27 November 2012
اتنے گھاٹے کی ’چوائس‘بھی کر لو گے کیا؟
’چوائس‘Choice
تم جو بے چارگی کی حدوں سے پرے
بے ضمیری کے قدموں کو چھونے لگے
جب لٹیرے دریچوں تلک آ گئے
تم نے بھائیوں کی گردن کو آگے کیا
اپنے’بوٹوں‘ پہ گرد آ نہ جائے کہیں
آنچلوں کو دوپٹوں کو صافی کیا!
تم یہ کہتے ہو ’چوائس‘ بچی ہی نہ تھی
میں یہ کہتا ہوں ’چوائس‘کبھی بھی نہ تھی!
(بیچ ایمان اور کفر کے، کوئی ’چوائس ‘بھی ہے؟)
اے بھلے مانسو!
رک کے سوچو ذرا!
باب تاریخ میں ہم نے اکثر پڑھا
قوم کی زندگی میں کسی موڑ پر
ایسے لمحے آ چکے بارہا
جب کہیں کوئی ’چوائس‘بھی بچتی نہی!
جیسے گھر میں تمھارے جو ڈاکو گھسیں
اور تم کو سرِ باب’آرڈر‘یہ دیں
”اک ذرا ہٹ رہو
(ساتھ بلکہ ہمارا بھی دو!)
ہم نے اس گھر کو تاراج کرنا ہے اب
آنچلوں کو بھی ہاں_______نوچ ڈالیں گے ہم
جس کو چاہیں گے اس کو اٹھا لیں گے ہم“
نوکِ خنجر پہ ہی پھر وہ تم سے کہیں
ایک لمحہ بچا ہے کہ ’چوائس ‘کرو
تم____یا گھر یہ تمہارا____ذرا سوچ لو!؟
پھر بتاؤ مجھے_____ اے کہ دانشورو!
اپنے بھائیوں کی گردن
بہن کی ردا
اپنے قاتل کو تم پیش کر دو گے کیا؟
ذلتوں کے عوض_____ اپنی جاں کی اماں
اتنے گھاٹے کی ’چوائس‘بھی کر لو گے کیا؟
٨ اکتوبر ٢٠٠١ جب ملت اسلامیہ کا ایک طبقہ امریکہ کی صلیبی یلغار کا حصّہ بن گیا اور افغانستان کی اسلامی امارت کے خاتمے کے ساتھ ہی مسلم ممالک پر کفار کے عملی قبضے کے ایک نئے تاریک باب کا آغاز ہو گیا!
کتاب: تمہارا مجھ سے وعدہ تھا!
عنوان: سقوطِ کابل
شاعر: انجینئر احسن عزیز شہید
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment