Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

30 November 2012

معجزوں کے انتظار میں



کیا کسی ایک شخص کو یہ خیال نہیں آیا کہ بجائے آسمان کی طرف دیکھنے،  دعا کرنے اور ویڈیو بنانے کے بھاگ دوڑ کر ایک دری کا انتظام کیا جائے جوگرنے والے کی جان بچا سکے؟

 اویس بیگ نئی نوکری کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا۔ انٹرویو کا بھی آخری مرحلہ، یہ تقریباً طے تھا کہ اسے نوکری ملنے والی ہے۔ انٹرویو سٹیٹ لائف بلڈنگ کی آٹھویں منزل پر تھا۔ وہی سٹیٹ لائف جو بچپن سے ہمیں اے خدا میرے ابو سلامت رہیں کی دعا سنواتی رہی ہے۔ بلڈنگ میں آگ لگی جو لوگ بلڈنگ کے اندرونی راستوں سے واقف تھے وہ یا تو سیڑھیوں سے نیچے آئے یا چھت پر جا کر جان بچائی۔ اویس بیگ بلڈنگ کے اندرونی راستوں سے واقف نہیں تھا اور غالباً دھواں بھرنے کے بعد ٹھیک طرح سے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے ایک کھڑکی کھولی اور آٹھویں منزل سے باہر لٹک گیا۔


بڑے شہروں کی بڑی عمارتوں میں کبھی کبھار ایسے سانحے ہو جاتے ہیں لیکن جیسے ہی اویس بیگ کھڑکی سے لٹکا اس سے آگے جو کچھ ہوا وہ ہمارے موجودہ حالات ہماری بڑھتی ہوئی یاسگی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ کتنی دیر تک کھڑکی تک کھڑکی سے لٹکا رہا۔ ایک اخبار نے پندرہ منٹ لکھا ہے ایک نے نصف گھنٹہ۔ لیکن کم از کم اتنا وقت ضرور تھا کہ سینکڑوں لوگوں کا ہجوم بھی اکھٹا ہوگیا، فلم بھی بن گئی اور ٹی وی چینلوں پر لائیو کوریج بھی شروع ہوگئی۔

ہمیں اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ میڈیا کو یہ تصویریں دکھانی چاہیئیں تھیں یا نہیں ویسے دنیا کا شاید ہی کوئی اخبار یا ٹی وی ہو جو اس طرح ڈرامائی تصویر دکھانے سے گریز کرے۔ لیکن ایک دوسری تصویر جو میں نے کہیں نہیں دیکھی وہ ان سینکڑوں لوگوں کی تھی جو مبہوت کھڑے، آسمان کی طرف نظریں اٹھائے، آٹھویں منزل سے لٹکے اس نوجوان کو دیکھ رہے تھے۔

درجنوں ایمبولینس، کئی فائربریگیڈ کی گاڑیاں اپنے کام میں مصروف تھیں لیکن اس ہجوم کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا یہ سینکڑوں لوگ سوائے آسمان کی طرف دیکھنے کے اور دل ہی دل میں اویس کی سلامتی کی دعا کرنے کے علاوہ کچھ کر سکتے تھے؟
کوئی معجزہ ہوگا اور بلا ٹل جائے گی!

کیا یہ ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کے اس ہجوم میں کسی ایک نے بھی بلند عمارتوں میں پھنسے لوگوں کو بچانے کا یہ سادہ سا عمل ساری زندگی کبھی دیکھا ہی نہیں یا پھر یہ کہ شاید قصور صرف اس ہجوم کا نہیں ہم من حیث القوم دعاؤں سے بھرے دل لے کر آسمان کی طرف نظریں اٹھائے کھڑے ہیں اپنی طرف آنے والی ہر آفت کو مسحور ہوکر دیکھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ابھی کوئی معجزہ ہوگا اور بلا ٹل جائے گی۔

ایک وقت تھا کہ پاکستان کے سرکاری سکولوں میں اور کبھی کبھی پارکوں میں سول ڈیفنس اور فائر بریگیڈ والے اپنے کراتب کا مظاہرہ کرتے تھے تاکہ عام شہری سیکھیں کہ آتش زدگی کی صورت میں انہیں کیا کرنا ہے۔ اس کا ایک لازمی حصہ یہ ہوتا تھا کہ ایک رضاکار کو آگ سے جان بچانے کے لیے اوپر کی منزل سے چھلانگ لگانی ہوتی تھی۔ نیچے آٹھ یا دس لوگ ایک دری یا کسی موٹے کپڑے کی چادر اپنی پوری قوت سے تان کر کھڑے ہوتے تھے اورگرنے والا بحفاظت زمین پر پہنچ جاتا۔

اویس بیگ کو آٹھویں منزل سے لٹکا دیکھ کر مجھے پہلا خیال یہ آیا کہ سٹیٹ لائف بلڈنگ زینب مارکیٹ کے بالکل سامنے واقع ہے اور زینب مارکیٹ کراچی کی کپڑے کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پر قالینوں کی دریوں کی دوکانیں ہیں، رنگ برنگی رلیاں بھی ملتی ہیں کیا کسی ایک شخص کو یہ خیال نہیں آیا کہ بجائے آسمان کی طرف دیکھنے اور دعا کرنے کے بھاگ دوڑ کر ایک دری کا انتظام کیا جائے جوگرنے والے کی جان بچا سکے۔

کیا یہ ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کے اس ہجوم میں کسی ایک نے بھی بلند عمارتوں میں پھنسے لوگوں کو بچانے کا یہ سادہ سا عمل ساری زندگی کبھی دیکھا ہی نہیں یا پھر یہ کہ شاید قصور صرف اس ہجوم کا نہیں ہم من حیث القوم دعاؤں سے بھرے دل لے کر آسمان کی طرف نظریں اٹھائے کھڑے ہیں اپنی طرف آنے والی ہر آفت کو مسحور ہوکر دیکھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ابھی کوئی معجزہ ہوگا اور بلا ٹل جائے گی۔

آٹھویں منزل سے گرنے والے شخص کے لیے مضبوط ہاتھوں سے تانی ہوئی ایک چادر ہی واحد معجزہ ہو سکتی ہے اور یہ معجزہ صرف ہجوم میں موجود کچھ لوگ ہی کر سکتے ہیں ورنہ کھڑکی سے لٹکے ہوئے لڑکے کے بازو آخر کار شل ہوں گے اور بہت نیچے کنکریٹ کا فرش اور ایک ہجوم کی دعائیں اس کا استقبال کریں گی

محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام 

29 November 2012

دو سو گدھوں کی عقل مل کر انسانی عقل کے برابر نہیں ہوسکتی

گریز از طرزِ جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمے آید
 علامہ اقبال
--------------------------------------------------
” جمہوری نظام سے دور بھاگواور کسی صاحب ِ کردار، صاحب ِعلم وعمل پختہ کار کو اپنا رہبر بناﺅ ۔ کیونکہ دو سو گدھوں کی عقل مل کر انسانی عقل کے برابر نہیں ہوسکتی“
------------------
Flee from the Mechanizations of democracy, follow an experienced sage

For the brains of two hundred donkeys cannot produce the wisdom of one man
 


27 November 2012

اتنے گھاٹے کی ’چوائس‘بھی کر لو گے کیا؟


چوائس‘Choice
تم جو بے چارگی کی حدوں سے پرے 
بے ضمیری کے قدموں کو چھونے لگے 
جب لٹیرے دریچوں تلک آ گئے
تم نے بھائیوں کی گردن کو آگے کیا 
اپنےبوٹوں‘ پہ گرد آ نہ جائے کہیں 
آنچلوں کو دوپٹوں کو صافی کیا!
تم یہ کہتے ہو چوائس‘  بچی ہی نہ تھی 
میں یہ کہتا ہوں چوائس‘کبھی بھی نہ تھی! 
(بیچ ایمان اور کفر کے، کوئی چوائس بھی ہے؟) 

اے بھلے مانسو!
رک کے سوچو ذرا!
باب تاریخ میں ہم نے اکثر پڑھا
قوم کی زندگی میں کسی موڑ پر 
ایسے لمحے آ چکے بارہا
جب کہیں کوئی چوائس‘بھی بچتی نہی!
جیسے گھر میں تمھارے جو ڈاکو گھسیں 
اور تم کو سرِ  بابآرڈریہ دیں 

اک ذرا ہٹ رہو 
(ساتھ بلکہ ہمارا بھی دو!)
ہم نے اس گھر کو تاراج کرنا ہے اب
آنچلوں کو بھی ہاں_______نوچ ڈالیں گے ہم 
جس کو چاہیں گے اس کو اٹھا لیں گے ہم

نوکِ خنجر پہ ہی پھر وہ تم سے کہیں 
 ایک لمحہ بچا ہے کہ چوائس کرو
 تم____یا گھر یہ تمہارا____ذرا سوچ لو!؟
پھر بتاؤ مجھے_____ اے کہ دانشورو!
اپنے بھائیوں کی گردن
 بہن کی ردا
اپنے قاتل کو تم پیش کر دو گے کیا؟
ذلتوں کے عوض_____ اپنی جاں کی اماں 
اتنے گھاٹے کی چوائس‘بھی کر لو گے کیا؟

٨ اکتوبر ٢٠٠١ جب ملت اسلامیہ کا ایک طبقہ امریکہ کی صلیبی یلغار کا حصّہ بن گیا اور افغانستان کی اسلامی امارت کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلم ممالک پر کفار کے عملی قبضے کے ایک نئے تاریک باب کا آغاز ہو گیا!
کتاب: تمہارا مجھ سے وعدہ تھا!
عنوان: سقوطِ کابل
شاعر: انجینئر احسن عزیز شہید 

26 November 2012

ملالہ پر حملہ! تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو(ویڈیو+ کالم )


Video documentary: Conspiracy Behind Attack on Malala Yousufzai

English translation of this article with English version of documentary

ملالہ پر حملہ … تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

شاہنواز فاروقی


٩ اکتوبر 2012 ء کو ملالہ یوسف زئی اور اس کی دو ساتھیوں پر حملہ ہوا تو یہ قتل کی ان ہزاروں ’’عام وارداتوں ‘‘میں سے ایک واردات تھی جو گزشتہ 25 سال سے پاکستان میں ’’معمول‘‘ بنی ہوئی ہیں اورجن کے نتیجے میں اب تک 50 ہزار سے زیادہ پاکستانی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ لیکن چند ہی گھنٹوں میں ملالہ پر حملے کی خبر پاکستان کیا دنیا کی ’’سب سے بڑی خبر‘‘ بن گئی اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملالہ پر نہیں امریکہ کے صدر پر قاتلانہ حملہ ہوگیا ہے جس نے پاکستان‘ امریکہ اور دیگرمغربی ملکوں کی سیاست اور معیشت میں ایک زبردست بحرانی صورتحال پیدا کردی ہے۔ ملالہ پر حملے کا یہی وہ پہلو ہے جس نے چند ہی گھنٹوں میں پورے واقعے کو مشتبہ بنا کر اس کی ’’تعبیر‘‘ کو بدل ڈالا ہے۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔
خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ملالہ کے واقعے نے اس شعر کو جس طرح ’’مجسم‘‘ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس وقت ملالہ پر حملہ ہوا اس وقت کہا جاسکتا تھا کہ اس واقعے میں کوئی بھی ملوث ہوسکتا ہے لیکن اس واقعے پر جس طرح کا ردعمل سامنے آیا اسے دیکھ کر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ملالہ اور اس کی دو معصوم ساتھیوں کو امریکہ اور اس کی مقامی ایجنٹ ایجنسیوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر کے اپنی گولیوں کا نشانہ بنالیا ہے اور اب وہ اس واقعے کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے بروئے کار لانے کے یے کوشاں ہیں۔ لیکن اس دعوے کی دلیل کیا ہے۔

اس واقعے کی دلیل یہ ہے کہ جیسے ملالہ پر حملے کی خبر آئی تو صدر امریکہ بارک حسین اوباما نے واقعے کی مذمت فرمائی اسے بدمزہ کرنے والا واقعہ قرار دیا  اور کہا کہ امریکہ ملالہ کے علاج معالجے کے لیے ہرممکن مدد کے لیے تیار ہے۔ اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر امریکہ اتنا ’’فارغ‘‘ ہے کہ وہ پاکستان میں تین بچیوں پر حملے کی مذمت کے لیے دستیاب ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہی صدر امریکہ ہے جس نے پاکستان کے سلالہ ایئربیس پر امریکہ کے حملے اور وہاں دو درجن پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر اظہار افسوس سے بھی صاف انکار کردیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ وہی صدر امریکہ ہے جس نے ریمنڈڈیوس جیسے مجرم کی باعزت امریکہ واپسی کا اہتمام کرتے ہوئے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کو پامال کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ تو کیا زخمی ملالہ امریکہ کے صدر کے لیے دو درجن پاکستانی فوجیوں سے زیادہ قیمتی ہوگئی ہے؟ اور کیا ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے اور سلالہ پر حملے کی مذمت کرنے والا صدر امریکہ دو مختلف افراد سے عبارت ہے؟ لیکن یہ تو ملالہ پر حملے کے حوالے سے ہونے والے سیاسی اور ابلاغی تماشے کی محض ابتداہے۔

9
اقوام متحد ایک عالمی تنظیم ہے اور اس کے پاس کرنے کے لیے ہزاروں کام ہیں۔ دنیا میں روزانہ ہزاروں بے گناہ افراد جرائم پیشہ عناصر کا نشانہ بنتے ہیں مگر اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل ان کا نوٹس تک نہیں لیتا یہاں تک کہ اس کے پاس فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کا ’’نوٹس‘‘ لینے کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ لیکن ملالہ پر حملہ ہوتے ہی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون بھی متحرک ہوگئے۔ انہوں نے ملالہ پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ تعلیمی حقوق سے متعلق ملالہ کی مہم سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ بان کی مون کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ ملالہ سے برسوں سے واقف تھے اور ’’گہری نظر سے‘‘ ملالہ کی جدوجہد کا ’’مشاہدہ‘‘ و ’’مطالعہ‘‘ کررہے تھے۔ اور کیوںنہ کرتے ،ملالہ نے لڑکیوں میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے جو جدوجہد کی ہے اس کی کوئی مثال گزشتہ سو سال میں سامنے نہیں آسکی ہے؟ امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی ملالہ پر حملے کی مذمت کی اور اسے افسوسناک قرار دیا۔
امریکہ کے سابق صدر جارج بش کی اہلیہ لارا بش ملالہ پر حملے سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے امریکہ کے ممتاز اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک پورا مضمون اس حوالے سے لکھ ڈالا اس مضمون میں انہوں نے فرمایا کہ ملالہ انہیں کیا پوری دنیا کو Inspireکررہی ہے۔ آدمی کو کسی سے Inspire ہونے کے لیے دہائیاں یا کم از کم دوچا ربرس درکار ہوتے ہیں۔ مگر لارا بش ملالہ سے اس پر حملے کی خبر سنتے ہی Inspire ہوگئیں۔ لارا بش سے پوچھا جاسکتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی جنگ میں مارے جانے والے 30 ہزار پاکستانیوں سے وہ کتنا Inspireہیں؟ اگر وہ زخمی ملالہ کے لیے ایک مضمون لکھ سکتی ہیں تو 30ہزار پاکستانیوں کے لیے تو انہیں اب تک انسائیکلوپیڈیا مرتب کردینا چاہیے تھا۔ مگر ہم نے آج تک اس سلسلے میں ان کی جانب سے ایک لفظ کو بھی منظر عام پر آتے نہیں دیکھا۔ نیویارک سے امریکی سینٹ کی رکن کرسٹین گلی برینڈ نے ملالہ پر حملے کے حوالے سے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ملالہ سے بہت متاثر یا Inspire ہیں اور ملالہ نے ایک فرد کی قوت کو ظاہر کیا ہے۔ عمران خان کی سابق شریک حیات جمائماخان نے ملالہ پر حملے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملالہ پر حملہ کرنے والے طالبان نامی قصائیوں کی سب ہی کو مذمت کرنی چاہیے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر سوسان رائس بھی ملالہ پر حملے کے حوالے سے چیخ اٹھیں اور انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل ملالہ سے وابستہ ہے امریکی کانگریس کی رکن سوسات ڈیوس نے فرمایا کہ آج ہم سب ملالہ بنے ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا کی سینیٹ کی رکن کرسٹین مل نے فرمایا کہ بچیوں کے عالمی دن کے موقع پر آیئے ہم سب ملالہ کی تکریم کریں۔ امریکہ کے ممتاز اخبار نیویارک ٹائمز نے ملالہ پر حملے کے حوالے سے پورا اداریہ سپرد قلم کیا ہے اور کہا کہ پاکستان کا اگر کوئی مستقبل ہے تو ملالہ اس کی علامت ہے۔ امریکہ کے ممتاز Forbes میگزین نے ملالہ پر حملے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمت اور اخلاقی جرأت کی علامت ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کی ممتاز گلوکارہ میڈونا بھی پاکستان پر اتنی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ جیسے ہی ملالہ پر حملہ ہوا انہیں اس کی اطلاع ہوگئی۔ اس وقت وہ ایک کنسرٹ میں تھیں اور انہوں نے اپنا ایک گیت ملالہ کے نام کردیا۔ خدا کا شکر ہے کہ ملالہ زندہ ہے لیکن امریکہ کی جنگ میں 30 ہزار پاکستانی مارے جاچکے ہیں مگر افسوس میڈونا کو ان میں سے کوئی پاکستانی بھی اس لائق محسوس نہ ہوا کہ وہ اپنا ایک گیت اس کے نام کردیتیں۔

یہ ملالہ کے حوالے سے مغرب میں سامنے آنے والے ردعمل کی محض ایک ’’جھلک‘‘ہے اور اس جھلک سے ظاہر ہے کہ جو کچھ ہوا امریکی سی آئی اے اوربلیک واٹر کی منصوبہ بندی سے ہوا۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ 65 برسوں پر محیط ہے ان 65 برسوں میں کیا نہیں ہوا۔ بھٹو صاحب جیسے لیڈر کو پھانسی ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ بے نظیر بھٹو جیسی مقبول رہنما دن دہاڑے قتل کردی گئیں، یہاں تک کہ 1971 ء میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا مگر امریکہ اور دیگر اہل مغرب کو پاکستان یا کسی پاکستانی کے لیے اس طرح تڑپتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ لیکن ملالہ کے حوالے سے صرف مغرب کا ردعمل ہی اہم نہیں۔

ملالہ پر حملے نے پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کو بھی ’’ہلاکر‘‘ رکھ دیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی ملالہ کے زخمی ہونے سے اتنے ’’غم زدہ‘‘ ہوئے کہ وہ ملالہ کی خیریت معلوم کرنے اور اس کے علاج معالجے کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے بہ نفس نفیس اسپتال پہنچے۔ امریکہ کے ڈرون حملوں سے اب تک ہزاروں پاکستانی اور درجنوں بے گناہ اور معصوم بچے اور عورتیں شہید ہوچکی ہیں۔ مگر جنرل پرویز کیانی ان شہیدوں کے گھر تو کیا جاتے انہوں نے شہداء کے ورثاء کے نام ایک تعزیتی خط تک نہیں لکھا۔ یہاں تک کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ ملالہ کے ساتھ دو اور معصوم بچیاں بھی زخمی ہوئی ہیں۔ جنرل کیانی ان کی بھی عیادت کرلیتے توان کا کیا بگڑ جاتا مگر تماشے کا اہتمام تو معصوم ملالہ کے حوالے سے ہوا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملالہ کے حوالے سے امریکی سی آئی اے ‘بلیک واٹراور آئی ایس آئی ایک ہی دائرے میں رقص کناں ہیں۔

ملالہ پر حملے کے حوالے سے راجہ پرویز اشرف اور ان کی حکومت جو ’’زندہ درگور‘‘ کا منظر پیش کررہی تھی اچانک ’’چھلانگ‘‘ مار کر سامنے آگئی۔ راجہ پرویز اشرف نے سیاست دانوں کی ایک فوج کے ساتھ ملالہ کی عیادت کی اور فرمایا کہ یہ پاکستان ’’ملالہ‘‘ کا پاکستان ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کو اقبال اور قائداعظم کا کیا بھٹو کا پاکستان بھی نہیں بناسکے، وہ کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ملالہ کا پاکستان ہے؟ راجہ پرویز اشرف کو یہ بات کہنے سے پہلے بتانا چاہیے کہ انہوں نے دو سال مسلسل آنے والے سیلاب سے ہلاک اور بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ بے یارو مددگار چھوڑے اور انہوں نے پاکستان کو لاکھوں بے گناہ لوگوں کا پاکستان کیوں نہیں بنایا؟ انہوں نے پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں ہلاک ہونے والے 25ہزار عام شہریوں اور 5 ہزار فوجیوں کا پاکستان کیوں نہیں بنایا؟ انہوں نے امریکہ کے ڈرونز سے شہید ہونے والے ہزاروں پاکستانیوں کی موت کو محض ’’رجسٹر‘‘ بھی کیوں نہیں کیا؟

اس حوالے سے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین بھی اکھاڑے میں کود پڑے۔ انہوں نے فرمایاکہ علما یا تو ملالہ پر حملہ کرنے والوں کی مذمت کریں ورنہ ایم کیو ایم انہیں “Expose” کردے گی۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ ایسے اماموں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں جو ملالہ پر حملے کی مذمت نہیں کرتے۔ اہم با ت یہ ہے کہ یہ باتیں ایک ایسا رہنما کررہا ہے جس پر کراچی میں 20ہزار انسانوں کے قتل کا جواب واجب ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سارے تماشے کا سبب کیا ہے؟9 اکتوبر کو ملالہ پر حملہ ہوا اور 12 اکتوبر کو پاکستان کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہ اکہ شمالی وزیرستان میں موجود طالبان اتنے گھنائونے ہیں خہ وہ مذاکرات کے لائق نہیں ہیں اور 13 اکتوبر کو یہ اطلاع آگئی کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا حتمی فیصلہ ہوا ہے مگر یہ فیصلہ فارمیشن کمانڈروں کی دو روزہ کانفرنس میں کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن کے اس بیان میں بڑی صداقت ہے کہ سوات آپریشن سے پہلے ایک ویڈیو آئی تھی جس میں نامعلوم طالبان ایک لڑکی کو کوڑے مارتے دکھائے گئے تھے۔ بعد میں ویڈیو کا جعلی ہونا ثابت ہوگیا مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے اس ویڈیو کی بنیاد پر طالبان کے خلاف ملک میں ایک فضا تیار کردی۔ ٹھیک یہی صورتحال اس وقت ہے۔ پاکستان کی فوجی اور سول قیادت شمالی وزیرستان میں مجاہدین کے خلاف امریکہ کی ہدایت پر فوجی آپریشن کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اسے ایک ایسی فضا درکار ہے جس میں وہ شمالی وزیرستان میں جو چاہے کریں۔ اس کام کے لیے امریکہ اور اس کے مقامی آلۂ کاروں نے معصوم ملالہ کو ڈھال بنالیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ملالہ بچیوں کی تعلیم کے لیے بہت کام کررہیت ھی اور وہ ملک میں بچیوں کی تعلیم کی علامت تھی لیکن کراچی اور پورے ملک میں ایسے ایک درجن علمائ‘ دانشوروں اور صحافیوں کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جنہوں نے ملک میں علم ‘ تعلیم اور شعور کو عام کرنے کے لیے زندگی وقف کی ہوئی تھی مگر وہ ’’نامعلوم افراد‘‘کے ہاتھوں مارے گئے اور ان کے قتل نے ملک کے کسی اخبار میں شہہ سرخی بھی تخلیق نہ کی۔ لیکن ملالہ 9 اکتوبر 2012 ء سے تادم تحریر یعنی 13 اکتوبر 2012 ء تک قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر چھائی ہوئی ہے کیا اس فرق کا مفہوم واضح نہیں؟ کیا یہ فرق باشعور لوگوں کو کچھ بھی سوچنے پر مجبور نہیں کررہا؟

پاکستان کے حکمران کہہ رہے ہیںکہ طالبان بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ اس بیان کی تصدیق یا تردید کے لیے طالبان کا کوئی مستند نمائندہ دستیاب نہیں۔ لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کو آزاد ہوئے 65 سال ہوگئے مگر اس کے باوجود پاکستان کے 60 فیصد لوگ جن میں خواتین کی اکثریت ہے ناخواندہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا سبب بھی ’’طالبان‘‘ ہیں؟ پاکستان کو آزاد ہوئے 65 سال ہوگئے مگر پاکستان کی70 فیصد آزادی خط غربت سے نیچے کھڑی ہے۔ کیا اس کی وجہ بھی ’’طالبان‘‘ ہیں؟ پاکستان کو آزاد ہوئے 65 سال ہوگئے اورپاکستان کے 70 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اس کے ذمے دار بھی طالبان ہیں۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 65 سال ہوگئے مگر پاکستان کی 70  فیصد آبادی کو علاج معالجے کے لیے ایک سند یافتہ ڈاکٹرمیسر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کارنامہ بھی طالبان نے انجام دیا ہے؟ پاکستان کے جرنیل بھارت اور امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم کو فتح کرتے ہیں مگر اس کے باوجود قوم کے بجٹ کا 50 فیصد ہڑپ کرجاتے ہیں کیا اس کا سبب بھی ’’طالبان‘‘ ہیں؟ آخر پاکستان کا حکمران طبقہ کس منہ سے طالبان کو بڑا خطرناک اور دقیانوسی ثابت کررہا ہے؟

کہنے والے کہتے ہیں کہ طالبان نے ملالہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے بلکہ حکومت نے تو دعویٰ کردیا ہے کہ اس نے حملہ آوروں کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔ طالبان ایک زیر زمین تحریک ہے اور ایسی تحریکوں کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ ان کا حقیقی ترجمان اور حقیقی نمائندہ کون ہے۔ جو طاقتیں جھوٹ کی بنیاد پر بڑی بڑی جنگ ایجاد کرتی ہیں ملک توڑتی اور بناتی ہیں ان کے لیے ’’جعلی طالبان ‘‘تخلیق کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ البتہ امت مسلمہ کا اجتماعی شعور اور اجتماعی ضمیر جن طالبان کو خوب پہچانتا ہے وہ ‘ وہ ہیں کے جن کے امیر ملا عمر نے بدترین خانہ جنگی کی شکار افغانستان میں امن قائم کیا۔ انسانی جان کی حرمت بحال کی۔ سادگی اور قناعت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ امت مسلمہ کا اجتماعی ضمیر اور اجتماعی شعور ان طالبان کو خوب جانتا ہے جنہوں نے 11 ستمبر کے بعد وقت کی واحد سپر پاور امریکہ سے خوفزدہ ہونے سے صاف انکار کردیا‘ یہ وہ وقت تھا جب عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت پاکستان کے حکمران ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کررہے تھے اور ملا عمر علامہ اقبال کے اس شعر کی زندہ مثال بنے کھڑے تھے کہ
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی

امت مسلمہ کا اجتماعی شعور اور اجتماعی ضمیر ان طالبان کو بھی خوب پہچانتا ہے جنہوں نے افغانستان میں مٹھی بھر مجاہدین کی طاقت کے ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کیا۔ یہاں تک کہ طالبان کو وحشی اور درندے کہنے والا امریکہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگتا نظر آیا۔ طالبان کے تصور دین میں نقص ہوسکتا ہے۔ ان کی فکر میں خامی اور کمی ہوسکتی ہے لیکن طالبان پر تنقید کے لیے ایک ایسی بلند اخلاقی اور عالمی سطح درکار ہے جو پاکستان کے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کے پاس نہیں ہے۔ ملالہ اور اس کی دو دیگر ساتھیوں کا دکھ بجا ہے ان کے ساتھ جتنی ہمدردی کی جائے کم ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے 12 اکتوبر کو جاری ہونے والے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بلوچستان میں ایجنسیوں کی مداخلت کے ناقابل تردید ثبوت مل گئے ہیں اور بلوچستان میں 300 ’’ملالائیں‘‘ غائب ہیں۔ پاکستان کے اخبارا ت اور پاکستان کے ٹیلی وژن ان 300ملالائوں کے غم میں کب دن رات ایک کریں گے؟ اب تک تو پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے ان ’’ملالائوں‘‘ کا ایک فیصد غم بھی نہیں منایا ہے۔ حالانکہ ان ’’ملالائوں‘‘ کو غائب ہوئے مہینوں ہوگئے ہیں۔ جہاں تک مغرب کے ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو ان کا ’’ریکارڈ‘‘ یہ ہے کہ یورپ کے قلب میں موجود بوسنیا ‘ہرزیگووینامیں سرب درندوں نے ساڑھے تین سال میں ہزاروں ’’ملالائوں‘‘ کی عصمتوںکو تار تار کیا اور ان میں سے بہت سوں کو مار ڈالا مگر امریکہ اور یورپ کے ذرائع ساڑھے تین سال میں ایک ’’ملالہ‘‘ کے ساتھ ہونے والے ظلم کو بھی رپورٹ نہ کرسکے۔ کشمیر میں گزشتہ 25 سال کے دوران پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹی اور بڑی عمر کی ’’ملالائیں‘‘ بھارتی فوجیوں کی ہوس کا نشانہ بن گئیں مگر ان میں سے ایک ’’ملالہ‘‘ کبھی مغربی ذرائع ابلاغ میں جگہ نہ پاسکی۔ اسرائیل نے چند سال پہلے چھ ماہ کے دوران غزہ میں اسکول جاتے ہوئے ڈھائی سو بچوں اور بچیوں کو گولی مار کر ہلاک کیا مگر ان میں سے بھی تو کوئی بھی ’’ملالہ‘‘ نہ بن سکی۔ آیئے گزشتہ سطور میں لکھے گئے شعر کو پھر دہرائیں۔

خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو



Tags:
Malala, yousafzai, drama, exposed, shahnawaz farooqi, video, conspiracy attack,