11 September 2013
امریکہ کی جنگ کو گود لینے والے
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں فرمایا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ ہماری جنگ ہے اور ہم نے اس جنگ میں شرکت کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔
مثل مشہور ہے ’’ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں‘‘۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ طاقتور کا ساتھ سب ہی دیتے ہیں، خواہ طاقت ور کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو۔ دنیا میں جتنی باطل طاقتیں رہی ہیں ان کی حمایت کرنے والے اسی ذہنیت کے حامل تھے۔ نمرود میں اس کے سوا کوئی خوبی نہ تھی کہ وہ طاقتور تھا۔ فرعون میں اس کے سوا کوئی حسن نہ تھا کہ وہ قوی تھا۔ لیکن یہ انسانی ذہن کی پستی کی انتہا نہیں ہے۔ انسانی ذہن کی پستی کی انتہا یہ ہے کہ اگر تم دشمن کو شکست نہیں دے سکتے تو اس کے ساتھ مل جائو۔ پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ کے حوالے سے یہی کیا ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف کے سامنے سات مطالبات رکھے تو اس کا خیال تھا کہ جنرل پرویزمشرف ان میں سے تین چار مطالبات تسلیم کریں گے، مگر جنرل پرویزمشرف نے سات کے سات مطالبات کو تسلیم کرلیا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ بزدلی ایک ذہنی و نفسیاتی عارضہ ہے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے مگر اس عارضے کی جڑیں بھی اخلاقیات میں پیوست ہوتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے ملا عمر کے سامنے بھی دو ہی صورتیں رکھی تھیں: تم یا تو ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو۔ ملا عمر نے صاف کہا کہ ہم نہ تمہارے ساتھ ہیں نہ تمہارے خلاف ہیں۔ ہم حق کے ساتھ ہیں اور باطل کے خلاف ہیں۔ ان کو جنرل پرویزمشرف کے بھیجے ہوئے علماء نے بھی سمجھایا کہ ایک اسامہ بن لادن کے لیے پوری ریاست کو دائو پر لگادینا ٹھیک نہیں۔ مگر ملا عمر کی اخلاقی بنیاد مستحکم تھی، چنانچہ انہوں نے کہا کہ اسامہ کو حوالے کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ان کے خلاف ٹھوس شہادت پیش کی جائے، بصورت ِدیگر ہم اسلامی تعلیمات کی رو سے اپنے مہمان کو ہرگز امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ اقبال نے کبھی کہا تھا ؎
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
ملا عمر نے اقبال کے اس مثالیے یا Idealکو 20 ویں صدی میں حقیقت بناکر دکھادیا۔ لیکن جنرل پرویز امریکہ کی ایک دھمکی پر دبک اور پچک کر رہ گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی شخصیت کی اخلاقی بنیادیں یا تو موجود ہی نہیں تھیں، یا انتہائی کمزور تھیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ا گر جنرل پرویزمشرف امریکہ سے ’’تعاون‘‘ نہ کرتے تو امریکہ پاکستان کو واقعتاً پتھر کے دور میں واپس بھیج دیتا۔ پہلی بات تو یہ کہ جنرل پرویز نے امریکہ کے ساتھ ’’تعاون‘‘ نہیں کیا۔ وہ امریکہ کے لیے کرائے کے قاتل کا کردار ادا کرنے لگے، یہاں تک کہ یہ کردار برسوں پر محیط ہوگیا۔ دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ بہادروں کا ساتھ دیتا ہے۔ بہادر کمزور بھی ہو تو اللہ اسے قوی کردیتا ہے، اور بزدل طاقتور بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے کمزور بنادیتا ہے۔ امریکہ نے جنرل پرویزمشرف کو دھمکی دے کر ان پر ایک نفسیاتی اور اعصابی حملہ کیا تھا، اور جنرل پرویز ایک ہی حملے میں ڈھیر ہوگئے۔ وہ امریکہ کی مزاحمت کرتے تو امریکہ پاکستان کو نشانہ بنانے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی ملک کو ناراض کرنے کے مضمرات ہولناک ہوسکتے تھے۔ امریکہ اچھی طرح جانتا تھا کہ پاکستان کے بغیر وہ نہ افغانستان میں داخل ہوسکتا ہے، نہ وہاں طویل جنگ لڑسکتا ہے۔ پاکستان اُس وقت 17کروڑ لوگوں کا ملک تھا اور اس کے عدم استحکام کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ اور پورے وسطی ایشیاء پر مرتب ہوتے۔ جنرل پرویز مزاحمت کرتے تو امریکی ان تمام اندیشوں میں مبتلا ہوتے۔ مگر جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر ہتھیار ڈال کر امریکہ کو ہر اندیشے اور ہر خطرے سے بے نیاز کردیا۔
لیکن امریکہ کی جنگ کو گود لینے کے حوالے سے دیکھا جائے تو جنرل کیانی کا معاملہ جنرل پرویز سے بھی ابتر ہے۔ کیا جنرل کیانی کو اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے امریکہ کی جنگ کو گود لے کر کن کن چیزوں کی خلاف ورزی کی ہے؟ انہوں نے کن کن چیزوں کو پامال کیا ہے؟
اسلام کہتا ہے کہ اگر تمہارے پڑوس میں اہلِ ایمان جبر کا شکار ہوں تو ان کی مدد کرو خواہ تم کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ مگر پاکستان کے جرنیلوں نے پڑوس میں آباد اہلِ ایمان کی مدد کرنے کے بجائے باطل کی ہرممکن اعانت کی۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ اسلامی ملک کا ایک انچ کافروں کے حوالے کرنا حرام ہے، مگر پاکستان کے حکمرانوں نے پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل کیانی باطل کی پشت پناہی کو اپنی جنگ قرار دے رہے ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان محض اپنی عزت و تکریم کی خاطر بھی جبر و استبداد کی مزاحمت کرتا ہے۔ ویتنام ایک لادین ملک تھا مگر اس نے امریکہ کے خلاف دس سال تک جنگ لڑی اور اسے جیت کر دکھایا۔ کیوبا ایک کمیونسٹ ملک ہے اور پاکستان کے مقابلے پر اس کی حیثیت ایک نقطے سے زیادہ نہیں، مگر اس کے باوجود اُس نے آج تک امریکہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ لیکن پاکستان کے جرنیلوں کے لیے انسان کی عزت اور تکریم کا بھی کوئی مفہوم نہیں ہے۔ انہیں ایک ایسی پُرتعیش زندگی بسر کرنے کی عادت ہے جس کے آگے کسی چیز کی کوئی حیثیت نہیں۔
جو شخص مذہب‘ اخلاق اور انسان کی تکریم کو نہیں مانتا وہ کم از کم فائدے اور نقصان کا تو قائل ہوتا ہی ہے۔ لیکن پاکستان کے جرنیل تو امریکہ کی جنگ کے حوالے سے فائدے اور نقصان کے بھی قائل نہیں رہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ امریکہ کی جنگ میں شریک ہوکر ہم نے اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا کیا اور پوری قوم کو ذلت کے شدید احساس میں مبتلا کیا، اور یہ ایک بہت ہی بڑا قومی نقصان ہے۔ ہم نے اس جنگ میں 30ہزار شہریوں اور 5 ہزار فوجیوں کی قربانی دی ہے، اور یہ اتنا بڑا نقصان ہے کہ بھارت کے ساتھ دو بڑی جنگوں میں بھی ہمارا اتنا جانی نقصان نہیں ہوا۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اس جنگ نے ہمیں دس برسوں میں 70 ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان پہنچایا ہے۔ ہم نے اس جنگ کے نتیجے میں چالیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ہی ملک کے اندر ’’بے گھر‘‘ کیا ہے۔ اس جنگ نے پاکستان کو دنیا بھر کے خفیہ اداروں کی چراگاہ بنادیا ہے۔ اس جنگ نے پوری قوم بالخصوص خیبرپختون خوا اور قبائلی عوام کی نظروں میں فوج کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے باوجود بھی جنرل کیانی کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ ’’ہماری‘‘ جنگ ہے! سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے جرنیل فائدے اور نقصان کے فہم سے بھی نیچے کھڑے ہیں؟
امریکہ اور اس کی جنگ کا ایک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں امریکہ سب سے زیادہ پاکستان میں غیر مقبول ہے۔ پاکستان کے 80 فیصد سے زیادہ لوگ امریکہ کی پالیسیوں کی وجہ سے اسے پسند نہیں کرتے۔ یہی معاملہ دہشت گردی کے خلاف امریکی نام نہاد جنگ کا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی عظیم اکثریت پہلے دن سے آج تک اس جنگ کو ناپسند کرتی ہے۔ لیکن جنرل کیانی کے نزدیک ان حقائق کی بھی اہمیت نہیں۔ اگر ہوتی تو وہ امریکہ کی جنگ کو گود میں لے کر لوریاں نہ سنا رہے ہوتے۔
اس جنگ کے ساتھ تازہ ترین حادثہ یہ ہوا ہے کہ خود امریکہ نے اپنی جنگ کو ’’الوداع‘‘ کہہ دیا ہے۔ امریکی کہہ رہے ہیں کہ جب طالبان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو جنگ کیوں کی جائے؟ یہ جنگ اور طالبان کے حوالے سے امریکہ کے مؤقف میں 180 ڈگری کی سطح کی تبدیلی ہے۔ لیکن جنرل کیانی امریکہ سے بھی زیادہ امریکہ کے وفادار بن کر کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو جنگ کے سلسلے میں امریکہ کے مؤقف میں تبدیلی پر ہمارے جرنیلوں کو کہنا چاہیے تھا کہ جان بچی سو لاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے… مگر جنرل اشفاق پرویزکیانی کے بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ ہم نہ جان بچانا چاہتے ہیں، نہ لاکھوں پانا چاہتے ہیں اور نہ لوٹ کر گھر کو آنا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے جرنیلوں کا تکبر۔ اگر ہمارے جرنیل یہ تسلیم کرلیں کہ ہم نے گزشتہ دس برسوں میں اپنی نہیں امریکہ کی جنگ لڑی ہے تو انہیں قوم کے سینکڑوں سوالات کا جواب دینا پڑ جائے گا، چنانچہ جنگ کے جس بچے کو امریکہ نے گود سے اتار پھینکا ہے جنرل کیانی اسے بھی گود میں اٹھائے پھررہے ہیں، بلکہ وہ قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ ہم نے اس بچے کو گود لے کر تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے۔ لیکن تاریخ بہت سفاک ہوتی ہے، وہ بڑے بڑوں کا حساب بے باق کردیتی ہے۔ چنانچہ وہ دن دور نہیں جب تاریخ فیصلہ کرے گی کہ امریکہ کی جنگ کو گود لے کر ہمارے جرنیلوں نے کیا کیا تھا۔
شاہنواز فاروقی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment