یہ بیمار ذہنیت ہمارے ہی معاشرے کے چند لوگوں کے حصے میں آئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جب مسلمان کمپیوٹر کو ہاتھ لگادے تو اس کے بعد اسے ان کافروں کے خلاف ایک بات بھی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو روزانہ ڈرون سے بمباری کرتے ہیں اور غزہ میں مسلمانوں کو دیوار کے پیچھے بند کرکے ان کا پانی، گیس ، تیل ، خوراک بند کرکے پانچ سال سے انہیں بھوکا مارنے پر تلے ہوئےہیں۔ اگر آپ نے موبائل استعمال کرلیا ہے تو پھر ان کے مطابق افغانستان ، عراق، صومالیہ، برما ، بنگلہ دیش اور مالی میں ان کے قتلِ عام پر بات کرنا منع ہوجاتا ہے۔ اگر آپ فریج استعمال کرتے ہیں تو چیچنیا کا نام مت لیں اور اگر خدانخواستہ آپ مائیکرو ویو اوون میں چیزیں گرم کرنے کی عیاشی کرلیتے ہیں تو پھر مشرقی ترکستان کا نام بھی نہ لیں۔ اگر عراق میں عبیر قاسم کی جگہ ان میں سے کسی کی بیٹی ہوتی جسے امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور پھر اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی تو پھر ان سے کہاجاتا کہ جب تک تم خود پستول اور بم نہیں بنا لیتے تب تک تمہیں اپنی بیٹی کے ساتھ کی گئی زیادتی اور قتل کا بدلہ لینے کی کوئی اجازت نہیں تو انہیں کیسا محسوس ہوتا۔یہ مغرب سے اتنے زیادہ مرعوب(impressed)ہیں کہ اس کے جرم کو جرم کہنا بھی انہیں زبان پر بھاری لگتا ہے۔یہ اس بات پر شرمندہ ہیں کہ یہ یہاں کیوں پیدا ہو گئے! امریکا ،اسرائیل یا برطانیہ میں پیدا کیوں نہیں ہوئے!
تحریر: محمد سعید حسن