اس وقت جو جذبات تھے ان کو کاغذ پر بیان کرنا ممکن نہیں، خاص کر جب اذان ہوئی تھی اور جب سب لوگ مل کر آمین کہتے تھے ! (اس وقت میرے جسم کے اوپر اور اس کے اندر جو محسوس ہوتا تھا اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا)۔ اس وقت میں سمجھ چکا تھا کہ میں اب مسلمان ہوں۔
بعد میں میری امام سے گفتگو ہوئی۔ میرے ساتھ (Begoña) نامی ہسپانوی لڑکی اور دو مزید ہسپانوی نوجوان موجود تھے جو قبولِ اسلام کے لیے آئے ہوئے تھے۔ امام ہم سب کو اسلام کے بارے میں بتا رہا تھا، بتانے کے بعد امام نے اس لڑکی سے پوچھا کہ وہ اسلام میں داخل ہونا چاہتی ہے تو وہ لڑکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے میرے سامنے اسلام میں داخل ہوئی۔وہ جذبات سے رو رہی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ میں بھی رونے کے بالکل قریب تھا۔ اس لڑکی کا چہرہ نور سے روشن تھا۔ میرے سامنے یہ پر سکون واقعہ میرے لیے بہت ہی مددگار ثابت ہوا اور اس واقعہ نے میرے یقین کو مزید تقویت دی۔
میں نے یہ دیکھا کہ اسلام زندگی میں پیش آنے والے ہر قسم کے سوالات کا جواب دیتاہے، میں ان میں سے کچھ مثالیں پیش کروں گا ۔
اسلام ہماری نہ سمجھ میں آنے والے تمام سوالات کا جواب دیتا ہے۔اسلام میں جانوروں اور نباتات کے حقوق کے بارے میں قانون موجود ہیں ۔اسلام سائنس کا ساتھ دیتا ہے جبکہ عیسائیت اس کے خلاف ہے ۔قرآن میں موجود پانی سے زندگی کے وجود میں آنے والی بات نے مجھے بہت حیران کیا۔ اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں قرآن میں موجود معلومات جس کو سائنس دانوں نے ابھی دریافت کیا ہے اور اس کا نام BIG BANG THEORY رکھا ہے اس نے بھی مجھے بہت حیران کیا۔ماں کے پیٹ کے اندر بچے کی پیدائش کے بارے جو معلومات قرآن کے اندر موجود ہیں اس نے بھی مجھے کافی حیران کیا۔ قرآن میں بچے کی پیدائش کا ہر مرحلہ اور اس کے دنوں کا حساب بھی موجود ہے جن کی موجودہ سائنس نے تحقیق اور توثیق کی ہے۔ قرآن مجید کی ان آیات کو پڑھ کر میں بہت مثاثر ہوا ۔
اس دن کے علاوہ مزید دو دن میں امام صاحب سے سیکھنے  اسی مسجد جاتا رہا، اور وہ وقت آیا جب 4 اگست 1997 کو شام 5 بج کر 50 منٹ پر میں نے قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔اس کے بعد بہت سارے مسائل پیدا ہوئے جن کا ہر اسلام قبول کرنے والوں کو سامنا کرنا پڑتاہے۔ ان میں سے زیادہ دکھی مسائل عموماً گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن اگر ہمارے اندر پختہ یقین موجود ہو تو یہ سب کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے ۔یہ مسائل وقت کے ساتھ ساتھ حل ہوتے جوتے ہیں۔
اسلام انسانوں میں اختلاف میں ڈالنے کے لیے نہیں آیا بلکہ ان کو اتحاد کی دعوت دینے آیاہے اور یہ اس زمین پر سب سے بڑا  رواداری کا سبق دینے والا مذہب ہے ۔ایک دن میں نے اپنے اندر آنے والی عظیم تبدیلی کی اہمیت کے بارے سوچا۔ میرے جیسے نئے مسلمان جو  اسلام میں داخل ہوتے ہیں یہ  ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضلِ خاص ہوتا ہے جو ہمیں کفروضلالت کے تاریکی راستے سے ہٹا کر ہدایت کے سیدھے اور روشن راستے پر گامزن کرتا ہے ۔ ہمیں جہالت سے نکل کر سیدھی راہ پر آنے کا  احساس ہونا چاہیے ۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ ہمیں اس توفیقِ باری تعالیٰ پر  اللہ تعالیٰ  کا  شکر گزار ہونا چاہیے۔
ہمیں اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ موجودہ دور اسلام کے لیے بہت سخت ہے۔ مسلمان ممالک میں ہونے والے واقعات سے ہمیں مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور ہمیں اپنے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں کو دیکھ کر (جو اسلام کے نام پر بعض ایسی چیزوں کو اختیار کئے ہوئے ہیں کہ جن کا اسلام سے کوئی واسطہ ہی نہیں ) اپنے ایمانوں کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔ اکثر اوقات جب ہمیں دوسرے لوگ بتاتے ہیں کہ اسلام یہ کہتا ہے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں، ہمیں (اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے) سب سے پہلے اپنی تربیت کرنی چاہیئے، ان لوگوں کے پاس جا کر جو صحیح معنوں میں اسلام کو سمجھتے ہوں مثلا ایک امام مسجد اور ہمیں کسی بھی ایسے ویسے (ایرے غیرے)کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے ۔
ہر مکتبہ فکر کی بات کو سنیےضرور  لیکن خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ کہنے والا جو کہہ رہا ہے وہ درست ہے یا غلط، کیونکہ بدقسمتی سے بہت سے ایسے مسلمان  ہیں جو اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہمیں بہت کچھ معلوم ہے لیکن یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ  زیادہ تر جہالت ہی ہوتی ہے اور اگر ہم نے اس کو کنٹرول نہ کیا تو یہ جہالت ہمیں بہت نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ میرے خیال کے مطابق یہ نقصان دو طرح کا ہو سکتاہے ، اس سے ہمارے ایمان میں کمزوری حتی کہ ایمان کا خاتمہ بھی ہو سکتاہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ ہم بھی گمراہ ہو کر اسی جہالت کی تبلیغ شروع کر دیں اور اس طرح جاہلوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے ۔
میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ میں اپنے آپ کو ایمان سے لبریز اور مکمل محسوس کرتا ہوں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں از سر نوپیدا ہوا ہوں۔ میرا نام خالد ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمیں اسلام کا اصلی چہرہ پیش کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیےاور اسلام کے نام پر ہونے والے غلط کام کو روکنا چاہیے ۔

11 September 2012

قصہ آدم و ابلیس (ایک افسانہ)

  آدم و حوا 
قصہ آدم و ابلیس (ایک افسانہ)
اچانک کار نصیر صاحب  کے بدن سے ٹکرائی اور وہ کئی فٹ دور اچھل کر گرے۔ اس کے بعد ان کا دماغ تاریکی میں ڈوبتا گیا۔ ارد گرد بھیڑ اکھٹی  ہوتی چلی گئی ۔ انکے سر سے خون کافی مقدار میں بہہ چکا تھا اور بچنے کے امکانات کم تھے۔ بہرحال کار والے نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے لوگوں کی مدد سے گاڑی میں ڈالا اور اسپتال پہنچادیا۔ کچھ دیر بعد نصیر صاحب کے گھر والے بھی جمع ہوگئے ۔
"سر کی چوٹ گہری ہے، آپریشن کرنا پڑے گا۔"  ڈاکٹر نے نصیر صاحب کی بیوی  سے کہا
"ڈاکٹر صاحب! نصیر بچ تو جائیں گے نا؟" انکی بیوی نے روہانسی ہوئی آواز میں پوچھا
"ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔"۔ ڈاکٹر نے لا پرواہی سے جواب دیا  اور برابر کھڑے ایک ساتھی سے خوش گپیوں میں مصروف ہوگیا۔ 
  
***********

آپریشن تھیٹر میں ایک ایمرجنسی کی کیفیت تھی۔ ہلکے نیلے رنگ کے گاؤن پہنے اور منہ  چھپائے ڈاکٹر اور نرسیں تیزی سے اوزار کو ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ تھیٹر کی مشینیں اور سرچ لائیٹیں بھیانک سا منظر پیش کررہی تھیں۔ نصیر صاحب کی آنکھیں بند تھیں اور وہ ساکت لیٹے ہوئے تھے۔ اچانک ان کے جسم میں حرکت ہوئی۔
"شاید اسے ہوش آرہا ہے۔ اسے جلدی بے ہوش کرو"۔ اسے دیکھ کر ایک ڈاکٹر بولا۔
بے ہوشی کا انجکشن لگا دیا گیا، اور نصیر صاحب کے دماغ میں روشن ہوتی چند شمعیں لو بھڑکنے سے پہلے ہی بجھ گئیں۔ لیکن بے ہوشی کا انجکشن ان کے لاشعور کو سلانے میں ناکام تھا۔ نصیر صاحب کے لاشعور میں ماضی کی فلم چلنے لگی۔ انہوں  نے دیکھا کہ وہ سرکاری دفتر میں اپنی انیس گریڈ کی کرسی پر براجمان ہیں، سامنے ایک شخص بیٹھا اس سے مخاطب ہے۔
"بھائی میرے! یہ مذہب وذہب، حرام اور حلال سب پرانی باتیں ہیں، زمانے کے ساتھ چلو، اگر آج تم نے اوپر کا مال کمایا ہوتا تو بنگلے، گاڑیاں، خدام اور نہ جانے کیا کیا تمہاری جھولی میں ہوتا۔ لیکن تم ہو کہ وہی ۱۲۰ گز کے مکان میں خود کو اور بیوی بچوں کو سسکا رہے ہو"۔ وہ شخص اپنی مکار آواز میں بولا۔
نصیر صاحب سے اس کی ملاقات  پہلی نہیں تھی بلکہ اس سے قبل بھی وہ ان سے مل چکا تھا۔ پہلے تو وہ اس کی باتوں پر چراغ پا ہوجایا کرتے تھے، لیکن آج معاملہ کچھ اور تھا۔ انہیں  اپنی بیوی کے کینسر کا علاج کروانے کے لئے ایک بڑی رقم درکار تھی لیکن نہ تو یہ رقم ان کے پاس موجود تھی اور نہ کوئی ادھار دینے کو تیار تھا۔
"اب بھی وقت ہے، میری بات مان لو۔ بس کچھ بھی نہیں کرنا ہے، اس بل پر سائن کرنے ہیں اور پیسے تمہارے۔ تمہاری بیوی کا علاج بھی ہوجائے گا ہمارا کام بھی"۔ وہ شخص نصیر صاحب کو شش وپنج میں دیکھ کر بولا
نصیر صاحب اسی گومگو کیفیت میں تھے۔ وہ شخص آہستہ آہستہ انہیں رام کرتا رہا۔
"ٹھیک ہے! میں تیار ہوں۔ لیکن میں دستخط آج نہیں بلکہ کل کروں گا" یہ کہہ کر نصیر صاحب اٹھ گئے اور دفتر سے باہر نکل آئے۔ ان دماغ میں ایک بھونچال سا آیا ہوا تھا۔ ایک طرف بیوی کی زندگی اور دوسری طرف اللہ کی ناراضگی۔ وہ اس کیفیت میں روڈ سے اس پار جانے کی کوشش کررہے تھے کہ کار  کی ٹکر نے انہیں آپریشن تھیٹر پہنچا دیا۔

--------------------------
آپریشن شروع ہوچکا تھا۔ سی ٹی اسکین کی رپورٹ کے مطابق دماغ میں خون جمع ہوا تھا۔  نصیر صاحب کا ساکت وجود ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر تھا۔ سرجن نصیر صاحب کے سر کو اوزار سے چھلنی کرنے میں مصروف تھا لیکن وہ انکے لاشعور میں چلنے والے مناظر سے بے خبر تھا۔
نصیر صاحب کے لاشعور میں کچھ عجیب و غریب کروڑوں سال پرانی باتیں آنے لگیں۔ ان کا لاشعور شاید اس دور میں پہنچ گیا جب  انسان کو اس دنیا میں نہیں بھیجا گیا تھا البتہ فرشتے اور جنات وجود میں آچکے تھے۔ پھر خدا نے آدم کی تخلیق کی اور ساتھ ہی اس  نے فرشتوں اور دیگر مخلوقات کو اپنے منصوبے سے آگاہ کردیا کہ وہ دنیا میں انسانوں کو آزمائش کی غرض سے بھیجنے والا ہے۔ انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ یعنی ایک بااختیار مخلوق ہوگا۔ فرشتوں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر انسان کو ارادہ و اختیار دے کر بھیجا گیا تو یہ بڑا خون خرابا کرے گا۔ خدا نے جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر خدا نے فرشتوں  کے اعتراض کو دور رکنے کے لئے آدم کو ان لوگوں کے نام سکھادئے جو اس اختیار کے باوجود انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہونگے اور یہ لوگ جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بھی بندگی کے تقاضے پورے کریں گے۔ یہ دنیا کی  سیج انہی کے لئے سجائی جارہی ہے۔ باقی جو جھاڑ پھونس ہے اس کا مقدر جہنم کا ایندھن ہے کیونکہ وہ اپنے منتخب کردہ امتحان میں ناکام ہیں۔
جب  فرشتوں  کو اپنی  لا علمی کا اندازہ ہوا تو انہوں نے  سر تسلیم خم کردیا ۔
اس کے بعد خدا فرشتوں اور اس ذیل کی دیگر مخلوقات کو حکم دیا کہ وہ سب آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔

اس سجدے کا مطلب یہ تھا کہ اب یہ انسان دنیا میں ایک محدود معنوں بادشاہ اور حاکم کی حیثیت سے رہے گا اور خدا کی مشیت کے مطابق اس دنیا میں مسکن بنائے گا، تمدن کی تعمیر کرے گا، کائنات مسخر کرے گا، اپنی مرضی سے خیر و شر کا انتخاب کرے گا  اور آزمائش کے مراحل طے کرکے اپنی جنت یا دوزخ خود منتخب کرے گا۔ اس سارے عمل میں فرشتوں اور جنات کو اس کے سامنے عمومی طور پر سرنگوں رہنا اور اس آزمائشی عمل میں روڑے اٹکانے سےگریز کرنا لازم ہوگا ۔
سجدے کا حکم صرف فرشتوں ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ ان جیسی دیگر مخلوقات کے لئے بھی تھا جن میں جنات بھی شامل تھے۔ انہی جنوں میں سےایک جن عزازیل نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ یہ سجدے سے انکار درحقیقت خدا کی اسکیم میں بغاوت  کا اعلان تھا۔

"او ناہنجار! تو نے کیوں سجدہ نہ کیا جبکہ میں نے تجھے اس کا حکم دیا"۔
خدا کی غضب ناک آواز گونجی۔
"میں اس انسان سے بہتر ہوں۔ میں آگ اور یہ مٹی۔ بھلا میں اس کو کیوں سجدہ کرنے لگا"۔ عزازیل اپنی مکروہ آواز میں بولا۔
" تو پھر تو آج سے مردود اور ابلیس ہے، تو میری بارگاہ سے نکل جا۔ بے شک تو انتہائی چھوٹے اور پست لوگوں میں سے ہے؟"
خدا نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔
شیطان اس عزت افزائی پر بلبلا اٹھا اور چیلنج کے طور پر بولا۔
"اے خداوند! تیری عزت کی قسم! میں نچلا نہیں بیٹھنے والا۔ میں اس انسان کو تجھ سے گمراہ کردوں گا، میں اس کے تمدن  و تہذیب، معیشت، معاشرت غرض ہر راستے سے اس پر نقب لگاؤں گا  تاکہ انہیں  تیری عبادت سے برگشتہ کردوں اور تو ان میں سے  اکثر لوگوں کو گمراہ اور بھٹکا ہوا پائے گا۔ بس تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے"۔
خدا نے  شیطا ن کی بات سن جواب دیا۔
"جا تجھے اجازت ہے۔ تو اپنے پیادے اور سوار سب لشکر لے آ۔ لیکن تیرا اختیار صرف وسوسے ڈالنے اور بہکانے تک ہے۔ پھر جس نے بھی تیری پیروی کی تو میں ان سب کو تیرے ساتھ جہنم میں ڈال دونگا جبکہ میرے چنے ہوئے بندوں پر تیرا کوئی اختیا ر نہ ہوگا"۔
پھر خدا نے آدم اور انکی بیوی حوا کو ایک عارضی جنت میں رکھا تاکہ دنیا میں پیش آنے والے امتحان کی نوعیت سے آگاہ کرسکے۔ خدا نے دونوں کو بتایا کہ وہ  جہاں چاہے رہیں اور جو چاہیں کھائیں پئیں البتہ وہ ایک مخصوص درخت کے قریب بھی نہ پھٹکیں کہیں وہ ممنوعہ پھل کو نہ کھالیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی بتادیا گیا کہ شیطان انہیں ورغلانے کی کوشش کرے گا۔

------------
 
آدم اور انکی بیوی حوا جنت میں زندگی بسر کرنے لگے۔ جنت میں چار سو ایک صبح کاذب سا اجالا تھا۔ موسم معتدل اور ماحول انتہائی سازگار۔ ہر طرف ہریالی۔ ساتھ ہی پانی کی نہریں بہہ رہی اور درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ جب دونوں کو کسی پھل کی خواہش ہوتی تو درخت کی ڈالی جھک جاتی اور وہ اپنی خواہش کے مطابق پھل توڑ کر کھالیتے۔ دور انہیں وہ جگہ بھی نظر آتی جہاں ممنوعہ درخت موجود  تھا ۔ وہ درخت ایک دور وادی میں تھا۔ اس وادی کی حدود ایک سیاہی مائل پانی کے  چشمے سے شروع ہوتی تھی۔ دونوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ اس چشمے کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کہ کہیں خدا کی نافرمانی سرزد نہ ہوجائے۔
ایک دن ان کے پاس ایک اجنبی آیا اور آکر بولا۔
"یہ کیا تم دونوں یکسانیت سے بھرپور ایک بور زندگی گذار رہے ہو؟۔
آدم نے تشویش ناک نظروں سے اسے دیکھا اور بولے۔
"بھائی تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟"
"یہ چھوڑو کہ میں کون ہوں"۔ اجنبی بولا
"اگر تم کچھ تبدیلی چاہتے ہو تو بتاؤ"۔
دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر آدم بولے۔
"بھائی ہمیں ہمارے رب نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ ہم خوش ہیں اور ہمیں تمہاری ضرورت نہیں"۔
اجنبی مایوسی کے عالم میں چلا گیا۔
دوسرے دن وہ اجنبی دوبارہ نظر آیا۔ اس دن وہ کافی پرجوش معلوم ہوتا تھا۔ وہ نزدیک آیا اور بولا۔
"میں آپ لوگوں کے لئے ایک خاص خبر لایا ہوں"۔
"وہ کیا؟" آدم  بولے
" میں دروازے کے پیچھے کھڑا ہوا تھا کہ  اچانک دو فرشتے آپس میں بات کررہے تھے"۔ اجنبی  نے سرگوشی کے انداز میں اپنی بات جاری رکھی۔
"وہ کہہ رہے تھے کہ کالے چشمے کے اس پار ایک وادی ہے۔ اس وادی میں کچھ ایسے پھل ہیں جن کی تاثیر ان پھلوں سے جدا ہے، اس وادی کا حسن اس جگہ سے زیادہ ہے، وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں اور وہاں زندگی کا رنگ بالکل ہی نرالا ہے"۔
آدم پر تجسس نگاہوں سے اجنبی کو دیکھنے لگے۔ اجنبی نے تیر نشانے پر لگتے ہوئے دیکھ کر  مزید کہا۔
"ایک اور اہم بات۔ اور یہ بات میں صرف تمہیں بتا رہا ہوں کیوں کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ وہ یہ کہ اس جگہ پر ایک ایسا درخت ہے جس کا پھل کھانے سے انسان کو ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہیں مرتا۔ بہر حال اب میں چلتا ہوں، اگر کوئی مزید خبر ملی تو کل بتاؤں گا"۔ یہ کہہ کر وہ چلتا بنا۔

ساری رات آدم اور انکی بیوی اجنبی کی باتوں میں سوچتے رہے۔ وہ اسی شش وپنج میں گرفتار تھے کہ اس کالے چشمے والی حد کو  پار کرکے اس وادی میں جانا ہے یا نہیں۔ دونوں نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس وادی میں چلتے ہیں کیونکہ خدا نے ادھر جانے سے تو منع نہیں کیا البتہ وہ اس درخت کا پھل نہیں کھائیں گے۔  دوسری صبح وہ اس اجنبی کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔جب وہ نظر آیا تو اس نےگذشتہ ملاقاتوں کے برعکس لا تعلقی کا اظہار کیا۔  وہ دونوں مایوس ہوگئے کہ شاید اس کی نیت بدل گئی۔ چنانچہ وہ واپس جانے لگے۔ اجنبی نے جب بازی پلٹتی دیکھی تو ان دونوں کے پیچھے بھاگا اور بولا۔
"بھائی اگر تم دونوں اپنا فیصلہ کرہی چکے ہو تو آؤ میں تمہیں اس حسین وادی میں لے چلوں۔ چنانچہ وہ ان دونوں کو لے کر کالے چشمے کےاس پار لے آیا۔ آدم اور انکی بیوی وہاں کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جوں جوں وہ اس وادی داخل ہوتے گئے انکا خوف خوشی اور مسرت میں تبدیل ہوتا گیا۔ اجنبی مسکراتا ہواان کے پاس آیا اور بولا۔
"میں نہ کہتا تھا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ تم خواہ مخواہ مجھے مشکوک انداز میں دیکھ رہے تھے۔ اب یہاں کھاؤ پیو عیش کرو۔"۔
چند دن گذارنے کے بعد اجنبی ان دونوں کے پاس آیا اور بولا۔
"بھائی یہ عیش کی زندگی گذارلو کیونکہ تمہارے اس زندگی کے چند ہی دن ہیں"۔
"وہ کیوں؟"۔
آدم نے استفسار کیا
"وہ اس لئے کہ تم نے ہمیشگی کی زندگی والا پھل نہیں چکھا۔ اگر تم وہ کھالو تو تم فرشے بھی بن سکتے ہو۔ پھر خدا کے مزید قریب ہوجاؤگے اور اس جنت میں بلا روک ٹوک جہاں چاہوگے گھوم پھر سکوگے"۔ اجنبی بولا۔
" تم چاہتے ہو کہ ہم اس ممنوعہ درخت کا پھل کھائیں جس سے ہمارے رب نے منع فرمایا ہے؟"۔ آدم نے پوچھا۔
"بھائی تم جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کتنے غفور اور رحیم ہیں۔ اورمیں یہ تھوڑا ہی چاہتا ہوں کہ تم  پورا ہی وہ پھل کھالو۔ بس تھوڑا سا چکھ لو ۔ اگر  خدا نے ناراضگی کا اظہار کیا تو پھینک دینا۔ اور ویسے بھی اس کو کھانے کے بعد تم ایسے فرشتے بن جاؤ گے جسے خدا کا قرب حاصل ہوگا تو فکر کیسی؟"۔ اجنبی گھاگ انداز میں بولا
بہرحال آدم اور حوا کا اطمینان قلب نہ ہوا۔ وہ رات ان دونوں نے بحث و مباحثے میں گذاری۔ اگلی صبح  پھر اجنبی کا آمنا سامنا ہوا۔ اجنبی نے دونوں کو شش و پنج کے عالم میں دیکھ کر خوش ہوا لیکن اپنی خوشی کوان سے چھپاکر لاپرواہی کا اظہار کرنے لگا۔ جب دونوں نے کچھ نہ کہا تو  خود ہی بولا۔
" کل میں نے ایک فرشتے سے پوچھا کہ وہ کس طرح فرشتہ بنا تو معلوم اس نے کیا جواب دیا؟"
جب دونوں خاموشی سے اس کی جانب دیکھتے رہے تو خود ہی بولا۔
"اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اس درخت کا پھل کھایا تھا۔ تو اب وہ فرشتہ بھی ہےاور اسے موت بھی نہیں آئے گی"۔
 "لیکن اس پھل میں تو خدا کی معصیت اور نافرمانی ہے"۔ آدم احتجاج کے انداز میں بولے
"ارے بھائی! اتنے چھوٹے موٹے گناہوں پر بھی کوئی گرفت تھوڑی ہوتی ہے۔ بس پھل ہی تو کھانا ہے اور بس"۔
اجنبی نے جواب دیا۔
باتوں باتوں میں دونوں کو اندازہ بھی نہ ہوا کہ اجنبی انہیں اس ممنوعہ درخت کے قریب لے آیا ہے۔ دونوں نے  جب پھل کو اتنے قریب دیکھا  اور اجنبی کی متاثر کن باتیں سنیں تو خود پر قابو نہ رکھ سکے اور درخت کا پھل کھالیا۔ پھل کھاتے ہی ماحول بدل گیا۔ ارد گرد کا نیلگوں آسمان سیاہی مائل ہوگیا، سبزہ کاہی میں بدل گیا اور ہرے پتے سوکھ کر خش و خاشاک کی طرح اڑنے لگے۔ دونوں کو پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ جنت کی پوشاک ان سے چھینی جاچکی ہے۔ چنانچہ وہ درخت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپنے لگے۔ انہوں نے اس مشکل صورت حال میں جب اجنبی کو تلاش کیا تو وہ دور کھڑا نظر آیا۔  اسکی معصوم صورت کریہہ شکل میں بدل چکی تھی اور اسکے دانت بھیڑئے کے دانتوں جیسے ہوچلے تھے۔ وہ اجنبی نزدیک آیا اور بولا۔
"میں شیطان ہوں۔ میں نے خدا کو چیلنج کیا تھا کہ میں اس انسان کو تیری بندگی اور جنت سے دور رکھ کر چھوڑوں گا۔ آج یہ میرا پہلا حملہ ہے۔ میری ساری باتیں جھوٹی اور سارے وعدے فریب تھے۔ نہ یہ درخت فرشتہ بناتا ہے اور نہ ہی یہ ہمیشگی کی زندگی عطا کرتا ہے۔اب بھگتو! اس کی سزا جو تم نے عمل کیا"۔

--------------

 آدم و حوا کے یہ سن کر اوسان خطا ہوگئے کہ وہی شیطان تھا جس سے بچ کر رہنے کا خدا نے حکم دیا تھا اور وہ اسی دشمن کی باتوں میں آگئے ۔ دونوں کو احساس ہوا کہ جذبات میں آکر وہ جو قدم اٹھا چکے ہیں اس سے وہ خدا کی فراہم کردہ نعمتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایک بے بسی طاری تھی۔ آسمان کے جگمگاتے تارے کہیں گم ہوچکے تھے، وہ چہچہاتے پرندے دور ہوکر خاموش ہوگئے تھے، سب جھرنے اور آبشار خشک ہوچلے تھے۔ غرض ہر شے ان  دونوں سے برات کا اعلان کرہی تھی کیونکہ وہ خدا کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے تھے۔
اس یاسیت اور اندوہ ناک غم میں دونوں کی روتے روتے آنکھیں خشک ہوگئی تھیں۔ انہیں جنت کی نعمتوں کے چھن جانے کا اتنا افسوس نہ تھا جتنا اپنے پیارے اور محسن رب کی ناراضگی کا۔ جس نے وجود دیا، اس کے تقاضے پیدا کئے، ان تقاضوں کو احسان کے درجے میں پورا کیا پھر نت نئے رنگ دے کر زندگی کا سامان کیا، آج سی کو فراموش کردیا، اسی کی بات کو رد کردیا، آج اسی کے دشمن کی بات مان لی۔ یہ احساس دونوں کو مارے ڈال رہا تھا۔
پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ان کے رب نے انہیں پکارا۔
"کیا میں نے تم دونوں کو منع نہیں کیا تھا کہ اس درخت کے قریب مت پھٹکنا اور اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ پھر یہ نافرمانی کیوں؟"
دونوں روتے ہوئے سجدے میں گر گئے۔ اور گڑگڑا کر دعا مانگے لگے۔
"اے رب ! بے شک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہماری حالت زار پر رحم نہ کیا تو ہم تو ابدی نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے"۔
 ایک نافرمانی شیطان نے بھی کی تھی لیکن جب خدا نے اسے اسکی غلطی کا احساس دلایا تو بجائے اپنی غلطی ماننے کے اس نے خدا ہی کو مورود الزام ٹہرادیا اور سرکشی دکھائی۔ لیکن آدم و حوا نے اس کے برعکس رویہ کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے خود کو مورود الزام ٹہرایا اور خدا سامنے جھک کر معافی اور رحم کا مطالبہ کیا اور توبہ کے ذریعے اپنی اصلاح کی پیشکش کی۔ خدا نے دونوں کو معاف کردیا کیونکہ وہ واقعی غفور یعنی گناہوں کا ڈھانک لینے والا ہے اور انتہائی شفیق اور مہربان ہے۔

---------------------

 پھر منظر بدلا اور خدا آدم سے مخاطب ہوا۔
"اے آدم، اس تجربے سے سبق حاصل کرنے کے بعد اب تم اپنی بیوی کے ساتھ زمین میں اترو اور ساتھ ہی یہ مردود شیطان بھی۔ تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔  تمہیں ایک مقررہ مدت امتحان تک اسی زمین میں جینا اور یہیں مرنا ہے اور اسی زمین سے تم دوبارہ زندہ کرکے  آخرت  کی جوابدہی کے لئے اٹھائے جاؤگے۔ بس اپنے اس ازلی دشمن ابلیس سے بچ کر رہنا۔ میں نے تمہاری فطرت میں خیر اور شر کا بنیادی شعور رکھ دیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی میں نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہدایت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ چنانچہ جس کسی کے پاس بھی یہ نور ہدایت پہنچے اور وہ اس کی پیروی کرے تو وہ  شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یاد رکھو شیطان اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تمہارا گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تمہیں  فحاشی، خدا سے بغاوت، ظلم و عدوان اور فساد فی الارض کی زندگی میں ملوث رکھے تاکہ تمہیں میری بندگی سے نکال کر لے جائے۔ پس جس نے میرا کہا مانا تو وہ میرابندہ ہے اور جس نے اس کی بات مانی تومیری بندگی سے نکل گیا"۔

-----------------------

آپریشن مکمل ہوچکا تھا۔ سرجن نصیر صاحب کے سر میں آخری ٹانکے لگا رہا تھا۔ باہر ان کی بیوی اور بچے بے چینی کے عالم میں  ٹہل رہے تھے۔ یہ چند گھنٹے ان کے لئے صدیاں بن گئے تھے۔ اچانک دور انہیں ایک ڈاکٹر تھیٹر سے باہر نکلتا نظر آیا۔ سب اسکی جانب بے تابی سے لپکے۔
"ڈاکٹر صاحب کیا ہوا!" بیگم نصیر نے پوچھا
"آپریشن کامیاب ہوگیا ہے، آپ کو مبارک ہو! بس چند گھنٹوں بعد انہیں ہوش آجائے گا"۔ ڈاکٹر نے جواب دیا
ہوش میں آنے کے بعد نصیر صاحب ابتدا میں تو وہ کچھ دیکھنے سے قاصر رہے۔ جب آنکھیں اس اجالے کی عادی ہوئیں تو دیکھا کہ انکے بیوی بچے  ان پر جھکے ہوئے تھے۔
انہوں نے اپنی بیوی کو دیکھا اور انکی آنکھوں میں آنسو آگئے  اور وہ  اپنا درد بھول کر اہلیہ کی بیماری کے بارے میں سوچنے لگے۔ اسی اثناء کہ شیطان پھر حملہ آور ہوا اور ورغلانے لگا۔ لیکن نصیر صاحب صاحب کو خدا کی بات یاد آئی کہ یہ شیطان انسان کا دشمن ہے، اس کا ہر وعدہ جھوٹا اور فریب پر مبنی ہے، اس کی پیروی  خدا سے بغاوت ہے۔ یہ سوچ کر وہ مسکرائے اور شیطان  سے مخاطب ہوئے۔
"مجھے اپنی بیوی کی موت گوارا ہے لیکن تیری اطاعت منظور نہیں"۔

-----------------------

آج نصیر صاحب بہت خوش تھے۔ وہ ہسپتال میں اپنی بیوی کا چیک اپ کروا کر آ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا تھا کہ نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر ان کی بیوی کا کینسر تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور وہ صحت کی جانب لوٹ رہی ہیں۔