Test Footer 2

19 March 2012

انکار حدیث‌ پر مبنی ایک کھلے خط کا تعاقب




انکار حدیث پر مبنی ایک کھلا خط اور اس پر تبصرہ 

آج انکار حدیث کا سورج اپنے نصف النہار پر ہے جس کی تپش سے وہ سر چکرانے لگے ہیں جن پر توفیق الٰہی کا سایہ نہیں رہا۔ آئے روز حدیث ِ رسول کے خلاف انداز بدل بدل کر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انکار حدیث کی وجہ یا تو جہالت ہوتی ہے یا پھر بدباطنی۔ حدیث چونکہ قرآنِ کریم کی من مانی تاویل و تفسیر سے روکتی ہے اور ہر آدمی کو اپنی مرضی کا اسلام بنانے کی اجازت نہیں دیتی اس لیے اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے برگشتہ لوگ اس سے خار کھاتے ہیں۔ وہ اس سے جان چھڑانے کے لیے جھوٹ ، تلبیس اور دغا بازی سے بھرپور کام لیتے ہیں۔کچھ لوگ جو ویسے تو مخلص مسلمان ہوتے ہیں لیکن اپنی علمی بے مائیگی کی بنا پر منکرین حدیث کی فریبی چال کو سمجھ نہیں پاتے ، حدیث اور محدثین سے متنفر ہو جاتے ہیں۔اس کے علاوہ انکار حدیث کی کوئی تیسری وجہ نہیں۔

گزشتہ دنوں سندھ کے ایک صاحب عزیز اللہ بوہیو(ولیج خیر محمد بوہیو۔P.Oبراستہ نوشہرو فیروز ، سندھ)نے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں ، صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان ، چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے حدیث ِ رسول کو اسلام ، پیغمبر اسلام اور صحابہ کرام کی گستاخی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ چار صفحات کے اس خط میں بوہیو صاحب نے حدیث کے خلاف انہی اعتراضات کو جھاڑ پونجھ کر دوبارہ پیش کر دیا ہے، جنہیں صدیوں پہلے محدثین کرام دلائل کے زور سے ردّی کی ٹوکری میں پھینک چکے ہیں۔ حسنِ ظن کا تقاضا یہی ہے کہ ہم سمجھیں کہ بوہیو صاحب کو حقیقت کا علم نہیں تھا، ورنہ وہ ایسے نہ کرتے ، نیز وہ دلائل کو ملاحظہ کرکے ضرور اپنے موقف پر نظرثانی فرمائیں گے۔ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے خط پر ہماری گزارشات کو ٹھنڈے دل سے ملاحظہ فرمائیں ۔

یہ تحریر تفصیل کی متحمل نہیں لہٰذا پہلے ہم بوہیو صاحب کے تمہیدی کلمات نقل کریں گے پھر ایک ایک کر کے ان کے اعتراضات کو لفظ بہ لفظ نقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر دلائل کی روشنی میں مختصر تبصرہ کر تے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
بوہیو صاحب کا خط(تمہیدی کلمات)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ھٰذَا الْقُرْآنَ مَھْجُورًا (٣٠/٢٥)
بخدمت جناب چیف جسٹس صاحب سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد اور
چیف جسٹس حضرات صوبہ جاتی ہائی کورٹس ۔ کراچی ، لاہور ، پشاور ، کوئٹہ نیز صدر پاکستان و وزیراعظم پاکستان ، اسلام آباد ووزاء اعلیٰ صوبہ جات پاکستان واسپیکر صاحب قومی اسمبلی اسلام آباد اور چیئرمین سینٹ پاکستان اسلام آباد و
اسپیکر صاحبان صوبہ جاتی اسمبلیاں۔ کراچی ، لاہور ، پشاور ، کوئٹہ

فریاد
بخدمت جناب جج حضرات عدالت ہائے عالیہ پاکستان !
جناب اعلیٰ ! عرصہ دراز سے دشمنانِ اسلام ڈنمارک ، ناروے والے یا سلمان رشدی کے قلم سے جناب رسول اللہ سلام علیہ کی شانِ اقدس کے خلاف نہایت غلیظ قسم کی گستاخیاں کرتے آ رہے ہیں۔ ان کے ردّ میں امت ِ مسلمہ کے غیور لوگ بھی احتجاج کرتے رہتے ہیں لیکن ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کے علوم کی بھی چھان بین کریں کیونکہ دشموں کو ان کی گستاخیوں کا سارا مواد دین اسلام کے نام سے ایجاد کردہ علوم حدیث و فقہ سے ملا ہے جو کہ قرآن دشمن ، امامی گروہ کا ایجاد کیا ہوا ہے ، جن کے نہایت مختصر حوالہ جات بطور نمونہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ ایسے علوم کو مدارس دینیہ کے نصاب ِ تعلیم سے خارج کروا کے ان کی جگہ خالص قرآن سے استخراج جزئیات کی تعلیم امت والوں کو پڑھائی جائے۔نیز قرآن سے ملے ہوئے مسائل حیات نہ پڑھانے والے مدارس کی رجسٹریشن پر بندش عائد کی جائے۔۔۔اس کے بعد اعتراضات رقم ہیں۔


اعتراضات کا منصفانہ تجزیہ:
بوہیو صاحب نے احادیث نبویہ پر تقریباً 10 اعتراضات کیے ہیں۔ آئیے ان سب اعتراضات کا منصفانہ تجزیہ کرتے ہیں:
 
اعتراض نمبر 1 :
علم حدیث کا رسول علیہ السلام پر بہتان اور تبرا
1 آبادی سے دور کھجور کے باغ میں جونیہ نامی عورت لائی گئی تھی جسے رسول نے کہا کہ ہبی نفسک لی تو خود کو میرے حوالے کر دے تو اس عورت نے جواب میں کہا کہ وہل تہب الملکۃ نفسہا لسوقۃ ؟ یعنی کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو کسی بازاری شخص کے حوالے کر سکتی ہے؟(حوالہ کتاب بخاری ، کتاب الطلاق کے چوتھے نمبر والی حدیث) ہم اپنی طرف سے اس حدیث پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہے۔


تجزیہ : 

اس حدیث میں یقینا بوہیو صاحب کا اعتراض انہی الفاظ پر ہے جنہیں ہم نشان زدہ کر چکے ہیں۔ یہ اعتراض ترجمے کی غلطی سے پیدا ہوا ہے ۔ سُوقَۃ کا ترجمہ ''بازاری'' کرنا عربی زبان سے مطلق جہالت کا کرشمہ ہے۔ صحیح معنیٰ کے مطابق اس سے مراد وہ شخص ہے جو بادشاہ نہ ہو۔ عربی زبان کی معروف اور معتبر لغت ''لسان العرب''میںاس حدیث کا معنیٰ یوں مرقوم ہے :
فقال لہا : (( ھبی لی نفسک )) ، فقالت : ہل تھب الملکۃ نفسہا للسوقۃ ؟ السُوقۃ من الناس الرعیّۃ ومن دون الملک ۔
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا : تو اپنے نفس کو میرے لیے ہبہ کر دے۔ اس نے کہا: کیا کوئی شہزادی کسی غیربادشاہ کے لیے اپنے آپ کو ہبہ کر سکتی ہے؟ سُوقہ سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا شمار رعایا میں ہوتا ہو اور وہ جو بادشاہ نہ ہوں۔''
نیز جو غلطی بوہیو صاحب نے کی ہے ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
وکثیر من الناس یظنّون أنّ السُوقۃ أہل الأسواق ، والسُوقۃ من الناس من لم یکن ذا سلطان ۔ ''بہت سے لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ سُوقہ بازاری لوگوں کو کہا جاتا ہے حالانکہ لوگوں میں سے وہ افراد سُوقہ کہلاتے ہیں جن کے پاس بادشاہت نہیں ہوتی۔''
(لسان العرب لابن منظور : ١٠/١٦٦، طبع دار صادر بیروت)
لغت عرب کی ایک اور معروف کتاب ''تاج العروس ''میں ہے :
والسوقۃ بالضمّ خلاف الملک ، وہم الرعیّۃ التی تسوسہا الملک ۔
''سُوقہ کا لفظ بادشاہ کا متضاد ہے، یعنی وہ رعایا جن پر بادشاہ حکومت کرتے ہیں۔''
(تاج العروس لمرتضی الزبیدی : ٢٥/٤٧٩، طبع دار الہدایۃ)
بازاری شخص کے لیے عربی میں سُوقِیّ کا لفظ مستعمل ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں : وأمّا أہل السوق فالواحد منہم سُوقیّ ، قال ابن المنیر : ہذا من بقیّۃ ما فیہا من الجاہلیّۃ ، والسوقۃ عندہم من لیس بملک کائنا من کان ، فکأنّ استبعدت أن یتزوّج الملکۃ من لیس بملک ۔
''رہے بازاری لوگ تو ان میں سے واحد کو سُوقِی کہتے ہیں۔ابن منیر کا کہنا ہے کہ(یہ عورت نئی نئی مسلمان ہوئی تھی اور) یہ روش اس میں موجود جاہلیت کی باقی ماندہ باتوں میں سے ایک تھی۔ عربوں کے ہاں سُوقہ اس شخص کو کہا جاتا تھا جو بادشاہ نہ ہو ، چاہے وہ جو بھی ہو۔اس عورت نے بعید سمجھا کہ ایک شہزادی ایسے شخص سے شادی کرے جو بادشاہ نہیں۔''
(فتح الباری : ٩/٣٥٨، طبع دار المعرفۃ، بیروت)
اب بوہیو صاحب خود ہی اندازہ کر لیں کہ ان کا اعتراض علم حدیث پر ہے یا علم لغت سے اپنی ہی ناواقفیت پر؟ صدیوں پہلے عربی لغت دان ، محدثین کرام اور شارحین حدیث اس بات کی بخوبی وضاحت کر چکے ہیں لیکن آج بھی منکرین حدیث ان سب باتوں سے غافل انکار حدیث کی دھن میں مست ہیں۔
 

اعتراض نمبر 2 :
2 سمعت أنس بن مالک : جاء ت امرأۃ من الأنصار إلی النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فخلا بہا، فقال : واللّٰہ إن کنّ لأحبّ الناس إلیّ یعنی ایک انصاری عورت جناب رسول علیہ السلام کی خدمت میں آئی۔ آپ نے اس کے ساتھ خلوت کی ، اس کے بعد اس سے کہا کہ قسم اللہ کی کہ تم (انصاری) عورتیں سب لوگوں میں سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔(کتاب النکاح ، بخاری ، حدیث نمبر ٢١٨)اس حدیث پر بھی پڑھنے والے خود سوچیں، میں کوئی تبصرہ نہیں کر رہا۔
 

تجزیہ :
 اس حدیث میں شاید دو باتیں بوہیو صاحب کو قابل اعتراض معلوم ہوئی ہیں۔
1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے ساتھ علیحدگی اختیار کی۔ اس سلسلے میں دو باتیں ملحوظ رہنی ضروری ہیں : پہلی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عورت سے خلوت اور علیحدگی ایسی نہیں تھی جو اسلام کی نظر میں حرام ہے اور جس میں شیطان تیسرا فرد ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے تھے بلکہ اس عورت کے ساتھ ایک راستے میں کھڑے تھے جہاں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہے تھے۔ دوسری بات یہ کہ وہ ایک مجنونہ عورت تھی۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک کام ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ مجھ سے ملاقات کسی راستے میں کر لینا ۔یہ ملاقات ایک کھلے راستے میں ہوئی جہاں سے لوگوں کا گزر عام تھا ، یہی وجہ ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اس عورت سے کی گئی نبوی بات بیان سن لی اور پھر بیان کی۔یہاں خلوت سے مراد کسی بند مکان میں ملاقات ہوتی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو اس ملاقات کے احوال کیسے معلوم ہوتے؟ اگر یہی حدیث صحیح مسلم میں ملاحظہ کر لی جاتی تو سارے اشکالات ختم ہو جاتے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے :

إنّ امرأۃ کان فی عقلہا شیء ، فقالت : یا رسول اللّٰہ ! إنّ لی إلیک حاجۃ ، فقال : یا أمّ فلان ! انظری أیّ السکک شئت حتّی أقضی لک حاجتک ، فخلا معہا فی بعض الطرق ، حتّی فرغت من حاجتہا ۔
''ایک عورت کی عقل میں کچھ فتور تھا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام فلاں ! تم کسی بھی گلی کا انتخاب کر لینا تاکہ میں آپ کی مدد کر سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستے میں اسے ملے یہاں تک کہ وہ اپنے کام(کی تفصیلات بتانے)سے فارغ ہو گئی۔''(صحیح مسلم : ٢٣٢٦، طبع دارالسلام ، الریاض)
 
نیز یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ اس عورت کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی تھا۔
(صحیح بخاری : ٣٧٨٦، طبع دار السلام، الریاض)
اس حدیث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی تبرا نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت و پاکیزگی کی انتہا بیان کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجنونہ عورت سے بھی کسی الگ جگہ ملاقات نہیں کی بلکہ اسے لوگوں کے عام گزر والی گلی میں بلا کر اس کی بات سنی تاکہ کوئی شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت متواضع اور حلیم طبیعت کے مالک تھے ، آپ چھوٹے بڑے ہر ایک کی داد رسی کرتے تھے حتی کہ مجنونوں کی بھی، جیسا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں : وفیہ سعۃ حلمہ وتواضعہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وصبرہ علی قضاء حوائج الصغیر والکبیر ۔۔۔
''اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ حلیم اور متواضع تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ چھوٹے ، بڑے ہر ایک کی داد رسی کیا کرتے تھے۔''
(فتح الباری لابن حجر : ٩/٣٣٣، طبع دار المعرفۃ، بیروت)
اب بوہیو صاحب بتائیں کہ کیا یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پربہتان اور تبرا ہے ؟
2 رہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی کہ انصاری عورتیں مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب ہیں۔۔۔ تو اس میں کون سا اعتراض ہے ؟ اس سے بس انصاری عورتوں کی دوسری عورتوں پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ بات صرف انصاری عورتوں کے لیے نہ تھی بلکہ انصاری مرد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں دوسرے عام مَردوں سے افضل تھے۔ انصار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص محبت اور انس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أوصیکم بالأنصار ، فإنّہم کرشی وعیبتی ، وقد قضو الذی علیہم وبقی الذی لہم ، فاقبلوا من محسنہم وتجاوزوا عن مسیئہم ))
''میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں ، کیونکہ یہ میرے خاص لوگ اور میرے راز دان ہیں۔انہوں نے اپنے فرائض پورے کر لیے ہیں اور اب ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ تم ان کے نیک لوگوں کی بات قبول کرنا اور بُرے لوگوں سے درگزر کرنا۔''
(صحیح البخاری : ٣٧٩٩، صحیح مسلم : ٢٥١٠، طبع دار السلام، الریاض)
مزید تفصیلات کے لیے کتب حدیث میں انصار کی فضیلت و منقبت کے ابواب ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ایک موقع پر انصار کی عورتوں اور بچوں کو آتے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور تین مرتبہ فرمایا: (( اللّٰہمّ ! أنتم من أحبّ الناس إلیّ ، یعنی الأنصار))
''اللہ گواہ ہے کہ تم انصاری لوگ مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب ہو۔''
(صحیح البخاری : ٣٧٨٥، صحیح مسلم : ٢٥٠٨، طبع دار السلام، الریاض)
معلوم ہوا کہ اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں انصار کی عورتوں کا مقام و مرتبہ دوسری عورتوں سے بلند تھا۔اس سے کوئی اور مراد لینا کسی شخص کی اپنی ہی ذہنی پستی اور عقلی درماندگی کا ثبوت ہے۔
 

اعتراض نمبر 3 :
قرآن سے کچھ آیات گم ہو جانے کی حدیث
اس موجود قرآن میں سے رجم کی سزا ، یعنی زانی مرد اور زانیہ عورت کو سنگسار کر کے موت دینے والی آیت بھی گم ہو چکی ہے اور باپ دادوں سے رغبت نہ کرنا ، یہ کفر ہے۔یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی جو اب گم ہو گئی ہے۔(کتاب بخاری ، کتاب المحاربین ، باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت ، حدیث نمبر ١٧٣٠، حوالہ دوم : باب الرجم ، کتاب ابن ماجہ ، صفحہ ١٨٣، مطبع قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)دوسری حدیث : عن عائشۃ قالت: لقد نزلت آیۃ الرجم ورضاعۃ الکبیر عشرا، ولقد کان فی صحیفۃ تحت سریری، فلمّا مات رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وتشاغلنا بموتہ دخل داجن فأکلہا یعنی عائشہ سے روایت ہے کہ آیت رجم اور بڑی عمر والے کو دودھ پلانے کی آیت نازل ہوئی تھی جو میرے صحیفہ قرآن میں لکھی ہوئی تھی جو میرے سرھانے کے نیچے رہتا تھا، پھر جب رسول اللہ کی وفات ہوئی ، ہم اس میں مشغول ہو گئے تو گھریلو بکری داخل ہو کر وہ قرآن کھا گئی۔(کتاب ابن ماجہ ، باب رضاع الکبیر، صفحہ ١٣٩، مطبع قدیمی کتب خانہ ، مقابل آرام باغ کراچی)
 

تبصرہ :-
صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث کی محولہ بالا حدیث میں قرآنی آیات کی گم شدگی والی کوئی بات نہیں۔صحیح بخاری کی جس حدیث کا حوالہ بوہیو صاحب نے دیا ہے ، اس کا اصل متن مع ترجمہ پیش خدمت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنّ اللّٰہ بعث محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بالحقّ وأنزل علیہ الکتاب، فکان ممّا أنزل اللّٰہ آیۃ الرجم، فقرأناہا وعقلناہا ووعیناہا، رجم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ورجمنا بعدہ، فأخشی إن طال بالناس زمان أن یقول قائل : واللّٰہ ما نجد آیۃ الرجم فی کتاب اللّٰہ، فیضلّوا بترک فریضۃ أنزلہا اللّٰہ، والرجم فی کتاب اللّٰہ حقّ علی من زنی إذا أحصن من الرجال والنسائ، إذا قامت البیّنۃ أو کان الحبل أو الاعتراف، ثمّ إنّا کنّا نقرأ فیما نقرأ من کتاب اللّٰہ أن لّا ترغبوا عن آبائکم، فإنّہ کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم، أو إنّ کفرا بکم أن ترغبوا عن آبائکم ۔۔۔ ''بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے جو وحی آپ پر نازل کی تھی ، اس میں رجم والی آیت بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا اور یاد کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (شادی شدہ زانیوں کو)رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی ایسا کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اللہ کی قسم ! ہمیں کتاب اللہ میں رجم والی آیت نہیں ملی اور یوں وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں۔ کتاب اللہ میں شادی شدہ زانی مرد و عورت پر رجم ثابت ہے جب کوئی دلیل قائم ہو جائے یا (کنواری عورت) حاملہ ہو جائے یا زانی خود اعتراف کر لے۔ پھر ہم کتاب اللہ کے جس حصے کی قراء ت کیا کرتے تھے ، اس میں یہ قراء ت بھی کرتے تھے کہ تم اپنے آباء سے اعراض نہ کروکیونکہ اپنے آباء سے اعراض کفریہ کام ہے۔۔۔''
(صحیح بخاری : ٦٨٣٠، طبع دار السلام بالریاض)
اس حدیث میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ بتا رہے ہیں کہ پہلے ہم رجم اور آباء سے اعراض والی آیات کی بھی قراء ت کیا کرتے تھے لیکن بعد میں ان کی قراء ت منسوخ ہو گئی۔ اب ان کا حکم تو باقی ہے لیکن قرآنِ کریم میں ان کو تلاوت نہیں کیا جاتا۔ نسخ کی بحث میں علمائے کرام نے بالتفصیل یہ بات بیان کی ہے کہ قرآنِ کریم کی بعض آیات کی قراء ت منسوخ کر دی گئی تھی اور ان کا حکم باقی رکھا گیا تھا۔ انہی میں سے رجم اور آباء سے اعراض والی آیات ہیں۔ یہی بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے ثابت ہو رہی ہے کہ ان کی قراء ت تو اب نہیں لیکن یہ باتیں حق اور ثابت ہیں۔ تلاوت و قراء ت نہ کرنے کے باوجود صحابہ کرام رجم پر عمل کرتے رہے تھے۔کہاں قراء ت کا منسوخ ہونااور کہاں قرآنی آیات کی گمشدگی کا الزام دے کر حدیث ِ نبوی کے خلاف واویلا کرنا!
اب بوہیو صاحب سے سوال ہے کہ اس حدیث کے متن کے کس لفظ کا ترجمہ گم ہونا ہے؟حافظ ابن حجررحمہ اللہ صحیح بخاری کی اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ممّا نسخت تلاوتہ ۔ ''یہ آیات ان آیات میں سے ہیں جن کی تلاوت منسوخ کر دی گئی تھی۔''(فتح الباری لابن حجر : ١٢/١٤٩، طبع دار المعرفۃ ، بیروت)
رہی بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحیفے کو بکری کے کھا لینے کی تو اس سے آیات ِ قرآنیہ کے گم ہونے کا استدلال کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا قرآن نازل ہونے کے بعد سیدھا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحیفے میںآ کر بند ہو گیا تھا ؟بوہیو صاحب اللہ کے لیے سوچیں کہ قرآنِ کریم نزول کے بعد سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں محفوظ ہوا ، پھر صحابہ کرام] نے اسے سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کیا ، پھربہت سے کاتبین وحی نے اسے تحریری طور پر منضبط کیا۔ قرآنِ کریم کی حفاظت کے اس اسلوب سے کسی سنّی مسلمان کو ذرا برابر بھی اختلاف نہیں۔ یہ تو رافضیوں کا چلایا ہوا چکر ہے جس میں بوہیو صاحب پھنس گئے ہیں ، ورنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحیفے کے گم ہو جانے سے قرآنِ کریم کا گم ہو جانا کیسے کشید کیا جا سکتا ہے؟
 

اعتراض نمبر 4 :
جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے والے اصحاب کی کردارکشی کی حدیث
ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت رسول کے پیچھے (عورتوں کی صفوں میں) نماز پڑھا کرتی تھی تو بعض لوگ جان بوجھ کر پچھلی صف میںہٹ کر نماز میں شریک ہوتے تھے ، رکوع کے دوران بغلوں سے اس عورت کو جھانک کر دیکھتے تھے۔(جامع ترمذی ، جلد دوم ، ابواب التفسیر، سورۃ الحجر کی پہلی حدیث)


تبصرہ :-
1 محدثین کرام نے جہاں احادیث روایت کی ہیں ، وہاں ان کی صحت و ضعف کو پرکھنے کے ایسے پیمانے بھی مقرر کیے ہیں جن پر وہی روایات پوری اترتی ہیں جو فی الواقع صحیح ہوں۔محدثین کرام نے اس حوالے سے نہایت باریک بینی سے کام لیا ہے۔مسلمان تو ہر دور میں محدثین کرام کے اس کارنامے کے معترف رہے ہی ہیں، غیرمسلم بھی اہل اسلام کے اس فن کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے۔
صرف سچے ، دیانتدار اور بیدار مغز لوگوں کی بیان کی ہوئی روایات اصولِ محدثین کے مطابق صحیح قرار پاتی ہیں اور انہی پر مسلمان اپنے دین کی بنیاد رکھتے ہیں۔جس روایت کی سند میں کوئی راوی مذکورہ صفات میں سے کسی سے بھی عاری ہو یا سلسلہ سند میں انقطاع آ جائے تو اس کو قبول نہیں کیا جاتا۔محدثین کرام ہر ہر حدیث کی سند بیان کر کے بریئ الذمہ ہو چکے ہیں۔جب انہوں نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ ہمیں یہ روایت فلاں فلاں شخص کے ذریعے موصول ہوئی ہے اور پھر ان تمام لوگوں کے حالات بھی قلمبند کر دیے ہیں تو اب ہمارا فرض ہے کہ روایت ِ حدیث کے قابل لوگوں کی صرف وہ روایات قبول کریں جن کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو۔ تو آئیے اس حدیث کو اصولِ محدثین کے مطابق پرکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی صحابہ کرام سے یہ عمل ثابت ہے ؟
امام ترمذیرحمہ اللہ نے اس کی جو سند ذکر کی ہے ، اس میں ایک راوی عمرو بن مالک نُکری ہے۔ اس نے اپنے استاذ ابوالجوزاء سے کئی غلط روایات بیان کی ہیں، اس بارے میں امام ابن عدیرحمہ اللہ (٢٧٧۔٣٦٥ھ)کا بیان ملاحظہ فرمائیں ، وہ لکھتے ہیں :
یحدّث عنہ عمرو بن مالک النکری ۔۔۔ قدر عشرۃ أحادیث غیر محفوظۃ ۔ ''اس (ابوالجوزائ) سے عمرو بن مالک نکری نے ۔۔۔ دس کے لگ بھگ غیر محفوظ روایات بیان کی ہیں۔''
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٢/١٠٨، طبع دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
جب تک ان دس غیر محفوظ احادیث کی نشاندہی نہیں ہو جاتی ، تب تک عمرو بن مالک کی ابوالجوزاء سے بیان کی ہوئی تمام روایات ناقابل قبول ہوں گی۔
جس طرح قرآنِ کریم کے حوالے سے بعض شاذ قراء ات موجود ہیں اورمستشرقین ان پر اعتراضات کرتے ہیں ، لیکن مسلمانوں کے ہاں وہ اعتراضات کوئی حیثیت نہیں رکھتے، اسی طرح احادیث میں بھی کمزور روایات موجود ہیں جن کو بنیاد بنا کر حدیث یا محدثین کرام پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسلمان اپنے دین کی بنیاد کمزور روایات پر نہیں بلکہ اصولِ محدثین کے مطابق صحیح قرار پانے والی روایات پر رکھتے ہیں۔
2 یاد رہے کہ یہ روایت تو ثابت ہی نہیں ہو سکی، البتہ اس جیسے واقعے سے صحابہ کرام کی کردارکشی نہیں ہوتی۔ انسان ہونے کے ناطے صحابہ کرام سے اس طرح کی کوئی لغزش ہو جانا کوئی بعید بات نہیں۔ کیا صحابہ کرام سے زنا جیسے گناہ سرزد نہیں ہوئے تھے ؟ قرآنِ کریم میں زنا ، چوری ، شراب نوشی اور قتل وغیرہ کے جو احکام نازل ہوئے ، ان کاسب سے پہلے نفاذ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام پر ہی کیا تھا۔ کیا قرآنِ کریم نے صحابہ کرام کی کردارکشی کی ہے ؟ بوہیو صاحب کا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ عورتوں کو چھپ کر دیکھنا توزنا کرنے سے یقینی طور پر چھوٹا گناہ ہے۔ اس سے کردارکشی کیسے ہو گئی ؟
خود قرآنِ کریم نے بیان کر دیا ہے کہ جو شخص صدقِ دل سے توبہ کر لیتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے تمام کبیرہ گناہ پل بھر میں معاف فرما دیتا ہے۔ مسلمانوں کا ایمان و اعتقاد ہے کہ اگرچہ صحابہ کرام سے بھی کبیرہ گناہ سرزد ہوئے تھے لیکن ان کی نیکیاں ان کی برائیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھیں ، نیز ان سے جب گناہ ہوتا تھا ، وہ ماہی ئ بے آب کی طرح تڑپنے اور اللہ سے معافی مانگنے لگتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو معاف فرما دیا ہے اور ان کو رضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ کا سر ٹیفیکٹ عطا فرما دیا ہے۔

 
اعتراض نمبر 5 :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد پر جانے والے اصحاب پر طنز اور تبرا والی حدیث
عن جابر قال : نہی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أن یطرق الرجل أہلہ لیلا، یتخونہم، أو یلتمس عثراتہم یعنی منع کیا ہے رسول نے رات کو دیر سے گھر والوں کے پاس آنے سے (اس وجہ سے کہ) کوئی ان کے ساتھ خیانت نہ کرتا ہو یا ان کی پردہ والیوں کی جستجو میں نہ ہو۔(کتاب صحیح مسلم ، جلد ثانی ، کتاب الجہاد والسیر، باب کراہیۃ الطروق ، مطبع قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی) اس قسم کی حدیث پر بھی پڑھنے والے خود سوچیں ، میں اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کر رہا۔
 
تبصرہ : 
جناب بوہیو صاحب ! اللہ کے لیے حدیث ِ رسول کی دشمنی میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں یا اگر آپ دانستہ ایسا نہیں کر رہے تو منکرین حدیث کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے سے پہلے کسی صاحب ِ علم یا ہم جیسے کسی طالب ِ علم سے رجوع ہی کر لیں۔ آپ نے جو ترجمہ کیا ہے ، اسے نہ لغت ِ عرب قبول کرتی ہے نہ عقل سلیم۔یہ ترجمہ اس بات کی دلیل کے طور پر کافی ہے کہ منکرین حدیث انکار حدیث کے لیے ہمیشہ بددیانتی سے کام لیتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں دغابازی ، فریب سازی اور کذب بیانی سے ذرا بھر دریغ نہیں کرتے۔ محوّلہ بالا حدیث کا اصل متن اور لغت عرب کے مطابق صحیح ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : نَہَی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَطْرُقَ الرَّجُلُ أَہْلَہُ لَیْلاً یَتَخَوَّنُہُمْ أَوْ یَلْتَمِسُ عَثَرَاتِہِمْ ''سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی اپنے گھروالوں کے پاس رات کے وقت اس حال میں آئے کہ وہ ان کو خائن سمجھتا ہو یا ان کی لغزشوں کی تلاش کرنے کی کوشش میں ہو۔''(صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٧١٥، طبع دار السلام، بالریاض)
جناب ِ گرامی قدر! اس حدیث میں تو صحابہ کرام کو سوء ِ ظن سے اجتناب کا حکم دیا جا رہا ہے اور یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ اگر رات کے وقت گھر میں داخل ہونے کا محرّک اپنے گھر والوں کے بارے میں کسی خیانت کا گمان اور ان کی کسی لغزش کی تلاش ہے تو ایسا کرنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ کیا صحابہ کرام کو سوء ِ ظن سے روکنا ان پر طنز و تبرا ہے ؟
اس کا ترجمہ یہ کرنا کہ ''کوئی ان کے ساتھ خیانت نہ کرتا ہو یا ان کی پردہ والیوں کی جستجو میں نہ ہو۔'' انتہائی مجرمانہ حرکت ہے۔ عربی گرائمرکے لحاظ سے لفظ ِ یتخونہم ، لفظ ِ الرجل سے حال بن رہا ہے ، یعنی آدمی اپنے گھر میں اس طرح نہ آئے کہ وہ خود اپنے گھر والوں کی دیانت و امانت کے بارے میں سوء ِ ظن کا شکار ہو یا ان کی کسی لغزش کا متلاشی ہو۔اس کے ترجمے میں لفظ ِ''کوئی'' اپنی طرف گھسیڑدینا انتہائی تعصب اور ردّی ذہنیت یا عربی زبان سے مطلق جہالت کی علامت ہے۔ کوئی منکر حدیث بتائے کہ یتخوّن فعل کا فاعل کون ہے ؟ اصول کے مطابق اس کا فاعل اس میں موجود ہُوَ ضمیر ہے جو الرجل ہی کی طرف راجع ہے ۔ جب صورت ِ حال یہ ہے تو ''کوئی'' کو اس کا فاعل کیسے بنا دیا گیا ہے؟
پھر ستم بالائے ستم یہ کہ یتخوّنہم کا معنیٰ خیانت کرنا کر دیا گیا ہے ،حالانکہ یہ عربی کے علم ِ صرف کے مطابق خَوْن(بمعنی خیانت)مادہ سے باب ِتفعُّل ہے اور لغات ِ عرب میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ صراحت موجود ہے کہ جب اس مادے سے باب ِ تفعّل کا فاعل بھی آدمی ہو اور مفعول بہٖ بھی آدمی تو اس وقت معنیٰ اسے خائن سمجھنا یا اس پر خیانت کی تہمت لگانا ہوتا ہے۔لغت ِ عرب کی معروف و مستند کتاب المعجم الوسیط میں مرقوم ہے:
تخوّن ۔۔۔۔۔ فلانا : اتّہمہ بالخیانۃ، وتلمّس خیانتہ وعثرتہ ۔
''یعنی کسی پر خیانت کی تہمت لگانا اور اس کی خیانت و لغزش کی تلاش میں رہنا۔''
(المعجم الوسیط : باب الخاء ، ١/٢٦٣، طبع دار الدعوۃ)
ایک اور گھپلا لفظ ِ عثراتہم کا معنیٰ ''ان کی پردہ والیوں''کر نے کی صورت میں کیا گیا ہے حالانکہ عثرات جمع ہے عثرۃ کی جس کا معنیٰ کوتاہی ، لغزش اور ٹھوکر ہوتا ہے۔ عربی کے ایک مشہور شاعر ابو العلاء المعری کی طرف یہ شعر منسوب ہے :
فمنْ عثراتِ المرء ِ، فی الرأی، أنّہُ إذا ما جری ذکرُ الخِضابِ تشوّرا
''آدمی کی سوچ و فکر کی ایک کوتاہی یہ ہے کہ جب خضاب کا ذکر آتا ہے تو وہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔''(دیوان ابی العلاء المعرّی، قصیدۃ : إذا طلب الشیب الملمّ فحیّہٖ)
ایک اور عربی شعر یوں ہے :
فلا یفرح الباغی علیکم بسعیہ فما کل عثراتِ السُّعاۃِ تقالُ
''تمارے خلاف بغاوت کرنے والا اپنی کوشش کے بِرتے پر خوش نہ ہو کیونکہ کوشش کرنے والوں کی ہر لغزش معاف نہیں کی جاتی۔''
(دیوان ابی المہیار الدیلمی، قصیدۃ : لہا کل یوم نشطۃ وعقال)
ایک مشہور عربی مقولہ بھی ہے عثرۃ اللسان أشد من عثرۃ الرجل کہ زبان کی ٹھوکر پاؤں کی ٹھوکر سے سخت ہوتی ہے۔کیا یہاں کوئی یہ ترجمہ کر سکتا ہے کہ زبان کی پردہ والی پاؤں کی پردہ والی سے سخت ہوتی ہے؟
پھر اگر اس حدیث پر اعتراض کرنے سے پہلے عقل سے تھوڑی سی اپیل کر لی جاتی تو بھی شاید معاملہ حل ہو جاتا۔ وہ اس طرح کہ بوہیو صاحب کے مطابق ترجمہ یہ ہے کہ ''کوئی ان کے ساتھ خیانت نہ کرتا ہو۔'' لفظ ِ ''اُن'' سے پتا چلتا ہے کہ خیانت گھر والوں کے ساتھ ہو رہی ہے نہ کہ واحد''آدمی'' کے ساتھ حالانکہ اگر کسی شخص کی غیرموجودگی کوئی غیر اس کی بیوی سے تعلقات بنا لیتا ہے تو اس کی خیانت غیر حاضر شخص سے ہوتی ہے نہ کہ اس کی ایسی بیوی سے جو خود اس سے تعلقات استوار کر رہی ہے۔یہ عقلی طور پر انتہائی بے تُکی بات ہے۔
ہے کوئی منکر حدیث جو قیامت تک بوہیو صاحب کے کیے ہوئے اس ترجمے کو لغت ِ عرب کے مطابق درست ثابت کر دے؟
 
اعتراض نمبر 6 :
حدیث میں زمانہ رسول کے اصحاب کو نسل پر گالی
یہ حدیث کتاب بخاری کے کتاب النکاح کی ہے۔ حدیث کا نمبر ١١٤ ہے ۔ اس میں نکاح کی چار اقسام گنوائی گئی ہیں جن میں سے تین اقسام کی عورتیں اپنی شوہر کے علاوہ دوسرے مردوں سے بذریعہ زنا بیج لیتی ہیں۔ امام بخاری نے حدیث میں نکاح کی پہلی قسم میں صرف یہ لکھا ہے کہ نکاح ہوتا کس طرح سے تھا، حدیث میں کریکٹر پر کچھ نوٹ نہیں۔
یہ حدیث انہوںنے بی بی عائشہ کے نام سے روایت کی ہے کہ جناب رسول کو نبوت ملنے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں نکاح چار اقسام کا ہوتا تھا۔ غور کیا جائے کہ ان حدیث سازوں کی روایت کے مطابق جو عائشہ پیدا ہی نبوت ملنے کے بعد ہوئی ہے ، حدیث میں وہ زمانہ قبل نبوت کا عرب کلچر پیش کر رہی ہے۔ اصل میں یہ ایک فن ہے علم حدیث میں تبرا کرنے کا اصحاب رسول پر۔
 
تبصرہ :
اس حدیث میں ناجانے کون سی بات بوہیو صاحب کو قابل اعتراض معلوم ہوئی ہے کیونکہ زمانہ جہالت میں نکاح کی غلط صورتوں کا رائج ہونا نہ خلاف ِ حقیقت ہے نہ خلاف ِ عقل۔ رہی بات صحابہ کرام کے نسب پر طعن ہونے کی تو عرض ہے کہ اس حدیث میں کسی صحابی کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ اس کے والدین نے نکاح کی غلط صورت کو اپنایا تھا بلکہ نکاح کی صحیح صورت کا بھی اثبات کیا گیا ہے۔خود بوہیو صاحب کو اعتراف ہے کہ حدیث میں کریکٹر پر کچھ نوٹ نہیں۔ پھر صحابہ کرام کے نسب پر تبرّا کیسے ہو گیا ؟
رہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نبوت ملنے کے بعد پیدا ہونا اور زمانہئ قبل نبوت کا کلچر پیش کرنا تو اس میں کون سی حرج والی بات ہے ؟ یہ بات تو طَے ہے کہ کوئی صحابی اگر کوئی ایسا واقعہ بیان کرے گا جس کا وہ خود چشم دید گواہ نہیں ہے تو ضرور وہ کسی دوسرے صحابی ہی سے سن کر اسے بیان کر رہا ہو گا۔جب تمام صحابہ کرام مسلمانوں کے نزدیک سچے اور کھرے مسلمان تھے تو اس طرح کی روایات پر شک و شبہ کا اظہار بجائے خود صحابہ کرام پر تبرّا کرنے کے مترادف ہے۔
 
اعتراض نمبر 7 :
حکم قرآن کے خلاف جناب رسول پر الزام ، یعنی معصوم نابالغ بچی سے نکاح کرنے کی حدیث
عن عائشۃ أنّ النبی تزوّجہا وہی بنت ستّ سنین، وبنی بھا وہی بنت تسع سنین یعنی عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ نے اس کے ساتھ نکاح کیا تو وہ اس وقت چھ سال کی تھی اور جب بناء کیا تو وہ نو سال کی تھی۔ قرآن حکیم میں یتیم بچہ کے بالغ ہونے کی عمر نکاح کی عمر کے حوالہ سے بتائی گئی ہے۔ اس میں ایک ذکر ہے ذہنی رشد کا (٦۔٤)، دوسرا ذکر ہے جسمانی بلوغت کا اشد کے لفظ کے ساتھ (٦۔١٥٢)جبکہ قرآن حکیم نے انسانی زندگی کے تین مرحلوں کا ذکر کیا ہے : ایک طفل ، دوسرا اشد ، تیسرا شیوخا (٦٧۔٤٠) اس حساب سے حدیث میں چھ اور نو سال میں شادی کی بات خلاف قرآن ہوئی کیونکہ یہ طفولیت والی عمر ہے۔ یہ حدیث جناب رسول پر قرآن کی حکم عدولی کا الزام ہے۔
 

جواب :-

قرآن کے خلاف یا مطابق ہونے کی کسوٹی ہر کس و ناکس کی عقل نہیں ہو سکتی۔ کتنی ہی سقیم عقول ایسی ہیں جن کو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات ، دوسری قرآنی آیات کے خلاف معلوم ہوتی ہیں، کیا اس وجہ سے قرآنِ کریم پر بھی اعتراض شروع کر دیا جائے گا؟
چھ یا نو سال کی عمر میں نکاح کرنا بالکل خلاف ِ قرآن نہیں ہے بلکہ مطابق و موافق قرآن ہے اور اس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا قرآنِ کریم کے خلاف بغاوت ہے۔ مختلف عورتوں کی عدّت بیان کرتے ہوئے فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
 
(وَاللَّائِي یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِنْ نِسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَّاللَّائِي لَمْ یَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ )
''تمہاری جو عورتیں حیض سے مایوس ہو جائیں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور جن عورتوں کو حیض نہیں آیا ، نیز جو عورتیں حاملہ ہیں ، ان کی عدت وضع حمل ہے۔''
 
اس آیت ِ کریمہ میں تین قسم کی عورتوں کی عدت بیان ہوئی ہے: ایک وہجن کے عمر رسیدہ ہونے کی بنا پر ان کا حیض ختم ہو گیا ہو ، دوسری وہ جن کو ابھی حیض آیا ہی نہ ہو اور تیسری وہ جو حاملہ ہوں۔ خود قرآنِ کریم کے مطابق اس عورت کی عدت ہو سکتی ہے جسے ابھی حیض نہ آیا ہو اور عورت عدت اسی وقت گزارتی ہے جب پہلے اس کا نکاح ہوا ہو ، پھر اسے طلاق ہو جائے یا اس کا خاوند فوت ہو جائے۔ معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کے مطابق بھی اس عورت کا نکاح ہو سکتا ہے جو ابھی جوانی کی عمر کو نہ پہنچی ہو۔اب بوہیو صاحب کو چاہیے کہ وہ قرآنِ کریم کے خلاف کوئی مقدمہ تیار کریں۔ نعوذ باللّٰہ من ہذہ الہفوات !
 
جس طرح بوہیو صاحب کو حدیث ِ رسول میں غیربالغہ عورت کے نکاح کی بات ہضم نہیں ہوئی ، اسی طرح قرآنِ کریم میں غیربالغہ عورت کے نکاح کا ثبوت غیر مسلموں کو نہیں بھاتا۔ انہوں نے قرآنِ کریم کی مذکورہ بالا آیت ِ مبارکہ کو پیش کر کے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ایک نہایت غلیظ کارٹونک فلم تیار کی ہے جس کا یوٹیوب پرموجود لنک ہم یہاں پیش نہیں کر سکتے کیونکہ کوئی مسلمان اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر بوہیو صاحب کو اس میں کچھ شبہ ہو تو وہ ہم سے ٹیلی فونک رابطے کے ذریعے وہ لنک حاصل کر کے اپنی تسلی کر سکتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو اعتراض حدیث ِ رسول پر کیا جائے گا ، بعینہٖ وہی قرآنِ کریم پر آئے گا، لہٰذا قرآنِ کریم کی گستاخی سے بچنے کے لیے حدیث ِ رسول کا ادب و احترام لازم ہے۔
 
یہ تو بات تھی صرف نکاح کی کہ وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے اوراس میں کسی قسم کی کوئی عقلی و اخلاقی قباحت نہیں۔ رہے زوجین کے ازدواجی تعلقات تو اس حدیث کے مطابق وہ نَو سال کی عمر میں استوار ہوئے تھے اور بعض علاقوں میں اس عمر کی لڑکیوں کا بالغ ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔سابقہ اور موجودہ دور کے کئی حقائق اس بات پر شاہد ہیں کہ بعض لڑکیاں اس سے بھی کم عمر میں ماں بن گئیں۔ اگر وہ بالغ نہیں ہوئی تھیں تو ماں کیسے بنیں ؟ ان حقائق کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں :


http://www.worldrecordsacademy.org/human/youngest_living_mother_Chinese_schoolgirl_sets_world_record_101532.htm

List of youngest birth mothers - Wikipedia, the free encyclopedia

آخری لنک میں تو کئی درجن ایسی عورتوں کا تفصیلی تذکرہ ملاحظہ کیا جا سکتاہے جن کی پہلے بچے کی ولادت کے وقت عمر نَو سے گیارہ سال تھی۔ یقینی بات ہے کہ ان عورتوں کی بلوغت کی عمر آٹھ سے دس سال تھی، لہٰذا سیدہ عائشہ کے ساتھ نَو سال کی عمر میں بناء کرنے کی حدیث پر اعتراض اعتراض سائنسی ، علمی اور عقلی ہر اعتبار سے باطل ہے۔


اعتراض نمبر 8 :
ظلم پر ظلم یہ کہ مذکورہ علم حدیث کے نام سے اب قرآن حکیم میں قراء توں کے نام سے ملاوٹ کر کے کئی قسم کے قرآن شائع کیے گئے ہیں جبکہ ہم ہزاروں کی تعداد میں ذخیرہ حدیث سے خلاف ِ قرآن روایات دکھا کر ثابت کر سکتے ہیں۔
 

تبصرہ :
یہ کچھ روایات جو بوہیو صاحب نے بزعم خود قرآنِ کریم کے خلاف سمجھ کر پیش کی تھیں، ان پر تبصرہ قارئین کرام نے ملاحظہ فرما لیا ہے۔ اب وہ ہزاروں احادیث جو ان کے خیال میں قرآنِ کریم کے خلاف ہیں ، ان کو بھی پیش کر دیں لیکن یہ خیال ضرور رکھیں کہ وہ احادیث محدثین کرام کے متفقہ اصولوں کے مطابق صحیح ہوں۔صحیح بخاری پر خصوصاً اور باقی احادیث پر عموماً پہلے بھی کئی لوگوں نے طبع آزمائی کر کے ان کو خلاف ِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے علمائے کرام نے ہر دور میں دفاعِ حدیث کا فریضہ سرانجام دیاہے۔ صحیح بخاری پر اس قسم کے اعتراضات کا جائزہ لینے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی نصیب کی ہے۔ شائقین ''صحیح بخاری کا مطالعہ اور فتنہ انکار حدیث'' نامی کتاب طلب کر کے اس کو بغور پڑھیں ، امید ہے کہ ان کے بنیادی اشکال دور ہو سکتے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث قرآنِ کریم کے خلاف نہیں۔ اس سلسلے میں اگر کسی کو کوئی شبہ ہو تو وہ احادیث ِ نبویہ سے متنفر ہونے سے پہلے ایک دفعہ ہم سے ضرور رابطہ کر لے۔

رہی بات قرآنِ کریم میں قراء توں کی ملاوٹ تو ہم بھی کہتے ہیں جو قراءات تواتر سے ثابت ہیں ، وہی حق ہیں اور شاذ قراء ات کو قرآنِ کریم میں شامل کرنا اور انہیں قرآن قرار دینا ناجائز ہے۔ اس سے تو ہماری بات کی تائید ہوتی ہے کہ جس طرح شاذ قراء ات کو دیکھ کر متواتر قرآن کا انکار کرنا ناانصافی ہے ، اسی طرح ضعیف و مردود روایات پیش کر کے صحیح احادیث پر اعتراض کرنا بھی بدباطنی ہے۔ باقی صحیح احادیث اگر کسی کو بظاہر خلاف ِ قرآن نظر آتی ہیں تو کتنی ہی قرآنی آیات ایسی پیش کی جا سکتی ہیں جو بظاہر دوسری آیات کے خلاف محسوس ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے ''صحیح بخاری کا مطالعہ اور فتنہ انکار حدیث'' نامی کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اگر قرآنی آیات کی صورت میں موجود وحی ئ الٰہی میں کسی کو بظاہرتعارض نظر آئے تو اسے اس کی اپنی کم علمی اور کج عقلی تصور کیا جاتا ہے ، اسی طرح حدیث ِ رسول بھی بقولِ قرآن وحی ئالٰہی ہے۔اگر کسی کو یہ وحی ئ الٰہی خلاف ِ قرآن نظر آئے تو اسے چاہیے کہ اسے بھی اپنی کم علمی و کج عقلی شمار کرتے ہوئے علمائے کرام سے یا ہم جیسے طلبائے قرآن و سنت سے رجوع کر لے۔


اعتراض نمبر 9 :
ہم ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے منصف حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنی کتاب قرآن کو علم حدیث کا نام دیا ہے(٢٣۔٣٩) فارس کے روایت سازوں نے قرآن کا یہ نام چوری کر کے اپنی گھڑی ہوئی خلاف قرآن روایات کا نام علم حدیث رکھا ہے۔ یہ چوری ان سے چھین کر قرآن کو واپس دلائی جائے۔
 
جواب :
 یہ بات بالکل بجا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو حدیث کا نام دیا ہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو حدیث نہیں کہا جا سکتا۔ جس طرح قرآنِ کریم وحی ئ الٰہی ہے ، اسی طرح حدیث ِ رسول بھی وحی ئ الٰہی ہے کیونکہ خود قرآن نے کئی مقامات پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و معمولات کو وحی قرار دیا ہے جس کی تفصیل متعلقہ کتب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و معمولات کو حدیث کا نام دینا خود قرآنِ کریم سے ثابت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے سابقہ انبیائے کرام کے واقعات کو بھی حدیث کہا ہے، مثلاً چند آیات ملاحظہ فرمائیں :

(وَہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ مُوسٰی) (طٰہٰ : ٩)
''(اے نبی!)کیا آپ کے پاس موسیٰ کا واقعہ پہنچا ہے؟''
(ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ ضَیْفِ إِبْرَاہِیمَ الْمُکْرَمِینَ) (الذاریات : ٢٤)
''(اے نبی!) کیا آپ کے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے؟''
(ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْجُنُودِ ٭ فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ) (البروج : ١٧، ١٨)
'' (اے نبی!) کیا آپ کے پاس فرعون اور ثمود کے لشکروں کی خبر آئی ہے؟''
 
جب سابقہ انبیائے کرام کی خبریں اور واقعات بقولِ قرآن حدیث کہلا سکتے ہیں تو پیغمبرآخرالزمان ، ختم الرسل ، خاتم النبیین، سید ِوُلد ِ آدم، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و واقعات اور حالات کو حدیث کا نام کیوں نہیں دیا جا سکتا؟
ہاں کسی کی گھڑی ہوئی روایت کو حدیث کا نام دینا واقعی زیادتی ہے ۔ ایسی روایات کو اگر حدیث کہنا بھی ہو تو ساتھ ''من گھڑت ، موضوع '' وغیرہ کا سابقہ لگانا ضروری ہے۔ اس طرح کی تمام روایات کو محدثین کرام نے نکھار کر رکھ دیا ہے اور ایسے جامع اصول پیش کر دیے ہیں جن کی روشنی میں ہر ذی شعور شخص خود صحیح حدیث اور من گھڑت روایات میں فرق کر سکتا ہے۔ اس آڑ میں صحیح احادیث کا بھی انکار کر دینا کسی انصاف پسند شخص کا شیوا نہیں ہو سکتا۔
 
اعتراض نمبر 10 :
اور یہ کہ علم روایت گھڑنے والوں نے اپنے اس علم کا نام سنت بھی رکھا ہے۔ قرآن میں سنت کا ذکر ١٥ بار آیا ہے جن میں سے اندازاً دس بار اللہ نے لفظ ِ سنت کی نسبت اپنی طرف کی ہے اور پانچ عدد گزری ہوئی قوموں کے کلچر اور رواج کی طرف اور اللہ نے قرآن کو قولِ رسول بھی کہا ہوا ہے،یعنی پورا قرآن علم حدیث ہے ، مطلب کہ علم روایات کو سنت کا نام دینا بھی خلاف ِ اسلوب ِ قرآن ہے۔
 

جواب :
 جناب گزارش ہے کہ روایات گھڑنے والوں نے نہیں بلکہ صحابہ کرام سے لے کر آج تک کے تمام راویانِ حدیث ِ رسول اس علم کو سنت کا نام دیتے ہیں اور جناب کی اطلاع کے لیے یہ بھی عرض ہے کہ جس طرح کے لفظی چکر آپ چلاتے ہیں ، اس طرح تو سب کچھ ثابت ہو سکتا ہے ، پھر ملاحظہ فرمائیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ ِ سنت کی نسبت اپنی طرف کی ہے ، وہاں سابقہ انبیائے کرام کی طرف بھی کی ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
 
(سُنَّۃَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَا) (الاسراء : ٧٧)
''آپ سے پہلے جن رسولوں کو ہم مبعوث کر چکے ہیں ، ان کی سنت۔۔۔''
 
صاحب ! اگر بقولِ قرآن سابقہ انبیائے کرام کی طرف سنت کی نسبت و اضافت ہو سکتی ہے تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سنت کی نسبت پر آپ کو کیوں اعتراض ہے ؟
باقی رہی بات قرآن کے علم حدیث ہونے کی تو اس سے کوئی مسلمان انکاری نہیں ، لیکن ہم گزارش کر چکے ہیں کہ قرآن کے حدیث ہونے سے باقی سب چیزوں کا حدیث نہ ہونا لازم نہیں آتا۔ خود قرآن ہی کے بقول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و معمولات بھی حدیث اور سنت ہیں۔ معلوم ہوا کہ علم حدیث کو سنت کا نام دینا اسلوب ِ قرآن کے عین مطابق ہے۔

 
نوٹ : اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے بوہیو صاحب کے احادیث ِ نبویہ پر کیے ہوئے اعتراضات کے جوابات عرض کر دیے ہیں۔ ہر ذی شعور اور منصف مزاج شخص بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ اعتراضات کس قدر حقیقت پر مبنی تھے۔ ہم محدثین کے وارث اور اہل الحدیث ہونے کے ناطے یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر کسی بھی شخص کو کسی بھی صحیح حدیث پر کوئی اعتراض ہو تو وہ اسے ہمارے سامنے پیش کرے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کی تشفی کریں گے اور اگر کوئی شخص پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں سے ہی اس فیصلے کا طالب ہے تو ہم اللہ کی توفیق سے اس کے ہر طرح کے عدالتی چیلنج کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہیں!
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے!

فتنہ انکار حدیث کی سرکوبی کے لیے اس عاجز کی ایک قابل مطالعہ کتاب

صحیح بخاری کا مطالعہ اور فتنہ انکار حدیث
اشراف : فضیلۃ الشیخ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
نظر ثانی :‌ فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علیزئی حفظہ اللہ
ملنے کا پتہ: کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ، اردوبازار لاہور۔

0 comments:

Post a Comment