Test Footer 2

19 March 2013

جب عبدالقدوس کو کرنٹ لگا






یہ دلچسپ واقعہ 17 مارچ کی شام پیش آیا۔عبدالقدوس ایک الیکٹریشن ہے اور انتہائی شریف اور دیانتدار انسان ہے‘ میں گذشتہ چھ سال سے اُسے جانتا ہوں‘نہ آج تک اُس کے منہ سے کسی نے گالی سنی ہے نہ کبھی کسی سے اُس کی لڑائی ہوئی ہے‘ محلے کی بہو بیٹیوں کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتاہے اورہر وقت اللہ توبہ کرتا رہتاہے۔میرے گھر کے سامنے ایک بڑا پارک ہے‘ صبح یا شام کو موقع ملے تو میں وہیں تھوڑی بہت واک کرلیتا ہوں‘ اُس روز میں دفتر سے ذرا جلدی نکل آیا اور واک کرنے پارک میں چلا گیا‘ جونہی پارک کا دروازہ کراس کیا ‘ سامنے ایک عجیب و غریب منظر میرے سامنے تھا‘ تین چار ہٹے کٹے نوجوان عبدالقدوس کو گریبان سے پکڑے گھسیٹتے ہوئے لے جارہے تھے‘ میری حیرت کی انتہا نہ رہی‘ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر ایک نوجوان سے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے؟ اُس کا جواب سن کر میرے ہوش اڑ گئے‘ وہ عبدالقدوس کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا’’اِس بے غیرت نے ہماری بہن کوچھیڑا ہے‘‘۔ میری بے اختیار ہنسی نکلتے نکلتے رہ گئی‘ میں نے جلدی سے کہا’’آپ کو یقیناًکوئی غلط فہمی ہوئی ہے‘ عبدالقدوس توانتہائی نیک اور شرمیلا انسان ہے‘ ‘۔نوجوان نے گھور کر میری طرف دیکھا’’ غلط فہمی آپ کو ہورہی ہے ‘یہ انتہائی کمینہ اور ذلیل انسان ہے‘ اس نے ہماری بہن کو انتہائی بیہودہ میسج کیے ہیں‘ بے شک اِس سے پوچھ لیں‘‘۔ میں نے بے یقینی سے عبدالقدوس کی طرف دیکھا جو تھر تھر کانپ رہا تھا‘ میری طرف دیکھتے ہی اُس نے بے بسی سے نظریں جھکا لیں اورمجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔سارے نوجوان عبدالقدوس کو مارتے پیٹتے تھانے لے گئے اور میں شدید حیرانی کے عالم میں وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ عبدالقدوس ایسا ہوسکتا ہے‘ میں نے میڈیا کے کچھ دوستوں کو فون کیا اور خود بھی تھانے پہنچ گیا۔ عبدالقدوس حوالات کے ایک کونے میں بازوؤں میں سر دیے رو رہا تھا۔لڑکی کے بھائی پرچہ کٹوانے پر تلے ہوئے تھے تاہم کافی منت سماجت کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑا اور رات ساڑھے بارہ بجے عبدالقدوس کی رہائی عمل میں آئی۔میں اس عجیب و غریب معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لیے بے تاب ہوا جارہا تھا لہذا عبدالقدوس کو گاڑی میں بٹھاتے ہی پوچھا’’قدوس بھائی! یہ سب کیا ہے؟ آپ تو۔۔۔‘‘ میری آدھی بات سنتے ہی عبدالقدوس زندگی میں پہلی بار پوری قوت سے چلایا’’ تو اورمیں کیا کرتا۔۔۔؟؟؟‘‘
لگ بھگ چھ ماہ پہلے عبدالقدوس ایک گھر میں سوئچ بورڈ تبدیل کرنے گیا‘ واپس آنے لگا تو گھر میں موجود ایک نوجوان لڑکی نے اُسے کہا کہ اپنا فون نمبر دے جاؤ تاکہ دوبارہ بلانے میں آسانی رہے۔ عبدالقدوس نے اُسے فون نمبر دے دیا۔ دوسرے ہی دن لڑکی کا دوبارہ فون آگیا کہ سوئچ بورڈ صحیح کام نہیں کر رہا۔عبدالقدوس دوبارہ وہاں پہنچا تو لڑکی ہوش ربا قسم کے لباس میں ملبوس تھی ‘ عبدالقدوس بوکھلا گیا لیکن نظریں جھکا کر اپنے کام میں لگ گیا‘ واپسی پر اُس نے لڑکی سے اپنے کا م کی مزدوری بھی طلب نہیں کی کیونکہ لڑکی سے آنکھیں چار ہونے کا اندیشہ تھا۔ تین چار دن بعد پھر لڑکی کا فون آگیا کہ سوئچ بورڈ پھر خراب ہوگیا ہے۔ اب کی بار عبدالقدوس نے اپنے شاگرد کو بھیج دیا‘ لیکن لڑکی کا فون آیا کہ جو کام تم نے خود کیا ہے وہ شاگرد کو سمجھ نہیں آئے گا لہذا تم خود آؤ۔عبدالقدوس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے‘ لیکن مجبوری تھی لہذابادل نخواستہ پھر وہاں چلا گیا‘ وہاں جاکے دیکھا توسوئچ بورڈ بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا‘ اُس نے سوالیہ نظروں سے لڑکی کی طرف دیکھا تو وہ کھلکھلا کر بولی’’بس چیک کرنا تھا کہ تم میری کال پر آتے بھی ہو یا نہیں‘‘۔ عبدالقدوس کے چودہ طبق روشن ہوگئے‘ وہ جتنا اِس گھر سے دور رہنے کی کوشش کرتا‘ لڑکی اُتنا ہی اُسے بہانے بہانے سے کسی کام سے بلاتی رہتی‘ عبدالقدوس بھی آخر ایک انسان تھا‘ لڑکی کے پے درپے ایس ایم ایس کے جواب میں اُس نے بھی ڈرتے ڈرتے جوابی میسج بھیجنا شروع کر دیے اور معاملہ چل نکلا۔لڑکی نے بتایا کہ وہ میٹرک فیل ہے اور عبدالقدوس کی محبت میں گرفتار ہوچکی ہے‘ یہ سنتے ہی عبدالقدوس کو ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے بچا‘ اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اُس کی زندگی میں ایسا خوشگوار لمحہ بھی آسکتا ہے‘ پھر اُسے اپنی بیمار بیوی کا خیال آیا جو آج کل صرف دوائیاں کھانے تک محدود ہوچکی تھی۔اُس کے سارے خوابیدہ جذبے بیدار ہوگئے اور اُس نے بھی لڑکی کو میسج بھیجنا شروع کر دیے‘ ایک دن اُس کا میسج لڑکی کے بھائی نے پڑھ لیا‘ لڑکی فوراً مکر گئی کہ عبدالقدوس خود ہی اُسے اس قسم کے میسج کرتاہے۔۔۔پھر آگے جو ہوا وہ میں بتا چکا ہوں۔
ہمارے ہاں عورت کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام ہمیشہ مرد پر لگتاہے‘آپ نے اکثر دفاتر میں یہ لکھا دیکھا ہوگا کہ اگر کسی ملازم نے کسی خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی تو اُسے نوکری سے نکال دیا جائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کوئی حرکت اگر کسی خاتون کی طرف سے ہو تو اُس کے لیے کیا سزا ہے؟؟؟ آپ نے بے شمار ایسی خواتین دیکھی ہوں گی جو چلتی پھرتی دعوت گناہ ہوتی ہیں‘ مرد اگر اِن کی طرف نہ بھی دیکھنا چاہے تو ان کے پاس مرد کو متوجہ کرنے کے لاجواب حربے ہوتے ہیں‘ لباس سے لے کرگفتگو تک اِن کا ہر انداز مرد وں کے عین مطابق ہوتاہے‘ اِن کے اُٹھنے بیٹھنے کا انداز گھر میں کچھ اور ہوتا ہے اور دفتر میں کچھ اور‘یہ بلاتکلف کسی بھی مرد کولیگ سے بات کرلیتی ہیں ‘ہاتھ بھی ملا لیتی ہیں‘کھانے کی فرمائش بھی کرلیتی ہیں لیکن کسی مرد کو ہمت نہیں ہوتی کہ اِن کی شکایت لگا سکے‘ اور اگر ہمت کر بھی لے تو آگے سے ڈانٹ یا قہقہہ سننے کو ملتا ہے۔کیسا تضاد ہے کہ خاتون بغیر آستین کی قمیض پہن کر دفتر آجائے تو خوبصورتی ۔۔۔اور مرد بنیان پہن کر آجائے تو واہیاتی۔۔۔خاتون سکرٹ پہن لے تو فیشن ایبل۔۔۔مرد کچھا پہن لے تو بے شرم۔۔۔خاتون بوائے کٹ کروائے تو ماڈرن۔۔۔مرد پونی بنا لے تو واہیات۔۔۔واہ اوئے دنیا۔۔۔!!!
حقیقت تو یہی ہے کہ بے شمار خواتین بھی مردو ں کو جنسی طور پر ہراساں کرتی ہیں لیکن اِس بات کا کوئی کیس نہیں بنتا‘ کیس بننے کے لیے مرد کا عورت کو ہراساں کرنا ضروری ہے۔بیچارے وہ مرد کہاں جائیں جنہیں ایسی خواتین اپنی ادائیں اور لاڈیاں دکھا کر اس حد تک مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ کوئی الٹی سیدھی حرکت کر بیٹھتے ہیں ۔یہ حرکت اگر خاتون کے مفاد میں ہو تو پیار کہلاتی ہے ورنہ بدتمیزی۔۔۔!! کتنے ہی بیچارے عبدالقدوس ہیں جو اِن جیسی عورتوں کی وجہ سے پھینٹیاں کھا چکے ہیں لیکن آج تک کوئی ایسا قانون نہیں بنا جس میں چھیڑنے کی سزاعورت کے لیے بھی وہی ہو جو مرد کے لیے رکھی گئی ہے۔مختصر اور ٹائٹ لباس میں ملبوس اکثر ایسی عورتیں کسی کے چھیڑنے پر ناراض اور نہ چھیڑنے پر بہت زیادہ ناراض ہوجاتی ہیں۔مٹھائی کی پلیٹ سامنے رکھی ہوئی تو کس کا کھانے کو دل نہیں کرتا‘ لیکن ہمارے ہاں پلیٹ کوئی نہیں ہٹاتا‘ سارا الزام مٹھائی کھانے والے پر آتا ہے‘۔عبدالقدوس تو بیچار ا مفت میں پکڑا گیا‘ اصل قصور تو اُس کا تھا جس نے عبدالقدوس میں کرنٹ چھوڑا۔۔۔سیدھی سی بات ہے ‘ جس کو کرنٹ لگے وہ تار کی طرف کھنچتا تو ضرور ہے ‘ لہذا ایسی خطرناک تاروں کو انڈرگراؤنڈ کرنا چاہیے تاکہ کوئی خطرناک حادثہ نہ رونما ہو۔


0 comments:

Post a Comment