Test Footer 2

18 October 2013

یہ بھی تو کسی ماں کا دُلارا کوئی ہوگا




گلشن اقبال میں ’عید بازار‘ لگا ہوا تھا۔بیل، بکروں اور دُنبوں والا نہیں۔خواتین کو اس عید پر بھی اپنے ہتھیار تیز رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ اشیائے ضروریہ کی خریداری کرنی ہوتی ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ بازارِ اسلحہ و ہتھیار تھا۔ یہاں ہماری طرح کے اکثر ’شکار‘ خود ’شکاریوں‘ کو اپنے خرچہ پر ہتھیار خریدوا رہے تھے۔صاحب! بیویوں کو آج تک کوئی شوہر یہ باور نہیں کراسکا کہ:
قتل کے ساماں ہیں جس کے واسطے، وہ چل بسا
آپ تزئینِ لب و رُخسار رہنے دیجیے
بازار کیا تھا؟ ۔۔۔ ’نگار خانۂ انجم، نگار خانۂ گل‘۔حضرت علامہ اگر بقید حیات ہوتے تو یہ دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے کہ اُن کی یاد میں اور اُن کے نام پر بسائی جانے والی بستی کا بازار بھی ’گُل بن‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔یہ منظر دیکھ کر وہ یقیناًاپنے اس خیال سے رجوع فرما لیتے :
حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
اور ساتھ ہی وہ اپنے ایک اور شعر میں بھی ذرا سی ترمیم کر لیتے کہ:
پھول ہیں ’’گلشن‘‘ میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
(واضح رہے کہ یہاں ’’گلشن‘‘ سے مراد گلشن اقبال کا مذکورہ بالا بازارہی لیا جائے گا)
قصہ مختصر ۔۔۔ کہ ہم ان ہی مناظر اور ایسے ہی خیالات میں کھوئے ہوئے، اہلیہ کے خرید کردہ سامان(بلکہ بقولِ اقبالؔ ؒ شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان) کے بوجھ تلے دبے جارہے تھے کہ ہمیں ایک ننھا منا، سرخ و سفید، گولو مٹولو سابچہ ہر مال بردار اور فرماں بردار شوہر سے دوڑ دوڑ کر یہ پوچھتا نظر آیا:’’بائی! سامان اُٹوائے گا؟ ۔۔۔ بائی سامان اُٹوائے گا؟‘‘
جی تو یہی چاہتا تھا کہ اِس ببلو گبلو کو خود ہی اُٹھا لیا جائے اور گود میں چھپا لیا جائے۔عمر بمشکل آٹھ یا نو سال ہوگی۔اس کے چہرے پر ہمیں خود اپنے بچوں والی معصومیت نظر آئی۔ آنکھوں میں التجا تھی۔سر اوپر اُٹھاکر دیکھنے والا ملتجیانہ انداز ایسا تھا کہ اگر اُس کی جگہ اپنا کوئی جگر گوشہ ہوتا تو دل تڑپ جاتا۔چلتے چلتے یوں ہی پوچھ لیا:’’کتنے پیسے لیتے ہو؟‘‘
بڑی کاروباری ڈپلومیسی کے ساتھ جواب دیا:’’صاب لوگوں کا مرضی ہوتا اے۔دس بیس روپیہ اَم کو دے دیتا اے۔صاب! یہ سامان اَم کو دو۔ تُم ’تک‘ جائے گا۔جو مرضی آئے دے دینا‘‘۔
ہم نے پہلے یہ عذر کیا کہ:’’برخوردار! ہم تو ایک مدت کے تھکے ہوئے ہیں، اور ابھی نہ جانے کب تک تھکنا ہے۔ مگر کیا تم نہ تھک جاؤ گے؟‘‘پھر اپنے سامان میں سے تھوڑا سا سامان اُس کی دلجوئی کے لیے اُسے تھما دیا۔اُس نے بڑی شوخ سی چائیں چائیں کرتی آواز میں احتجاج کیا:’’اَم نئیں تکتا صاب! ۔۔۔ لاؤ سارا سامان اَم کو دو۔۔۔اِدَر لاؤ‘‘۔
یہ کہہ کر سارا سامان ہم سے لے کر اپنی پیٹھ پر لاد لیا اور حالت رکوع میں چلا گیا۔یہ دیکھ کر ہم نے زبردستی کچھ سامان واپس لیا تو سیدھا کھڑے ہونے کے قابل ہوکر پھر احتجاج کیا:’’ تم کیوں اُٹاتا اے صاب؟ ۔۔۔ تم تو پیسا دیتا اے ۔۔۔ چوڑو۔۔۔ سارا سامان اَم کو دو‘‘۔
ہم نے اُس کی سنی اَن سنی کرتے ہوئے اُسی کی گرامر میں اُس سے کہا:’’دیکو! بیگم صاب آگے نکل گیا اے، تیز چلو ۔۔۔ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
نام پوچھنے کا مطلب شاید اُس نے غلط لے لیا۔یا شاید تجربات نے اُسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ کہنے لگا:
’’امارا نام فدائے محمد اے۔مگر صاب! فِکرمَکوا۔ اَم چوری نئیں کرے گا۔اَم چور نئیں اے۔تم کتنا بی دور جائے گا، اَم تمارا سات جائے گا۔تمارا مال حفاظت سے لے جائے گا۔ یہ تمارا امانت اے۔چوری نئیں کرے گا۔۔۔ صاب! اَم چوری کیوں کرے؟۔۔۔ تم اَم کو مزدوری دیتا اے ۔۔۔ اَم حلال کمائی کرتا اے صاب! ۔۔۔‘‘
وہ بولے چلا جارہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ ماں باپ نے اس کا نام رکھ کر جس ذاتِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اس کو فدا کیا ہے، اگر نام کا کچھ اثر ہوتا ہے تو یہ واقعی کبھی چوری نہیں کرے گا۔ ہم نے پوچھا:’’تم یہاں کہاں سے آئے ہو؟‘‘
اُس نے جو جواب دیا اُسے سن کر ہمارے رونگٹے ہی نہیں، چلتے چلتے ہم خود بھی کھڑے ہوگئے:’’صاب! اَم اِدَر وزیرستان سے آیا اے!‘‘
ہم نے ٹٹولنے والی نظروں سے جانچنے کی کوشش کیکہ کہیں اس نے اپنے کرتے کے نیچے کوئی جیکٹ وغیرہ تو نہیں پہنی ہوئی ہے۔مگر ملگجے کرتے کے اندر اس کا سرخ و سنہرا پیٹ اور سینہ لشکارے مارتا نظر آ رہا تھا۔ گھبرا کر پوچھا:’’وزیرستان سے تم یہاں کیوں آگئے؟‘‘
کہنے لگا: ’’امارا گاؤں پر کافروں نے بم مارا۔پورا گاؤں مرگیا۔ امارا بابا شہید ہو گیا۔امارا بڑا بائی مجاہد بن گیا۔امارا امّاں نانا کے سات ام کو اور امارا چوٹا بائی کو لے کر اِدَر آگیا‘‘۔
اب ہمیں اور کوئی بات نہ سوجھی تو ہم نے یہی پوچھ لیا:’’تم مزدوری کیوں کرتے ہو؟ پڑھتے کیوں نہیں؟دُنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کی مہم چل رہی ہے۔ بلکہ مہم جو کو نوبل پرائز بھی۔۔۔‘‘
ہماری بات کاٹ کر کہنے لگا:’’صاب! اَم خود بی پڑے گا۔مگر اَم اپنا چوٹا بائی کو ضرور پڑائے گا۔اُس کے واسطے اَم مزدوری کرتا اے!‘‘
ہم نے پوچھا: ’’تو کیا تمھارا چھوٹا بھائی پڑھ رہا ہے؟‘‘
بڑا دِلنشین قہقہہ لگا کر بولا: ’’ابی کیسے پڑے گا؟ ابی تو وہ دو سال چے مہینے کا ہے‘‘۔
اتنے میں ہم گاڑی تک پہنچ چکے تھے۔ اُس نے سامان گاڑی میں رکھ دیااور دونوں ہاتھ پشت پر ٹیک کر اپنی کمر سیدھی کی۔ اہلیہ نے سخاوت کا مظاہر کرتے ہوئے پانچ پانچ اور دو دو روپئے کے سکوں پر مشتمل سارا چینج اُس کو تھما دیا۔وہ حیرت سے تکنے لگا۔ہم نے پوچھا:
’’پیسے کم تو نہیں ہیں؟‘‘
اُس نے ایک بار پھر اپنی بھری ہوئی مٹھی کو دیکھااور بولا:’’نئیں صاب! بہت ہیں۔۔۔ شکر خدائے پاکا ۔۔۔ یہ بہت ہیں!‘‘
ہم نے پھر پوچھا:’’فدائے محمد!تم خوش تو ہو۔۔۔ ناراض تو نہیں ہو؟‘‘
اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ ’’نئیں صاب!‘‘ کہتے ہوئے وہ مسکرا دیا۔ایسی معصوم مسکراہٹ شاید ہی کبھی دیکھی ہو۔ جیسے گہرے سیاہ بادلوں سے اچانک چاند طلوع ہوجائے ۔۔۔ جیسے تند وتیز لو کے تھپیڑے سہنے والے تھکے ہارے مسافر کو یکایک کسی نخلستان کے بیچ ایک سرد چشمہ اُبلتا دکھائی دے جائے ۔۔۔ جیسے ۔۔۔ مگرسچ پوچھیے تو اُس مسکراہٹ کو اب بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ہم اُسے دیر تک اور دور تک واپس جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ ہمیں دیکھتے دیکھ کر ایک صاحب قریب آئے اورہمدردی سے مشورہ دیا:
’’انھیں سر نہ چڑھایا کریں۔یہی لوگ خود کُش بمبار بنتے ہیں۔یہ لوگ اسلام کے بھی دشمن ہیں اور انسانیت کے بھی!‘‘

ابو نثر


0 comments:

Post a Comment