29 جون 2002ءسے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے والے مقدمے کا فیصلہ بالآخر سپریم کورٹ نے بھی سنا دیا جس میں مقدمے کی مرکزی کردار مختاراں مائی کے تمام دعوﺅں کو جھوٹا قرار دے دیا گیا ہے اور ایک کے سوا تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔ اس کیس کی حقیقت کیا ہے؟ مختاراں مائی کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا تھا اہل علاقہ کیا کہتے ہیں اور جائے وقوعہ کیا ہے؟
یہ تمام حالات جاننے کے لئے راقم الحروف نے مظفر گڑھ کے موضع میر والا کا خصوصی دورہ کیا اور ملزمان کے اہل خانہ، اہل علاقہ سے بات چیت کی اور مختاراں مائی کے مراکز کا دورہ کیا۔ دورے میں یہ بات بالکل کھل کر سامنے آ گئی کہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے بالکل صحیح ہیں سوائے عبدالخالق کی عمر قید کے اور یہ کہ مختاراں مائی کے تمام دعوے مکمل جھوٹے ہیں۔ مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا اور نہ ہی سرے سے کوئی پنچایت بیٹھی تھی۔ ساری جھوٹی کہانی میں مرکزی کردار عبدالرزاق نامی اس مولوی کا ہے جس نے مختاراں مائی کا نکاح پہلے عبدالخالق نامی اس نوجوان سے پڑھایا تھا جس کی بہن سلمہ کے ساتھ مختاراں کے بھائی عبدالشکور عرف شکورے نے زیادتی کی۔ اسے وہاں کے لوگوں جن میں عبدالخالق بھی شامل تھا نے پکڑ لیا تھا۔ اس کے بعد عبدالخالق کا خاندان تھانے پہنچا اور مختاراں کے بھائی گرفتار ہو گئے جس کے بعد صلح اور راضی نامے کیلئے مختاراں کا نکاح باہمی مشاورت سے عبدالخالق سے کیا گیا۔ اس فیصلے میں دونوں خاندانوں کے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ 10 ہزار روپے کی ادائیگی اور پھر راضی نامے کے بعد مختاراں کے بھائی رہا ہو گئے تو ان کی نیت خراب ہو گئی اور پھر معاملہ ختم کرنے کیلئے کوششیں شروع ہو گئیں۔ اسی دوران 22 جون کو معمولی جھگڑا ہوا اور پھر مولوی عبدالرزاق نے جو مختاراں مائی کا قریبی رشتہ دار بھی ہے ،ایک ہفتہ بعد 29 جون کو خطبہ جمعہ کے دوران لوگوں کو کہا کہ عبدالخالق نے اپنے ماموں کے ساتھ مل کر مختاراں سے جبراً زیادتی کی ہے کیونکہ دونوں کے گھر پاس پاس ہیں۔ اس کے بعد مولوی عبدالرزاق نے مقامی صحافی مرید عباس کو لایا اور پھر اس معاملے کو آگے لے جانے کے لئے مختاراں کے باپ اور خاندان کو راضی کر کے خبر چلا دی اور انہیں ساتھ لے کر تھانے پہنچ گیا۔ خبر چھپتے ہی معاملہ مقامی سطح سے نکل کر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پہنچ گیا اور ساری صورتحال بدل گئی اور پھر پاکستان اور اسلام دشمن این جی اوز کو خوب ہتھیار ہاتھ آ گیا اور پھر دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی۔ سارے ڈرامے کو آگے بڑھانے کے لئے مختاراں نے کپڑے بھی پھاڑے۔ زیادتی کے الزام کے 9 دن بعد مختاراں کے جسم کے میڈیکل ٹیسٹ اور کپڑوں کے میڈیکل معائنے کے بعد جو رپورٹ تیار ہوئی اس میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ اس سے ایک شخص نے زیادتی کی ہے اور ممکن ہے کہ وہ عبدالخالق ہو کیونکہ زیادتی کا سارا ڈرامہ اسی کے گھر میں رچایا گیا تھا اور اسی بناءپر وہی مجرم بنا اور عمر قید سزا بھی دی گئی۔ 10 سال کے عرصے کے بعد بالآخر مختاراں جھوٹی اور ملزمان سچے ثابت ہو گئے جس سے پاکستان دشمن این جی اوز اور حلقے اب شدید پریشانی اور مشکلات سے دوچار ہیں اور اب اس مسئلے کو آگے لے جانے کے لئے بے تاب بھی ہیں۔
مستوئی خاندان کے ”وڈیرے اور جاگیردار“ بھوکے، ننگے نکلے
مختاراں مائی سمیت اس کے تمام کرتا دھرتا اور ملکی و بین الاقوامی میڈیا جس مستوئی قبیلے کو انتہائی طاقتور، بااثر اور ظالم و جابر شہرت دیئے بیٹھا ہے، کی حالت زار یہ ہے کہ اس قبیلے کے تقریباً سبھی خصوصاً گرفتار شدگان کے خاندان مٹی کے گھروندوں پر رہتے ہیں۔ ان کے گھروں کے باہر دروازے تک نہیں۔ ہر چیز مٹی سے بنی ہوئی ہے۔ گھروں میں کھانے پینے کا سامان دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ان کے بچے سارا دن گندے کپڑے پہنے آوارہ مٹی اور دھول میں کھیلتے رہتے ہیں کیونکہ یہ بچوں کو سکول پڑھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ بچے تھوڑے بڑے ہو جائیں تو وہ محنت مزدوری میں لگ جاتے ہیں ان لوگوں کے پاس اپنی زمینیں بھی نہیں سوائے فیض احمد جتنے سرپنچ کہا جاتا ہے کوئی بھی خاندان 3 کنال سے زیادہ زمین کا مالک نہیں۔
”ایسے لوگوں کو نہ آنے دیا کرو“،مختاراں کے سیکرٹری کی پولیس کو ہدایت
پاک میڈیا اپ ڈیٹس ڈاٹ کام کی ٹیم جب میروالا کے سارے علاقے کا دورہ کرتی ہوئی آخر میں مختاراں مائی کے کمپلیکس پہنچی اور مختاراں سے ملاقات کیلئے خواہش ظاہر کی توپولیس نے اندراج کے بعد اندر بھیج دیا۔ دفتر میں مختاراں سے پہلے اس کا سیکرٹری نعیم ملک آیا تو وہ مکمل داڑھی اور مکمل باشرع لوگوں کو پہلی مرتبہ اپنے پاس دیکھ کر ٹھٹھک گیا اور فوراً سمجھ گیا کہ یہ لوگ ان کے مطلب کے نہیں ہیں جس کے بعد اس نے 4 دن کے بعد ملاقات کا ”وقت“ دے دیا اور پھر جونہی ٹیم باہر آئی تو آہستہ آواز سے پولیس کو کہنے لگا کہ ایسے لوگوں کو نہ آنے دیا کرو۔ اس کے بعد جب تک پاک میڈیا اپ ڈیٹس ڈاٹ کام کی ٹیم وہاں سے نکل نہیں گئی وہاں کا ماحول سناٹے کا شکار رہا۔
میڈیا سے ڈرے اور سہمے مستوئی
مختار مائی کیس کے بعد یہاں میڈیا کی ملکی اور بین الاقوامی ٹیموں نے 10 سال سے یلغار کررکھی ہے لیکن مستوئی خاندان ان ٹیموں سے شدید خوفزدہ ہے کیونکہ سبھی لوگ ان کے خلاف بیان دیتے اور رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ”پاک میڈیا اپ ڈیٹس ڈاٹ کام “ کی ٹیم کے سامنے بھی مستوئی یہی شکایت کرتے نظر آئے کہ یہ لوگ ہم سے کچھ پوچھ کر جاتے ہیں اور ہر بات ہمارے خلاف چھاپتے چلاتے ہیں۔
پاکستان بدنام کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے: قومی رہنما
مختاارں مائی کیس میں این جی اوز نے انتہائی شرمناک کردار ادا کیا۔ عدالتی فیصلوں میں امریکہ کی مداخلت سے ملک کی بدنامی ہو رہی۔ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں شخصیات پاکستان کے اسلامی تشخص کو برباد کرنے کے لئے امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان کے نامور مذہبی، سیاسی و عدلیہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے کیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہاکہ مختاراں مائی کے مسئلہ پر این جی اوز کا واویلا معنی خیز ہے ان لوگوں کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ عدلیہ نے تمام شواہد اور شہادتوں کے بعد فیصلہ سنایا ہے تو وہ اب کیوں اعتراض کر رہی ہیں۔ جمعیت علماءاسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مختاراں مائی کیس من گھڑت ہے اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے انسانیت کی تذلیل کی انہوں نے کہا کہ جہاں انسانی حقوق کی پنچایتیں ہوتی ہیں وہاں ان این جی اوز کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ عافیہ صدیقی کے معاملے پر ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ پاک میڈیا اپ ڈیٹس ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے اہل سنت و الجماعت کے رہنما مولانا احمد لدھیانوی نے کہا کہ پورا کیس ایک فراڈ ہے۔ جرم کے مطابق سزا مختاراں مائی کو ملنی چاہئے۔ یہ این جی اوز امریکہ کی گود میں بیٹھ کر ملک پاکستان اور عدالتوں کے خلاف پراپیگنڈا کر رہی ہیں امریکی مداخلت کے نقصان پہلے ہی قوم بھگت رہی ہے۔ جماعة الدعوة کے مرکزی رہنما حافظ سیف اللہ منصور نے کہا کہ طویل مقدمے کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے رچایا گیا تھا اب فوری طور پرحکومت اور عدلیہ ان لوگوں کے خلاف سخت نوٹس لے۔ پاکستان کی عزت اچھالنے اور ملک کو بدنام کرنے والے سخت ترین سزا کے مستحق ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر ایڈووکیٹ لطیف سرا نے ہا کہ مختاراں مائی کا کیس پوری دنیا کے سامنے ہے۔ 10 سال بعد بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ مظاہرے صرف پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے بدنام کرنے کی سازش ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے اور مغربی آقاﺅں کو خوش کرنے کیلئے ہے۔ انہوں نے کہ کہ نام نہاد انسانی حقوق اور دیگر این جی اوز امریکہ کوخوش کرنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو ختم کرنے کے لئے اس کیس کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں۔
مختاراں ٹی وی پروگرام میں سچ سامنے آتے ہی بھاگ کھڑی ہوئی
مختاراں مائی کے 21اپریل کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تو اسی شام معروف صحافی مبشر لقمان نے دنیا ٹی وی پر پروگرام میں اس کو موضوعِ بحث بنایا۔ اس پروگرام میں میاں غفار نامی صحافی نے جب مختاراں مائی کے جھوٹے واقعہ کا پول کھولنا شروع کیا تو مختاراں نے چند جملوں کے بعد ہی پروگرام چھوڑ دیا اور فوری طور پر مائیک کھول دیئے اور پروگرام سے بھاگ نکلی۔ یہ پروگرام انٹرنیٹ پر اب بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک محض نام کی غلطی سے پکڑا گیا، ایک جان بچانے بھاگا اور ڈوب کرمر گیا
مختاراں مائی کیس میں جو لوگ جیلوں میں بند ہیں ان میں سے ایک قیدی فیاض احمد ولد کریم بخش بھی ہے جو بیٹ رامپور کا رہنے والا ہے۔ اس کی گرفتاری میر والا کے رہائشی اس نام اور اس ولدیت کے ایک اور شخص کے بدلے ہوئی وہ شخص آج تک گرفتار نہیں ہوا جبکہ اس کی جگہ دوسرا بے گناہ 10 سال سے جیل میں ہے۔ گرفتاریوں کے ابتدائی ایام میں جب پولیس نے اندھے چھاپے مارے تھے تو لوگ جانیں بچانے کے لئے بھاگے اس دوران ایک نوجوان شفیق ولد حضور بخش دریائے سندھ میں جان بچانے کے لئے کود گیا تھا جو وہیں ڈوب کر مر گیا تھا۔
مختاراں مائی کیس کے بعد علاقے کی 2 مساجد کھنڈر بن گئیں
میر والا، مظفر گڑھ (نامہ نگارخصوصی) مظفر گڑھ کے موضع میر والا میں مختاراں مائی کیس کے بعد علاقے کی 2 مساجد کھنڈر بن چکی ہیں کیونکہ ان کے امام اور متولی اجتماعی زیادتی کے الزام میں 10سال سے جیلوں میں ہیں جس کے بعد اب ان مساجد میں نہ تو اذان ہوتی ہے اور نہ کوئی نماز۔ ان مساجد کا تمام تر نظام تلپٹ ہو چکا ہے اور اب یہ مساجد مکمل طور پر انہدام کے قریب پہنچ گئی ہیں۔
مختاراں کا اخلاقی کردار واقعہ سے پہلے اوربعد میں بھی مشکوک رہا
پاکستان کو دنیا بھر میں رسوا اور بدنام کروانے والی خاتون مختاراں مائی کا کردار اور اخلاقی مقام اجتماعی زیادتی کے نام نہاد واقعہ سے بہت پہلے ہی خراب تھا اور علاقے میں اسے اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اسے پہلے شوہر سے بھی طلاق ملی تھی اور وہ اب اپنے ماں باپ کے گھر میں رہ رہی تھی۔ اس کے پہلے شوہر کو بھی اس کے کردار پر ہی شک تھا اور بالآخر اس سے تنگ آ کر اس نے اسے طلاق دے دی تھی اس کے بعد اس کا نکاح اس کے بھائی کے جرم کے بعد صلح کیلئے پڑوسی نوجوان عبدالخالق سے پڑھایا گیا لیکن وہیں سے ایک نیا ڈرامہ شروع ہو گیا اس کے کردار کے حوالے سے شکوک و شبہات کو اس بات سے بہت زیادہ تقویت ملتی ہے کہ جب 2002ءمیں اس نے یہ اجتماعی زیادتی کا ڈھونگ رچا کر عالمی شہرت حاصل کی تو اس کی سکیورٹی پر پولیس اہلکار تعینات ہوئے تو اس نے انہی میں سے ایک پولیس اہلکار ناصر عباس قبولہ آف ملتان سے خفیہ تعلقات قائم کر لئے جو تقریباً 2 برس چلتے رہے۔ اس کا اعتراف اس نے خود بھی میڈیا پر کیا ہے اور پھر 15 مارچ 2009ءکو اس نے اس کانسٹیبل سے جو پہلے ہی شادی شدہ اور 5 بچوں کا باپ تھا سے بیاہ رچا لیا۔ علاقے میں مشہور ہے کہ یہ شادی بھی ”مجبوراً“ کی گئی۔
ایک خاتون جس کے 5بھائی اور بیٹا جیل میں ہیں
میر والا میں مستوئی خاندان کی خاتون جو مرکزی ملزم عبدالخالق کی والدہ ہیں سب سے بدقسمت خاتون ہیں اس خاتون کے 5سگے بھائی اور بیٹا 10 سال سے جیل میں ہیں ان سب پر اجتماعی زیادتی کا الزام ہے کہ ان سب نے مل کر بدکاری کی تھی۔
جون 2009ءکی خبر، مختاراں مائی بجلی چور نکلی، شرابی بھائی کا واپڈا ٹیم پر تشدد
جون 2009ءکو پاکستان کے ایک قومی روزنامہ ایکسپریس نے خبر شائع کی کہ انسانی حقوق کی علمبردار مختاراں مائی کی بجلی چوری پکڑی گئی۔ واپڈا کی چھاپہ مار ٹیم پر مختاراں مائی کے بھائی اور اس کے ساتھیوں نے تشدد کیا اور میٹر و تار چھین لئے۔ تفصیلات کے مطابق واپڈا سب ڈویژن جتوئی کی ٹیم نے لائن سپرنٹنڈنٹ مہر مسعود ایاز کی سربراہی میں میر والا میں مختاراں مائی کے گھر پر چھاپہ مارا تو مختاراں مائی ویمن ویلفیئر آرگنائزیشن کے دفتر، ڈیری فارم، گرلز سکول اور رہائش گاہ پر مین لائن سے ڈائریکٹ تار لگا کر بجلی چوری کی جا رہی تھی۔ ٹیم نے سینکڑوں میٹر تار اور بند میٹر قبضے میں لے لیا اور اس دوران اطلاع پر شراب کے نشے میں دھت مختاراں مائی کا بھائی حضور بخش ساتھیوں کے ہمراہ آ گیا اور واپڈا ٹیم پر تشدد کر کے تار اوربند میٹر چھین لئے اور اہلکاروں کو دھکے دے کر نکال دیا۔ ایس ڈی او اصغر خان لنگاہ اور ایل ایس مسعود احمد نے بتایا کہ کافی عرصے سے بجلی چوری کی جا رہی تھی ایکسین محمد ایوب نے بتایا کہ پولیس تھانہ جتوئی کو اندراج مقدمہ کی درخواست دے دی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال بھی مختاراں مائی کا منی گرڈ اسٹیشن پکڑا گیا تھا لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
مختاراں مائی امریکہ اور یورپ کی محبوب ترین شخصیت رہی
مختاراں مائی اول روز سے پاکستان کے لئے بدنامی کا باعث رہی تو دوسری طرف اسے مغربی دنیا اور امریکہ میں بے انتہا پذیرائی حاصل رہی۔ کینیڈا نے شہریت کی پیش کش کی۔ امریکہ کے اعلیٰ ترین عہدیدار بشمول ہیلری کلنٹن، کانگریس ممبران اسے خوش آمدید کہتے رہے۔وہ فرانس‘ ہالینڈ ‘ کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک کی آنکھوں کا تارا رہی۔ اس پر یورپ میں کئی کتابیں لکھی گئیں اور بے تحاشہ پیسہ دیا گیا اور اسے اس پر آمادہ رکھا گیا کہ وہ پاکستان میں رہ کر کام کرے جہاں اسے ہر طرح کا تعاون ومدد حاصل رہے گی امریکہ میں مقیم ایک صحافی کا کہنا ہے کہ امریکہ میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانون سازوں میں مختاراں مائی بے حد مقبول ہیں۔مختاراں مائی اور اسکے ساتھ ہونے والی زیادتی کو امریکہ میں متعارف کروانے والوں میں امریکہ کے کچھ پاکستانی نڑاد ڈاکٹر اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں جن میں ڈاکٹر آمنہ بٹر، ڈاکٹر ظفراقبال اور اعجاز سید آگے آگے تھے۔ ان لوگوں نے’ایشین امریکنز اگسینسٹ ابیوز آف ہیومن رائٹس‘ نام کی تنظیم قائم کی تھی جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے مختاراں مائی کو امریکہ آنے کی دعوت دی تھی۔ ’نیویارک ٹائمز‘ کے معروف کالم نگار نکولس کرسٹوف تھے جنہوں نے نہ صرف مختاراں مائی کا کیس اپنے اخبار کے ذریعے دنیا بھر میں نیویارک ٹائمز کے پڑھنے والوں کے سامنے بیان کیا بلکہ نیویارک ٹائمز کے لاتعداد پڑھنے والوں نے مختاراں مائی کی حمایت کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق کے لیے پر عزم جدوجہد کے لیے رقوم بھی بھیجی تھیں۔ نکولس کرسٹوف نے مختار مائی کے گاوں کا دورہ بھی کیا تھا اور پہلی بار انکے گاوں میں مختار مائی کا انٹرویو بھی دیا تھا۔ مختاراں مائی کے امریکی دوست اور نکلوس کرسٹوف جیسے صحافیوں نے بھی خوب کام دکھایا۔ اسے مغرب دنیا نے بے شمار ایوارڈ بھی دیئے۔
فرزانہ باری سمیت کئی این جی اوز میاں غفار کے پیچھے پڑ گئیں
مختاراں مائی مقدمہ کا پول کھولنے پر فرزانہ باری پاکستان دشمن این جی اوز صحافی میاں غفار کے پیچھے پڑ گئیں۔ فرزانہ باری کافی عرصہ سے میاں غفار کا تعاقب کر رہی تھی اور اب دنیا ٹی وی پر پروگرام نشر ہونے کے بعد اس نے میاں غفار کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا اعلان کیا ہے۔
مختاراں مائی فیصلہ، محب وطن حلقے اب اپنا کردار ادا کریں، حافظ مسعود
مختاراں مائی مقدمہ کا سپریم کورٹ سے اور ساری داستان جھوٹی ثابت ہونے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ہیومن رائٹس فار جسٹس اینڈ پیس کے سربراہ حافظ محمد محمد مسعود نے کہا کہ اب ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ہمارا واقعہ مکمل جھوٹا تھا اسے غیر ملکی پاکستان دشمن تنظیموں نے اچھالا اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا۔ ان لوگوں نے ہی مختاراں مائی کو ساری دنیا میں پذیرائی دی ہر جگہ اسے خوش آمدید کہا اور بے تحاشہ پیسہ دیا جس کے بعد اب مظفر گڑھ غیر ملکی این جی اوز کا گڑھ بن گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ سے پہلے یہاں ایک بھی این جی اوز نہیں تھیں اور اب سینکڑوں متحرک ہیں۔ یہ سب لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب محب وطن حلقوں، جماعتوں اور عوام کو آگے آنا ہو گا مظلوم خاندانوں کی مدد کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا بھی پہلا فرض بنتا ہے کہ وہ مختاراں مائی کیس کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے والے تمام لوگوں اور این جی اوز کے خلاف سخت کارروائی کرے اور اس مقدمے کے حوالے سے اصل حقیقت زیادہ سے زیادہ بہتر طور پر ساری دنیا کے سامنے لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے ذریعے بھی مظلوم خاندانوں کی مدد کرنی چاہئے اور پاکستان کے وقار کا دفاع کرنا چاہئے۔
مستوئی خاندان کے بچے مختاراں کے سکول نہیں جا سکتے
مختاراں مائی نے ملک اور بیرون ملک سے ملنے والے اربوں کے فنڈز کو حلال کرنے کیلئے کئی ادارے کھول رکھے ہیں جن میں 2 سکول بھی ہیں، ان سکولوں میں دور دراز سے تو بچے آ کر پڑھتے ہیں لیکن بدقسمت خاندان مستوئی کے بچے یہاں نہیں پڑھ سکتے کیونکہ وہ سارے ہی مجرم ہیں اور عتاب کا شکار ہیں ان میں سے کسی کو یہاں داخلہ نہیں ملتا۔
سرخ مرچ بھگو کر کھانا کھاتے خاندان
مختاراں مائی کیس میں مرکزی خاندان عبدالخالق کا ہے جو مختاراں کے گاﺅں میروالا کے قریب ترین بستی ہے پاک میڈیا اپ ڈیٹس ڈاٹ کام کی ٹیم جب ان کے گھر پہنچی تو نصف درجن بچے اور دیگر خاتون پھٹی ٹوٹی چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ جب ان کا کھانا دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ سبھی لوگ ایک باﺅل میں سرخ مرچیں بھگو اور کوٹ کر روٹی کے ساتھ کھا رہے ہیں۔
میروالا میں مختار مائی کیس میں عتاب کا مرکزی شکار بننے والا عبدالخالق کا گھرانہ ہے ان کے گھر میں آج بھی بجلی نہیں۔ ان کی وجہ سے اس کے قریب واقع مزید 2گھروں کو بجلی نہیں مل سکی۔ کنکشن بارے درخواست مختاراں مائی کے کہنے پر درخواست مسترد کر دی جاتی ہے یہ خاندان اس قدر غریب ہے کہ ان کے پاس موبائل فون تک رکھنے کی سکت نہیں ان میں سے کسی کے پاس موبائل فون نہیں ہے۔
پاک میڈیا اپ ڈیٹس ڈاٹ کام کی ٹیم جب مختاراں مائی کیس کی حقیقت جاننے مستوئی خاندان کے گھروں میں پہنچی تو تقریباً سبھی گرفتار شدگان کے ورثاءٹیم کو دیکھ کر حالات بتاتے ہوئے روتے دھوتے اور آنسو بہاتے رہے خاص طور پر عبدالخالق کی ماں کے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔
مختاراں مائی کے علاقہ میر والا مظفر گڑھ کا منظر عجیب ہے جہاں سے مختاراں مائی کا کمپلیکس شروع ہو تاہے وہاں سے آگے دولت کی ریل پیل، اعلیٰ تعمیرات اور جدید ترین گاڑیاں ہیں تو دوسری طرف مستوئی خاندان کے مٹی کے بوسیدہ گھروندے ہیں جہاں ہر طرف گندگی میں لتھڑے، پھٹے پرانے کپڑے پہنے، ننگے پاﺅں چلتے پھرتے معصوم بچے دکھائی دیتے ہیں۔
مختاراں مائی مقدمہ کا فیصلہ، پاکستان دشمنوں کیخلاف سخت کارروائی کا تقاضا کرتا ہے
بالآخر21اپریل کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک کی تاریخ میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے اور پاکستان کی دنیا بھر میں سب سے زیادہ بدنامی کا باعث بننے والے مقدمہ کا فیصلہ سنا دیا، جس میں 2005ءکے ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا گیا ہے جس میں ایک کے سوا تمام ملزمان کو باعزت رہا کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ مختاراں مائی اور اس کے ملک کے نامور ترین وکلاءکے کئی پینل بھی وہ الزام ثابت نہیں کر سکے جو ملزمان پر لگایا گیا تھا۔ وہ 22جون 2002ءکی رات تھی جب مختاراں مائی کے بقول اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن حیران کن طور پر وہ 29جون کو تھانے پہنچی اور پھر 30جون کو اس کا میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔ طبی ماہرین کے مطابق اتنے دن گزرنے کے بعد میڈیکل رپورٹ درست آ ہی نہیں سکتی تھی، لیکن رپورٹ پھر بھی ” مطلوبہ“ حساب سے آ گئی لیکن اس میں یہ ”سقم“ رہ گیا کہ اس میں صرف ایک شخص کی زیادتی پکڑی گئی بلکہ مختاراں کا دعویٰ چار کا تھا۔ مقدمہ شروع ہوا، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے وہ آٹھ افراد جو مکمل بے گناہ تھے اور ان کا نام ایف آئی آر تک میں نہیں تھا کو رہا کرنے کا حکم دیا لیکن وہ رہا نہ ہو سکے۔ مقدمہ آگے بڑھتا گیا اور ساری دنیا میں خصوصاً پاکستان دشمنوں میں مختارا ں مائی کو خوب پذیرائی ملتی رہی۔ مجبوراً پاکستان نے 2اگست کو فاطمہ جناح گولڈ میڈل دیا اور 5لاکھ روپے کا تعاون پیش کیا۔ 2نومبر کو امریکی گلیمر میگزین نے مختاراں کو ”سال کی خاتون“ کا اعزاز دیا۔ 12جنوری 2006ءکو فرانس میں اس کے متعلق کتاب شائع ہوئی جس کی بے تحاشا تشہیر کی گئی اور کروڑوں ڈالر کمائے گئے۔ اس کا ترجمہ جرمن زبان میں بھی ہوا۔ 16جنوری 2006ءکو مختاراں پیرس پہنچ گئی جہاں اس کا استقبال فرانس کے وزیر خارجہ فلپ دوستے بلینزی نے کیا۔ 2مئی 2006ءکو مختاراں نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز نیویارک میں تقریر کی۔ اگلے رورز اس کا استقبال اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل شاشی تھارو نے کیا اور اس کی خوب تعریف کی۔ 31اکتوبر 2006ءکو امریکہ میں اس سے متعلق ایک اور کتاب شائع ہوئی۔ مارچ 2007ءمیں کونسل آف یورپ سے اس نے 2006ءکا نارتھ ساﺅتھ پرائز”جیتا“۔
اکتوبر 2010ءمیں کینیڈا کی ایک یونیورسٹی نے اسے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دیدی۔ اس سے قبل کینیڈا نے اسے شہریت دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ اسے مغربی دنیا کے میڈیا نے دن رات اچھالا، اس دوران مظفر گڑھ پر این جی اوز کی یلغار رہی اور اب یہاں 200سے زائد این جی اوز مصروف عمل ہیں۔ اس ساری داستان کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بتایا جائے کہ مختاراں کو آگے لانے والے کون تھے؟ ان سب کے مقاصد کیا تھے؟ ان لوگوں نے پاکستان میں بھی نام نہاد روشن خیال لوگوں کو ساتھ ملایا اور خوب طوفان بدتمیزی مچایا۔ یہ لوگ کل تک کنگلے تھے آج کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ فرزانہ باری کل تک کچھ نہ تھی آج کروڑوں کے گھر کی مالک اور لیڈر ہے۔ یہی حال ان دوسرے لوگوں کا ہے، ان لوگوں نے پاکستان کی عزت و وقار سے خوب کھیل کھیلا اور دشمنوں کو خوب خوش کیا، اب یہ لوگ ایک بار پھر میدان میں ہیں اور عدلیہ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دباﺅ ڈلوا کر اپنی مرضی کا فیصلہ کروا لیں، اس سنگین صورتحال میں ہم پاکستان سے محبت کرنے اور پاکستان کو اپنی منزل مراد قرار دینے والے حلقوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اب آگے آئیں اور میدان خالی نہ چھوڑیں۔ ایسی صورتحال میں جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ سارا واقعہ جھوٹ تھا اور پاکستان کو بدنام کرنے کی بہت بڑی سازش تھی تو اب محب وطن حلقوں کے پیچھے رہ جانے کا کیا سوال ہے۔ اب پاکستان، پاکستانی عدلیہ اور مختاراں کے ظلم و دہشت گردی کا شکار ہونے والے غریب اور مظلوم مستوئی خاندان کی عزت و وقار کو بحال کرنے کا وقت اور موقع ہے۔ اس موقع کو کسی طور پر ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کے ہر شہری کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں جہاں جہاں جو جو کردار ادا کر سکتا ہے وہ لازماً ادا کرے۔ جو میڈیا کے ذریعے اس جھوٹ کو دنیا میں نمایاں کروا سکتا ہے وہ اپنا کردار ادا کرے جو عدلیہ یا انتظامیہ کے ذریعے یا عوامی حلقوں کے ذریعے یہ کام کر سکتا ہے وہ اپنا کام کرے۔ اگر چند درجن نام نہاد روشن خیال این جی اوز کے نمائندے پاکستان کو بدنام کرنے اور کفار کی خوشنودی و رضا اور بھاری فنڈ حاصل کرنے کیلئے میدان میں آ سکتے ہیں تو پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والے میدان سے کیوں دور رہیں۔ اب ہر شہری کو اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ایسے ناسور اور نامراد لوگ آئندہ کبھی ایسی ناپاک سازش میں کامیاب نہ ہو سکیں اور تاکہ پاکستان محفوظ و مامون رہے اور اس کے دشمن ذلیل و خوار رہیں۔
She should be hanged for destroying my country's image.... she does not worth more than a bloody cheap whore.... please paki media wake up.... Pak India (Aman ki Asha) is not gonna give u penny worth of benefit. but u should be highlighting such traitors. i wish if i ever listen a news that justice has been brought to those 17 innocent people who served 4 years in prison. This lying bitch got everything she never deserved but who is gonna listen to those 17 people. Do we have one single anchor who will not go after rating but raise voice for those helpless people.
ReplyDeleteThere must be a punishment for false accusition and our media must think before giving top priority to any issue specially when there is strong funding and pressure from foreigner media and NGO's is involved. Atleast there must be some preliminary investigation and True and Authentic Scientific fact finding procedures must be adopted. Investigations must proceed on Technology based evidences , authentic and trusted forensic evidences and the previous track record and characters of victims on both sides.
ReplyDelete