Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

25 September 2013

مذاکرات کیے جائیں یا مقابلہ؟--- ابو نثر


بڑی دلچسپ بریکنگ نیوز ہے۔ ہمارے کئی دانشور جو ہر قسم کے ’طالبان‘ سے مذاکرات کے مخالف تھے کہ ۔۔۔ ’’دہشت گردوں سے مذاکرات کے کیا معنی؟‘‘۔۔۔ اب وہ ’افغان طالبان‘ سے مذاکرات کے حامی ہوگئے ہیں۔کیوں نہ ہوں؟ افغانستان کے طالبان کے ساتھ بارہ تیرہ برس سے جنگ کر کر کے ’’عسکری اور اقتصادی سطح پر زخم زخم‘‘ ہوجانے والا امریکا جو، ان سے مذاکرات کرنے کاقائل ہوگیا ہے۔ایک صاحب نے تو ایک دن سویرے سویرے یہ اطلاع بھی دے دی کہ افغانستان کے طالبان ’’مجاہدینِ آزادی‘‘ ہیں۔ اُن کے ملک پر ’’غیر ملکی افواج‘‘ قابض ہیں۔ (’غیر ملکی افواج‘ کا نام لے لینے سے نکاح ٹوٹ جانے کا خطرہ اب بھی لاحق ہے)۔ اپنے ملک کو غیر ملکی قبضے سے چھڑانا افغانوں کا حق بنتا ہے۔(اطلاع ختم ہوئی) ہم ’افغان طالبان‘ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ وہ جو ’مجاہدین‘ سے ’دہشت گرد‘ ہوگئے تھے، اب ہمارے دانشوروں نے اُن کا سابقہ لقب بحال کردیا ہے۔ وہ ایک بار پھر ’مجاہدین‘ کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔ ’مجاہدین آزادی‘ کے منصب پر۔

امریکا اگر افغانستان کے طالبان سے اُسی وقت مذاکرات کا قائل ہوگیا ہوتا جس وقت ملا عمر نے امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ اُسامہ بن لادن کے خلاف دہشت گردی کے عدالتی ثبوت فراہم کردیے جائیں تو ہم اُنھیں امریکاکے حوالے کردیں گے۔ تب ہمارے دانشور بھی امریکا اور افغانستان میں مذاکرات کے قائل ہی ہوتے۔ مذاکرات کے ایجنڈے کے طور پر دوسرا مطالبہ ملا عمر نے یہ کیا تھا کہ (امریکا کی طرف سے اُنھیں عدالتی ثبوت فراہم نہ کرنے کی صورت میں) اگر کسی مسلمان ملک میں اُسامہ بن لادن پر مقدمہ چلایا جائے تب بھی ہم اُسامہ بن لادن کو اُس مسلمان ملک کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر امریکا اُس وقت زعمِ خدائی کے نشے میں دھت تھا۔ اپنے آپ کو وحدہٗ لاشریک طاقت سمجھتاتھا۔ ’طالبان‘ نے سارا نشہ ہرن کردیا۔اُس وقت اُس کا خیال یہ تھا کہ ’طالبان‘ سے مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُن پر صرف حملے کی ضرورت ہے۔سواُس نے حملہ کر دیا۔ ملا عمر نے حکومت چھوڑ دی مگر جس شخص کو ’پناہ‘ میں لیا تھا اُسے چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ نہ اپنے ہاتھوں سے اُسے دشمن کے حوالے کیا۔اُنھوں نے اقبالؔ ؒ کی اِس ہدایت پر حرف بہ حرف عمل کیا کہ:

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے!
تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی

ایک ایسا شخص جس پر کسی عدالت سے جرم ثابت ہی نہیں ہوا، اُس پر سے اپنی پناہ اُٹھا کراُسے شقی القلب کفار کے حوالے کیوں کیا جائے؟ امریکا کے جرائم البتہ ثابت ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جن لوگوں کو کنٹینروں میں ’’دم گھونٹ گھونٹ‘‘ کر گوانتا نامو بے لے جایا گیا اُن میں سے بھلا کس پر جرم ثابت ہوا؟ جرم نہیں ثابت ہوا مگر اُنھوں نے کیسی کیسی بھیانک سزائیں بھگتیں؟ہر شخص کی الگ الگ داستان ہے اور ہر داستان کا ہر صفحہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔پرویز مشرف نے ’’جنیوا کنونشن‘‘کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ’’سفارتی استثنا‘‘ رکھنے کے باوجود خود گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا اور امریکا عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑاتا ہوا اُن کو گوانتا نامو بے لے گیا۔ وہ چار سال کے شدید اور اذیت ناک عذابِ مسلسل کے بعد ’’بے گناہ‘‘ قرارپائے اوررہا کردیے گئے۔ اُن کی داستان، جس کا ترجمہ عبدالصمد صافی نے ’’اژدہا کے منہ میں چار سال‘‘ کے عنوان سے کیا ہے ،پڑھیے تو پڑھی نہ جائے۔ملا ضعیفؔ نے جو کچھ پیش لفظ میں لکھا ہے اُس کا لب لباب بقولِ کلیم عاجزؔ یہ ہے :

گزری ہے جو کچھ ہم پر، گر تم پہ گزر جاتی
تم ہم سے اگر کہتے، ہم سے نہ سنا جاتا

بغیر عدالتی ثبوت کے اور بغیر مقدمہ چلائے کسی کو محض امریکا کے کہے پر مجرم سمجھ کر اُسے امریکا کے حوالے کردینے کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ہم اس وقت ایک ایسے خوفناک ’’استعماری دور‘‘ سے گزر رہے ہیں جس کا خاتمہ ہونا باقی ہے۔ہمیں یقین ہے کہ جب اس دور کا خاتمہ ہوگا تو ہمارے بہت سے دانشوروں کا نام تاریخ میں میر جعفر اور میر صادق کے ناموں کے ساتھ Enlist کیا جائے گا۔ مذکورہ دونوں ’دانشوروں‘ کو بھی غالباً یقین نہ تھا کہ یہ قابض و غاصب ’گورے آقا‘ کبھی زوال کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔ ابھی تو امریکا نے صرف ایک پلٹا کھایا ہے تو ہمارے دانشورساتھ ساتھ پلٹ گئے۔اگر وہ پلٹیوں پر پلٹیاں کھانے لگا تو ان کا بھی یہی حال ہوگااوران کے اِس رقصِ بسمل کا تماشا سب دیکھیں گے۔

کیا آپ نے نہیں سنا اُس بادشاہ کا قصہ جس نے اپنے دربار میں کچھ ایسے ہی دانشور پال رکھے تھے۔بادشاہ ایک روزکہنے لگا:
’’بیگن بھی کیا عمدہ ترکاری ہے!‘‘
یہ سن کرایک دانشور بولا:
’’ہاں سرکار! رنگ دیکھیے کتنا خوش نُماہے‘‘۔
دوسرابولا:
’’اس کی جلد کیسی چمکیلی، ملائم اور نرم ہے‘‘۔
تیسرابولا:
’’دیکھیے سرکار کہ اُس کے سرپرکتنا خوب صُورت تاج سجایاگیا ہے‘‘۔
اِتنے میں بادشاہ نے اپنا ذہن بدل لیا۔بولا:
’’مگر اِس کے کھانے سے قبض ہوجاتاہے‘‘۔
پہلا دانشور بولا:
’’تب ہی تو رُوسیاہ ہے!‘‘
دوسرا دانشور بولا:
’’اس کایہ پھسلواں پھسلواں چھلکا۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ چھال ہے یا ربڑ؟‘‘
تیسرے دانشور نے نقص نکالا:
’’جی سرکار! تبھی تو قُدرت نے اسے شاخ پر اُلٹالٹکایا ہواہے‘‘۔
بادشاہ بھڑک اُٹھا:
’’تُم کیسے دانشور ہو؟ ایک بات پر قائم نہیں رہتے۔ میں بیگن کی تعریف کروں تو تعریف کرتے ہو۔ میں تنقیص کروں تو تم بھی نقائص نکالنے لگتے ہو‘‘۔
پہلادانشور ہاتھ جوڑ کربولا:
’’حضور! ہم سرکار کے نمک خوار ہیں، بیگن کے نہیں!‘‘

یہ قصہ ہم نے خان صاحب کو سنایا تو کہنے لگے:

’’اصل   میں یہ سب ’چڑھے ہوئے سورج‘ کے پجاری ہیں۔ایک محاورے کے پشتو ترجمہ کے مطابق کامیابی کے سینکڑوں باپ اورہزاروں خاوند ہوتے ہیں، جب کہ ناکامی نہ صرف یتیم و یسیرہوتی ہے بلکہ مطلقہ بھی ‘‘۔



14 September 2013

اسلامی جمہوریت


ہمارے ایک دوست تھے ، ذہن اسلامی ، چہرہ مہرہ غیراسلامی ، ہم ذہن پر ہی شکر ادا کرتے، موصوف کچھ عرصہ کے لیے ولایت تشریف لے گئے جب واپسی ہوئی تو بغل میں ایک میم تھیں! موصوف کا تعلق روایتی گھرانے سے تھا ،اس لیے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ جناب میم لے کر آئے ہیں ،رشتے داروں نے گوری کے دیدار کے لیے دوردراز سے ان کے گھر تک کا سفر کیا ، عورتیں سروں پر ڈوپٹہ لیتی ہوئی چوری چوری میم صاحبہ کو دیکھتی اور ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتیں کہ کہیں گوری میلی نہ ہوجائے ، دولہا کی بہنیں فخریہ لہجے میں سہلیوں کو بتاتی پھرتیں کہ بھیا انگلینڈ سے میم لائے ہیں، بچے تو اس کمرے سے نکلتے ہی نہ تھے جہاں پر میم تھی اماں کو انگلش وغیرہ تو نہ آتی تھی لیکن پھر بھی روایتا چادر اور سوٹ گوری کو دیا ، بلائیں لیتی لیتی رہ گئیں کہ پتہ نہیں میم کو کیسا لگے ۔ ہاں بیٹے کو جی بھر کر دعائیں دیتی رہیں ، صرف ابا جی تھے جنہوں نے بیٹا جی سے دریافت کیا، مسلمان کیا ہے؟ بیٹا جی نے جواب دیا جی اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے، اور اباجی مطمئن ہوگئے !
مشترکہ خاندانی نظام تھا، کچھ عرصہ گزرا کہ ایک نیا کام شروع ہوا، میاں کے آفس جانے سے پہلے میم دروازے کے اوپر خاوند کی باہوں میں جھول جاتی اور چہرے پر ایک پیار کی لمبی مہر ثبت کرتی! گھر میں کچھ چہ میگوئیاں ہوئیں، بیٹا جی نے استفسار پر بتایا کہ سمجھ جائے گی "کلمہ پڑھا ہوا ہے" گرمیاں شروع ہوئیں گوری نے پینٹ اتار کر نیکر پہننی شروع کردی، ابا جی تو کمرے سے باہر نکلنا  چھوڑ دیا اور بھائی رات کو دیر سے گھر آنے لگے، اماں ہر وقت گھر کی دیواروں کو تکتی رہتیں کہ کہیں سے چھوٹی تو نہیں رہ گئیں! بیٹے سے شکوہ ہوا اس نے پھر بتایا "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ ایک شادی پر گوری نے بریک و کینبرے ڈانس کا ایسا شاندار نمونہ پیش کیا کہ بڑے بڑے دل تھام کر رہ گئے، دریافت کرنے پر پھر بتایا گیا کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔

گوری عید وغیرہ تو کرتی لیکن ہر سال کرسمس بھی بڑے تزک و احتشام سے مناتی بیٹا جی ہر دفعہ پوچھنے پر جواب دیتے "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ۔ وقت گزرتا چلا گیا، برداشت پیدا ہوتی چلی گئی، بچہ ہوا تو گوری نے ختنے کروانے سے انکار کردیا کہنے لگی کہ یہ ظلم ہے ، بیٹا جی کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ بولے سمجھ جائے گی "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ڈانس، میوزک، فلمیں، کاک ٹیل پارٹیز، کرسمس، سرعام بوس و کنار گھر کے کلچر کا حصہ بنے، بھائی آہستہ آہستہ بھابی سے فری ہوتے چلے گئے، ہاتھوں پر ہاتھ مار کر باتیں کرتے اور وہ ان کی گوری سہیلیاں ڈھونڈنے کی کوشش۔ بہنیں بھابی کے کمرے میں جاتیں اور جینز کی پینٹیں پہن پہن کر شیشے کے آگے چیک کرتیں کلمہ تو انہوں نے بھی پڑھا ہوا  تھا، بھابی سے دل کی ہر بات کھول کر بیان کرتیں، گوری کبھی کبھار نماز جمعہ پڑھ لیتی تھی اس لیے ابا جی بھی کہنے لگے "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ۔

ایک صرف اماں تھیں جو کہ گھر کے دروبام کو اب خوفزدہ سی نظروں سے دیکھتیں اور پوچھنے پر سر جھکا کر جواب دیتی کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"۔ دوست احباب جب بھی ملنے جاتے تو گوری خاوند کے پہلو سے چپک بیٹھتی، ایک دو بار تو جگہ تنگ ہونے کی صورت میں گود میں بھی بیٹھنے سے گریز نہ کیا پوچھنے پر صرف اتنا جواب ملتا "کلمہ پڑھا ہوا ہے" ایک کام گوری کا اچھا تھا جب بھی کہیں باہر  بازار وغیرہ نکلتی تو جینز شرٹ میں ملبوس ہونے کے باوجود سر پر ایک دوپٹہ سا ڈال لیتی۔ دیکھنے والے دیکھ کر ہی اندازہ کرلیتے کہ "کلمہ پڑھا ہوا ہے"

اسلامی جمہوریت بھی مغرب کی ایک ایسی ہی گوری ہے جس کو ہمارے کچھ دینی مزاج والے بھائی بیاہ لائے۔ انہوں نے اس کو ادھر کے معاشروں کے قابل قبول ہونے کے لیے اسے کلمہ پڑھایا، قوم کے لیے اس کے رعب میں آنے کے لیے اس کا بدیسی ہونا ہی کافی تھا، اتنی گوری اتنی چٹی "کلمہ پڑھی ہوئی جمہوریت"!! انہوں نے ہاتھ لگانے کی بھی جرآت نہ کی دور دور سے ہی دیکھ کر خوش ہوگئے کہ لو ایک کلمہ پڑھی گوری اپنے ہاں بھی آئی ہے۔ اس نے رواج توڑے، دستور توڑے، آزادی کے نام پر ہر ایک چیز کو اندر لے آئی، لیکن قوم خوش ہی رہی کہ کلمہ پڑھا ہوا ہے!! معاشرت کے نام پر یہ ہر اس میدان میں اسی طرح ناچنے لگی جو کہ غیر قوموں کا دستور تھا لوگ پھر بھی مطمئن رہے کہ اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے، اس نے ہر شرک و کفر کو ایک جواز دیا، ہر ظالم کو اقتدار تک پہنچنے کا راستہ دیا، دین کے ہر ابا جی کو سمجھوتہ کرنا سکھایا، کلمے کا سہارا لے کر ہر چیز کو عام کیا، اور ہم محلے داروں کی طرح اسی بات پر خوش رہے کہ اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے !! اگر کسی نے بہت زیادہ شرمندگی محسوس کی بھی تو اماں جی کی طرح سر جھکا کر یہی کہا کہ کلمہ پڑھا ہوا ہے۔

آج بھی وقت ہے کچھ یہ برباد کرچکی کلمے کے بھیس میں کچھ برباد کردے گی۔ بچ جائیں اور اس اسلامی جمہوریت کو تین طلاقیں دے دیں۔ طلاق اس کا حق ہے کیونکہ اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے۔

11 September 2013

امریکہ کی جنگ کو گود لینے والے



جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں فرمایا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ ہماری جنگ ہے اور ہم نے اس جنگ میں شرکت کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔
مثل مشہور ہے ’’ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں‘‘۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ طاقتور کا ساتھ سب ہی دیتے ہیں، خواہ طاقت ور کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو۔ دنیا میں جتنی باطل طاقتیں رہی ہیں ان کی حمایت کرنے والے اسی ذہنیت کے حامل تھے۔ نمرود میں اس کے سوا کوئی خوبی نہ تھی کہ وہ طاقتور تھا۔ فرعون میں اس کے سوا کوئی حسن نہ تھا کہ وہ قوی تھا۔ لیکن یہ انسانی ذہن کی پستی کی انتہا نہیں ہے۔ انسانی ذہن کی پستی کی انتہا یہ ہے کہ اگر تم دشمن کو شکست نہیں دے سکتے تو اس کے ساتھ مل جائو۔ پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ کے حوالے سے یہی کیا ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف کے سامنے سات مطالبات رکھے تو اس کا خیال تھا کہ جنرل پرویزمشرف ان میں سے تین چار مطالبات تسلیم کریں گے، مگر جنرل پرویزمشرف نے سات کے سات مطالبات کو تسلیم کرلیا۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ بزدلی ایک ذہنی و نفسیاتی عارضہ ہے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے مگر اس عارضے کی جڑیں بھی اخلاقیات میں پیوست ہوتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے ملا عمر کے سامنے بھی دو ہی صورتیں رکھی تھیں: تم یا تو ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو۔ ملا عمر نے صاف کہا کہ ہم نہ تمہارے ساتھ ہیں نہ تمہارے خلاف ہیں۔ ہم حق کے ساتھ ہیں اور باطل کے خلاف ہیں۔ ان کو جنرل پرویزمشرف کے بھیجے ہوئے علماء نے بھی سمجھایا کہ ایک اسامہ بن لادن کے لیے پوری ریاست کو دائو پر لگادینا ٹھیک نہیں۔ مگر ملا عمر کی اخلاقی بنیاد مستحکم تھی، چنانچہ انہوں نے کہا کہ اسامہ کو حوالے کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ان کے خلاف ٹھوس شہادت پیش کی جائے، بصورت ِدیگر ہم اسلامی تعلیمات کی رو سے اپنے مہمان کو ہرگز امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ اقبال نے کبھی کہا تھا ؎

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکام حق سے نہ کر بے وفائی

ملا عمر نے اقبال کے اس مثالیے یا Idealکو 20 ویں صدی میں حقیقت بناکر دکھادیا۔ لیکن جنرل پرویز امریکہ کی ایک دھمکی پر دبک اور پچک کر رہ گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی شخصیت کی اخلاقی بنیادیں یا تو موجود ہی نہیں تھیں، یا انتہائی کمزور تھیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ا گر جنرل پرویزمشرف امریکہ سے ’’تعاون‘‘ نہ کرتے تو امریکہ پاکستان کو واقعتاً پتھر کے دور میں واپس بھیج دیتا۔ پہلی بات تو یہ کہ جنرل پرویز نے امریکہ کے ساتھ ’’تعاون‘‘ نہیں کیا۔ وہ امریکہ کے لیے کرائے کے قاتل کا کردار ادا کرنے لگے، یہاں تک کہ یہ کردار برسوں پر محیط ہوگیا۔ دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ بہادروں کا ساتھ دیتا ہے۔ بہادر کمزور بھی ہو تو اللہ اسے قوی کردیتا ہے، اور بزدل طاقتور بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے کمزور بنادیتا ہے۔ امریکہ نے جنرل پرویزمشرف کو دھمکی دے کر ان پر ایک نفسیاتی اور اعصابی حملہ کیا تھا، اور جنرل پرویز ایک ہی حملے میں ڈھیر ہوگئے۔ وہ امریکہ کی مزاحمت کرتے تو امریکہ پاکستان کو نشانہ بنانے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی ملک کو ناراض کرنے کے مضمرات ہولناک ہوسکتے تھے۔ امریکہ اچھی طرح جانتا تھا کہ پاکستان کے بغیر وہ نہ افغانستان میں داخل ہوسکتا ہے، نہ وہاں طویل جنگ لڑسکتا ہے۔ پاکستان اُس وقت 17کروڑ لوگوں کا ملک تھا اور اس کے عدم استحکام کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ اور پورے وسطی ایشیاء پر مرتب ہوتے۔ جنرل پرویز مزاحمت کرتے تو امریکی ان تمام اندیشوں میں مبتلا ہوتے۔ مگر جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر ہتھیار ڈال کر امریکہ کو ہر اندیشے اور ہر خطرے سے بے نیاز کردیا۔
لیکن امریکہ کی جنگ کو گود لینے کے حوالے سے دیکھا جائے تو جنرل کیانی کا معاملہ جنرل پرویز سے بھی ابتر ہے۔ کیا جنرل کیانی کو اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے امریکہ کی جنگ کو گود لے کر کن کن چیزوں کی خلاف ورزی کی ہے؟ انہوں نے کن کن چیزوں کو پامال کیا ہے؟

اسلام کہتا ہے کہ اگر تمہارے پڑوس میں اہلِ ایمان جبر کا شکار ہوں تو ان کی مدد کرو خواہ تم کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ مگر پاکستان کے جرنیلوں نے پڑوس میں آباد اہلِ ایمان کی مدد کرنے کے بجائے باطل کی ہرممکن اعانت کی۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ اسلامی ملک کا ایک انچ کافروں کے حوالے کرنا حرام ہے، مگر پاکستان کے حکمرانوں نے پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل کیانی باطل کی پشت پناہی کو اپنی جنگ قرار دے رہے ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان محض اپنی عزت و تکریم کی خاطر بھی جبر و استبداد کی مزاحمت کرتا ہے۔ ویتنام ایک لادین ملک تھا مگر اس نے امریکہ کے خلاف دس سال تک جنگ لڑی اور اسے جیت کر دکھایا۔ کیوبا ایک کمیونسٹ ملک ہے اور پاکستان کے مقابلے پر اس کی حیثیت ایک نقطے سے زیادہ نہیں، مگر اس کے باوجود اُس نے آج تک امریکہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ لیکن پاکستان کے جرنیلوں کے لیے انسان کی عزت اور تکریم کا بھی کوئی مفہوم نہیں ہے۔ انہیں ایک ایسی پُرتعیش زندگی بسر کرنے کی عادت ہے جس کے آگے کسی چیز کی کوئی حیثیت نہیں۔

جو شخص مذہب‘ اخلاق اور انسان کی تکریم کو نہیں مانتا وہ کم از کم فائدے اور نقصان کا تو قائل ہوتا ہی ہے۔ لیکن پاکستان کے جرنیل تو امریکہ کی جنگ کے حوالے سے فائدے اور نقصان کے بھی قائل نہیں رہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ امریکہ کی جنگ میں شریک ہوکر ہم نے اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا کیا اور پوری قوم کو ذلت کے شدید احساس میں مبتلا کیا، اور یہ ایک بہت ہی بڑا قومی نقصان ہے۔ ہم نے اس جنگ میں 30ہزار شہریوں اور 5 ہزار فوجیوں کی قربانی دی ہے، اور یہ اتنا بڑا نقصان ہے کہ بھارت کے ساتھ دو بڑی جنگوں میں بھی ہمارا اتنا جانی نقصان نہیں ہوا۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس جنگ نے ہمیں دس برسوں میں 70 ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان پہنچایا ہے۔ ہم نے اس جنگ کے نتیجے میں چالیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ہی ملک کے اندر ’’بے گھر‘‘ کیا ہے۔ اس جنگ نے پاکستان کو دنیا بھر کے خفیہ اداروں کی چراگاہ بنادیا ہے۔ اس جنگ نے پوری قوم بالخصوص خیبرپختون خوا اور قبائلی عوام کی نظروں میں فوج کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود بھی جنرل کیانی کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ ’’ہماری‘‘ جنگ ہے! سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے جرنیل فائدے اور نقصان کے فہم سے بھی نیچے کھڑے ہیں؟

امریکہ اور اس کی جنگ کا ایک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں امریکہ سب سے زیادہ پاکستان میں غیر مقبول ہے۔ پاکستان کے 80 فیصد سے زیادہ لوگ امریکہ کی پالیسیوں کی وجہ سے اسے پسند نہیں کرتے۔ یہی معاملہ دہشت گردی کے خلاف امریکی نام نہاد جنگ کا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی عظیم اکثریت پہلے دن سے آج تک اس جنگ کو ناپسند کرتی ہے۔ لیکن جنرل کیانی کے نزدیک ان حقائق کی بھی اہمیت نہیں۔ اگر ہوتی تو وہ امریکہ کی جنگ کو گود میں لے کر لوریاں نہ سنا رہے ہوتے۔
اس جنگ کے ساتھ تازہ ترین حادثہ یہ ہوا ہے کہ خود امریکہ نے اپنی جنگ کو ’’الوداع‘‘ کہہ دیا ہے۔ امریکی کہہ رہے ہیں کہ جب طالبان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو جنگ کیوں کی جائے؟ یہ جنگ اور طالبان کے حوالے سے امریکہ کے مؤقف میں 180 ڈگری کی سطح کی تبدیلی ہے۔ لیکن جنرل کیانی امریکہ سے بھی زیادہ امریکہ کے وفادار بن کر کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو جنگ کے سلسلے میں امریکہ کے مؤقف میں تبدیلی پر ہمارے جرنیلوں کو کہنا چاہیے تھا کہ جان بچی سو لاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے… مگر جنرل اشفاق پرویزکیانی کے بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ ہم نہ جان بچانا چاہتے ہیں، نہ لاکھوں پانا چاہتے ہیں اور نہ لوٹ کر گھر کو آنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟

اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے جرنیلوں کا تکبر۔ اگر ہمارے جرنیل یہ تسلیم کرلیں کہ ہم نے گزشتہ دس برسوں میں اپنی نہیں امریکہ کی جنگ لڑی ہے تو انہیں قوم کے سینکڑوں سوالات کا جواب دینا پڑ جائے گا، چنانچہ جنگ کے جس بچے کو امریکہ نے گود سے اتار پھینکا ہے جنرل کیانی اسے بھی گود میں اٹھائے پھررہے ہیں، بلکہ وہ قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ ہم نے اس بچے کو گود لے کر تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے۔ لیکن تاریخ بہت سفاک ہوتی ہے، وہ بڑے بڑوں کا حساب بے باق کردیتی ہے۔ چنانچہ وہ دن دور نہیں جب تاریخ فیصلہ کرے گی کہ امریکہ کی جنگ کو گود لے کر ہمارے جرنیلوں نے کیا کیا تھا۔

شاہنواز فاروقی

5 September 2013

کاش اس وقت بھی فیس بک ہوتی



“So hot”
“wowwwwwwwwww kea lag rahi ho yar”
“so cuteeeeee, awesome”
“yar je chah raha hay k, k ,k…….”
“kea qatil ada cheez ho”
“taswer teri dil mera behla na sakay g”
“aap ke tareef k leay lafz nahi, mukammal hussan ho”
“I love u”

ٹھرکی ہم وطنوں کی اس بازاری جملے بازی نے سیلانی کو تین دہائی پہلے کے سعید بھائی یاد دلا دیے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سیلانی گول مٹول شرارتی بچہ ہوا کرتا تھا، تب اس کے نیکر پہننے پر کسی کو اعتراض تھا نہ محلے کے کسی گھر میں بلا جھجھک گھسنے پر کوئی ٹوکتا تھا، تب شہر بھی بانجھ نہ ہوا کرتے تھے، محلہ کلچر زندہ تھا اور پورا محلہ ہی گھر جیسا ہوا کرتا تھا، آج اگر گھر میں کریلے پکے ہیں تو رکابی لے کر ساتھ والے میر صاحب کے گھر چلے آئے، وہاں مونگ کی دال کا سن کر منہ بنا تو چوہدری صاحب کے گھر پہنچ گئے، وہاں بھی دال نہ گلی تو کشمیری چاچی کے پاس آ گئے اور یہ بے تکلفی سیلانی تک ہی محدود نہ تھی، اس کی سرحدوں میں پورا محلہ آتا تھا، سیلانی کے گھر میں آلو گوشت بنتا تو خوشبو سونگتے ہوئے چوہدری صاحب کی ناک سڑکاتی بیٹی آ جاتی کہ خالہ خالہ ایک بوٹی اور دو آلو ڈال دو۔

اس محلہ کلچر میں انسان رہتا تو اپنے گھر کی چاردیواری میں تھا، لیکن اقدار کی چاردیواری پورے محلے کو ایک گھر بنا کر رکھتی تھی، اس وقت سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتے تھے اور بڑوں کا احترام ایسا کہ اگر محلے کا کوئی بڑا بوڑھا کسی غلطی پر کان کھینچ کر تشریف پر دو جوتے بھی لگا دے تو کسی میں ہمت نہ ہوتی کہ منمناتے ہوئے امی ہی سے کہہ دیں، دہلی کالونی کے اس محلے میں سیلانی بےبی باجی سے ٹیوشن پڑھنے جایا کرتا تھا، بے بی باجی بی اے کر رہی تھیں، دبلی پتلی سی بےبی باجی کی شکل پی ٹی وی کے ڈرامے انکل عرفی کی ہیروئن سے کافی ملتی تھی، وہ بال بھی اسی انداز کے بناتی تھیں اور خاصی خوش لباس بھی تھیں، اس وقت گھٹنوں سے اوپر تک چھوٹی قمیض اور بڑے بڑے پائنچوں والی شلوار کا رواج تھا، سیلانی کو یاد ہے کہ ایک بار باجی کپڑے سلوانے کے لیے سیلانی کو ساتھ لے گئیں، راستے میں نکڑ پر محلے کے وحید مرادسعید بھائی، جسم سے چپکی قمیض اور بیل باٹم پینٹ پہنے کھڑے تھے، سعید بھائی نے باجی کو آتے دیکھا تو فورا ہی جیب سے کنگھی نکال کر اپنی زلفیں سنوار لیں اور پوز مار کر کھڑے ہو گئے، سیلانی اور باجی پاس سے گزرے تو سعید بھائی نے مسکراتے ہوئے دبی دبی آواز میں جملہ اچھالا: آج تو لوگ قیامت ڈھا رہے ہیں۔

باجی نے ناگواری سے ایک نگاہ غلط ڈالی، البتہ کہا کچھ نہیں، سیلانی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ قیامت ڈھانا کیا ہوتا ہے، اس نے باجی سے پوچھا تو انہوں نے ڈانٹ دیا، باجی نے درزی کو کپڑے دیے اور واپس ہو لیں، واپسی پر وحید مراد صاحب اسی کھمبے کے ساتھ ٹیک لگائے منتظر تھے، انہوں نے بےبی باجی کو دیکھ کر ایک سرد آہ بھری اور پھر ایک گیت گنگنانے لگے، سیلانی نے سعید بھائی کی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنی آنکھ کا گوشہ دبا دیا۔
   
گھر پہنچ کر سیلانی نے بے بی باجی کی بڑی بہن سے پوچھا: آپا! یہ قیامت کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: کیوں بیٹا! تمیں قیامت کہاں سے یاد آ گئی؟

مجھے نہیں یاد آئی، وہ سعید بھائی نے بے بی باجی کو دیکھا تو انھیں یاد آ گئی، وہ باجی کو کہہ رہے تھے کہ آج تو قیامت ڈھا رہی ہو.....
سیلانی نے معصومیت سے بتایا تو بڑی باجی نے ڈانٹ کر چپ کرا دیا، مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا، صحن میں لگے سنک پر غرغرے کرتے ہوئے بھائی جان سن چکے تھے، وہ ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے، انہوں نے اپنی ہاکی لی اور باہر نکل گئے، اس کے بعد وحید مراد صاحب پر قیامت ڈھ پڑی۔ اس قیامت میں ان کی طوطے جیسی خمیدہ ناک اور سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا، اس روز بھائی جان نے وحید مراد کے ساتھ خوب کھیلا، محلے کے لڑکوں نے بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، وحید مراد صاحب کئی ہفتے گنگنانا بھول کر کراہتے رہے، سعید بھائی کے والد صاحب بھلے آدمی تھے، انھیں جب پتا چلا تو انہوں نے باجی کے گھر آ کر معافی مانگی اور سینما والوں کو خوب بددعائیں دیں، جو نوجوان نسل کو لفنگا بنا رہے تھے۔ لیکن یہ اچھے وقتوں کی بات ہے، جب بہت کم گھروں میں ٹی وی لائونج نام کی جگہ ہوتی تھی، نوجوانوں کے اخلاق و کردار پر وی سی آر نے حملہ نہیں کیا تھا، پی ٹی وی کے خبرنامے میں نیوز کاسٹر تک دوپٹہ اوڑھ کر خبریں پڑھا کرتی تھیں، اب واہیات ابلاغیات نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔
سیلانی کو آج فیس بک پر ایک خاتون کی خود نمائی اور ان کے دوستوں کی جانب سے دیے جانے والے داد و تحسین کے ڈونگروں نے سعید بھائی کی ٹوٹی ہوئی خمیدہ ناک کی یاد دلا دی، فیس بک پر شائد ہی کوئی ہو جو اپنی تصاویر، بیانات اور خیالات جاری نا کرتا ہو، مستورات بھی مختلف مواقع کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کر کے خود نمائی کے شوق کی تسکین کرتی ہیں، اس کام کے لیے یقینا خواتین اور ان سے وابستہ حضرات کو فراغ دل ہونا پڑتا ہو گا، وہ محترمہ بھی خاصی فراغ دل" واقع ہوئی ہیں، پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ہونے والے فیشن شوز میں بلی کی چال چلنے والی بیبیاں عموما اس طرح کی حرکات و سکنات کرتے ہوئے تصویریں بنواتی ہیں، گویا درد قولنج میں مبتلا ہوں یا ابھی ابھی نیند سے جاگی ہیں اور انگڑائی لے کر بستر سے نیچے اترنے کا سوچ رہی ہیں..... اس بی بی نے بھی ایسی ہی ادائوں کے ساتھ اپنی تصاویر فیس بک پر جاری کر دیں اور اس تصویر کے نیچے جملے اچھالنے والوں اور پسند کرنے والوں کی قطار بندھ گئی، سیلانی حیران رہ گیا، جب اس نے دیکھا کہ سات سو افراد نے اس تصویر پر مہر پسندیدگی ثبت کی اور تین سو نوے نے واہیات ابلاغیات کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ یہ سب دیکھ کر سیلانی کو بے اختیار سعید بھائی یاد آ گئے، آج یقینا ان کے منہ میں دانت ہوں گے نا پیٹ میں آنت ہو گی، غالبا وحید مراد کی زلفوں کی جگہ چمکتی ہوئی چندیا لے چکی ہو گی، آنکھیں بھی چندھیا گئی ہوں گی اور خمیدہ ناک کے ساتھ ساتھ کمر بھی خمیدہ ہو چکی ہو گی، ہو سکتا ہے ان کا حافظہ بھی خاصہ کمزور ہو گیا ہو اور الله کرے کمزور ہو گیا ہو کہ وہ ہاکی کے ذریعے خود پر ڈھائی جانے والی قیامت بھول چکے ہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو وہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ میں تو صرف بلاواسطہ ہی منمنایا تھا، یہاں تو گھر گھر میں لونڈے لپاڑے فیس بک کھولے ایسے ایسے جملے چست کرتے پھر رہے ہیں کہ زمین پھٹے اور بندہ سما جائے اور پھر یہ موقع انھیں کون دے رہا ہے؟ لڑکیاں بالیاں، خواتین خود حوصلہ افزائی کر رہی ہیں، کاش اس وقت بھی فیس بک ہوتی، میری ناک اور دانت تو سلامت رہتے.....

 سیلانی یہ سوچ رہا تھا کہ فیس بک پر میلے کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ ایک خاتوں کی تصویر آ گئی، تصویر میں محترمہ دوپٹہ کمر کے گرد لپیٹے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے عاجزانہ منہ بنائے کھڑی تھیں، ساتھ ہی ان کی فیس بک کے دوستوں سے درخواست تھی: دعا کریں میری واشنگ مشین جلد ٹھیک ہو جائے۔ سیلانی نے لاحول پڑھی اور بڑبڑایا بی بی، واشنگ مشین سے زیادہ آپ کو ٹھیک ہونے کی ضرورت ہے..... سیلانی بڑبڑاتے ہوئے بی بی کی میلے کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ تصویر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا، اور دیکھتا چلا گیا۔