سرسبزوشاداب گھاس اور بڑے بڑے درختوں کے سائے تلے دور تک پھیلے ہوے قبروں کے کتبے ہیں جن پر صلیب کے نشانات بنے ہوئے ہیں. اکثر پر امریکی پرچم بھی پینٹ کیا ہوا ہے. یہ امریکہ کا قومی قبرستان آرلنگٹن ہے جس کے درختوں پر اس وقت خزاں کی آمد آمد ہے اور پتے زردی مائل سرخ ہو چکے ہیں. ان قبروں پر مرنے والوں کی آرمی یونٹ کا نام، ان کی جوان عمری کی موت کا ثبوت وہ تاریخ پیدائش ہے جو وہاں درج ہے، یہاں وہ مقام بھی لکھا ہے جہاں ان کی موت واقہ ہوئی. یہ مقام انتقال یا تو افغانستان ہے یا عراق. چند دن پہلے پورے امریکہ کے اخباروں میں ایک تصویر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی. لمبے کالے اوور کوٹ اور کالی پنٹ میں ملبوس امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر اوباما افسردہ چہرہ لیے ان قبروں کے درمیان سے گزر رہا ہے. جب وہ اس قبرستان پہونچا تو اس کے ارد گرد وہ کئی سو عورتیں اور بچے بھی جمع ہو گئے جو اپنے پیاروں کی یاد میں آنسو بہانے قبرستان آئے ہوئے تھے. اس کی دوسری تصویر ڈوور ائیر بیس کی ہے جہاں وہ ان سپاہیوں کے تابوت وصول کرنے پہونچا جن کی لاشیں افغانستان سے وہاں لائی گئی تھیں.اس نے روتے ہوے ان لوگوں کو ناکام تسلی بھی دی. اس کے بعد افغانستان وار کونسل کے اجلاس کی رپورٹوں کی تجاویز میں اسے واضح بتایا گیا کہ افغانستان میں ہم جنگ ہار چکے ہیں اور جیتنے کا خواب بھی نہی دیکھا جا سکتا. اس واحد عالمی طاقت کے مقابلے میں دو نہتے اور بے سروسامان ممالک کے شہریوں نے جو عزیمت کی داستان رقم کی ہے وہ حیران کن ہے.
نہتے، بے سروساماں دیوانوں اور فرزانوں کی فتح اور پوری ترقی یافتہ عالمی اتحاد کی ذلت آمیز شکست کی اس نوید کے ساتھ ایک اور کہانی بھی ہے. بزدلوں، بے ضمیروں اور غیرت و حمیت کا سودا کرنے والوں کی داستان.
وہ حکمران جن کا ذاتی مفاد امریکہ سے وابستہ تھا اور انہوں نے اپنی پوری قوم کو بیچ ڈالا. ان سیاستدانوں کی کہانی ہے جو اپنی بے ضمیری کا درس اس ملک کے میڈیا پر آ کر دیتے تھے کہ اگر ہم اپنی غیرت کا سودا نہ کرتے تو ہمارا تورابورا بنا دیا جاتا. ہم پتھر کے زمانے کی طرف لوٹ جاتے. ان دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں کا قصہ ہے جن کے دلوں میں پلتا خوف اور جن کے ضمیروں پر پردہ ڈالے مفادات انھیں مجبور کرتے رہے کہ قوم کو عالمی اقتصادیات، امریکی طاقت اور اپنی مجبوریوں کے قصے ایسے سنائیں کہ پوری قوم بےغیرتی کا لبادہ اوڑھ لے. یہ سب اور ان کے دلوں میں بسنے والا "عظیم" فوجی ڈکٹیٹر جو آج کل اس ملک کو تباہی سے دوچار کر کے دیار غیر میں بسا ہوا ہے، سب کے سب منتیں کر رہے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے چلا گیا تو یہاں کا امن خطرے میں پڑ جاۓ گا.
امریکہ نے تو جانا ہے اور اسے اقتدار طالبان کو ہی دے کر جانا ہے ورنہ اسے نکلتے ہوئے کئی گنا لاشیں اٹھانا ہوں گی.
ایسے میں یہ سب کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم وہی ہیں جو تمیں پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرتے تھے، ہم نے تمھارے سفیر کو بھی عالمی آداب کے خلاف امریکہ کے ہاتھوں بیچ ڈالا، ہماری زمین تمہاری بستیاں اجاڑنے کے کام آتی رہی. خیر یہ سب تو دوسرے ملک کا مسئلہ ہے ڈرو اس دن سے جب لوگ ان حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں کا گریبان تھام کر سوال کریں گے بتاؤ کیا ہمارا تورابورا بنا ہے یا کہ نہی. ہم پر ڈرون حملے ہوئے، ہمارا ہر شہر اور ہر قصبہ خون میں نہلایا گیا ہے. ہم تو اس بدنصیب قوم میں شمار ہو گئے جس میں مارنے والا بھی الله اکبر کہتا ہےاور مرنے والا بھی..
کاش ہم اس لمحے تمہاری بات نہ مانتے، غیرت، حمیت اور عزت و وقار کا فیصلہ کرتے، ہم مرتے لیکن ہمیں ایک یقین ہوتا کہ ہم جسے مارنے جا رہے ہیں وہ الله اکبر نہی کہتا. ہمیں موت سے پہلے یہ یقین ہوتا کہ ہم حق کی موت مر رہے ہیں.
0 comments:
Post a Comment