Test Footer 2

6 January 2014

’’بہادر کمانڈو‘‘ کی بند شریانیں



دیکھا اس بیمارئ دل نے۔۔۔ڈرامے میں نیا موڑ

مشتاق سہیل



’’بہادر کمانڈو‘‘گھر سے عدالت کے لئے چلے اور اسپتال پہنچ گئے۔وکلا ء سے تو کہہ کے چلے تھے کہ عدالت جارہا ہوں،چلتے وقت الجھے الجھے تھے،راستے میں کسی نے فون کرکے الجھن دور کردی،اچانک طبیعت خراب ہوئی اور گاڑیوں کا رخ آرمڈفورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف موڑدیا گیا۔وہاں پہلے سے سیکیورٹی الرٹ تھی، سڑک پرسیکیورٹی اہلکار تعینات تھے ۔ اللہ والے لوگ ہیں،’’الہام‘‘ ہوگیا تھا کہ صاحب ادھر نہیں ادھر ہی آئیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے اردگرد ہزاربارہ سو پولیس والے کھڑے رہ گئے ،صاحب کواہلیٹ فورس والوں نے سنبھال لیا۔ جنہوں نے خبریں دیں انہوں نے کہا صاحب تین بار گاڑی میں بیٹھے تین بار گاڑی سے اترے،کسی ’’فرشتے‘‘کا پیغام ملا تو قافلہ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کی جانب مڑگیا،امراض قلب کے فوجی اسپتال میں پہنچتے ہی ’’علاج‘‘شروع ہوگیا،اچانک ہی پتہ چلا کہ تین شریانیں بند ہیں۔ قریبی لوگوں نے کہا کہ وقتاً فوقتاً معائنہ کراتے رہتے ہیں،کیا اس عرصے میں شریانیں بند ہونے کا پتہ نہ چل سکا،یا اچانک خون کی گردش رک گئی اور شریانیں بند ہوگئیں۔

خبریں پڑھنے اور سننے والے بڑے ذہین بلکہ فطین ہوگئے ہیں ،ایک نے کہا فارم ہاؤس سے نکلتے وقت ساری شریانیں کھلی ہوئی تھیں،بس ذہنی دباؤ تھا،پہلی بار گاڑی میں بیٹھے تو ایک شریان بند ہوگئی،نیچے اترے،کوئی فون نہ پیغام، دوسری بار بیٹھے تو دوسری شریان بند ہوگئی،فون کیوں نہیں آیا،الجھن بڑھ گئی،تیسری بار گاڑی میں قدم رکھا تو تیسری شریان بھی بند ہوگئی۔  قدم لڑکھڑائے،ہوش میں چلے تھے،اسپتال جاتے جاتے ہوش وحواس کھوبیٹھے ،گھر سے قدموں پر چل کرآئے تھے،اسپتال پہنچے تو اسٹریچر پر ڈال کر پہلے سے تیار وی وی آئی پی روم میں پہنچادیئے گئے۔ ڈاکٹر نے کہا حالت خطرے سے باہر ہے ،پھر ڈاکٹروں کا ’’فل بینچ‘‘بورڈ بنانے اور بیرون ملک علاج کے مشورے کیوں ہونے لگے، صورتحال الجھی نہیں،خواہ مخواہ الجھائی جارہی ہے ،بیماری تو بیماری ہے اصلی ہو یا جعلی،بندہ خاکی کا کیا بھروسہ،کب رزق خاک بن جائے۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں،دل کسی ڈسپلن کا پابند نہیں،جانے کس وقت دھڑکنا بند کردے،سانس کا کیا بھروسہ آئی آئی نہ آئی نہ آئی،زندگی تھی آگے جانے سے بچ گئے،بھلاہو ڈاکٹروں کا جنہوں نے اس شخص سے بھی وفاداری نبھائی جو زندگی بھر صرف اپنی ذات سے وفاداری نبھاتا رہا،اور اپنے ہی خول میں بند رہا۔

’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں‘‘ کی بڑھکیں مارنے اور مکے دکھاکر خوفزدہ کرنے والا شخص موت کے خوف سے اتنا گھبرایا کہ ہوش وحواس کھوبیٹھا ۔ شریانیں کیسے بند ہوگئیں،واقفان حال کہتے ہیں،پہلی شریان دہشت سے دوسری وحشت سے اور تیسری ذہنی دباؤ کے باعث بند ہوئی،تفصیل اس اجمال کی یوں بیان کی جاتی ہے کہ اکبر بگٹی کی شہادت ہوئی تو ڈیرہ بگٹی کے بے آب وگیاہ پہاڑوں سے ابھرتی چیخوں نے بہادر کمانڈو کو دہشت زدہ کردیا ایک شریان بندہوگئی،دوسری شریان لال مسجد کے شہداء کے جلے ہوئے چہرے اور جسم دیکھ کر وحشت سے بند ہوئی اور تیسری اپنے انجام سے خوفزدہ ہوکر ذہنی دباؤ کے باعث بند ہوگئی ،میرتقی میر نے کہا تھا

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارئ دل نے آخر کام تمام کیا

ابھی کام تمام نہیں ہوا،ابھی تو دنیا کی عدالت کا فیصلہ بھی نہیں آیا،فیصلہ بعد کی بات ہے ،فرد جرم عائد نہیں ہوسکی،اس سے بچنے کے لئے ہی تو شریانیں بند ہوئی ہیں،فرد جرم عدالت عظمیٰ میں ازخود حاضری کے بغیر عائد نہیں ہوتی،ایک بار فرد جرم عائد ہوجائے تو انصاف اپنا راستہ بناتا چلا جاتا ہے،استغاثہ کے وکیل اور وکلائے صفائی فرد جرم پر ہی دلائل دیتے ہیں،جس کے بعد فیصلہ سنادیا جاتا ہے ،اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کا رخ کرنے کا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے عدالت میں حاضری سے گریز،فرد جرم نہ پڑھی جائے۔

کتنے ذہین وکلاء ہیں کہ دنیا کے عذابوں سے بچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن جدہر جاتے جاتے رہ گئے وہاں کیا کریں گے،جب زمین اپنے سخت بھونچال سے پوری شدت کے ساتھ تھرتھرائی جائے گی اور اپنے سارے بوجھ نکال باہر پھینکے گی اور انسان (حیران وششدرہوکر) کہے گا اسے کیا ہوگیا ہے،اس دن وہ اپنے حالات خود ظاہر کردے گی،اس لئے کہ آپ کے رب نے ا س کیلئے تیزاشاروں کو مسخر فرمادیا ہوگا،اس دن لوگ مختلف گروہ بن کر نکلیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال (فرد جرم) دکھائے جاسکیں ،تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گااور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے بھی دیکھ لے گا(سورۃ الزلزال)

فرد جرم تو عائد ہوگی،ایک کے بعد ایک جرم،سارے جرائم کے بارے میں پوچھا جائے گا،اکبر بگٹی ،لال مسجد کے سارے شہداء روشن چہروں کے ساتھ رب ذوالجلال کی عدالت میں انصاف طلب کررہے ہوں گے،ایسے وقت میں وکلاء کیا کریں گے؟ شریانیں بند نہیں ہوں گی،موت کو موت آجائے گی،اعضاء گواہی دیں گے،مجرم موت کی آرزو کرے گا جو مسترد کردی جائے گی،تب خالق کائنات اپنا فیصلہ سنائے گا،جسے اشرف المخلوقات بناکر زمین پر اتارا تھا اس نے دنیاوی فائدے کی خاطر ایک فون کال پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مذہبی کلچر تباہ کردیا،نصاب سے جہاد کی آیات نکال دیں،جو یہود ونصاریٰ کا نہ صرف دوست بنا بلکہ دوستوں کو اس ازلی وابدی دشمن کے ہاتھ فروخت کرتا رہا،جس کے آمرانہ فیصلوں کی بدولت ڈیڑھ لاکھ افغان ہلاک کردیئے گئے،خودکش دھماکوں اور دہشت گرد کارروائیوں کی ابتداء ہوئی اور پچاس ہزار پاکستانی شہید کردیئے گئے جن میں پاک فوج کے 5ہزار سے زائد جوان  بھی شامل تھے۔

ایک شخص کے قتل عمد کا مجرم پوری انسانیت کے قتل کا مجرم ٹھہرے گا ،سیاسی وابستگیاں کام نہ آئیں گی،چوہدری شجاعت بھی بلائے جائیں گے دیگر اتحادی بھی حاضر ہوں گے،چوہدری صاحب کی بات یہاں سمجھ میں آئے نہ آئے وہاں سب سمجھیں گے،ساری سیاسی سوجھ بوجھ دھری رہ جائے گی،اپنی جان چھڑانی مشکل ہوگی چوہدری صاحب سمیت اتحادیوں نے اس ’’سپریم کورٹ‘‘کے لئے کیا سوچا ہے ،جہاں کوئی انٹراکورٹ درخواست دی جاسکے گی نہ ہی اپیل کی اجازت ہوگی،سیاستدانوں کی تو رحم کی اپیلیں بھی مسترد ہوجائیں گی،حقوق العبادکی خلاف ورزیوں پر ہی دھرلئے جائیں گے،جنت کی آرزو میں قبروں سے نکلیں گے لیکن آدھے راستے ہی میں گاڑیوں کا رخ جہنم کی طرف موڑدیا جائے گا۔لوگوں کے تبصرے،دل جلوں کے بیانات،متاثرین کا ردعمل رہنے دیجئے،ڈرامہ ہے یا حقیقت،بیماری اصلی ہے یا جعلی،باہر جانے کی تیاریاں ہیں یا بیگم صاحبہ کے مشورے پر حکومت سے ڈیل پر آمادگی ہے۔سعودی وزیر خارجہ امید کی کرن بن کر آرہے ہیں،شائد بچاکر لے جائیں،لیکن خالق کائنات نے فیصلہ سنادیا تو کون بچانے آئے گا،جس کا ارشاد ہے کہ ’’بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ‘‘اسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے تو غور کیا جاسکتا ہے کہ کیا پکڑدھکڑ شروع ہوگئی ہے کیا رب کائنات کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ آچکا ہے ؟



0 comments:

Post a Comment