Test Footer 2

2 December 2010

Hazrat Umar - The Alexander of Islam

اصل فاتح اعظم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ




ہم نے بچپن میں پڑھا تھا کہ مقدونیہ کا الکزنڈر ٢٠ سال کی عمر میں بادشاہ بنا، ٢٣ سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا، سب سے پہلے یونان فتح کیا پھر ترکی میں داخل ہوا، پھر ایران کے دارا کو شکست دی، پھر شام میں داخل ہوا اور وہاں سے یروشلم اور بابل کا رخ کیا اور پھر مصر پہنچا۔ وہاں سے ہندوستان آیا اور راجہ پورس کو شکست دی، اپنے عزیز از جان گھوڑے کی یاد میں پھالیہ شہر آباد کیا اور پھر مکران کے راستے واپسی کے سفر میں ٹائیفوا یڈ میں مبتلا ہو کر بخت نصر کے محل میں ٣٣ سال کی عمر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دنیا کو بتایا گیا کہ وہ اپنے وقت کا عظیم فاتح جنرل اور بادشاہ تھا اور اسی وجہ سے دنیا اس کو الکزنڈر دی گریٹ یعنی سکندر اعظم ۔ بمعنی فاتح اعظم ۔ کے لقب سے یاد کرتی ہے۔

آج اکیسویں صدی میں دنیا کے مورخین کے سامنے یہ سوال رکھا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہوتےہوئے کیا واقعی الکزنڈر فاتح اعظم کے لقب کا حقدار ہے؟ سوچئے، الکزنڈر جب بادشاہ بنا تو اسے بہترین ماہروں نے گھڑ سواری اور تیراندازی سکھائی، اسے ارسطو جیسے استادوں کی صحبت ملی اور جب ٢٠ سال کا ہوا تو تخت و تاج پیش کر دیا گیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سات پشتوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا تھا اور وہ اونٹ چراتے چراتے جوان ہوئے تھے۔ آپ نے نیزہ بازی اور تلوار چلانے کا ہنر بھی کسی استاد سے نہیں سیکھا تھا۔ الکزنڈر نے ایک منظم فوج کے ساتھ دس برسوں میں ١٧ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے بغیر کسی بڑی منظم فوج کے دس برسوں میں ٢٢ لاکھ مربع میل کا علاقہ زیرنگوں کیا جس میں روم اور ایران کی دو عظیم مملکت بھی شامل ہیں۔

یہ تمام علاقہ جو گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار ہو کر فتح ہوا اس کا انتظام و انصرام بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے بہترین انداز میں چلایا۔ الکزنڈر نے جنگوں کے دوران بے شمار جرنیلوں کا قتل بھی کرایا اور اس کے خلاف بغاوتیں بھی ہوئیں۔ ہندوستان میں اسکی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار بھی کیا لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کسی ساتھی کو انکے کسی حکم کی سرتابی کی جرات نہ تھی وہ ایسے جرنیل تھے کہ عین میدان جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے سپہ سالار کو معزول کیا، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو کوفے کی گورنری سے ہٹایا، حضرت حارث بن کعبؓ سے گورنری واپس لی، حضرت عمرو بن العاصؓ کا مال ضبط کرنے کا حکم دیا اور حرص کے علاقے کے ایک اور گورنر کو واپس بلا کر سزا کے طور اونٹ چرانے پر لگا دیا۔ آپ کے ان تمام سخت فیصلوں کے خلاف کسی کو حکم عدولی کی جرات نہ ہوئی سب کو معلوم تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ فیصلہ صرف عدل کی بنیاد پر کرتے ہیں اور عدل کے خلاف وہ کچھ  برداشت نہیں فرماتے۔

الکزنڈر نے ١٧ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا لیکن دنیا کو کوئی نظام نہ دے سکا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے دنیا کو ایسے ایسے نظام دیے جو آج تک تک کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں رائج ہیں۔ آپ نے سنہ ہجری کا آغاز کروایا، موذنوں کی تنخواہ مقرر کی اور تمام مسجدوں میں روشنی کا بندوبست فرمایا۔ دنیاوی فیصلوں میں آپ نے ایک مکمل عدالتی نظام تشکیل دیا اور جیل کا تصّور دیا، آبپاشی کا نظام بنایا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا با قاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپ نےدنیا بھر میں پہلی مرتبہ دودھ پیتے بچوں، بیواؤں اور معذوروں کے لئے وظائف مقرر کیے۔

حضرت عمر فاروقؓ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں ہوتے تھے، سفر کے دوران نیند کے وقت زمین پر اینٹ کا تکیہ بنا کر سو جایا کرتے تھے، آپ کے کرتے پر کئی پیوند رہا کرتے تھے، آپ موٹا کھردرا کپڑا پہنا کرتے تھے اور آپ کو باریک ملایم کپڑے سے نفرت تھی۔ آپ جب بھی کسی کو گورنر مقرر فرماتے تو تاکید کرتے تھے کہ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑا نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا۔ آپؓ فرماتے تھے کہ عادل حکمران بے خوف ہو کر سوتا ہے - آپ کی سرکاری مہر پر لکھا تھاعمر ۔ نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے۔

آپ فرماتےظالم کو معاف کرنا مظلوم پر ظلم کرنے کے برابر ہے، اور آپ کا یہ فقرہ آج دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے چارٹر کا درجہ رکھتا ہے کہمائیں اپنے بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے کب سے انھیں غلام بنا لیا؟ آپ کے عدل کی وجہ سے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے آپ کوفاروق کا لقب دیا اور آج دنیا میں عدل فاروقی ایک مثال بن گیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ شہادت کے وقت مقروض تھے چنانچہ وصیّت کے مطابق آپ کا مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کیا گیا۔

اگر آج دنیا بھر کے مورخین الکزنڈر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھ کا موازنہ کرتے ہیں تو انھیں حضرت عمر فاروقؓ کی پہاڑ جیسی شخصیت کے سامنے الکزنڈر ایک کنکر سے زیادہ نہیں معلوم ہوتا کیونکہ الکزنڈر کی بنائی سلطنت اسکے مرنے کے پانچ سال بعد ہی ختم ہو گئی تھی جبکہ حضرت عمر فاروقؓ نے جس جس خطّے میں اسلام کا جھنڈا لگایا وہاں آج بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا سنائی  دیتی ہے۔ الگزنڈر کا نام آج صرف کتابوں میں ملتا ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دئیے ہوے نظام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے ٢٤٥ ملکوں میں رائج ہیں۔آج بھی جب کبھی کوئی خط کسی ڈاک خانے سے نکلتا ہے، یا کوئی سپاہی وردی پہنتا ہے، یا وہ چھٹی پر جاتا ہے، یا پھر کوئی معذور یا بیوہ حکومت سے وظیفہ پاتے ہیں تو بلا شبہ حضرت عمر فاروقؓ کی عظمت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔

تقسیم ہند کے دوران لاہور کے مسلمانوں نے ایک مرتبہ انگریزوں کو دھمکی دی کہ 'اگر ہم گھروں سے نکل پڑے تو تمہیں چنگیز خان یاد آ جائے گا' ۔۔ اس پر جواھر لال نہرو نے کہا کہ 'افسوس یہ مسلمان بھول گئے کہ ان کی تاریخ میں کوئی عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) بھی تھا'...
اور واقعی آج ہم یہ بھولے ہوئے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا کہاگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمربن خطاب ہی ہوتا۔




Read and download The Book Al farooq
written by Allama shibli nomani on the life of Hazrat Umer Farooq(RA)
The second khalifa of Islam


Tags:
original alexander the great. Hazrat umer farooq
اصل فاتح اعظم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یا الکزنڈر ؟
The Alexander of Islam
Muslim alexander
Alexander the Great، Asal sikandar e azam kon??Hazrat Umar - The Alexander of Islam
Asal sikandar e azam

1 comments:

  1. Great article. Thanks for sharing this precious information

    ReplyDelete