Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

28 June 2013

نامرد



امریکہ خراسان کے بیابانوں سے بھاگنے کو ہے اور پاکستان میں ’’ہماری جنگ‘‘ کے کیمپ میں اداسی کی گھٹائیں چھا گئی ہیں، سکوتِ سوگ طاری ہے اور وہ غل غپاڑہ سننے کو نہیں مل رہاجو اس تکرار پر مشتمل ہوتا تھا کہ ہم ہماری جنگ لڑیں گے۔ ’’ہماری جنگ‘‘ کو گمراہ اقلیت بھی کہا جاتا ہے اور جب یہ اقلیت کہتی تھی کہ ہم ہماری جنگ لڑیں گے تو اس کا مطلب تھا، خود تو عیش کریں گے، پاکستانیوں کو مروائیں گے۔

’’ہماری جنگ ‘‘ہی میں نہیں، امریکی اور یورپی میڈیا کے ایک بڑے حصے میں بھی خوب سینہ کوبی ہو رہی ہے۔ ایک اخبار نے لکھا، امریکہ نامرد Impotentہوگیا۔ اخبار کا مطلب تھا، امریکہ اب مارنے دھاڑنے کے قابل نہیں رہا لیکن نامرد ہونے کے ایک معنے اور بھی ہیں اور وہ ہیں نہتے اور کمزور لوگوں کو مار کر سینہ پھلائے پھرنا۔ اس معنے میں امریکہ آج سے نہیں، شروع دن سے نامرد ہے۔ بلکہ ریاست متحدہ امریکہ کی بنیاد ہی نامردی پر رکھی گئی تھی جب یورپ بالخصوص برطانیہ سے آنے والے جرائم پیشہ گروہوں نے اس سرزمین کو اپنا مسکن بنایا اور اس کے اصل باسیوں کو ریڈ انڈینز کا نام دے کر ان کی ایسی نسل کشی کی کہ بعض اعداد و شمار کے مطابق-2کروڑ آبادی قتل کر دی۔ ریڈ انڈینز آج امریکہ میں کم یاب نسل ہیں۔ یہ دو کروڑ اس دور میں قتل کئے جب سارے ہندوستان کی آبادی پانچ سات کروڑ رہی ہوگی۔ ان جرائم پیشہ انگریزوں کے ہاتھ میں بندوقیں اور توپیں تھیں اور ریڈ انڈینز کے پاس محض تیر کمان۔ ہزاروں مربع میل کے علاقے میں ریڈ انڈینز کا ایک آدمی بھی نہیں چھوڑا، بچے اور عورتیں زندہ جلا دی گئیں۔ اس ’’نامردی‘‘ پر امریکہ مدتوں فخر کرتا رہا۔ فلپائن سے لے کر نکارا گواتک اور عراق سے افغانستان تک اس کی نامردی کی داستانیں کہاں کہاں نہیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک امریکی اخبار نے لکھا، ہم ان ظالم طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں جن کے ہاتھ ہمارے اور یورپی فوجیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ بتائیے، اس بے شرمی کا کوئی جواب ہو سکتا ہے۔

امریکی اور یورپی فوجی افغانستان میں کیا ولیمے کی دعوت میں آئے ہوئے تھے! وہاں کے لوگ حملہ آوروں کی مزاحمت کریں تو ان کو خون سے رنگے ہاتھ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ظالم ویت نامی بھی تھے جنہوں نے معصوم امریکی فوجیوں کے خون سے ہاتھ رنگے حالانکہ امریکیوں نے کیا ہی کیا تھا، صرف آٹھ دس لاکھ ویت نامی شہری مارے تھے، محض آٹھ دس لاکھ ہم وطنوں کا بدلہ لینے کے لئے ظالم ویت نامیوں نے پورے پچاس ہزار امریکی فوجی بے رحمی سے ہلاک کر دیئے۔ اُف، خون سے رنگے ہاتھوں والے ظالم ویت نامی!

ایک امریکی جریدے نے طالبان کے اس ظلم کی دہائی بھی دی ہے کہ انہوں نے سیدھے سادھے بھولے بھالے امریکیوں کو بے وقوف بنایا اور کرزئی کی فوج اور پولیس میں اپنے آدمی بڑی تعداد میں بھرتی کرا دیئے۔سٹریٹ فار نے لکھا ہے کہ اس واردات سے (معصوم) امریکیوں کا سخت نقصان ہوا۔ جریدے نے لکھا ہے کہ یہ جو آئے روز خبریں آتی رہتی ہیں کہ ایک افغان فوجی نے اتنے امریکی مار دیئے یا کسی افغان پولیس والے نے نیٹو فوجیوں پر گولی چلا دی، تو یہ سب وہی لوگ ہیں جو بھیس بدل کر بھرتی ہوگئے۔ لکھا ہے، سارے افغان ایک جیسے ہوتے ہیں اس لئے کرزئی حکومت کیسے پتہ چلا سکتی تھی کہ بھرتی ہونے والا طالبان ہے یا کوئی اور۔سٹریٹ فار نے حیرت سے لکھا کہ افغانستان پر امریکی حملے کے فوراً بعد ہی طالبان نے یہ خفیہ منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ افسوس کی بات ہے، طالبان کو بتا دینا چاہئے تھا کہ ہم نے یہ منصوبہ بنا لیا ہے اور فلاں فلاں بندے کو بھرتی کرائیں گے۔ جریدے نے اصل رونا آخر میں یہ رویا ہے کہ امریکی انخلا ہوتے ہی طالبان ملک پر قابض ہو جائیں گے کیونکہ موجودہ افغان فوج اور پولیس ایک تو اس قابل ہی نہیں کہ ان سے جنگ لڑ سکے، دوسرے ان کی وفادار یوں کا کچھ بھروسہ نہیں۔ کچھ تو ان میں طالبان ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی تو طالبان نہیں لیکن طالبان کا حملہ ہوتے ہی طالبان ہو جائیں گے۔ اس نے لکھا ہے کہ افغان بیوروکریسی بھی مشکوک ہے اورکرزئی کے بہت سے سینئر مشیروں نے تو ابھی سے طالبان کے ساتھ رابطہ کر لیا ہے کہ ہم آپ کے ہیں، جب آپ آؤ گے تو ہمارا خیال رکھنا ۔ جریدے نے لکھا ہے کہ2014ء میں بھی امریکی فوج کا ایک حصہ افغانستان میں رہے گا لیکن اس خیال سے رہے گا کہ آخر جانا ہے۔ مضمون نگار کو افسوس ہے کہ امریکہ ’’باوقار‘‘ انداز میں افغانستان سے رخصتی چاہتا ہے لیکن افسوس کہ صرف رخصتی نظر آرہی ہے، ’’باوقار‘‘ کا کچھ پتہ نہیں۔ اب لکھنے والے کو کوئی یہ کیسے بتائے کہ نامردوں کی رخصتی میں ’’باوقاری‘‘ کہاں سے ڈالی جائے۔

ایک اور تھنک ٹینک نے اپنے دل کے پھپھولے یوں پھوڑے ہیں کہ کوئی بات نہیں، امریکہ تو نکل ہی جائے گا لیکن طالبان کے ہاتھ بھی سارا افغانستان نہیں آئے گا اور یہ دو ٹکڑوں میں بٹ جائے گا کیونکہ طالبان پشتون ہیں جبکہ غیر پشتون یعنی تاجک، ازبک اور ہزارے مل کر50 فیصد بنتے ہیں اس لئے طالبان کو آدھا افغانستان ملے گا۔ یہ اصل میں تجزیہ نہیں، منصوبہ ہے۔ امریکہ نے پچھلی دہائی میں جنگ تو لڑی نہیں بس باراتوں اور جنازوں پر بم برسائے یا پھر نسلی منافرت بڑھائی اور اب یہ کڑوا سچ ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کا اتحاد بچ جائے، یہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ امریکی منصوبہ یہ ہے کہ پشتونوں کو تباہ کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے لئے اس نے ایران اور بھارت کا اتحاد کرایا۔ منصوبہ یہ ہے کہ انخلا کے بعد ایران بھارت اور شمالی اتحاد (جس کا نام اب یونائیٹڈ فرنٹ ہے) کے ذریعے شمال سے پشتونوں کو مارا جائے اور مشرقی سمت سے پاکستان انہیں مارے۔ یعنی چکّی کے دو پاٹوں میں امریکی نامردوں کو نامراد بنانے والے پیس کر رکھ دیئے جائیں۔ ان دنوں شمالی اتحاد کی پاکستانی افسروں سے گاڑھی چھن رہی ہے جبکہ سارے شمالی افغانستان میں بھارتی سفارتی اور غیر سفارتی دفتروں کا چمن زار کھلا ہوا ہے۔ ان چمن زاروں میں پاکستان کے افسروں اور شمالی اتحاد کی دوستی معنی خیز نہیں لگتی؟ خیر، یہاں بندہ کرے کولیاں تے اللہ کرے سولیاں والامعاملہ بھی پیش آسکتا ہے۔ تھنک ٹینک (پراجیکٹ سنڈی کیٹ) نے اپنے جائزے کے آخر میں امید ظاہر کی ہے کہ پشتونوں اور نان پشتونوں کی جنگ بدترین خونریزی والی جنگ ہوگی، اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ افغانستان کی تقسیم کے علاوہ کے سوا شاید کوئی راستہ نہیں۔

ادھر بھارت کے پریس میں الگ کہرام مچا ہوا ہے۔ حکومت کو مشورے دیئے جا رہے ہیں کہ پاکستان کو امریکی انخلاء کے وقت مغربی سرحد پر مسائل ہوں گے چنانچہ اسے مشرقی سرحد پر سکون کی ضرورت ہوگی اس لئے بھارت اس سرحد کو لیوریج کے طو رپر استعمال کرے (یعنی وہاں فوج کھڑی کرے اور پاکستان کو دباؤ میں لائے)۔ ٹائمز آف انڈیا نے لکھا ہے، لگتا ہے امریکہ طالبان کے سامنے سرنڈر کرنے والا ہے ، بھارت اپنے مفادات کے لئے آگے بڑھے اور طالبان سے رابطے کا چینل قائم کرے۔ یعنی ’’دہشت گردوں‘‘ سے دوستی کرے۔

سوویت یونین اسی خطے نے توڑا اور تاریخ بدل گئی (امریکہ نے سمجھا تاریخ ختم ہوگئی) اب امریکہ افغانستان میں خوب تباہی مچا کر Impotentہوگیا ہے تو گویا ایک اور تاریخ بدل گئی۔ دیکھئے، صدی کا یہ عشرہ اور کیا کیا رنگ دکھاتا ہے۔سات سال میں دھنک ہی تو کھل جائے گی۔


24 June 2013

غیرت تو اللہ پر ایمان سے پیدا ہوتی ہے-اوریا مقبول جان


غیرت تو اللہ پر ایمان سے پیدا ہوتی ہے

چاروں جانب خوشی کے شادیانے بج رہے تھے ۔ اخباری نمائندے اپنے کیمروں کے ساتھ ویران کابل میں نیٹو افواج کے ساتھ داخل ہو رہے تھے۔ دنیا کے تمام ممالک کے حکمرانوں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے چالیس سے زیادہ عالمی طاقتوں کو ایک نہتے، کمزور اور بے سروسامان ملک پر دہشت گردی کا لائسنس دیا تھا اور آج اس لائسنس کے تحت ہونے والی دہشت گردی کی فتح کا دن تھا۔ دنیا بھر کا میڈیا اور میرے  ملک کے ٹیکنالوجی اور طاقت سے مرعوب ہونے والے دانشور طالبان کی شکست پر جس لذت بھرے لہجے میں تبصرے کرتے تھے اور انھیں فرسودہ، دقیانوس، کم عقل، ناسمجھ اور نہ عاقبت اندیش ثابت کرنے میں مگن تھے وہ دیدنی تھا۔ ایسے میں پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو دانا، عقل مند، ملک و قوم کا خیر خوا  اور وقت کی نزاکت کو سمجھ کر امریکہ کے سامنے سربسجود ہو کر پاکستانی قوم کو بچانے والا بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر اور عظیم تبصرہ نگار بھی یہی کہتااگر ہم ڈٹ جاتے  تو ہمارا تورا بورا بنا دیا جاتا۔ کابل میں بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہونے کو ایسے پیش کیا جا رہا تھا جسے امریکی جن تھے جنھیں دیکھتے ہی سب خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلے۔ اس دوران ایک پچیس سالہ نوجوان کی آواز گونجی :طالبان کو شکست نہیں ہو سکتی۔ ہم نے شمالی علاقوں کو حکمت عملی کے تحت چھوڑا  ہے تا کہ ہم اپنی طاقت کو جنوبی علاقوں..... غزنی، قندھار، ہلمند، ارزگان اور زابل میں جمع کریں اور موت تک اس جنگ کو جاری رکھیں۔ ہمیں اسامہ بن لادن کو اپنی سرزمین پر مہمان رکھنے پر کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ اس نے افغانستان کو کمیونسٹ روس سے آزاد کرانے میں ہمارے ساتھ خون بہایا ہے۔
یہ آواز تھی ملا عمر کے ذاتی سیکرٹری طیب آغا کی۔ یہ وہی شخص ہے جو آج بارہ سال بعد قطر کے شہر دوحہ میں عزت و توقیر کے ساتھ میز پر ایک جانب بیٹھا ایک شکست خوردہ عالمی طاقت اور اس کے حواریوں سے مزاکرات کر رہا ہو گا، وہ طاقت جس کے خوف سے میرے ملک کے عظیم رہنمائوں کے دل آج بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ طیب آغا جس کا بچپن اور جوانی کوئٹہ کی گلیوں میں بسر ہوئی، ابھی تین سال کا تھا کہ اس کے ملک پر کمیونسٹ روس کی افواج چڑھ دوڑیں۔ ثور انقلاب کی کمیونسٹ سیاسی پارٹیوںپرچم اورخلقکے افغانی دھڑے ان کے ہمرکاب تھے۔ کوئٹہ میں وہ ایک مہاجر بچے کی حیثیت سے آیا  کیونکہ اس کا والد ملا سدوزئی اپنے ملک کے دفاع کی جنگ میں مصروف تھا۔ کوئٹہ کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم اس نوجوان نے کمپیوٹر کلاسوں اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنا شروع کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں یہ نوجوان عربی، انگریزی، اردو، پشتو اور فارسی میں اس قدر ماہر ہو چکا تھا کہ اس پر شک ہونے لگتا کہ کہیں یہ اسکی مادری زبانیں تو نہیں ہیں۔ اسی عالم شباب میں 1994 کی گرمیوں میں اس کے والد کے شاگرد ملا محمد عمر نے افغانستان میں کرپشن، بھتہ خوری، خونریزی اور سمگلنگ سے کمائی گئی رقم سے ہونے والی قتل و غارت اور جنگ و جدل کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو جو پہلے 53 نوجوان ملا عمر کے ساتھ تھے ان میں اٹھارہ سالہ طیب آغا بھی شامل تھا۔ طالبان سے پہلے کا افغانستان بھی سب کو یاد ہے جب وہاں خون اور دہشت کے سائے تھے۔ چمن سے قندھار تک پچاس کے قریب بھتہ خوری کی چیک پوسٹیں تھیں جو ہر گزرنے والے سے مجاہدین کے نام پر تاوان وصول کرتی تھیں۔ طالبان کے بعد کا افغانستان بھی لوگوں کو یاد ہے جب کوئٹہ، پشین اور چمن جیسے مقامات سے لوگ اپنے مقدمات ان کے پاس فیصلوں کے لیے لے کر جاتے تھے کہ انصاف ملے۔ ایک ایسا  افغانستان جس میں صدیوں پرانی افیون کی کاشت صرف ایک حکم نامے پر ختم ہو گئی۔ اس دور کے افغانستان کی تفصیل دنیا بھر کے میڈیا پر موجود ہے لیکن امن و آشتی سے بھرپور یہ پانچ سال بہت سے لوگوں کے لیے جہاں حیرت کا باعث ہیں وہاں ان کے دلوں میں بھرے ازلی و ابدی بغض کے بھی عکاس ہیں جو چند چھوٹے چھوٹے واقعات کی بنیاد پر افغانستان میں تباہی و بربادی اور قتل و غارت کے بعد امن و امان کے قیام کو کوئی کارنامہ قرار ہی نہیں دیتے۔

لیکن اصل معاملہ تو گیارہ ستمبر کے بعد کا ہے۔ طالبان کے پاس بھی وہی دو راستے تھے جو پرویز مشرف اور اسکی حکومت کے پاس تھے۔ افغانستان کا کوئی شخص براہ راست گیارہ ستمبر کے واقعات میں ملوث نہ تھا اور پاکستان کے کسی شہری کا نام بھی اس فہرست میں شامل نہ تھا۔ دونوں پر عالمی برادری کی مسلمہ دہشت گردی اور غنڈہ گردی مسلط کی جا رہی تھی۔ ایک جانب غیرت سے زندہ رہنے کا فیصلہ کرنے والے وہ لوگ تھے جو اللہ پر توکل رکھتے تھے اور دوسری جانب مادی وسائل کے غلام اور ٹیکنالوجی کے پرستار۔ ایک ہماری سرحد کے اْس پار رہتے تھے اور دوسرے میرے ملک کے حکمران۔ اقبال نے اس تقسیم کو کس خوبصورتی سے واضح کیا ہے:
اللہ کو  پامردیِ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

لیکن میرے ملک کے حکمرانوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اللہ کی نصرت اور مدد تو  ہر ٹیکنالوجی سے بالاتر ہے۔ یہ جنگ بھی عجیب تھی۔ دنیا کی تمام طاقتور قوتیں ایک جانب، کوئی پڑوسی طالبان کے ساتھ نہ تھا۔ پاکستان سے ستاون  ہزار  مرتبہ امریکی جہاز اڑے اور ان نہتوں پر بم برسائے۔ ایران ساتھ نہ تاجکستان بلکہ تاجکستان کی سرزمین سے تو امریکی فوج داخل ہوئی۔ امریکہ کے ساتھی شمالی اتحاد کو  ہر طرح کی امداد  ایران نے فراہم کی۔ ایسے میں یہ مرد کوہستانی اور بندگانِ صحرائی گیارہ سال تک لڑے۔ ہم نے یہ گیارہ سال گزارے اور حامد کرزئی نے بھی۔ دونوں نے اپنے آقا  امریکہ کو خوش کر کے اور اس کی آشیر باد کو طاقت کا سرچشمہ سمجھ کر گزارے ۔ ہم نے روز لاشیں اٹھائیں۔ مارنے والے بھی کلمہ گو اور مرنے والے بھی کلمہ گو۔ طالبان کو کم از کم ایک اطمینان اور یقین ضرور تھا کہ وہ جس سے جہاد کرنے نکلے ہیں وہ اللہ کا منکر ہے۔ دنیا کی ہر اخلاقیات کے حساب سے وہ ان کے ملک پر قابض ہے۔ ان کی جنگ اسلام کے حوالے سے بھی حق پر تھی اور قوم پرستی کے حوالے سے بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاتھ میں ریمنڈ ڈیوس آتا ہے اور ہم اپنی انا  اور خودداری بیچ کھاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ ایک امریکی سارجنٹ آیا تھا اور آج اس کے بدلے وہ گوانتاناموبے سے اپنے ساتھ چھڑوا   رہے ہیں ۔ کس قدر منٹ سماجت سے ان سے کہا جا رہا ہے کہ امارت اسلامی افغانستان کا پرچم ذرا کم نمایاں کر لیں، اس لیے کہ ہمارے پالتو حامد کرزئی کو تکلیف ہوتی ہے۔ کوئٹہ کی گلیوں میں کمپیوٹر سیکھنے والا شخص طیب آغا جس نے قرآن و حدیث اسی شہر کے مدرسے میں پڑھی امریکی وزیر خارجہ کے مقابل بیٹھے گا۔ اس شخص کی آنکھوں میں چمک دیکھتا ہوں تو طالبان کی قید میں رہ کر کر مسلمان ہونے والی ایون رڈلی کی بات یاد آتی ہے۔

اس نے قید سے رہائی کے فورا  بعد کہا تھا:یہ لوگ مجسم انسانیت تھے۔ یہ حیران کن لوگ تھے، کالی داڑھیوں اور زمرد جیسی سبز رنگ آنکھوں والے جو خوبصورت سے خوبصورت یورپی عورت کو پگھلا کر رکھ دیں۔ حیرت ہے کہ ان کی آنکھوں میں شرم اور حیاء اس قدر تھی کہ میرے سامنے کسی مجرم کی طرح جھکی رہتیں۔ بموں کی یلغار میں نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ خود بھوکے رہتے، مجھے کھلاتے۔ یہ کیا لوگ ہیں، یہ تو اس جہاں کے لوگ ہیں ہی نہیں۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ وعدہ کرتا ہے کہ ہم ان کی نصرت کے لیے فرشتے نازل کرتے ہیں۔ گیارہ سال بعد اس مملکت خداداد پاکستان میں بیٹھا سوچ رہا ہوں، تورابورا کس کا بنا، ہمارا  یا  طالبان کا؟  غیرت سے کون زندہ رہا؟ عزت سے کون سرفراز ہوا؟ یہ سوال اب تاریخ کا نہیں بلکہ آج کا ہے۔ اللہ کی نصرت ثابت کرنے کے لیے اب کسی کو عمر ابن خطاب کے زمانے کی جنگ قادسیہ میں ایران کی شکست دکھانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ نے کھول کر اپنی نشانی دکھا دی۔ اب کوئی ایمان نہ لائے تو اس کے نصیب۔
  

اوریا مقبول جان 

6 June 2013

شمشیر بے نیام--خالد بن ولید رضی اللہ عنہ



عنایت اللہ التمش کے سحر انگیز قلم سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی عسکری زندگی پر لکھا گیا شاہکار ناول شمشیر بے نیام پہلی بار اردو یونیکوڈ میں


Download Historic Noval Shamsher e be nayam by Inayat Allah Altamash, written on the life of Hazrat Khalid Bin Waleed (RA) 
Download Pdf  (Right Click+ save link as)

Alternate Download from 4shared

بشکریہ اپنی زبان اردو :جنہوں نے یہ ناول پورا ٹائپ کر کے ہمارے لیے پیش کیا

5 June 2013

اسراء -- معراج

١) سُبْحَا نَ عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا محال ہو، اللہ کے لئے مشکل نہیں، اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ لفظ کُنْ سے پلک جھپکنے میں جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان پابندیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ 

٢) اِسْرَآء کے معنی ہوتے ہیں، رات کو لے جانا۔ آگے لَیْلًا اس لیے ذکر کیا گیا تاکہ رات کی قلت واضح ہو جائے۔ یعنی رات ایک حصے یا تھوڑے سے حصے میں ۔ یعنی چالیس راتوں کا دور دراز کا سفر، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا۔ 

٣) اقصیٰ دور کو کہتے ہیں بیت المقدس، جو القدس یا ایلیاء (قدیم نام) شہر میں اور فلسطین میں واقع ہے، مکے سے القدس تک مسافت (٤٠) دن کی ہے، اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہا گیا ہے۔ 

٤) یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔ 

٥) یہ اس سیر کا مقصد ہے تاکہ ہم اپنے بندے کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں ۔ جن میں سے ایک آیت اور معجزہ یہ سفر بھی ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہو گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا، وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہٰی پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک امت کے اکثر علماء فقہاء اس بات کے قائل چلے آرہے ہیں کہ یہ معراج حالت بیداری میں ہوئی ہے۔ یہ خواب یا روحانی سیر اور مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ عینی مشاہدہ ہے جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے پیغمبر کو کرایا ہے۔ اس معراج کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ اسراء کہلاتا ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ہے، یہاں پہنچنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، یہ سفر کا دوسرا حصہ ہے جسے معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورہ نجم میں کیا گیا ہے اور باقی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں ۔ عام طور پر اس پورے سفر کو ' معراج ' سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عُرِجَ بِیْ اِلَی السّمَاءِ (مجھے آسمان پر لے جایا یا چڑھایا گیا) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس سفر کا یہ دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے، اس لئے معراج کا لفظ ہی زیادہ مشہور ہو گیا۔ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے۔ بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح مہینے اور اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کی ١٧ یا ٢٧، کوئی رجب کی ٢٧ اور بعض کوئی اور مہینہ اس کی تاریخ بتلاتے ہیں ۔ (فتح القدیر)

تفسیر مکہ 


Tags:
shab e mehraaj, miraaj, Asra.
The Night journey
 

حجاز کی آندھی از عنایت اللہ التمش


حجاز کی آندھی از عنایت اللہ التمش
مجاہدین اسلام کے ہاتھوں کسریٰ فارس کی تباہی کی داستان 

 Hijaaz ki aandi by Anayat Allah Altamash
Mujahideen islam kay hathon Kasra fars ki tabahi ki dastan
Download (right click + save link as)



Tags:
Hijaaz ki andhi, kasra, fars, Persian empire, Hazrat Saad bin Abi waqas, urdu book, islamic history, Islam, tareek, kitaab, Inayat ullah Altamash, download free, direct download.

2 June 2013

بندر کی اولاد