16 December 2013
تلاش گمشدہ- لبرل و سیکولر حضرات
مُلاعبدالقادر کی پھانسی کے ہنگام میرے کچھ محترم مہربان اور عزیز دوست، جو حقوق انسانی مشغلہ کرتے ہیں، لاپتہ ہو گئے ہیں۔ سوچتا ہوں احباب اپنی کچھ خبر دیں گے یا مجھے ماما قدیر اور آمنہ مسعود جنجوعہ سے درخواست کرنا پڑے گی کہ اپنی تلاش گمشدہ میں ہماری ان معتبر شخصیات کو بھی شامل کر لیں؟ جناب آئی اے رحمان، محترمہ عاصمہ جہانگیر، محترمہ طاہرہ عبداللہ، محترمہ حنا جیلانی، محترمہ فرزانہ باری، جناب اعتزاز احسن، جناب اطہر من اللہ! ہمیں آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے،آپ ہمیں اپنی سلامتی سے مطلع کریں گے یا ہم یہ سمجھ کر چپ رہیں کہ آپ کو بھی کوئی ’ خفیہ ہاتھ‘ لے اڑا؟
سیکولر احباب کا تعصب ،غیظ و غضب اور فکری بددیانتی دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کیا واقعی انسان اشرف المخلوقات ہے۔ صبح شام یہ حضرات حقوق انسانی کی مالا چبتے ہیں، قیمتی ملبوسات زیب تن کر کے اور مہنگا میک اپ تہہ در تہہ تھوپ لینے کے بعد جب انہیں فراغت کے اوقات بتانا مشکل ہو جاتا ہے تو یہ حقوق انسانی کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔وقت بھی گزر جاتا ہے اور بیرون ملک شناخت کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔شاید پیٹ کے مسائل بھی حل ہو جاتے ہوں کیونکہ اشرافیہ کے پیٹ کو صرف ڈالر راس آتے ہیں، یہ ننھے اور نازک معدے روپوں کی کثافت برداشت نہیں کر پاتے۔ ان کے ہاں کتوں بلیوں لومڑوں اور گدھوں تک کے حقوق کا تصور موجود ہے، یہ ان کے غم میں رو رو کے جان ہلکان کر لیں گے لیکن جب بات کسی مسلمان گروہ کی آئے تو یہ گونگے بہرے اور اندھے بن جاتے ہیں۔ ان کے ہاں ظلم کا اپنا ایک تصور ہے۔ یہ صرف اس ظلم کی مذمت کرتے ہیں جو ان کی تعریف پر پورا اترے۔ ان کے نزدیک ظلم صرف وہ ہے جو مسلمان کریں اور مظلوم صرف وہ ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنے۔
اس سیکولر گروہ کو آج تک توفیق نہیں ہوئی کہ عافیہ صدیقی کے حق میں آواز اٹھا لے کیونکہ اس کا ایمان ہے:’’ امریکہ جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے‘‘۔ اب سیکولر احباب کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ جماعت اسلامی کے کسی آدمی پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائیں۔ چنانچہ ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے۔ یہ احباب اٹھتے بیٹھتے ہمیں بتائیں گے کہ قصاص کا قانون ٹھیک نہیں ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ سزائے موت ختم کی جائے، ان کا دعوی ہے کہ یہ غیرانسانی سزا ہے،لیکن جب یہ سزا کسی ایسے آدمی کو دی جائے جس کا تعلق اسلامی تحریک سے ہو تو ان کے سینے میں ٹھنڈ پڑجاتی ہے، انہیں سارے تصورات بھول جاتے ہیں اور یہ بوتل میں گردن دے کر کہتے ہیں:’’ سانوں کی‘‘۔
یہی سزا اگر بنگلہ دیش کی بجائے افغانستان میں طالبان نے دی ہوتی، ملا عبدالقادر کی جگہ ٹام ہیری اور ڈک ہوتا یا کوئی ایسا مسلمان جو ان احباب کے بقول ’’ نان پریکٹسنگ مسلم‘‘ ہوتا تو پھر آپ ان کا اچھلنا کودنا دیکھ دیکھ حیران ہوتے۔ یہ تو توہین رسالت جیسے گھناؤنے جرم میں بھی ریاست کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ وہ سزائے موت کا نفاذ کرے لیکن جب بات ملا عبدالقادر کی ہو تو انہیں اپنے تصورات یاد نہیں آتے۔ اس سے بڑا بغض، اس سے شرمناک تعصب اور اس سے غلیظ خبثِ باطن اور کیا ہو سکتا ہے؟
Tags:
Mullah Abdul Qadir, death, hanged,
I A rehman, Aasma Jahangir, Tahira Abdullah, Hina jeelani,
Farzana Bari, Aitzaz Ahsan, Athar Minallah, Lapata afraad,
secular, liberal, dollar, Human rights,
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment