Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

31 March 2012

ایک کہانی بڑی پرانی





ایک کہانی بڑی پرانی
ہر  دور کی کہانی

ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا شہر سے دور کسی جنگل میں رہتے تھے۔ درویش عام طورپر یادِخدامیں مصروف رہتا تھا اور چیلا آس پاس کی بستیوں سے بھیک مانگ کر اس کی خدمت کیا کرتا تھا۔

درویش کا دل انسانیّت کے درد سے لبریزتھا اور وہ صبح شام انتہائی سوزوگداز کے ساتھ یہ دعا کیا کرتا تھامیرے پروردگار! میں ایک بے بس اور بے وسیلہ انسان ہوں اور تیرے بندوں کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا، لیکن اگر تو مجھے بادشاہ بنا دے تو میری زندگی کا ہر سانس بھوکے اور ننگے انسانوں کی خدمت کے لیے وقف ہوگا۔ میں یتیموں، بیواؤں اور نادار لوگوں کی سرپرستی کروں گا۔ میں محتاجوں کے لیے لنگر خانے کھولوں گا۔ میں عدل و انصاف کا بول بالا کروں گا۔ رشوت خور اور بددیانت اہلکاروں کو عبرت ناک سزائیں دوں گا۔ مظلوم مجھے اپنی ڈھال سمجھیں گے اور ظالم میرے نام سے کانپیں گے۔ میں نیکی اور بھلائی کو پروان چڑھائوں گا۔“

کمسن چیلے کو یہ یقین تھا کہ کسی دن مرشد کی دعا ضرور سنی جائے گی اورانکےدن پھر جائیں گے۔ لیکن وقت گزرتا گیا۔ چیلا جوان ہوگیااورنیک دل درویش میں بڑھاپے کے آثارظاہر ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ چیلے کے اعتقادمیں فرق آنےلگا، یہاں تک کہ جب درویش دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ اس کے قریب بیٹھنے کی بجائے چند قدم دور بیٹھتا اور دبی زبان سے یہ دعا شروع کر دیتا۔

میرے پروردگار! اب میرا مرشد بوڑھاہوچکا ہے۔ اسکے بال سفید ہوچکے ہیں۔ دانت جھڑ چکے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہے۔ اب وہ مجھے تخت کی بجائے قبر سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔ اگر تجھے ایک نیک دل آدمی کا بادشاہ بننا پسند نہیں تو مجھے بادشاہ بنا دے۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میرا ہر کام اپنے مرشد کی خواہشات کے الٹ ہوگا۔ میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ میں ناداروں کو زیادہ نادار اور بے بسوں کو زیادہ بے بس اور مظلوموں کو زیادہ مظلوم بنانےکی کوشش کروں گا۔ میں چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کروں گا۔ میں شرفاء کو ذلیل کروں گا۔ اور ذلیلوں کو عزت کی کرسیوں پر بیٹھاؤں گا۔ میں راشی اور بد دیانت اہلکاروں کی سرپرستی کروں گا۔

ابتداءمیں یہ ہوشیار چیلا چُھپ چُھپ کر دعائیں کیا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اسکا حوصلہ بڑھتا گیا اور کچھ مدت بعد اس کی حالت تھی کہ جب مرشد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ بھی اس کے قریب بیٹھ کرہی بلند آواز میں اپنی دعا دہرانی شروع کردیتا۔ درویش اپنی آنکھوں مین آنسو بھر کر یہ کہتا کہ اگر بادشاہ بن جاؤں تو عدل و انصاف نیکی اور سچائی کا بول بالا کروں اور چیلا قہقہ لگا کر یہ کہتا کہ اگر میں بادشاہ بن جاؤں تو ظلم اور بدی کا جھنڈا بلند کروں۔ درویش کہتا کہ میرے خزانے سے معذور اور نادار لوگوں کو وظائف ملیں گے اور چیلا یہ کہتا کہ میں ان پر سخت جرمانے عائد کروں گا۔ درویش اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور بسا اوقات ڈنڈا اٹھا کر پیٹنا شروع کردیتا، لیکن چیلا اپنی روایتی نیازمندی کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔

پھر وہی ہوا جو پرانے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی ملک کا بادشاہ چل بسا اور تخت کے کئی دعویدار ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آگئے۔ دور اندیش وزیر نے راتوں رات تمام دعوے داروں کو جمع کرکے یہ تجویز پیش کی کہ اب ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ شہر کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں اور علی الصباح باہر سے جو آدمی سب سے پہلے مشرقی دروازے پر دستک دے، اسے بادشاہ تسلیم کر لیا جائے۔

یہ تجویز بااتفاق رائے منظور کی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ نیک دل درویش کا چیلا بھیک مانگنے کے لیے کسی چھوٹی موٹی بستی کا رخ کرنے کے بجائے ملک کے دارالحکومت کی طرف جا نکلا۔ پو پھٹتے ہی اس نے شہر کے مشرقی دروازے پر دستک دی، پہریداروں نے دروازہ کھول کر اسےسلامی دی اور امراءاسے ایک جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف لے گئے۔

نئے بادشاہ نے تخت پر رونق افروز ہوتے ہی یہ حکم جاری کیا کہ میری سلطنت میں جتنے درویش، فقیر اور سادھو ہیں، انھیں کسی تاخیر کے بغیر گرفتار کرلیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے نئے بادشاہ کے مرشد کو کسی طرح یہ پتہ چل گیا کہ اس کا ہوشیار چیلےکی دعا قبول ہوگئی ہے اور وہ سرحد عبور کرکے کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔

اسکے بعد جو ہوا، وہ کسی تشریح یا تبصرے کا محتاج نہیں۔ نئے بادشاہ نے پوری مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام وعدے پورے کیے۔ نہروں کا پانی بند کردیاگیا۔ کنوئیں اور تالاب غلاظت سے بھر دیے گئے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں سے نکال کر حکومت کا کاروبار سونپ دیاگیا۔ نیک خداپرست انسانوں پر ظلم کی انتہا کر دی گئی۔

غرض ان داشمندوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی، جنہوں نے ملک کی بھلائی کے لیے ایک گداگر کو تخت پر بیٹھا دیا تھا۔ جب نئے بادشاہ کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے تو عوام کے لیڈروں نے اسکا حسب ونسب معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ سابق وزیراعظم کی قیادت میں ایک وفد تلاشِ بسیار کے بعد بادشاہ کے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے فریاد کی کہ خدا کے لیے ہمیں اس بلائے ناگہانی سے نجات دلائیے۔

عمررسیدہ درویش اپنے چیلے کے سامنے جانے سے گھبراتا تھا۔ لیکن ارکانِ وفدکی گریہ وزاری سے متاثر وہ یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوگیا۔ جب وہ دربار میں حاضرہواتوبادشاہ سلامت کواپنے پیرومرشدکی طرف دیکھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیااوراس نے مرعوبیت کے احساس سے مرغوب ہوکرکہا۔پیرومرشد! فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“

درویش نے جواب دیا۔ میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا۔ میں صرف تمہاری رعایا کے لیے رحم کی اپیل کرنے آیا ہوں۔ تم اقتدار کے نشے میں وہ زمانہ بھول گئےہو، جب بھیک مانگا کرتے تھے۔ خدا سے ڈرو۔ یہ سب فانی ہے۔ اگر ہوسکے تو موت سے پہلے کوئی نیک کام کرلو۔“

بادشاہ نے تلخ ہوکر جواب دیا۔دیکھیئےقبلہ! آپ میری قوّتِ برداشت کا امتحان لینے کی کوشش نہ کریں۔ یہ آپکی خوش قسمتی ہے کہ آپ میرے مرشد ہیں اور میں آپ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراہٹ محسوس کرتا ہوں۔ آپ مجھے جی بھر کر گالیاں دے سکتے ہیں، لیکن خدا کے لیے ان لوگوں کے ساتھ کسی نیکی کا مشورہ نہ دیں۔ آپ کو یاد ہے کہ ہم دونوں ایک ہی وقت میں دعا مانگا کرتے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپکی دعا قبول نہ ہوئی اورقدرت نے مجھے بادشاہ بنا دیا؟ اگر ان لوگوں کے اعمال ٹھیک ہوتے اور قدرت کو ان کی بھلائی مقصود ہوتی تو آپ ان کے بادشاہ بنتے۔ لیکن یہ بد بخت تھے۔ انہیں اچھے برے کی تمیز نہ تھی اور قدرت انکی بد اعمالیوں کی سزا دینے کے لیے مجھے بادشاہ بنا دیا۔ اب میں مرتے دم تک اپنا پروگرام پورا کرتا رہوں گا۔ اگر قدرت کو انکی گریہ وزاری پر رحم آجائے اور میری زندگی کے دن پورے ہوجائیں تو اور بات ہے، ورنہ میری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوگی۔

نیک دل درویش نے جواب دیا۔”برخوردارتم بلکل ٹھیک کہتے ہو۔ اگر یہ لوگ قدرت کی طرف سے کسی انعام یا بہتر سلوک کے مستحق ہوتے میری عمر بھر کی دعائیں رائیگاں نہ جاتیں۔ یہ لوگ جنہوں نے میرے بجائے تمہارے سرپر تاج رکھ دیا ہے، اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر رحم کیا جائے۔ تم شوق سے اپنا کام جاری رکھو۔۔

☀▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
▬▬▬☀

28 March 2012

ایک یہودی اسکالر کے کھلے خط کا دانت توڑ جواب




تحریر: فراز اکرم  




اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بھائیو اور بہنو کل ایک معروف یہودی سکالرڈاکٹر طوواہرٹمین کا پاکستانیوں کے نام
ایک خط دیکھنے کو ملا. خط کا عنوان ہے
پاکستانی ہم سے کب تک بلاوجہ نفرت کرتے رہیں گے


یہ خط اصل غلیظ یہودی ذہنیت سے بھرپور ہے. اس خط کے زریعے ایک طرف تو مسلمانوں میں آپس میں نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دوسری طرف اسرائیل اور یہودیوں کو معصوم اور مظلوم ثابت کرنے کی کوشش. خط کا مدھا یہ تھا کہ پاکستان کو چاہئیے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے اور دوستانہ تعلقات رکھے.

یہ خط پاکستانیوں کو بیوقوف بنانے اور اپنے حق میں رائے تیار کرنے کی ایک کوشش ہے. یہ تحریر تفصیل کی متحمل نہیں لہٰذا پہلے ہم ڈاکٹر طوواہرٹمین کے کلمات نقل کریں گے اور ساتھ ساتھ ان پر مختصر تبصرہ کر تے جائیں گے.



محترمہ فرماتی ہیں کہ



"پاکستان کے بارے میں قائدِاعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلمانانِ ہند کیلئے ایک ایسی تجربہ گاہ ہوگا جہاں اسلام کے بتائے ہوئے زریں اصولوں عملی طور پر نافذ کیے جا سکیں۔ مسلمانانِ ہند کی لازوال جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی اور مسلمانوں کی ایک نظریاتی آزاد ریاست پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 پر ابھر آئی۔
ایسی ہی ایک آزاد ریاست کا خواب بنی اسرائیل کے راہنماؤں نے بھی دیکھا۔ ایک ایسی امن پسند ریاست جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دربدر ظلم و ستم کا شکار یہودیوں کا اپنا گھر کہلا سکے، جہاں دنیا کے ذہین ترین لوگ بلا خوف و خطر اپنی صلاحتیں بنی نوح انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر سکیں، نئی نئی ایجادات کی جاسکیں،"




جواب(
کہنے کی حد تک تو یہ میٹھی میٹھی باتیں بہت پیاری ہیں پر حقیقت اس کے برعکس ہے.
اگرامن پسند ریاستاسے کہتے ہیں جو لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کی لاشوں پر تعمیر کی جائے تو ایسی امن پسند ریاست کو صفہ ہستی سے مٹانا ہم اپنا فرض جانتے ہیں۔ اور ہم آپ کی اس تقسیم یعنی عربی مسلمان، عجمی مسلمان، پاکستانی مسلمان اور افغانی مسلمان کو بھی تسلیم نہی کرتے، آپ نے پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست تو کہا لیکن شاید آپ کو سہی طرح ہمارے نظریات سے واقفیت نہی. ہمارے نظریات بہت واضح ہیں۔ ہم امت مسلمہ کا حصہ ہیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والا مسلمان چاہے کسی بھی رنگ، کسی بھی نسل کا ہو، جو بھی زبان بولتا ہو وہ ہمارا بھائی ہے۔ اس کی تکلیف ہماری تکلیف ہے، اس کا درد ہمیں محسوس ہوتا ہے۔ یہ امت ایک جسد واحد کی طرح ہے۔ اس لیے آپ کی یہ دلیل کہ چوں کہ آپ نے پاکستانیوں پر کوئی ظلم نہی کیا عربوں پر کیا ہے، اس لیے ہمیں آپ سے پیار محبت کا رشتہ بنانا چاہئیے بالکل بھی کارآمد نہی ہو سکتی۔۔

آپ کے پورے خط کی بنیاد صرف ایک ہے نقطہ ہے کہ یہ جنگ یہودیوں اور عربوں کی ہے اس لے پاکستانیوں کو بیچ میں نہی کودنا چاہئیے۔ اس لیے آپ کے پورے خط کی عمارت کو گرانے کے لیے میرا اتنا جواب ہی کافی ہے۔  لیکن میں کچھ اور باتوں کی وضاحت بھی کرنا چاہوں گا۔

آپ کا پاکستان اور اسرائیل کے قیام کو ایک جیسا کہنا بھی بالکل خرافات ہے. قیام پاکستان کے لیے اس سرزمین پر بسنے والوں کا قتل عام کر کے باہر سے کسی قوم کو لا کر نہی بسایا گیا. پاکستان جہاں قائم ہے وہ مسلمانوں کو اپنی زمین ہے۔
اس کے برعکس یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین منتقل کیا گیا، فلسطین کے اصلی و حقیقی باسیوں کی زمین پر بزور طاقت قبضہ کیا گیا. بات صرف مسلمانوں کے ایک علاقے پرغاصبانہ قبضے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس حصے کو مسلمانوں کی صفوں پر حملے کرنے اور ان کی خواہشات اور آرزؤں کو کچلنے کے لئے محاذ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

-------------------------------------------------------------------------------


ڈاکٹر طوواہرٹمین)

عجمی مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ عرب مسلمان حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں اور یہودی حضرت یعقوب کی اولاد جنکا لقب اسرائیل تھا جبکہ دونوں کے دادا جان حضرت ابراہیم ایک ہی ہیں جن پر سلامتی اور انکی اولاد آلِ ابراہیم کی سلامتی جس میں لامحالہ یہودی بھی شامل ہیں، کیلئے ہر مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نماز میں درود بھیجتا ہے۔ ایک ہی مذہب، زبان، کلچر کے ہوتے ساتے امتِ مسلمہ کو تقسیم در تقسیم کرنے والے خلافتِ عثمانیہ کے باغی عربوں کی مملکت اسرائیل سے ناحق دشمنی سراسر نسلی منافرت ہے جسے انہوں نے اسلام اور کفر کی جنگ کا رنگ دیکر دیگر عجمی مسلمان ممالک کو بھی اسرائیل کی مخالفت میں جھونک ڈالا ہے۔
مسلمانوں کی اپنی لاعلمی یا پھر عربوں سے عقیدت ہے تو انہیں یہ باور کرنا چاہیے کہ ابو جہل بھی عرب تھا اور کفارِ مکہ بھی عرب تھے جنکی اولاد آج آلِ سعود کے نام سے سرزمینِ حرمینِ شریفین پر پھر سے قابض ہے
----------------------------------------------------------------------------------------------------------


جواب(

میں اس بات کی وضاحت پہلے بھی کر چکا ہوں کہ ہماری محبت اور نفرت کا معیارعرب اور غیرعرب نہی، اسلام ہے۔ اور دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان سے ہم محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ کفار مکہ اسلام قبول کرنے کے بعد اصحاب رسول کے درجے پر فائز ہوے تھے۔ حضرت خالد بن ولید کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا اور آپ چوں کہ ایک سکالر ہیں تو بہت کچھ جانتی بھی ہوں گی۔ خالد بن ولید نے مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں حصّہ لیا، مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، غزوہ احد کا  پانسہ مسلمانوں کے خلاف پلٹنے میں ان کا اہم کردار تھا پر حقیقت کا ادراک ہونے کے بعد سیف الله یہنی اللہ کی تلوار کا لقب ملا اور اسلام کے عظیم مجاہد بنے۔
ہم آپ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضے کو چھوڑ دیں، ان کا علاقہ انھیں لوٹا دیں۔ اور الله کی زمین پر فساد برپا مت کریں۔

 
آپ نے تاریخ کی بہت سی باتیں بھی کیں (جنھیں میں کہوں گا کہ آپ نے گپ لگائی) ۔ آپ کی تاریخ تھوڑی سی کلیئر کرتا چلوں۔ تفصیل لمبی ہو جائے گی صرف ایک دو باتیں یاد کروا دیتا ہوں۔

صہیونیت اپنی شرارتوں، اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں (علیہم السلام) کی گستاخیوں حکم عدولیوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے ایک معروف سزایافتہ قوم ہے۔ اس پر مزید قتل انبیاء (علیہم السلام ) کا جرم ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور انسانوں کی نگاہ میں بھی ایک جرم عظیم ہے۔ یہ قوم آخری وحی کے مطابق ایک ’مغضوب علیہم‘ قوم ہے۔

صہیونیت کو ایک سزا ملی حضرت عیسیٰ کے بزعم خویش قتل اور سولی دینے کے منصوبے پر عمل کرنے سے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے حضرت عیسیٰ کو بچا لیا کہ اپنے رسولوں کو دشمنوں سے بچانا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے مگر اس منصوبے کے مطابق بنی اسرائیل کے اس گروہ نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ سزا تھی ۔۔۔آج سے1940ء سال پہلے مشرق وسطی پر ایک رومی فاتح ٹائٹس نامی جنرل حملہ آور ہوا اس نے یروشلم کو برباد کیا اور یہود کو جلاوطن کر دیا۔ یہ سزا تھی بنی اسرائیل کے لئے۔ اس طرح یہ بنی اسرائیل جہاں سینگ سمائے پھیل گئے اور ہوتے ہوتے ساری دنیا کے اہم مراکز میں جا قدم جمائے۔ صہیونیت ایک نسلی مذہب اور اجتماعیت ہونے کی وجہ سے دنیا میں منتشر ہونے کے باوجود حد درجہ منظم رہے۔ یہ اُن کا دورِ انتشار(DIASPORRA) کہلاتا ہے۔ یہ دورتقریباً دوہزار سال پر پھیلا ہوا ہے۔
اس دوران یہ اصفہان، عراق، ہند، یونان، یورپ ، قسطنطنیہ، چین ،سپین وغیرہ میں سرگرم رہے۔ اس دورِ انتشار کا (خود ان کے بقول) سب سے اچھا پرامن حسین اور یادگار دور۔۔۔ مسلم سپین میں ان کا قیام ہے۔ جو آٹھ صدیوں پر محیط ہے مگر عربی محاورے کے مطابقاپنے لاغر کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو وہ ایک دن تمہیں ہی کاٹ لے گاسپین میں مسلم اقتدار کے خاتمے کا سبب یہی یہود۔۔۔ بنی اسرائیل کا بگڑا ہوا گروہ یا صہیونیت کے علمبردار تھے۔ صہیونی ڈکشنری میں نیکی اور احسان کے بدلے میں شاید ایسا ہی درج ہے۔

یہ بات بھی صہیونیت پر مسلمانوں اور بالخصوص حضرت عمر کا احسان ہے (جس کا بدلہ وہ انہیں گالیاں دے کر ادا کرتے ہیں) کہ جب بیت المقدس عیسائیوں کے پاس تھا تو یہودیوں کو وہاں داخلے کی بھی اجازت نہیں تھی اور جب مسلمانوں نے فتح کیا تو حضرت عمر نے یہودیوں کا مقدس مقام ہونے کی وجہ سے ان کو بھی وہاں آنے جانے کی اجازت دے دی۔ مگر اس پر پابندی رہی کہ صہیونیت کے علمبردار بیت المقدس میں آباد نہیں ہوسکتے۔

صہیونیت کا چہرہ مکروہ اور کرتوت سیاہ ہیں جس کی وجہ سے ماضی میں بھی بدنام ہوئے اور اب بھی ان شاء اللہ ناکام و مامراد ہوں گے۔

آپ نے یہ بھی فرمایا کہ
 
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
 
ڈاکٹر طوواہرٹمین)
 
"پاکستانی عوام کو اسرائیل کی ایکچیومنٹس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ انکے پاسپورٹ پر یہ ہدایت درج کی جاتی ہے کہ یہ پاسپورٹ ماسوائے اسرائیل تمام ممالک کیلئے کارآمد ہے۔ حالانکہ حکم الہیٰ ہے کہ تمام کی تمام دنیا اللہ کی ہے "
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
 
جی یقیناً تمام کی تمام زمین الله کی ہے۔ اور اللہ کی زمین کو فساد سے پاک کرنے کا حکم بھی ہے۔ جو ابھی تک ہماری کوتاہی کی وجہ سے نہی ہو سکا، ہم نقشے میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ فساد(اسرائیل) دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ آپ نے یہ خط لکھ کر اچھا کیا کہ اہمیں یاد کروا دیا۔ ہم یہ بات بھولے بیٹھے تھے(سب نہی کچھ)۔ اب یاد رکھیں گے کہ ہم نے الله کی زمین کو فساد(اسرائیل) سے پاک کرنا ہے۔

فلسطینی ریاست پر فلسطینی عوام اور مسلمانوں کی حکومت کے علاوہ کوئی بھی اقتدار غاصبانہ اقتدار ہے اور الله کی زمین میں فساد ہے۔


----------------------------------------------------------------------------------------------------------
طوواہرٹمین)
پاکستان ہم سے بلا کسی وجہ کے کب تک نفرت کرتا رہے گا؟
----------------------------------------------------------------------------------------------------------


اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہوجائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیئے“(

یہ نفرت تب تک رہے گی جب تک آپ فساد برپا کر رہے ہیں۔ فساد سے باز آجائیں نفرت ختم ہو جائے گی۔ پر آپ کی تاریخ یہ بتاتی ہے (اور آپ کا خط بھی یہی بتاتا ہے) کہ آپ فساد سے باز آنے والوں میں سے نہی۔ آپ کو تاریخ میں ہمیشہ جو مار پڑی ہے وہ آپ کے اپنے فسادات کی وجہ سے پڑی ہے۔ یہاں ایک غور طلب بات آپ کو بتاتا چلوں کہ یہودیوں کو جتنی مار پڑی ہے تاریخ میں وہ زیادہ تر عیسائیوں سے پڑی ہے.اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہی ہے کہ کہاں کہاں اور کتنی پڑی ہے اور پڑی اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے. مسلمانوں نے آپ کو ہمیشہ سکون فراہم کیا ہے پر آپ کی کتے والی فطرت اب آپ کو اس مقام پر لے آئی ہے کہ اس بار آپ کا سارا شر مسلمانوں کے خلاف ہے لیکن یاد رکھیے گا کہ یہ شرارت آپ کی آخری شرارت ہو گی۔ ان شا الله