دورانِ تقریر میں یکایک اُنھیں سانس لینے کی ضرورت پڑگئی۔ لمحہ بھر کو تھمے تو ہم نے اس نادر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فی الفور وضاحت کی کہ:’’ ملک کی طرح ہمارے شہر کا بھی مرکزی مقام ’’صدر‘‘ہی ہے۔یہاں پر آپ کو جو اس قدر ہجومِ خلائق نظر آرہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے ہرطرف کو راستے نکلتے ہیں۔شہر کے گوشے گوشے میں جانے کی سہولت موجود ہے۔‘‘
بڑے برہم لہجہ میں بولے:’’ خاک سہولت موجود ہے۔ہمیں یہاں کھڑے کھڑے گھنٹہ سواگھنٹہ تو ہوہی گیا ہوگا ۔ہم گھنٹہ بھر سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ سامنے والی بس کا کنڈیکٹر اپنی بس سے نیچے اُتر کر اُسی کو دو ہتڑ رسید کیے جارہا ہے اور داد دینی پڑتی ہے کہ گھنٹے ہی بھر سے مسلسل ’’لالیکے ۔۔۔ لالیکے‘‘ کی رَ ٹ لگائے جا رہا ہے۔ لوگ اُس کی بس میں سر کے بل گھسے جارہے ہیں اور گیٹ سے ٹانگوں کے بل اُبلے آرہے ہیں،مگر وہ بندۂ خدا اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ساٹھ منٹ سے بس میں سواریاں ٹھونسے یہیں کھڑا ہے اور مسلسل و متواتر ’’لالیکے ۔۔۔ لالیکے‘‘ کی گردان پڑھے جارہاہے۔اماں ! یہ تو بتاؤ کہ اس ’’لالیکے۔۔۔لالیکے‘‘ کا آخر مطلب کیا ہے؟‘‘
ہم نے عرض کیا کہ:’’ شہرکے ایک مشہور و معروف علاقے ’’لالوکھیت ‘‘جانے کا قصد رکھنے والوں کو متوجہ کر رہا ہے کہ ۔۔۔ جا اینجاست!‘‘
آنکھیں نکال کر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے :’’ اچھا؟ ہرچند کہ اب تو بس میں کنڈیکٹر دھرنے کی بھی جا نہیں رہی، مگر واﷲ ! کیا انداز ہے دامن کھینچنے کا(پکڑ پکڑ کر)۔ مزید برآں شارٹ کٹ اور شارٹ ہینڈ کے شوق نے اس شہرِ عُجلت و اختصار پسند کے شہریوں ہی کا نہیں شہر کی بستیوں کے ناموں کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔‘‘
ایک بار پھر شہر کی صفائی (پیش) کرنے کی کوشش کی:’’ در اصل ہمارا شہر پھیلتا جارہا ہے۔ دور دراز جگہوں تک پہنچنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ کسی کے پاس درست شین قاف کے ساتھ آواز نکالنے کا وقت ہے نہ کسی کے پاس وہاں کھڑے ہوکر اپنی نگرانی میں نکلوانے کا(ہمیں مولانا سے ڈر تھا کہ اب یہ کام نہ شروع کردیں) یہاں کوئی کسی کی نہیں سُنتا ، بس سُنی ان سُنی کرکے گزر جاتا ہے۔‘‘
اب ذرا بلند آواز سے ڈانٹنے کے انداز میں بولے:’’ سُنے کیسے؟ اس شہر میں گونجتی ہوئی یہ ’کان لیوا موسیقی‘ کسی کو کچھ سننے دے توکوئی کسی کی سُنے نا! یہ موسیقی ہی سن سن کر سب کے کان سُن ہوچکے ہیں۔شہر بھر میں موسیقی کا ایک ہیجان برپا ہے۔ یوں تو گھر گھر ریڈیو، ٹیلی وژن اور گانوں کے کیسٹ مسلسل بجتے ہی رہتے ہیں۔ مگر کل جب تمھارے محلے میں کسی کی دُخترنیک اختر کی شادی ہورہی تھی تو جو عزیز ، رشتہ دار اور اہلِ محلہ تقریب میں آ موجود ہوئے تھے اُنھی کا دِل بہلانے کو نہیں،بلکہ شہر کے مختلف حصوں سے جو مہمان ضعیفی ،بیماری یا کسی اور عذر سے نہیں آسکے تھے ، اُنھیں بھی محظوظ کرنے کو لاؤڈ اسپیکر کی پوری آواز کھول کر گانے بجائے جا رہے تھے۔ممکن ہے کہ مرحوم اعزہ بھی بینڈباجے بجنے کی آواز سن کر اپنی اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوئے ہوں۔‘‘
مضحکہ اُڑانے کے بعد غصہ میں استفسار فرمایا:’’ میں پوچھتا ہوں کہ اس تکلیف دہ مشغلہ کا کسی کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘
ہم نے اُن کی اطلاع کے لیے عرض کیا:’’ اس طرزِ عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تقریب میں آئے ہوئے تمام مہمان اپنی سماعت زائل ہوجانے کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور یوں وہ شادی بیاہ کی محفلوں کی روایتی برائیو ں مثلاً میزبان کی بد انتظامی پر نکتہ چینی یا غیرحاضر رشتہ داروں کی غیبت وغیرہ کے گناہ میں مبتلا ہوجانے سے بچے رہتے ہیں۔‘‘
یہ سن کرتو ایک بار پھر بدک اُٹھے:’’ سماعت زائل ہوجانے کا خوف چہ معنی دارد؟ ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ سماعتیں زائل ہو چکی ہیں۔تم ہمیں جس ویگن میں چڑھا کر ۔۔۔بلکہ نیہوڑا کر ۔۔۔یہاں تک لے آئے ہو،ہم نے اُسی میں دیکھا کہ ڈرائیور بریکوں کے دھچکوں پر دھچکے دے دے کر اور کنڈیکٹر دھکوں پر دھکے دے دے کرلوگوں کو ڈانٹتا رہا کہ:’’ باؤ جی آگے بڑھو۔۔۔ آگے بڑھو باؤجی!‘‘ مگر باؤجی ہیں کہ باؤلے بنے جہاں کے تہاں کھڑے ہیں۔ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں۔جس طرح کنڈیکٹر ویگن کو باہر سے پِیٹ رہاتھا اُسی طرح مسافرویگن کو اندر سے پیٹ رہے تھے کہ:’’ اُستاد جی گاڑی چلاؤ. ۔۔۔گاڑی چلاؤ اُستاد جی!‘‘مگر اُستاد جی بھی موسیقی کی دھن میں کھوئے اپنا سر دھنتے رہے، جب کہ گاڑی دونوں طرف سے دھُنی جاتی رہی۔کوئی کسی کی سننے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ہم نے دبی دبی زبان سے کہا:’’ دراصل سب کہیں نہ کہیں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔اپنے اپنے روحانی ارتقا کے باعث۔ہم نے تو یہی سنا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔۔۔‘‘
جلدی سے بات کاٹ کر ہمیں خونخوار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے:’’ ہے۔۔۔ مگر تمھاری یہ موسیقی ۔۔۔ کسی بد روح کی غذا ہے ہمارا تو مشاہدہ یہ ہے کہ تمھارے شہر کی ٹریفک پولیس کی سماعت بھی جاتی رہی ہے۔کیوں کہ یہ ویگنیں اُن کی ناک ،ان کے منہ اور اُن کے دیگر اعضاء کے آگے سے گاتی بجاتی گزر جاتی ہیں اور وہ نابیناؤں کی طرح کھڑے خلاؤں میں گھورتے رہ جاتے ہیں۔ خواتین کی موجودگی میں ایسے ایسے بے ہودہ،واہیات اور ذوالمعنین گانے بجتے رہتے ہیں کہ گمان گزرتا ہے کہ پوری انتظامیہ کے کان ’’کر‘‘ ہوچکے ہیں۔کسی کو یہ شور شرابا قطعاً سنائی نہیں دیتا۔‘‘
ہم نے پھر اپنی شہری انتظامیہ کی لاج رکھنے کی کوشش کی:
’’ نہیں نہیں ،ایسی بات نہیں۔ ہم تو اسی شہر میں پیدا ہوئے ہیں۔یہیں پلے بڑھے ہیں۔ہمیں یہاں آج تک کوئی شہری انتظامیہ دکھائی تو کیا سنائی بھی نہیں دی۔‘‘
بس یہ سنتے ہی اُن کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ سنسنی دوڑتے ہی وہ خود بھی دوڑ گئے، ہمارا ہاتھ چھڑاکر۔ہم نے اُن کوایک بریک مارتی ہوئی ویگن کی زد میں آنے سے کود کود کر بچتے ہوئے تو دیکھا مگر اُس کے بعد وہ ہجوم میں ایسے گم ہوئے کہ دوبارہ نظر نہیں آئے۔
اب ہم اتنے بھیڑ بھڑکے میں اُنھیں کہاں کہاں ڈھونڈتے؟