بیمار ذہنیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کولمبس کو ایک عیسائی فرقہ پرست بادشاہ فرڈیننڈ نے مہم پر بھیجا تھا۔ یہ وہ بادشاہ تھا جس نے اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کو صلیبی جنگیں کرکے ختم کیا تھا۔ کولمبس جس بحری جہاز پر نکلا اس میں مسلمانوں کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی تھی۔ وہ مسلمان سائنسدان کے ایجاد کیے ہوئے اصطرلاب (astrolabe) کو راستہ معلوم کرنے کے لیے استعمال کررہا تھا۔ حیرانی کی بات ہے کہ کسی عیسائی نے اسے یہ طعنہ نہیں دیاکہ تم مسلمانوں کی ٹیکنا لوجی کیوں استعمال کرتے ہو؟ پورے یورپ میں مسلمانوں کی ملوں کا کپڑا، مسلمانوں کے کارخانوں کی مصنوعات، مسلمان ڈاکٹر وں کے طریقۂ علاج اور مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات آٹھ سو سال تک استعمال ہوتی رہیں۔کسی عیسائی نے یہ اپنے بڑوں کو یہ طعنہ نہیں دیا کہ تم چھ سو سال سے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگیں لڑ رہے ہو لیکن جب تمہیں سرجری کی ضرورت پڑتی ہے تو ابوالقاسم الزہراوی کے ڈیزائن کیے ہوئے سرجری کے آلات کیوں استعمال کرتے ہو؟ ان مسلمانوں کے خلاف اگر تمہیں اتنا ہی جوش آتا ہے تو اپنے دانت نکلوانے کے لیے ایک ایجاد خود کیوں نہیں کرلیتے؟؟
یہ بیمار ذہنیت ہمارے ہی معاشرے کے چند لوگوں کے حصے میں آئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جب مسلمان کمپیوٹر کو ہاتھ لگادے تو اس کے بعد اسے ان کافروں کے خلاف ایک بات بھی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو روزانہ ڈرون سے بمباری کرتے ہیں اور غزہ میں مسلمانوں کو دیوار کے پیچھے بند کرکے ان کا پانی، گیس ، تیل ، خوراک بند کرکے پانچ سال سے انہیں بھوکا مارنے پر تلے ہوئےہیں۔ اگر آپ نے موبائل استعمال کرلیا ہے تو پھر ان کے مطابق افغانستان ، عراق، صومالیہ، برما ، بنگلہ دیش اور مالی میں ان کے قتلِ عام پر بات کرنا منع ہوجاتا ہے۔ اگر آپ فریج استعمال کرتے ہیں تو چیچنیا کا نام مت لیں اور اگر خدانخواستہ آپ مائیکرو ویو اوون میں چیزیں گرم کرنے کی عیاشی کرلیتے ہیں تو پھر مشرقی ترکستان کا نام بھی نہ لیں۔ اگر عراق میں عبیر قاسم کی جگہ ان میں سے کسی کی بیٹی ہوتی جسے امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور پھر اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی تو پھر ان سے کہاجاتا کہ جب تک تم خود پستول اور بم نہیں بنا لیتے تب تک تمہیں اپنی بیٹی کے ساتھ کی گئی زیادتی اور قتل کا بدلہ لینے کی کوئی اجازت نہیں تو انہیں کیسا محسوس ہوتا۔یہ مغرب سے اتنے زیادہ مرعوب(impressed)ہیں کہ اس کے جرم کو جرم کہنا بھی انہیں زبان پر بھاری لگتا ہے۔یہ اس بات پر شرمندہ ہیں کہ یہ یہاں کیوں پیدا ہو گئے! امریکا ،اسرائیل یا برطانیہ میں پیدا کیوں نہیں ہوئے!
یہ اپنی قوم میں سے ہونا ہی نہیں چاہتے اسی لیےیہ لوگ اپنے اِس احساسِ کمتری کو اپنی ہی قوم کو طعنے ، گالیاں اور کوسنے دے دے دور کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مشکل اور مصیبت کے وقت میں یہ اپنی امت کو آگے بڑھ کر سہارا دیتے ، اس کے زخموں ہر مرہم رکھتے ، اس کے آنسوؤں کو پونچھتے اور اس کی ہمت بندھاتے الٹا یہ لوگ ان لوگوں کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں جو اپنی استطاعت کے مطابق اس امت کو سہارا دینے کی کوششوں میں ہیں۔ آخر یہ لوگ کس کے سپاہی ہیں ؟ یہ کس کے مورچے میں ہیں؟؟
تحریر: محمد سعید حسن
0 comments:
Post a Comment