Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

28 October 2013

’کان لیوا موسیقی‘




زمانۂ امن کے کراچی کا ذکر ہے۔ اُس روز کراچی کے باہر سے آئے ہوئے ایک نقاد ٹائپ بزرگ کو ہم صدر کی سیر کروا رہے تھے۔ اُن کا تبصرہ جاری و ساری تھا:’’ ارے میاں! یہاں کوئی قیامت سی قیامت ہے؟ دیکھو تو سہی۔۔۔ ایک طرف اگرڈسکو میوزک سینٹرز نامی موسیقی فروشی کی دکانوں کے مابین شوروشَین کامقابلہ ہورہاہے تو دوسری طرف یہ ’بَن کبابیے‘ کھٹاکھٹ،کھٹاکھٹ،اپنے توے پِیٹ پِیٹ کرگویا طبلے پر سنگت کر رہے ہیں۔ تیسری طرف موٹر سائیکلوں اور آٹو رکشوں والے اپنے اپنے سائلنسرنکالے باہم صور پھونکنے کا میچ کھیل رہے ہیں۔صاحب ایک سے بڑھ کر ایک کریہہ آواز نکالی جارہی ہے۔چوتھی سمت میں بسوں اور ویگنوں والے اپنے ہاتھوں، اپنی ہی ،بسوں اور ویگنوں کو’’دھمادھم، دھمادھم‘‘ کُوٹے ڈال رہے ہیں۔اس میدانِ حشر سے آدمی بھاگے گا نہیں تو کیا اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا پانے کے شوق میں یہیں ڈٹا کھڑا رہے گا؟ارے دیکھو تو سہی کہ لوگ بے چارے کس طرح۔۔۔گرتے، سنبھلتے، جھومتے۔۔۔ سڑکوں کے کھمبے چومتے ۔۔۔ بھاگے چلے جارہے ہیں۔‘‘

دورانِ تقریر میں یکایک اُنھیں سانس لینے کی ضرورت پڑگئی۔ لمحہ بھر کو تھمے تو ہم نے اس نادر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فی الفور وضاحت کی کہ:’’ ملک کی طرح ہمارے شہر کا بھی مرکزی مقام ’’صدر‘‘ہی ہے۔یہاں پر آپ کو جو اس قدر ہجومِ خلائق نظر آرہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے ہرطرف کو راستے نکلتے ہیں۔شہر کے گوشے گوشے میں جانے کی سہولت موجود ہے۔‘‘
بڑے برہم لہجہ میں بولے:’’ خاک سہولت موجود ہے۔ہمیں یہاں کھڑے کھڑے گھنٹہ سواگھنٹہ تو ہوہی گیا ہوگا ۔ہم گھنٹہ بھر سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ سامنے والی بس کا کنڈیکٹر اپنی بس سے نیچے اُتر کر اُسی کو دو ہتڑ رسید کیے جارہا ہے اور داد دینی پڑتی ہے کہ گھنٹے ہی بھر سے مسلسل ’’لالیکے ۔۔۔ لالیکے‘‘ کی رَ ٹ لگائے جا رہا ہے۔ لوگ اُس کی بس میں سر کے بل گھسے جارہے ہیں اور گیٹ سے ٹانگوں کے بل اُبلے آرہے ہیں،مگر وہ بندۂ خدا اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ساٹھ منٹ سے بس میں سواریاں ٹھونسے یہیں کھڑا ہے اور مسلسل و متواتر ’’لالیکے ۔۔۔ لالیکے‘‘ کی گردان پڑھے جارہاہے۔اماں ! یہ تو بتاؤ کہ اس ’’لالیکے۔۔۔لالیکے‘‘ کا آخر مطلب کیا ہے؟‘‘

ہم نے عرض کیا کہ:’’ شہرکے ایک مشہور و معروف علاقے ’’لالوکھیت ‘‘جانے کا قصد رکھنے والوں کو متوجہ کر رہا ہے کہ ۔۔۔ جا اینجاست!‘‘
آنکھیں نکال کر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے :’’ اچھا؟ ہرچند کہ اب تو بس میں کنڈیکٹر دھرنے کی بھی جا نہیں رہی، مگر واﷲ ! کیا انداز ہے دامن کھینچنے کا(پکڑ پکڑ کر)۔ مزید برآں شارٹ کٹ اور شارٹ ہینڈ کے شوق نے اس شہرِ عُجلت و اختصار پسند کے شہریوں ہی کا نہیں شہر کی بستیوں کے ناموں کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔‘‘

ایک بار پھر شہر کی صفائی (پیش) کرنے کی کوشش کی:’’ در اصل ہمارا شہر پھیلتا جارہا ہے۔ دور دراز جگہوں تک پہنچنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ کسی کے پاس درست شین قاف کے ساتھ آواز نکالنے کا وقت ہے نہ کسی کے پاس وہاں کھڑے ہوکر اپنی نگرانی میں نکلوانے کا(ہمیں مولانا سے ڈر تھا کہ اب یہ کام نہ شروع کردیں) یہاں کوئی کسی کی نہیں سُنتا ، بس سُنی ان سُنی کرکے گزر جاتا ہے۔‘‘
اب ذرا بلند آواز سے ڈانٹنے کے انداز میں بولے:’’ سُنے کیسے؟ اس شہر میں گونجتی ہوئی یہ ’کان لیوا موسیقی‘ کسی کو کچھ سننے دے توکوئی کسی کی سُنے نا! یہ موسیقی ہی سن سن کر سب کے کان سُن ہوچکے ہیں۔شہر بھر میں موسیقی کا ایک ہیجان برپا ہے۔ یوں تو گھر گھر ریڈیو، ٹیلی وژن اور گانوں کے کیسٹ مسلسل بجتے ہی رہتے ہیں۔ مگر کل جب تمھارے محلے میں کسی کی دُخترنیک اختر کی شادی ہورہی تھی تو جو عزیز ، رشتہ دار اور اہلِ محلہ تقریب میں آ موجود ہوئے تھے اُنھی کا دِل بہلانے کو نہیں،بلکہ شہر کے مختلف حصوں سے جو مہمان ضعیفی ،بیماری یا کسی اور عذر سے نہیں آسکے تھے ، اُنھیں بھی محظوظ کرنے کو لاؤڈ اسپیکر کی پوری آواز کھول کر گانے بجائے جا رہے تھے۔ممکن ہے کہ مرحوم اعزہ بھی بینڈباجے بجنے کی آواز سن کر اپنی اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوئے ہوں۔‘‘

مضحکہ اُڑانے کے بعد غصہ میں استفسار فرمایا:’’ میں پوچھتا ہوں کہ اس تکلیف دہ مشغلہ کا کسی کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘
ہم نے اُن کی اطلاع کے لیے عرض کیا:’’ اس طرزِ عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تقریب میں آئے ہوئے تمام مہمان اپنی سماعت زائل ہوجانے کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور یوں وہ شادی بیاہ کی محفلوں کی روایتی برائیو ں مثلاً میزبان کی بد انتظامی پر نکتہ چینی یا غیرحاضر رشتہ داروں کی غیبت وغیرہ کے گناہ میں مبتلا ہوجانے سے بچے رہتے ہیں۔‘‘
یہ سن کرتو ایک بار پھر بدک اُٹھے:’’ سماعت زائل ہوجانے کا خوف چہ معنی دارد؟ ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ سماعتیں زائل ہو چکی ہیں۔تم ہمیں جس ویگن میں چڑھا کر ۔۔۔بلکہ نیہوڑا کر ۔۔۔یہاں تک لے آئے ہو،ہم نے اُسی میں دیکھا کہ ڈرائیور بریکوں کے دھچکوں پر دھچکے دے دے کر اور کنڈیکٹر دھکوں پر دھکے دے دے کرلوگوں کو ڈانٹتا رہا کہ:’’ باؤ جی آگے بڑھو۔۔۔ آگے بڑھو باؤجی!‘‘ مگر باؤجی ہیں کہ باؤلے بنے جہاں کے تہاں کھڑے ہیں۔ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں۔جس طرح کنڈیکٹر ویگن کو باہر سے پِیٹ رہاتھا اُسی طرح مسافرویگن کو اندر سے پیٹ رہے تھے کہ:’’ اُستاد جی گاڑی چلاؤ. ۔۔۔گاڑی چلاؤ اُستاد جی!‘‘مگر اُستاد جی بھی موسیقی کی دھن میں کھوئے اپنا سر دھنتے رہے، جب کہ گاڑی دونوں طرف سے دھُنی جاتی رہی۔کوئی کسی کی سننے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ہم نے دبی دبی زبان سے کہا:’’ دراصل سب کہیں نہ کہیں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔اپنے اپنے روحانی ارتقا کے باعث۔ہم نے تو یہی سنا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔۔۔‘‘
جلدی سے بات کاٹ کر ہمیں خونخوار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے:’’ ہے۔۔۔ مگر تمھاری یہ موسیقی ۔۔۔ کسی بد روح کی غذا ہے ہمارا تو مشاہدہ یہ ہے کہ تمھارے شہر کی ٹریفک پولیس کی سماعت بھی جاتی رہی ہے۔کیوں کہ یہ ویگنیں اُن کی ناک ،ان کے منہ اور اُن کے دیگر اعضاء کے آگے سے گاتی بجاتی گزر جاتی ہیں اور وہ نابیناؤں کی طرح کھڑے خلاؤں میں گھورتے رہ جاتے ہیں۔ خواتین کی موجودگی میں ایسے ایسے بے ہودہ،واہیات اور ذوالمعنین گانے بجتے رہتے ہیں کہ گمان گزرتا ہے کہ پوری انتظامیہ کے کان ’’کر‘‘ ہوچکے ہیں۔کسی کو یہ شور شرابا قطعاً سنائی نہیں دیتا۔‘‘

ہم نے پھر اپنی شہری انتظامیہ کی لاج رکھنے کی کوشش کی:
’’ نہیں نہیں ،ایسی بات نہیں۔ ہم تو اسی شہر میں پیدا ہوئے ہیں۔یہیں پلے بڑھے ہیں۔ہمیں یہاں آج تک کوئی شہری انتظامیہ دکھائی تو کیا سنائی بھی نہیں دی۔‘‘
بس یہ سنتے ہی اُن کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ سنسنی دوڑتے ہی وہ خود بھی دوڑ گئے، ہمارا ہاتھ چھڑاکر۔ہم نے اُن کوایک بریک مارتی ہوئی ویگن کی زد میں آنے سے کود کود کر بچتے ہوئے تو دیکھا مگر اُس کے بعد وہ ہجوم میں ایسے گم ہوئے کہ دوبارہ نظر نہیں آئے۔
اب ہم اتنے بھیڑ بھڑکے میں اُنھیں کہاں کہاں ڈھونڈتے؟

ابو نثر

America Ki Rukhsati aur Secular, Liberal Hazraat Ka Aalmiya – Orya Maqbool Jan





امریکہ کی رخصتی اور لبرل سیکولر حضرات کا المیہ، اوریا مقبول جان 
اصل معاملہ یہ ہے کہ اس ملک کے سیکولر اور لبرل طبقے کے سر سے پہلے پرویز مشرف کا سایہ اٹھا اور اب امریکہ بھی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر جا رہا ہے. ان کی حالت سعادت حسن منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پاگل خانے کے دو کرداروں جیسی ہو گئی ہے. یہ کردار یوروپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے. ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا. وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں ان کی حیثیت کس قسم کی ہو گی. یوروپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں. کیا انھیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی.

23 October 2013

Welcome

Welcome to my Blog

18 October 2013

یہ بھی تو کسی ماں کا دُلارا کوئی ہوگا




گلشن اقبال میں ’عید بازار‘ لگا ہوا تھا۔بیل، بکروں اور دُنبوں والا نہیں۔خواتین کو اس عید پر بھی اپنے ہتھیار تیز رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ اشیائے ضروریہ کی خریداری کرنی ہوتی ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ بازارِ اسلحہ و ہتھیار تھا۔ یہاں ہماری طرح کے اکثر ’شکار‘ خود ’شکاریوں‘ کو اپنے خرچہ پر ہتھیار خریدوا رہے تھے۔صاحب! بیویوں کو آج تک کوئی شوہر یہ باور نہیں کراسکا کہ:
قتل کے ساماں ہیں جس کے واسطے، وہ چل بسا
آپ تزئینِ لب و رُخسار رہنے دیجیے
بازار کیا تھا؟ ۔۔۔ ’نگار خانۂ انجم، نگار خانۂ گل‘۔حضرت علامہ اگر بقید حیات ہوتے تو یہ دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے کہ اُن کی یاد میں اور اُن کے نام پر بسائی جانے والی بستی کا بازار بھی ’گُل بن‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔یہ منظر دیکھ کر وہ یقیناًاپنے اس خیال سے رجوع فرما لیتے :
حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
اور ساتھ ہی وہ اپنے ایک اور شعر میں بھی ذرا سی ترمیم کر لیتے کہ:
پھول ہیں ’’گلشن‘‘ میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
(واضح رہے کہ یہاں ’’گلشن‘‘ سے مراد گلشن اقبال کا مذکورہ بالا بازارہی لیا جائے گا)
قصہ مختصر ۔۔۔ کہ ہم ان ہی مناظر اور ایسے ہی خیالات میں کھوئے ہوئے، اہلیہ کے خرید کردہ سامان(بلکہ بقولِ اقبالؔ ؒ شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان) کے بوجھ تلے دبے جارہے تھے کہ ہمیں ایک ننھا منا، سرخ و سفید، گولو مٹولو سابچہ ہر مال بردار اور فرماں بردار شوہر سے دوڑ دوڑ کر یہ پوچھتا نظر آیا:’’بائی! سامان اُٹوائے گا؟ ۔۔۔ بائی سامان اُٹوائے گا؟‘‘
جی تو یہی چاہتا تھا کہ اِس ببلو گبلو کو خود ہی اُٹھا لیا جائے اور گود میں چھپا لیا جائے۔عمر بمشکل آٹھ یا نو سال ہوگی۔اس کے چہرے پر ہمیں خود اپنے بچوں والی معصومیت نظر آئی۔ آنکھوں میں التجا تھی۔سر اوپر اُٹھاکر دیکھنے والا ملتجیانہ انداز ایسا تھا کہ اگر اُس کی جگہ اپنا کوئی جگر گوشہ ہوتا تو دل تڑپ جاتا۔چلتے چلتے یوں ہی پوچھ لیا:’’کتنے پیسے لیتے ہو؟‘‘
بڑی کاروباری ڈپلومیسی کے ساتھ جواب دیا:’’صاب لوگوں کا مرضی ہوتا اے۔دس بیس روپیہ اَم کو دے دیتا اے۔صاب! یہ سامان اَم کو دو۔ تُم ’تک‘ جائے گا۔جو مرضی آئے دے دینا‘‘۔
ہم نے پہلے یہ عذر کیا کہ:’’برخوردار! ہم تو ایک مدت کے تھکے ہوئے ہیں، اور ابھی نہ جانے کب تک تھکنا ہے۔ مگر کیا تم نہ تھک جاؤ گے؟‘‘پھر اپنے سامان میں سے تھوڑا سا سامان اُس کی دلجوئی کے لیے اُسے تھما دیا۔اُس نے بڑی شوخ سی چائیں چائیں کرتی آواز میں احتجاج کیا:’’اَم نئیں تکتا صاب! ۔۔۔ لاؤ سارا سامان اَم کو دو۔۔۔اِدَر لاؤ‘‘۔
یہ کہہ کر سارا سامان ہم سے لے کر اپنی پیٹھ پر لاد لیا اور حالت رکوع میں چلا گیا۔یہ دیکھ کر ہم نے زبردستی کچھ سامان واپس لیا تو سیدھا کھڑے ہونے کے قابل ہوکر پھر احتجاج کیا:’’ تم کیوں اُٹاتا اے صاب؟ ۔۔۔ تم تو پیسا دیتا اے ۔۔۔ چوڑو۔۔۔ سارا سامان اَم کو دو‘‘۔
ہم نے اُس کی سنی اَن سنی کرتے ہوئے اُسی کی گرامر میں اُس سے کہا:’’دیکو! بیگم صاب آگے نکل گیا اے، تیز چلو ۔۔۔ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
نام پوچھنے کا مطلب شاید اُس نے غلط لے لیا۔یا شاید تجربات نے اُسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ کہنے لگا:
’’امارا نام فدائے محمد اے۔مگر صاب! فِکرمَکوا۔ اَم چوری نئیں کرے گا۔اَم چور نئیں اے۔تم کتنا بی دور جائے گا، اَم تمارا سات جائے گا۔تمارا مال حفاظت سے لے جائے گا۔ یہ تمارا امانت اے۔چوری نئیں کرے گا۔۔۔ صاب! اَم چوری کیوں کرے؟۔۔۔ تم اَم کو مزدوری دیتا اے ۔۔۔ اَم حلال کمائی کرتا اے صاب! ۔۔۔‘‘
وہ بولے چلا جارہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ ماں باپ نے اس کا نام رکھ کر جس ذاتِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اس کو فدا کیا ہے، اگر نام کا کچھ اثر ہوتا ہے تو یہ واقعی کبھی چوری نہیں کرے گا۔ ہم نے پوچھا:’’تم یہاں کہاں سے آئے ہو؟‘‘
اُس نے جو جواب دیا اُسے سن کر ہمارے رونگٹے ہی نہیں، چلتے چلتے ہم خود بھی کھڑے ہوگئے:’’صاب! اَم اِدَر وزیرستان سے آیا اے!‘‘
ہم نے ٹٹولنے والی نظروں سے جانچنے کی کوشش کیکہ کہیں اس نے اپنے کرتے کے نیچے کوئی جیکٹ وغیرہ تو نہیں پہنی ہوئی ہے۔مگر ملگجے کرتے کے اندر اس کا سرخ و سنہرا پیٹ اور سینہ لشکارے مارتا نظر آ رہا تھا۔ گھبرا کر پوچھا:’’وزیرستان سے تم یہاں کیوں آگئے؟‘‘
کہنے لگا: ’’امارا گاؤں پر کافروں نے بم مارا۔پورا گاؤں مرگیا۔ امارا بابا شہید ہو گیا۔امارا بڑا بائی مجاہد بن گیا۔امارا امّاں نانا کے سات ام کو اور امارا چوٹا بائی کو لے کر اِدَر آگیا‘‘۔
اب ہمیں اور کوئی بات نہ سوجھی تو ہم نے یہی پوچھ لیا:’’تم مزدوری کیوں کرتے ہو؟ پڑھتے کیوں نہیں؟دُنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کی مہم چل رہی ہے۔ بلکہ مہم جو کو نوبل پرائز بھی۔۔۔‘‘
ہماری بات کاٹ کر کہنے لگا:’’صاب! اَم خود بی پڑے گا۔مگر اَم اپنا چوٹا بائی کو ضرور پڑائے گا۔اُس کے واسطے اَم مزدوری کرتا اے!‘‘
ہم نے پوچھا: ’’تو کیا تمھارا چھوٹا بھائی پڑھ رہا ہے؟‘‘
بڑا دِلنشین قہقہہ لگا کر بولا: ’’ابی کیسے پڑے گا؟ ابی تو وہ دو سال چے مہینے کا ہے‘‘۔
اتنے میں ہم گاڑی تک پہنچ چکے تھے۔ اُس نے سامان گاڑی میں رکھ دیااور دونوں ہاتھ پشت پر ٹیک کر اپنی کمر سیدھی کی۔ اہلیہ نے سخاوت کا مظاہر کرتے ہوئے پانچ پانچ اور دو دو روپئے کے سکوں پر مشتمل سارا چینج اُس کو تھما دیا۔وہ حیرت سے تکنے لگا۔ہم نے پوچھا:
’’پیسے کم تو نہیں ہیں؟‘‘
اُس نے ایک بار پھر اپنی بھری ہوئی مٹھی کو دیکھااور بولا:’’نئیں صاب! بہت ہیں۔۔۔ شکر خدائے پاکا ۔۔۔ یہ بہت ہیں!‘‘
ہم نے پھر پوچھا:’’فدائے محمد!تم خوش تو ہو۔۔۔ ناراض تو نہیں ہو؟‘‘
اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ ’’نئیں صاب!‘‘ کہتے ہوئے وہ مسکرا دیا۔ایسی معصوم مسکراہٹ شاید ہی کبھی دیکھی ہو۔ جیسے گہرے سیاہ بادلوں سے اچانک چاند طلوع ہوجائے ۔۔۔ جیسے تند وتیز لو کے تھپیڑے سہنے والے تھکے ہارے مسافر کو یکایک کسی نخلستان کے بیچ ایک سرد چشمہ اُبلتا دکھائی دے جائے ۔۔۔ جیسے ۔۔۔ مگرسچ پوچھیے تو اُس مسکراہٹ کو اب بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ہم اُسے دیر تک اور دور تک واپس جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ ہمیں دیکھتے دیکھ کر ایک صاحب قریب آئے اورہمدردی سے مشورہ دیا:
’’انھیں سر نہ چڑھایا کریں۔یہی لوگ خود کُش بمبار بنتے ہیں۔یہ لوگ اسلام کے بھی دشمن ہیں اور انسانیت کے بھی!‘‘

ابو نثر


14 October 2013

قربانی: سوچنے کی کچھ باتیں

قربانی :  سوچنے کی کچھ باتیں 

ابویحییٰ


عید الاضحٰی کی آمد آمد ہے۔ ہر سال اس موقع پر قربانی کے جانوروں کی بہار آتی ہے۔ ہر گھر میں اِسی بات کا تذکرہ ہوتا ہے کہ گائے خریدی جائے، بکرا لیا جائے یا کہیں حصہ ڈال دیا جائے۔ جہاں قربانی کے جانور آجاتے ہیں وہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں کہ کس کا جانور زیادہ اچھا اور قیمتی ہے۔ جو لوگ مہنگے جانور خرید کر لاتے ہیں وہ بڑے فخر سے اپنے جانوروں کی نمائش کرتے ہیں۔ جبکہ کمزور جانوروں کے مالک ان کی قیمت زیادہ بتا کر اپنا بھرم رکھتے ہیں۔ غرض مقابلہ بازی کی اک فضا ہر جگہ طاری ہوجاتی ہے۔جو لوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ان کا غم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس مقابلے سے کیوں باہر ہیں۔ یا پھر یہ کہ اِس موقع پر’گوشت‘ کی خود کفالت میں وہ دوسروں کے محتاج ہوں گے۔

جانوروں کی خریداری کے بعد گھر کے مردوں کی اگلی فکر قصائی کی تلاش اور قربانی کے دن اُس کی دستیابی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ خواتین کے سامنے قربانی کے بعد گوشت کی جمع وتقسیم اور پھر اُس کے پکانے کے تھکا دینے والے مراحل ہوتے ہیں۔ بچے جانوروں کو گھمانے اور کِھلانے پلانے میں مگن رہتے ہیں۔ ان کے اس شوق کا منتہائے کمال عید کے دن ذبح ہوتے جانوروں کا نظارہ ہے۔ غرض یہ کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر دینِ اسلام کی یہ عظیم عبادت لوگوں میں اگر کسی پہلو سے اہم ہے تو وہ محض ’جانور‘ اور اُن کے’ گوشت‘ کے حوالے سے ہے۔ دین کے حوالے سے اگر کوئی چیز زیرِ بحث آتی بھی ہے تو وہ قربانی کی عبادت کا تاریخی پس منظر اور اُس کے فقہی مسائل ہیں۔

دینِ اسلام میں قربانی کی حیثیت ایک عبادت کی ہے۔ اور دینِ خداوندی میں عبادات کی حقیقت یہ ہے اُن کے ذریعے سے بندہ اپنے پروردگار کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ قربانی کی یہ عبادت بندہ اور اُس کے رب کے درمیان تعلق کا وہ مظہر ہے جسے سرِ عنوان بنا کر وہ اپنے مالک کی خدمت میں اپنا یہ پیام بندگی بھیجتا ہے۔

’’
اے پروردگار! آج میں ایک جانور تیرے نام پر ذبح کررہا ہوں، اگر تیرا حکم ہوا تو میں اپنی جان بھی اِسی طرح تیرے حضور میں پیش کردوں گا۔‘‘

دراصل اِس دنیا میں بدنی اور مالی عبادات کے مواقع نماز و انفاق وغیرہ کی صورت میں کثرت سے سامنے آتے رہتے ہیں، جن سے ہم اپنے پروردگا کے ساتھ اپنے تعلق کی یاد دہانی حاصل کرتے اور اُسے زندہ کرتے ہیں، تاہم خدا کے لیے جان دے دینا ’اسلا م‘ (یعنی اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے) کا سب سے بلند مقام ہے اور اس کے مواقع شاذ ہی زندگی میں آتے ہیں۔ اِس لیے قربانی کی یہ عبادت اُس کے علامتی اظہار کے طور پر مقرر کی گئی ہے۔ گویا ایک بندۂ مومن اِس عظیم عبادت کے ذریعے اپنے رب کے سامنے یہ اقرار کرتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب تیرے لیے ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’
اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی مشروع کی ہے تا کہ اللہ نے اُن کو جو چوپائے بخشے ہیں، اُن پر وہ (ذبح کرتے ہوئے) اُس کا نام لیں۔ پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے چنانچہ تم اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کردو۔ اور خوشخبری دو اُن لوگوں کو جن کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ (الحج ۲۲:۳۴(
یہ آیت بتاتی ہے کہ قربانی کی عبادت اپنی جان کو اپنے معبود کی نذر کردینے کا علامتی اظہار ہے۔ اس کے ذریعے سے بندہ اپنے وجود کو آخری درجہ میں اپنے آقا کے حوالے کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ بندہ مومن کے یہ جذبات اس کے مالک تک پہنچ جاتے ہیں۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ابدی رحمتوں کے لیے چن لیتا ہے۔ مزید براں دنیا میں بھی وہ ان جانوروں کا گوشت انہیں کھانے کی اجازت دے کر انہیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنی جان مجھے دے کر بھی تم مجھے کچھ نہیں دیتے۔ بلکہ دینے والا میں ہی رہتا ہوں۔ یہ گوشت کھاؤ اور یاد رکھو کہ مجھ سے سودا کرنے والا دنیا وآخرت دونوں میں نقصان نہیں اٹھاتا۔

ایک طرف قربانی کی یہ عظیم عبادت اور اس میں پوشیدہ قربت رب کی یہ حکمت ہے اور دوسری طرف ہمارا وہ طرزِ عمل ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا جاچکا ہے۔ جس میں ایک عام آدمی کا ذہن کبھی بھولے سے بھی قربانی کی اِس حقیقت کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔ اِس سے بڑھ کر یہ کہ ریاکاری اور نمود و نمائش کا وہ شائبہ تعلق باللہ کی یاد دہانی کی اِس عظیم عبادت میں اِس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ جس کے بعد لینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔ قربانی کے ذریعے اپنی بندگی کا اظہار تو دور کی چیز ہے، رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق تو مخلوق کی نگاہ میں نمایاں ہونے کی نیت سے آدمی اگر حقیقت میں بھی اپنی جان دے دے تب بھی روزِ قیامت میں ایسے ’’شہید‘‘ کو جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔

ایک آخری بات اِس ضمن میں یاد رکھنے کی یہ ہے کہ دینِ اسلام کا اصل مقصود انسان کا ’تزکیہ‘ ہے۔ یعنی انسان کو پاکیزہ بنانا۔ تاہم قربانی کے اِس عمل میں ہم لوگ نہ صرف جانور ذبح کرتے ہیں بلکہ اسلام کا یہ مقصود یعنی پاکیزگی بھی ذبح کردیتے ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے جو مظاہر عید الاضحیٰ کے موقع پر دیکھنے میں آتے ہیں اس کی توقع کسی اچھے مسلمان سے تو کیا ایک اچھے انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن پاک میں قربانی کے جانوروں کے متعلق ارشاد ہوا ہے:

’’
اللہ کو تمھاری ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا، بلکہ صرف تمھارا تقویٰ پہنچے گا‘‘
﴿الحج ۲۲:۳۷﴾

تقویٰ اور بندگی کی دلی کیفیات تو ہمارے ہاں پہلے ہی ناپید ہیں۔ اس پر مزید ستم ہم یہ کرتے ہیں کہ گوشت اپنے فرج میں رکھ کر ہم، زبان حال سے، رب العالمین کی بارگاہ اقدس میں صرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر بھیجتے ہیں۔ چنانچہ قربانی کے دنوں میں اس کی حکمت و مصلحت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے گھر کی طرح اپنے علاقے کو صاف رکھنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ جس کی خلاف ورزی کم از کم ایک دینی تہوار کے موقع پر اور بالخصوص ایک عبادت کو انجام دیتے ہوئے بالکل نہیں ہونی چاہیے۔

12 October 2013

امن کا نوبل انعام


ملالہ اور عبیرقاسم حمزہ الجنابی


جب تک ملالہ نوبل انعام کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی، اس ملک کے میڈیا میں ایک شور برپا تھاہمارا سر فخر سے بلند ہے، ایک بچی جس کی جدوجہد علم کیلئے تھی، جو خواتین کے حقوق کی پاسداری کیلئے نکلی تھی اور آج پوری دنیا میں ہمارے ملک کا نام روشن کررہی ہے۔ پوری دنیا اس کی جرات کو سلام کررہی ہے، اس کے مشن کو جاری رکھنے اور تعلیم کو عام کرنے کیلئے سرمایہ دے رہی ہے۔ اس ملک کےعظیم اورباشعوردانشوروں کے یہ نعرے میرے کانوں میں گونجتے تھے اور میں سوچتا تھا کہ وہ امن کا نوبل انعام، جسے یہ قوم عزت کا تاج سمجھ رہی ہے، کیسے کیسے ظالموں، قاتلوں اور انسانیت کے دشمنوں کے سر سجتا رہا ہے۔

ملالہ کا سب سے بڑا وکیل گورڈن برائون وہی ہے جس نے عراق پر حملہ کرنے کیلئے نہ صرف برطانوی پارلیمنٹ میں ووٹ دیا بلکہ دھواں دار تقریر بھی کی تھی ۔ عراق پر وہ جنگ مسلط کی گئی جس نے لاکھوں لوگوں سے صرف تعلیم کا نہیں بلکہ زندگی کا حق بھی چھین لیا۔عورتوں کے حقوق کے یہ عالمی چمپین وہ ہیں جن کے ہاتھ مظلوم عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور سروں میں عورتوں کی عزت سے کھیلنے کی ہوس رچی ہوئی ہے۔

12مارچ 2006 کو ملالہ کی ہم عمر عمر چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ جو عراق کے چھوٹے سے قصبے المحمدیہ میں رہتی تھی، اس پر کیا بیتی؟ دل تھام کر پڑھیے: عبیر کا والد قاسم حمزہ رحیم اور ماں فخریہ طہٰ محسن اپنی اس بیٹی عبیر،6 سالہ بیٹی حدیل،9 سالہ احمد اور 11 سالہ محمد کے ساتھ اپنے گھر میں خوش و خرم رہ رہے تھے۔ عبیر کو اس کے والدین بہت کم گھر سے باہر جانے دیتے کہ سامنے گورڈن براؤن کے جمہوری ووٹ سے شروع ہونے والی عراق جنگ کے سپاہیوں کی چیک پوسٹ تھی جس پر چھ سپاہی پاول کورٹر، جیمز بارکر، جیسی سپل مین، برائن ہاورڈ، سٹیون گرین اور انتھونی پرایب موجود تھے۔ جب کبھی یہ بچی باہر نکلتی تو وہ اسے چھیڑتے اور وہ گھبرا کر اندر بھاگ جاتی۔ ایک دن یہ ان کے گھر گھسے، تلاشی لی اور عبیر کے گال پر سٹیون گرین نے انگلی پھیری جس نے سارے گھر کو خوفزدہ کر دیا۔ جب کبھی وہ اپنے والدین کے ساتھ باہر نکلتی، وہ اس کی طرف دیکھ کر غلیظ اشارہ کرتے ہوئے ویری گڈ کہتے۔ 12مارچ 2006 کی صبح وہ شراب پینے میں مشغول تھے کہ عبیر کے دونوں بھائی سکول کے لیے روانہ ہوئے۔ عبیر کو اس لیے سکول سے اٹھا لیا گیا تھا کہ والدین ان سپاہیوں سے خوفزدہ تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ مکان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں بند کیا اور عبیر کو دوسرے کمرے میں۔ سٹیون گرین نے اس کے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں لے جا کر قتل کر دیا اور دوسرے کمرے میں باقی دو سپاہی اس چودہ سالہ بچی سے زیادتی کرتے رہے۔ اس کے بعد گرین کی آواز آئی، میں نے انہیں قتل کر دیا اور پھر وہ بھی عبیر پر پل پڑا۔ اس کے بعد ان سپاہیوں نے اس کے سر پر گولی مار کار قتل کر دیا۔ جاتے ہوئے ایک سپاہی نے اس کے زیر جامے کو لائٹر سے آگ دکھائی اور کمرے میں پھینک دیا۔ گھر سے دھواں نکلا تو پڑوسی دوڑے ہوئے آئے اور انہوں نے جس حالت میں اس مظلوم چودہ سالہ بچی کو دیکھا وہ ناقابل بیان ہے۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا اور چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ الجنابی کی تصویر دیکھی تو کئی راتیں بے چینی اور اضطراب سے سو نہ سکا تھا۔

نوبل پرائز دینے والوں اور ملالہ یوسف زئی  کی وکالت کرنے والوں کے ہاتھ عبیر جیسی بے شمار معصوم لڑکیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو ان کے خوف سے گھروں سے نہیں نکلتی تھیں۔ جنہوں نے ان کی بدمعاش اور غلیظ نظروں کے خوف سے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ عبیر تو ان کے خلاف کوئی ڈائری بھی تحریر نہیں کر رہی تھی جو دنیا کا کوئی بڑا چینل نشر کرتا۔ اس نے تو انھیں ظالم، تعلیم کے دشمن اور انسانیت کے قاتل بھی نہیں کہا تھا۔ اس کا والد کسی این جی او کا سربراہ یا کارپرداز نہیں تھا کہ اپنی بیٹی تو ان سپاہیوں کے خلاف اکساتا، اس کی ایک فرضی نام سے ڈائری لکھنے میں مدد کرتا اور پھر دنیا بھر میں داد سمیٹتا۔ عبیر کو اس ظلم کی وجہ سے سہم سی گئی تھی۔ اس کے زندہ بچ جانے والے بھائیوں نے بتایا کہ جس دن سٹیون گرین نے اس کے گال پر انگلی پھیری، ہمارے والد نے اسی دن اسے اسکول سے اٹھا لیا تھا۔ وہ اس دن بہت روئی۔ اسے گھر کے باہر لگی ہوئی سبزیوں کو پانی دینے، دیکھ بھال کرنے کا بہت شوق تھا، لیکن اس دن کے بعد سے وہ بس کھڑکی سے انھیں دیکھتی رہتی۔

اس عالمی یا مقامی میڈیا میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے سینے میں دل ہو، جس کے دل میں بیٹی کی محبت جاگتی ہو، جس کی آنکھ سے ظلم پر آنسو نکل آتے ہوں؟ وہ اٹھے اور کہے، آؤ ہم مل کر ایک اور امن انعام کا آغاز کرتے ہیں، ان بچوں کے لیے جوصابرہ و شطیلہ میں مارے گئے، ان مظلوموں کے لیے جو ٹینکوں تلے کچل دیے گئے، ان قیدیوں کے لیے جن پر کتے چھوڑے گئے، ان بہنوں کے لیے جو ان درندوں کے ہاتھوں اس وقت تک درندگی کا شکار ہوتی رہیں جب تک ان کا سانس باقی تھا، عبیر کے لیے جس سے اس کا اسکول چھوٹ گیا، جس کے لیے گھر سے نکلنا عذاب ہو گیا۔

لیکن ہم بے حس ہیں۔ نوبل انعام کی چکا چوند نے ہماری غیرت کے بچے کچے گھروندے کو بھی ملیامیٹ کر دیا ہے۔ اٹھارہ کروڑ کی قوم نے ایک مغربی چینل کے پروگرام میں اپنی اس ہونہار بیتی کا یہ فقرہ کیسے سن لیا کہ ہم عورتیں وہاں قیدیوں کی طرح ہیں، ہم مارکیٹ نہیں جا سکتیں۔ کراچی سے پشاور اور گوادر سے گلگت تک کیا پاکستان یہ ہے جس کی تصویر ملالہ نے اس پروگرام میں پیش کی؟ اس نے کہا، ایسے لگتا تھا ہم جیل میں ہیں۔ میں نے بلوچستان کے دور دراز گائوں سے لے کر لاہور، کراچی، پشاور اور چھوٹے چھوٹے قصبوں تک عورتوں کو ہر موڑ اور ہر مقام پر دیکھا ہے۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں، دفتروں اور فیکٹریوں میں، بازاروں اور ہوٹلوں میں۔ کیا یہ ہے ملالہ کا قیدخانہ؟ کیا یہ کالک ہے جو وہ اس قوم کے منہ پر مل کر نوبل انعام کی سیڑھی پر چڑھنا چاہتی ہے؟ اس قوم کا ہردانشور،مفکر اور اینکر پرسن عوام کو خوشخبری سناتا ہے، اسے پاکستان کا وقار بلند ہونے کی نوید قرار دیتا ہے۔ ملالہ نوبل امن انعام حاصل کرنے والوں کی صف میں ہی ٹھیک تھی جس میں اسرائیل کے تین قاتل وزرائے اعظم بیگن، اسحق رابین اور شمعون پیرس بھی کھڑے ہیں۔ نوبل انعام لیتے ہوئے ان کے ہاتھ ہزاروں معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ اس فہرست میں ڈرون حملوں سے معصوموں کی جانیں لینے والا بارک اوباما اور مسلم امہ کا سب سے بڑا دشمن ہنری کسنجر بھی کھڑا ہے۔ یہ غیرت کے سودے ہوتے ہیں جو غیرتمند قوموں کے غیرت مند افراد کیا کرتے ہیں کہ ایسے امن انعامات پر لعنت بھیج دیتے ہیں۔ ویتنام کا لیڈر لوڈو تھو (LU DUE THO) امریکہ سے امن مزاکرات کر رہا تھا۔ جب اسے ہنری کسنجر کے ساتھ امن کا انعام دیا تھا تو اس نے انکار کر دیا۔ ژاں پال سارتر کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تو اس نے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اپنے نام کے ساتھ نوبل انعام یافتہ لکھ کر اپنے ساتھ گھٹیا مذاق نہیں کرنا۔

پاکستان کی ایک مسلمان بیٹی کو مغرب کے قاتل حکمران ہمارے منہ پر کالک ملنے کیلئے استعمال کرتے رہے، اس کے سر پر ایسے ہاتھ امن کا تاج پہنانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ عبیر قاسم جیسی کئی مسلمان بچیوں سے رنگے ہوئے ہیں، یہ بچیاں جنہیں ان ظالموں کے خوف سے گھروں میں قید ہونا پڑا، ان کا اسکول چھوٹ گیا، وہ گھروں میں قید ہوگئیں لیکن پھر بھی وہ ان کی ہوس سے اپنی عفت بچا سکیں نہ زندگی۔

اوریا مقبول جان