5 September 2013
کاش اس وقت بھی فیس بک ہوتی
“So hot”
“wowwwwwwwwww kea lag rahi ho yar”
“so cuteeeeee, awesome”
“yar je chah raha hay k, k ,k…….”
“kea qatil ada cheez ho”
“taswer teri dil mera behla na sakay g”
“aap ke tareef k leay lafz nahi, mukammal hussan ho”
“I love u”
ٹھرکی ہم وطنوں کی اس بازاری جملے بازی نے سیلانی کو تین دہائی پہلے کے سعید بھائی یاد دلا دیے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سیلانی گول مٹول شرارتی بچہ ہوا کرتا تھا، تب اس کے نیکر پہننے پر کسی کو اعتراض تھا نہ محلے کے کسی گھر میں بلا جھجھک گھسنے پر کوئی ٹوکتا تھا، تب شہر بھی بانجھ نہ ہوا کرتے تھے، محلہ کلچر زندہ تھا اور پورا محلہ ہی گھر جیسا ہوا کرتا تھا، آج اگر گھر میں کریلے پکے ہیں تو رکابی لے کر ساتھ والے میر صاحب کے گھر چلے آئے، وہاں مونگ کی دال کا سن کر منہ بنا تو چوہدری صاحب کے گھر پہنچ گئے، وہاں بھی دال نہ گلی تو کشمیری چاچی کے پاس آ گئے اور یہ بے تکلفی سیلانی تک ہی محدود نہ تھی، اس کی سرحدوں میں پورا محلہ آتا تھا، سیلانی کے گھر میں آلو گوشت بنتا تو خوشبو سونگتے ہوئے چوہدری صاحب کی ناک سڑکاتی بیٹی آ جاتی کہ خالہ خالہ ایک بوٹی اور دو آلو ڈال دو۔
اس محلہ کلچر میں انسان رہتا تو اپنے گھر کی چاردیواری میں تھا، لیکن اقدار کی چاردیواری پورے محلے کو ایک گھر بنا کر رکھتی تھی، اس وقت سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتے تھے اور بڑوں کا احترام ایسا کہ اگر محلے کا کوئی بڑا بوڑھا کسی غلطی پر کان کھینچ کر تشریف پر دو جوتے بھی لگا دے تو کسی میں ہمت نہ ہوتی کہ منمناتے ہوئے امی ہی سے کہہ دیں، دہلی کالونی کے اس محلے میں سیلانی بےبی باجی سے ٹیوشن پڑھنے جایا کرتا تھا، بے بی باجی بی اے کر رہی تھیں، دبلی پتلی سی بےبی باجی کی شکل پی ٹی وی کے ڈرامے انکل عرفی کی ہیروئن سے کافی ملتی تھی، وہ بال بھی اسی انداز کے بناتی تھیں اور خاصی خوش لباس بھی تھیں، اس وقت گھٹنوں سے اوپر تک چھوٹی قمیض اور بڑے بڑے پائنچوں والی شلوار کا رواج تھا، سیلانی کو یاد ہے کہ ایک بار باجی کپڑے سلوانے کے لیے سیلانی کو ساتھ لے گئیں، راستے میں نکڑ پر محلے کے ”وحید مراد“سعید بھائی، جسم سے چپکی قمیض اور بیل باٹم پینٹ پہنے کھڑے تھے، سعید بھائی نے باجی کو آتے دیکھا تو فورا ہی جیب سے کنگھی نکال کر اپنی زلفیں سنوار لیں اور پوز مار کر کھڑے ہو گئے، سیلانی اور باجی پاس سے گزرے تو سعید بھائی نے مسکراتے ہوئے دبی دبی آواز میں جملہ اچھالا: ”آج تو لوگ قیامت ڈھا رہے ہیں۔“
باجی نے ناگواری سے ایک نگاہ غلط ڈالی، البتہ کہا کچھ نہیں، سیلانی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ قیامت ڈھانا کیا ہوتا ہے، اس نے باجی سے پوچھا تو انہوں نے ڈانٹ دیا، باجی نے درزی کو کپڑے دیے اور واپس ہو لیں، واپسی پر وحید مراد صاحب اسی کھمبے کے ساتھ ٹیک لگائے منتظر تھے، انہوں نے بےبی باجی کو دیکھ کر ایک سرد آہ بھری اور پھر ایک گیت گنگنانے لگے، سیلانی نے سعید بھائی کی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنی آنکھ کا گوشہ دبا دیا۔
گھر پہنچ کر سیلانی نے بے بی باجی کی بڑی بہن سے پوچھا: آپا! یہ قیامت کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ”کیوں بیٹا! تمیں قیامت کہاں سے یاد آ گئی؟“
”مجھے نہیں یاد آئی، وہ سعید بھائی نے بے بی باجی کو دیکھا تو انھیں یاد آ گئی، وہ باجی کو کہہ رہے تھے کہ آج تو قیامت ڈھا رہی ہو..... “
سیلانی نے معصومیت سے بتایا تو بڑی باجی نے ڈانٹ کر چپ کرا دیا، مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا، صحن میں لگے سنک پر غرغرے کرتے ہوئے بھائی جان سن چکے تھے، وہ ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے، انہوں نے اپنی ہاکی لی اور باہر نکل گئے، اس کے بعد وحید مراد صاحب پر قیامت ڈھ پڑی۔ اس قیامت میں ان کی طوطے جیسی خمیدہ ناک اور سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا، اس روز بھائی جان نے وحید مراد کے ساتھ خوب کھیلا، محلے کے لڑکوں نے بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وحید مراد صاحب کئی ہفتے گنگنانا بھول کر کراہتے رہے، سعید بھائی کے والد صاحب بھلے آدمی تھے، انھیں جب پتا چلا تو انہوں نے باجی کے گھر آ کر معافی مانگی اور سینما والوں کو خوب بددعائیں دیں، جو نوجوان نسل کو لفنگا بنا رہے تھے۔ لیکن یہ اچھے وقتوں کی بات ہے، جب بہت کم گھروں میں ”ٹی وی لائونج“ نام کی جگہ ہوتی تھی، نوجوانوں کے اخلاق و کردار پر وی سی آر نے حملہ نہیں کیا تھا، پی ٹی وی کے خبرنامے میں نیوز کاسٹر تک دوپٹہ اوڑھ کر خبریں پڑھا کرتی تھیں، اب واہیات ابلاغیات نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
سیلانی کو آج فیس بک پر ایک خاتون کی خود نمائی اور ان کے دوستوں کی جانب سے دیے جانے والے داد و تحسین کے ڈونگروں نے سعید بھائی کی ٹوٹی ہوئی خمیدہ ناک کی یاد دلا دی، فیس بک پر شائد ہی کوئی ہو جو اپنی تصاویر، بیانات اور خیالات جاری نا کرتا ہو، مستورات بھی مختلف مواقع کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کر کے خود نمائی کے شوق کی تسکین کرتی ہیں، اس کام کے لیے یقینا خواتین اور ان سے وابستہ حضرات کو فراغ دل ہونا پڑتا ہو گا، وہ محترمہ بھی خاصی ”فراغ دل" واقع ہوئی ہیں، پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ہونے والے فیشن شوز میں بلی کی چال چلنے والی بیبیاں عموما اس طرح کی حرکات و سکنات کرتے ہوئے تصویریں بنواتی ہیں، گویا درد قولنج میں مبتلا ہوں یا ابھی ابھی نیند سے جاگی ہیں اور انگڑائی لے کر بستر سے نیچے اترنے کا سوچ رہی ہیں..... اس بی بی نے بھی ایسی ہی ادائوں کے ساتھ اپنی تصاویر فیس بک پر جاری کر دیں اور اس تصویر کے نیچے جملے اچھالنے والوں اور پسند کرنے والوں کی قطار بندھ گئی، سیلانی حیران رہ گیا، جب اس نے دیکھا کہ سات سو افراد نے اس تصویر پر مہر پسندیدگی ثبت کی اور تین سو نوے نے واہیات ابلاغیات کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ یہ سب دیکھ کر سیلانی کو بے اختیار سعید بھائی یاد آ گئے، آج یقینا ان کے منہ میں دانت ہوں گے نا پیٹ میں آنت ہو گی، غالبا وحید مراد کی زلفوں کی جگہ چمکتی ہوئی چندیا لے چکی ہو گی، آنکھیں بھی چندھیا گئی ہوں گی اور خمیدہ ناک کے ساتھ ساتھ کمر بھی خمیدہ ہو چکی ہو گی، ہو سکتا ہے ان کا حافظہ بھی خاصہ کمزور ہو گیا ہو اور الله کرے کمزور ہو گیا ہو کہ وہ ہاکی کے ذریعے خود پر ڈھائی جانے والی قیامت بھول چکے ہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو وہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ میں تو صرف بلاواسطہ ہی منمنایا تھا، یہاں تو گھر گھر میں لونڈے لپاڑے فیس بک کھولے ایسے ایسے جملے چست کرتے پھر رہے ہیں کہ زمین پھٹے اور بندہ سما جائے اور پھر یہ موقع انھیں کون دے رہا ہے؟ لڑکیاں بالیاں، خواتین خود حوصلہ افزائی کر رہی ہیں، کاش اس وقت بھی فیس بک ہوتی، میری ناک اور دانت تو سلامت رہتے.....
سیلانی یہ سوچ رہا تھا کہ فیس بک پر میلے کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ ایک خاتوں کی تصویر آ گئی، تصویر میں محترمہ دوپٹہ کمر کے گرد لپیٹے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے عاجزانہ منہ بنائے کھڑی تھیں، ساتھ ہی ان کی فیس بک کے دوستوں سے درخواست تھی: ”دعا کریں میری واشنگ مشین جلد ٹھیک ہو جائے۔“ سیلانی نے لاحول پڑھی اور بڑبڑایا بی بی، واشنگ مشین سے زیادہ آپ کو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے..... سیلانی بڑبڑاتے ہوئے بی بی کی میلے کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ تصویر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا، اور دیکھتا چلا گیا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment