دہشت گردی کے خلاف جنگ افغانیوں کے خلاف نہیں،بلکہ یہ پاکستان کے خلاف نظر آتی ہے،اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا ہے،خودکش حملے پاکستان میں ناپید تھے اب روز ہوتے ہیں،اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ یہ دہشت گرد امریکی پیسے سے اور لوگوں کے جذبات ابھار کر امریکہ نے پاکستان کے خلاف پیدا کئے اور پھر اُن کو مارنے کے لئے پاکستانی فوج کو الجھا دیا ہے کہ دونوں طرف سے پاکستانی مسلمان شہید ہوں اور پاکستان کی ایٹمی ریاست کمزور ہو۔امریکہ پاکستان کو ہر طرح سے مورد الزام ٹہراتا ہے،سوات میں دہشت گردی ہو تو کہتے ہیں کہ اسلام آباد 60 کلومیٹر کی دوری پر رہ گیا،جب سوات میں پاکستانی فوج کو کامیابی مل جائے،تو تعجب کا اظہار ہوتا ہے اور سوچتے ہیں کہ یہ تو غلط ہو گیا،مالاکنڈ میں کامیابی مل جائے تو اور بھی بُرا ہو گیا،وہ اس لئے کہ اُن کو بسانے کے لئے جو امداد دینے کا وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا جاتا،جنوبی وزیرستان میں کامیابی مل جائے تو بھی ان کو افسوس کہ یہ تو یہاں بھی کامیاب ہو گئے۔
اب کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرو،ہم کہتے ہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں،تو کہتے ہیں کہ انڈیا کی سرحد سے فوج نکال لو اور شمالی وزیرستان میں استعمال کرو اور پھر انڈیا کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں،انہیں جدید اسلحہ سے لیس کر رہے ہیں اور افغانستان میں انڈیا کا سیاسی و فوجی اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں،تاکہ پاکستان دونوں طرف سے پس جائے۔ مشرقی سرحد سے فوجیں ہٹا لے تو انڈیا چڑھ دوڑے اور افغانستان سے بلوچستان میں مداخلت کرے،غنڈہ گردی،لفنگا پن کی بھی حد ہوتی ہے،اور پھر درس دیئے جاتے ہیں کہ ایٹمی اسلحہ استعمال کے لئے نہیں،ڈرانے کے لئے ہوتا ہے۔اگر انڈیا یا کسی اور ملک کو اکسا کر ہماری سرحدوں میں داخل کیا جائیگا تو پھر کیا وہ اسلحہ دکھانے کے لئے بنایا گیا ہے،تو ضرورت پڑنے پر یہ اسلحہ کا استعمال ہوتا ہے،ہمارے کسی علاقے پر قبضہ ہو یا ہم پر سرجیکل اسٹرائیک ہو تو پاکستان کو مجبوراً یہ اسلحہ استعمال کرنا پڑے گا۔
امریکہ کو ہماری بات سننا پڑے گی اور ہمیں ایٹمی طاقت تسلیم کرنا پڑے گا۔اب اس نے پاکستان کو نکو بنانے کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔پہلے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن صاحبہ بیان دے کر گئی کہ اگر فیصل شہزاد جیسا کوئی اور واقعہ ہوا تو پاکستان کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔اب فیصل شہزاد امریکی شہری ہے اور پاکستان خود تحریک طالبان پاکستان سے جس سے اس نے ٹریننگ حاصل کی،نبردآزما ہے،تو اس کے علاوہ پاکستان اور کیا کرے۔البتہ یہ سوال ضرور کرے کہ اُس کا شہری پاکستان کیا کرنے آیا تھا،کیا سی آئی اے نے اُس کو بھیجا تھا،تاکہ ٹائم اسکوائر کا ڈرامہ رچائے۔ اس سے اُن کی تسلی نہیں ہوئی تو کہا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں چھپا ہوا ہے اور پاکستان میں کسی نہ کسی کو معلوم ہے۔اب کہاں چھپا ہوا ہے،کیا ایوان صدر میں یا ایوان وزیراعظم میں تو پھر آپ کی سی آئی اے اور آپ کے جاسوس سیارچہ کیا کر رہے ہیں۔کیوں پتہ نہیں لگا لیتے، یہاں ان کی مکمل ناکامی ہے تو الزام تراشی پاکستان پر۔
اس کے بعد وہ امریکی محترمہ پاک افغان ٹریڈ معاہدہ کرا کر گئی،جو پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے، اصل میں اس وقت افغانستان میں تاجکوں،ازبکوں اور ہزاروں کی اقلیتی حکومت ہے اور حامد کرزئی اُن کے رحم و کرم پر ہیں،مگر امریکہ کے بندے ہیں،اس لئے پاکستان کو دبا کر پاکستان کو نقصان پہنچانا اور واگہ کی سرحد کو انڈیا کے لئے کھلوانے کا یہ پہلا مرحلہ ہے،دوسرے مرحلے میں وہ دباؤ میں انڈیا کو افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک مال بجھوانے کا اجازت نامہ دلوا دیں گے۔اگر موجودہ حکومت اس دباؤ کا مقابلہ نہ کرسکی یا پھر وہ ایسا کرنے کے لئے کسی فوجی کو حکمراں بنوا دیں گے،آخر جنرل پرویز مشرف سے بھی انہوں نے ہر گندا کام لیا تھا۔جس کی وجہ سے آج پاکستان کی خاک و خون میں نہایا ہوا ہے۔جامعہ حفصہ پر حملہ نہ ہوتا تو خودکش حملے نہ ہوتے،پاکستان،امریکہ کا اس قدر ساتھ نہ دیتا تو معاملہ افغانستان تک محدود رہتا،امریکیوں کو ویزے کے بغیر فاٹا میں جانے کی اجازت نہ دیتا، تو امریکہ اپنے طالبان نہیں بنا سکتا تھا۔ہیلری کلنٹن نے پاکستان پر کیا الزام تراشی کی،ہر ایک کو موقع مل گیا۔
وکی لیکس کے ذریعہ آئی ایس آئی اور فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔اگرچہ امریکی نائب صدر جوبائیڈن اس معاملے کو دباتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ بات پہلے کی ہے،اب آئی ایس آئی بدل گئی ہے،یعنی امریکہ کا ساتھ دے رہی ہے۔اب بقول خود برطانوی ممبران پارلیمنٹ کے منہ پھٹ برطانوی وزیراعظم کیمرون نے بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے،تو افغان صدر حامد کرزئی نے بھی چھلنی کی طرح بولنا شروع کر دیا ہے،کہ امریکہ پاکستان پر حملہ آور کیوں نہیں ہوتا کہ طالبان کی محفوظ جگہیں تو وہاں پر ہیں۔سب انڈیا کی زبان بول رہے ہیں یا شمالی اتحاد کے لوگوں کی،یہ بات آئی ایس آئی کی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ جس نے طالبان کی حمایت میں شمالی اتحاد کو نظر انداز کر دیا۔اگرچہ وہ لوگ بھی پاکستان کا ساتھ دے سکتے تھے۔
اب پاکستان پر چاروں طرف سے یلغار ہو رہی ہے،برطانیہ کے بعد اب دوسرے ممالک بھی پل پڑیں گے۔ شاید یہ کھیل کا آخری حصہ ہے،موجودہ حکمران اُن کو پاکستان کے خلاف کھیل کھیلنے کے لئے سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔اب تک 300 ویزوں کی بات کر رہے تھے،انہوں نے 620 ویزے دے دیئے۔ظاہر ہے وہ اب یہاں آ کر تخریبی کارروائیوں میں حصہ لیں گے۔بلوچستان کی علیحدگی میں تیزی لائیں گے، بالآخر ایک امریکی بلوچستان سے پکڑا گیا ہے،جس کے پاس سے حساس نقشے اور دستاویز ملے ہیں۔امریکہ اور برطانیہ گندہ کھیل کھیل رہے ہیں اور اپنے کھیل کے آخری حصہ میں اپنا اصل روپ،اپنے مقاصد اور اپنی سازشیں افشاء کر رہے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان کے پاس ایسی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے نہ ہی تیاری ہے،وہ ایک آسان شکار ثابت ہو رہا ہے،ان تجربہ کار کھلاڑیوں کا جو ملکوں کے نقشے تبدیل کرتے آئے ہیں،جو انسانوں کی تجارت کا تمغہ اپنے سینے پر سجائے ہوئے پھر رہے ہیں،جو استعماریت کے علمبردار ہو کر قوموں کی آزادی سلب کرتے آئے ہیں،حملے کرنے کا شوق ہے،انسانوں کو مارنا اُن کے لئے جانوروں کے شکار کی طرح ہے۔پاکستان کو چاہئے کہ اپنے بچ بچاؤ کی پالیسی وضع کرے کیونکہ کھیل کا آخری مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔
"روزنامہ جنگ"
0 comments:
Post a Comment