شبِ قدر کی فضیلت
”بیشک ہم نے قرآن کو لیلة القدر یعنی باعزت وخیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔اورآپ کو کیا معلوم کہ لیلةالقدرکیا ہے۔ لیلة القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر آترتے ہیں۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔ “
تشریح :
٭اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ اس نے قرآن کو ایک باعزت اور خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے۔ پورا قرآن لیلة القدرمیں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل ہوا، پھر وہاں سے جستہ جستہ حسب ضرورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور 23 سال میں اس کے نزول کی تکمیل ہوئی ۔
ان آیات میں قرآن کریم کی بہت بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ،جس کی تعبیر ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ہم نے قرآن کی عظمت واہمیت کے پیش نظر اسے ایک نہایت ہی معظم ومکرم اور بابرکت رات میں نازل کیا ہے ۔اسی مضمون کو اللہ تعالی نے سورة الدخان آیت (3) میں یوں بیان فرمایا ہے: ”بیشک ہم نے قرآن کو ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے، بیشک ہم ڈرانے والے تھے“۔ اور یہ رات ماہِ رمضان میں تھی، جس کی تصریح اللہ تعالی نے سورة البقرة آیت (58) میں فرمادی ہے : ”رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا“۔
٭اللہ تعالی نے لیلة القدر کی عظمت واہمیت بیان کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے کہا:
آپ کو کیا معلوم کہ لیلة القدر کیاہے؟ لیلة القدر ایسے ہزار مہینوں سے بہتر ہے جن میں کوئی لیلة القدر نہ ہو، یعنی ایک لیلة القدر تراسی سال اورچار ماہ سے بہتر ہوتی ہے، اس لیے کہ اس میں فرشتے اور جبریل علیہ السلام اپنے رب کے حکم سے آسمان سے زمین پر اترتے ہیں، ان کے پاس آنے والے سال سے متعلق رب العالمین کے تمام فیصلے اوراحکام ہوتے ہیں جیساکہ سورةالدخان آیت (۴،۵) میں آیا ہے ”اسی رات میں ہر پُرحکمت کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے، ہمارے پاس سے حکم ہوکر، ہم ہی ہیں رسول بنا کر بھیجنے والے “۔
٭لیلة القدر سراسر سلامتی اور خیر ہی خیر ہوتی ہے ،اس میں کوئی شر نہیں ہوتا ،اور یہ خیروسلامتی غروب آفتاب سے طلوع فجر تک باقی رہتی ہے۔ بعض لوگوں نے سلامتی والی رات کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ مومنین اس رات کو شیاطین کے شر سے محفوظ رہتے ہیں، یا یہ کہ فرشتے مومنوں اورمومنات کو سلام کرتے ہیں۔
لیلة القدر کی تعیین کے بارے میں علماء کے چالیس سے زیادہ اقوال ہیں ،سب سے قوی روایت یہ ہے کہ یہ رات ماہِ رمضان کی آخری دس راتوں میں آتی ہے ، بخاری ومسلم اوراحمد وترمذی نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ
رسول اللہ نے فرمایا: ”لیلة القدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو“۔
اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دس راتوں میں عبادت کا بڑا اہتمام کرتے تھے، اعتکاف کرتے تھے اورعبادت کے لیے خود بھی جاگتے تھے اوراپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ دیگرصحیح احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے۔
لیلة القدر سے متعلق احادیث کا مطالعہ کرنے سے اتنی بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان کی زندگی میں اس رات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ،اسی لیے اسے پانے کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے، اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں رمضان کی آخری دس راتوں میں عبادت کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، اعتکاف کرنا چاہیے اوراپنے بچوں کو بھی ان راتوں میں عبادت کے لیے جگانا چاہیے۔
وباللہ التوفیق
13 Line. Ref surah baqarah ayat # 58
ReplyDelete58: وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
58: And remember, We said to you: "Enter this city, eat wherever you like, as much as you please, but pass through the gates in humility and say: ´May our sins be forgiven.´ We shall forgive your trespasses and give those who do good abundance.