Test Footer 2

9 June 2011

قائد اعظم ؒ کا تصورِپاکستان!





قائد اعظم ؒ کا تصورِپاکستان!





سید منورحسن





قیام پاکستان ایک معجزہ اور انسانی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ مسلمانان
برصغیر نے انگریز سامراج کی سازشوں اور ہندو بنیے کی چالبازیوں کے باوجود
اپنی بے مثال جدوجہد اور لازوال قربانیوںکے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی
مملکت کے قیام کو ممکن کردکھایا۔ ایک الگ مملکت کا خواب علامہ اقبال ؒنے
دیکھاتھا لیکن اسکی تعبیر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قسمت میں
لکھی تھی جنھوں نے مسلمانان برصغیر کو ایک منظم قوم میں بدلا اوراپنے
اخلاص، بلند کردار، جرأت و استقامت،اصول پسندی اور دو قومی نظریے پر یقین
کے نتیجے میں پاکستان بنانے میں کامیابی حاصل کی۔




بیسویں صدی میں جابجامسلم ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے ہیں،جغرافیہ اور
تاریخ بدلی ہے۔اور ظاہر ہے کہ کسی نے طشت میں رکھ کر مسلمانوں کو آزادی
پیش نہیں کی ہے بلکہ کشمکش اور آگ اور خون کے دریا پار کرکے آزادی حاصل
کی گئی ہے۔ ہر ایک جو اپنا پاکستان بنا رہاتھایا اپنے ہی ملک کے اندر
استعمار کو بھگا رہاتھا،توہر جگہ کے لحاظ سے نعرہ یہی تھا’’ پاکستان کا
مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘،اور یہ اسلام کا مضبوط حوالہ تھاجس نے لوگوں کے
اندر کردار،جدوجہداور کوشش و کاوش کا ایک عنوان اور بڑے پیمانے پر قربانیاں
دیکر کشمکش مول لینے کا کلچر پیداکیا۔لہٰذا اس اعتبار سے یہ بات بلاخوف
تردید کہی جاسکتی ہے کہ آج اگر ستاون ملک دنیا کے نقشے پر آزاد مسلمان
ملک کہلاتے ہیں تو حقیقتاً ان کی بڑی تعداد اسلام اور کلمے کے نام پرآزاد
ہوئی ہے۔ خود برصغیر پاک و ہند میں لاکھوں انسان آگ اور خون کے دریا سے
گزرے۔ بہنوں بیٹیوں کے دامن عصمت تار تار ہوئے اور لوگ لٹے پٹے قافلوں کی
صورت میں پاکستان پہنچے۔ظاہر ہے کہ یہ قربانی اورجدوجہدکسی مادی مفاد کیلئے
نہ تھی بلکہ اس اسلامی نظریے کیلئے تھی جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہونے
جارہا تھا۔ دینی و مذہبی احساس، پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا خواب اور
اس کی خاطر ہر قربانی کو انگیز کرنے کا جذبہ، یہ وہ عناصر ترکیبی ہیں جو
قیامِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد ہیں۔



بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جب بھی حصول پاکستان کے مقاصد
کا ذکر کیا توان مقاصد میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام سرفہرست تھا
جہاں قرآن و سنت کی فرمانروائی ہو۔انھوں نے بارہا کھل کر یہ بات کہی کہ
ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطے کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک ایسی
سرزمین کے حصول کی کوشش ہے جہاں مسلمان اسلامی ضابطہ حیات، اپنی روایات
اور اسلامی قانون کیمطابق زندگی گزار سکیں۔



 
نومبر21, 1945ء فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 



’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطہ حیات، اپنے
تہذیبی ارتقاء ، اپنی روایات اور اسلامی قانون کیمطابق حکمرانی
کرسکیں۔ہمارا دین، ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو
ہمیں آزادی حاصل کرنے کیلئے متحرک کرتے ہیں۔‘‘




اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ



’’لیگ ہندوستان کے اْن حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام
کی عَلم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ وہاں اسلامی قانون کے
مطابق حکومت کرسکیں۔‘‘




قائد اعظم نے جب بھی اسلام اور پاکستان کے تشخص اوربرصغیر کے مسلمانوں کے
ایک جداگانہ قوم ہونے کی بات کی تو یہ کسی مصلحت یا رسمی اور روایتی طور
پرنہیں تھی بلکہ انھوں نے ایک عملی حقیقت کے طور پراسے بیان کیا۔وہ
مسلمانوں کے ملّی تشخص کے دل سے قائل اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام
کے آرزو مند تھے۔



گاندھی سے خط و کتابت کے دوران ستمبر 1944ء میں انھوں نے گاندھی کو لکھا:



’’ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان
اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں جو ‘‘قوم ’’کی ہر تعریف اور معیار پر پوری اترتی
ہیں۔ ہم دس کروڑ کی ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک
مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور فنِ تعمیر، احساس
اقدار و تناسب، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج اور تقویم
(کیلنڈر)، تاریخ اور روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصہ بحث یہ
ہے کہ زندگی اور اسکے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویہ
نگاہ ہے۔ اور قانونِ بین الاقوامی کی ہر دفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔‘‘




اور 11 اکتوبر 1947ء کو کراچی میں مسلح افواج کے افسروں سے خطاب میں فرمایا :



’’قیام پاکستان، جس کیلئے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں
تھے، اللہ کے فضل و کرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام
دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذات خود کوئی مقصد نہیں۔ تصور یہ تھا
کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں اور آزاد افراد کی
حیثیت سے سانس لے سکیں۔ جسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے
سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ ‘‘



قائداعظم کی یہ دیرینہ خواہش رہی کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور
مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جہاں کے باشندے اپنے عقیدے کیمطابق
اپنے مذہب پر عمل کر سکیں اور اسلام کے نظام عدل و انصاف سے مستفید ہوسکیں۔



قائد اعظم کی تقاریر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کوصرف چند
عقیدوں،روایتوں اورروحانی تصورات کا مجموعہ نہیںبلکہ ہر مسلمان کیلئے ایک
ضابطہ سمجھتے تھے جو اسکی زندگی اور کردار کو سیاست و معیشت اور انفرادی و
اجتماعی معاملات میں انضباط عطا کرتا ہے۔ انھوں نے متعدد مقامات پر کہا کہ
اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میںقرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے۔قرآن مجید
کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔
روحانی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی سمیت زندگی کا کوئی پہلوایسا نہیں جو
قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔قرآن مجیدکے احکام ہی سیاست و معاشرت
میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ قائد اعظم کے تصور
پاکستان کے یہ وہ خدوخال ہیں جو ان کی مختلف تقریروں میں جابجا بکھرے ہوئے
ہیں اور ایک اسلامی ریاست کا وہ تصورپیش کرتے ہیں جس کو عملی جامہ پہنا
کرہم نہ صرف موجودہ چیلنجز سے عہدہ براء ہوسکتے ہیں بلکہ ایک باوقار اور
ترقی یافتہ قوم کی صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔






Quaid e azam's ideology of pakistan.




During the Allahabad session of the All-India Muslim League in 1942, Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah was asked as to what type of state Pakistan would be, he replied: "It will be an Islamic state on the pattern of Medina state with human rights, liberalism, democracy and complete tolerance and freedom of conscience to all citizens without any distinction of colour, creed, language, and race as granted by the Prophet of Islam Muhammad (Peace Be Upon Him) to Christians, Jews, idol worshippers and all others. Justice, brotherhood, liberty, equality and fraternity will reign supreme." 

In his speech at the Frontier Muslim League Conference on 21 November 1945, Quaid-e-Azam said: “We have to fight a double-edged battle, one against the Hindu Congress and the other against British imperialists, both of them being capitalists. The Muslims demand Pakistan where they could rule according to their own code of life and according to their own cultural growth, traditions, and Islamic Laws.” 

Similarly, in his Eid message to the nation in 1945, Quaid-e-Azam said: “From the Atlantic to the Ganges, the Quran is acknowledged as the fundamental code, not of theology but of civil and criminal jurisprudence, and the laws which regulate the actions and the properties of mankind are regulated by the immutable sanctions of the Will of Allah”. He said, “Everyone, except those who are ignorant, knows that the Quran is the general code of the Muslims. A religious, social, civil, commercial, military, judicial, criminal penal code; it regulates everything from the ceremonies of religion to those of daily life; from the salvation of the soul to the health of the body; from morality to crime, from punishment here to hereafter and our Prophet (Peace Be Upon Him) has enjoined on us that every Muslim should possess a copy of the Quran and be his own priest. Therefore, Islam is not confined to the spiritual tenets and doctrines and rituals and ceremonies. It is a complete code regulating the whole Muslim society in every department of life, collective and individually.” Pakistan emerged as an independent state on 14th August 1947 as a result of an ideology. The strength of the ideology can be judged from the fact that only religion acts as a binding force for five distinct provinces of Pakistan, as each province has a discrete identity in term of customs, norms, traditions, languages and dialects. 

Today Objective Resolution serves as the preamble of our Constitution. No doubt, Objective Resolution should be our ultimate goal. We cannot hide the truth by closing our eyes or burring of old syllabus in our country and confiscating translations of Holy Quran, only because it talks about why Pakistan was created and what is our final destination. The Basic Principle Committee was appointed by a resolution of the Constituent Assembly, dated 12 March 1949, to report, in accordance with the Objective Resolution, on the main principles on which the future constitution of Pakistan should be framed. The Interim Report of the Basic Principle Committee was presented to the Constituent Assembly on September 28, 1950. In accordance with the Resolution of the Constituent Assembly dated November 21, 1950, the interim report was published for inviting suggestions from the public. These suggestions were to be received in the Secretariat of the Constituent Assembly by January 31, 1951. After examinations of bulk of the suggestions, the Basic Principle Committee submitted recommendations as the basis on which the future constitution of Pakistan should be drafted. It is pertinent to mention here that the Basic Principle Committee also appointed five members from minorities through the resolution dated March 12, 1949, including Sir Muhammad Zafrullah Khan, Jogendra Nath Mandal, Kamini Kumar Dutta, Sris Chandra Chattopadhyaya and Prem Hari Barma. 






 


quaid e azam ka tasawur e pakistan.


by syed munawar hassan


pakistan is a miracle and historically great incident


14 AUGUST, Independance day article





Forex trading


0 comments:

Post a Comment