Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

21 December 2013

Disposable America soldiers


 

 “قابل تلف”("Disposable")امریکن فوجی!
 مریم عزیز
 
بات کچھ تفصیل طلب ہے مگر ہم تلخیص کیے دیتے ہیں۔ڈسپوزبل کا لفظ دراصل ٹشو پیپر جیسی چیزوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔مغرب میں کئی چیزیں اسی مقصد کیلئے بنائی جاتی ہیں کہ ایک بار استعمال کے بعد ردی کردی جائے تاکہ ’maintenance‘ یعنی دیکھ بھال کے ’اخراجات‘ میں کمی لائی جاسکے۔پنٹاگون کے بتائے گئے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق امریکی فوجیوں میں ذہنی امراض میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ہر دس میں سے ایک امریکی فوجی دماغی امراض کیلئے ہسپتال میں داخل ہے۔امریکی سیکریٹری آف ڈیفنس رابرٹ گیٹس کے الفاظ میں امریکی فوجیوں کے نفسیاتی مسائل کے علاج معالجے پرآنے والے اخراجات ”دفاعی محکمے کو سالم نگل رہے ہیں“!۔امریکی فوج نے حال ہی میں ایسے فوجیوں کے علاج پر”تین ہزار ڈالر روزانہ“کے خرچے کا رونا رویا۔ 
قارئین کرام، بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی بات یہاں سے شروع ہوتی ہے ان طریقوں کی جن کو استعمال کرکے امریکی دفاعی محکمہ ’خرچے کم‘کرنے کی کوشش کررہا ہے۔جیویش ٹائمز نامی اخبار میں مصنفہ جوائس ایس اینڈرسن ؛دی نیشن نامی میگزین میں جوشوا کورزکے چھپنے والے مضامین کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی وجہ سے شور تو بہت اٹھا تھا مگرمعاملے کودبا دیا گیا۔مضامین کا عنوان تھا“Disposable Soldiers!” ۔جن میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2001ء سے اب تک ساڑھے بائیس ہزار امریکی فوجیوں کو یہ کہہ کر فوج سے بے دخل کردیا گیا ہے کہ وہ ’پہلے سے‘ذہنی مریض تھے اور فوج کیلئے بے کار ہیں۔ حقیقت تو یہ تھی کہ یہ فوجی داخلے کے وقت صحتمند قرار دیے گئے تھے مگر جب جنگ کے دوران کھائی جانے والی مرئی و غیر مرئی چوٹوں(جیسے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سر کا یاجسم کاشدید درد، کانوں میں سماعت کے مسائل،بینائی کے مسائل وغیرہ)کیلئے علاج کیلئے درخوست گزار ہوئے تو ان کو خبطی ،پہلے سے دماغی امراض کا شکاراور ڈرامہ باز قرار دے کر فوج سے رخصت کردیا گیا۔
 ایسی رخصت کے نتیجے میں پھر نہ صر ف ان کو علاج کی سہولت سے محروم کردیا گیا بلکہ دیے گئے بونس میں سے موٹی رقم کی واپسی بھی اس میں شامل ہے۔چنانچہ قابل تلف معمولی استعمال کی اشیاءکی طرح ان امریکی فوجیوں کودیکھ بھال کے اخراجات میں کمی کیلئے ’ردی ‘کردیا گیاہے۔ایک دو تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں مگر انہوں نے بھی مہینوں بعد فیصلہ سنایا کہ فوج کے ڈاکٹروں کی تشخیص صحیح تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ تحقیق کے لئے ان میں سے کسی فوجی سے براہ راست کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔تازہ ترین صورتحال کے مطابق اب بھی اس نظام میں تبدیلی نہیں لائی گئی ہے اوراسی طرح کئی ہزارامریکی فوجی عضو معطل کی طرح کاٹ پھینکے جاتے ہیں! اپنی طرز حکومت اور ویلفیر سوسائٹی کے ماڈل کو بزور قوت دنیا میں نشر کرنی والی سپر پاور کا جو حشر ہو رہا ہے وہ دنیا کے لئے ایک تازیانہ ہے۔خوش حالی میں حقوق انسانی کا راگ الاپنا اور غریب ممالک کو انسانیت کا سبق سکھانا بہت آسان ہے۔ لیکن کسی کے ظرف کو ناپنے کا پیمانہ برے وقت میں اس کا طرز عمل ہوتا ہے۔

 

20 December 2013

ہم اپنے بچوں کو کیا پڑھا رہے ہے؟ انصار عباسی


18 December 2013

جنرل صاحب نے یہ کیا کہہ دیا؟ اوریا مقبول جان






جنرل صاحب نے یہ کیا کہہ دیا؟
اوریا مقبول جان

میڈیا کےکیمرے اس سیمینار میں نہیں تھے۔ اسلام آباد کے سرد موسم میں دسمبر کی ایک صبح مشہور زمانہ لال مسجد اور مرحوم جامعہ حفصہ کے قریب ایک ہوٹل کے زیر زمین حال میں شہر کے لوگوں کا جم غفیر تھا۔ تنظیم اسلامی نے دہشت گردی کے سدباب کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا۔ دو مقررین کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے تھا اور وہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کے اہم ستون یعنی بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین عہدوں پرفائز رہ چکے تھے۔

تیسرے مقرر پرویز مشرف کے دست راز ریٹائرڈ لفٹیننٹ  جنرل شاہد عزیز تھے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر متمکن تھے، ایک ایسا عہدہ کہ جب اس ملک سے افغانوں پر حملے کرنے کے لیے مکمل مدد فراہم کی جا رہی تھی، اس عہدے کی آنکھیں ان تمام واقعات کی گواہ بنتی رہیں۔ دسمبر 2003 سے اکتوبر 2005 تک وہ لاہور کے کور کمانڈر رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد نیب کے چیرمین بنے۔ یوں تو اس دور میں بہت سے لفٹیننٹ جنرل رہے لیکن اپنے ضمیر کی خلش سے بیقرار ہو کر اور خاموشی توڑ کر کتاب صرف جنرل شاہد عزیز نے لکھی۔ اس کتاب میں لکھا جانے والا سچ اس قدر کڑوا تھا کہ اس نے بھونچال کھڑا کر دیا۔ ان کی کتاب "یہ خاموشی کب تک" پر بہت عرصہ اخباروں اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں تبصرہ ہوتا رہا ۔ پرویز مشرف نے غصے میں لال بھبھوکا ہوتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ شاہد عزیز کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سیمینار میں قبائلی امور کے باقی دونوں ماہرین اور خود قبائلی پس منظر رکھنے والے اعلیٰ بیوروکریٹس نے بہت سی ایسی باتیں کیں جنھیں اس ملک کا میڈیا بیان نہیں کرتا اور شاید مدتوں نہیں کرے گا۔ سیمینار میں جنرل شاہد عزیز نے ایک حیران کن انکشاف کیا اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے سوات کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن نہ یہ میڈیا پر نشر ہوتی ہے اور نا ہی اسے کوئی سیاستدان، دانشور یا تبصرہ نگار بیان کرنے کی جرات کرتا ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے، جو اپنی لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے تھے اور جس کی ریکارڈنگ تنظیم اسلامی کے پاس موجود ہے اور ہو سکتا ہے چند دنوں میں وہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہو، کہا :
 
"سوات میں امن معائدہ حکومت اور فوج نے امریکہ کے دباؤ پر توڑا اور اس کا الزام طالبان پر لگا دیا"۔

یہ فقرہ ایسا تھا جس سے پورے کا پورا ہال سناٹے میں آ گیا۔ اس فقرے کی گونج میں اگر ہم میڈیا پر گزشتہ پانچ سال کی گرجتی برستی آوازوں اور دانشوروں کے قلم سے نکلے ہوئے زھرخند جملوں کو یاد کریں تو یوں لگتا ہے کہ کئی سال پوری کی پوری قوم ایک جھوٹ کے الاؤ میں جلتی رہی۔ پاکستان کی پوری سیاسی قیادت، جو سوات آپریشن کے وقت برسراقتدار تھی، میں سے کسی بیان یا ٹی وی پر تبصرہ نکال کر دیکھ لیں، ایسے لگے گا جیسے یہ لوگ امن کی فاختائیں اڑا رہے تھے اور طالبان کی طرف سے انھیں ذبح کر دیا جاتا تھا۔ یہ اس قدر صابر تھے کہ انہوں نے امن کی ہر کوشش کی لیکن اسے طالبان نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ اس سوال کا جواب تو شاہد عزیز ہی دے سکتے ہیں کہ فوج کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ امن جو مزاکرات کی میز پر وقوع پذیر ہو گیا تھا اسے ایک فوجی آپریشن میں کیوں بدل دیا گیا جس کے آج تک ہم زخم چاٹ رہے ہیں۔ آج بھی دبی دبی آوازیں سوات کے بازاروں میں سنائی دیتی ہیں اور صرف ایک وقت کا انتظار ہے کہ جب قصبوں، محلوں اور دیہاتوں میں سنائی جانے والی کہانیاں میرے ملک کے طول و عرض میں بیان ہونے لگیں گی؛ پھر کوئی معافی، غلطی کا کوئی اعتراف ان زخموں کو مندمل نہ کر سکے گا۔ اس سارے کھیل تماشے میں جو  تھیٹر میڈیا پر سجا اور آج بھی سجا ہوا ہے اس نے قوم کو نفسیاتی مریض بنایا ہوا ہے۔ آج بھی دلیل یہ دی جاتی ہےاور کتنے زوروشور سے دی جاتی ہے کہ طالبان پر بھروسہ کیسے کریں، وہ تو سوات میں معائدہ توڑ  دیتے ہیں۔ طالبان کو جس طرح میڈیا میں گالی بنایا گیا وہ صرف سوات کے امن معائدے کے ایک واقعے سےنہیں بلکہ اس میڈیا نے ہر اس قتل کو طالبان کے کھاتے میں ڈال کر دوکان سجائی جو کہیں کسی اور جگہ بھی ہوتا رہا۔ سوات ہی کی مشہور گلوکارہ غزالہ جاوید جب اپنے باپ کے ہمراہ قتل ہوئی تو کتنے دن میڈیا یہ ماتم کرتا رہا کہ شدت پسندی اور طالبان کی سوچ نے اس خوبصورت گلوکارہ کی جان لے لی۔
[گلوکارہ غزالہ جاوید کا قاتل اس کا سابق شوہر تھا، جسے ابھی دو دن قبل ہی عدالت نے دو بار سزائے موت اور 7 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہےخبر ]

ابھی سوات میں لڑکی کے کوڑوں والی ویڈیو ٹی وی کی سکرینوں پر نہیں آئی تھی کہ اس سے تقریبا دو ہفتے قبل ایک پروگرام میں انسانی حقوق کی ترجمان ثمر من الله نے کہا کہ دیکھنا کچھ عرصے بعد ایک ویڈیو سامنے آنے والی ہے جو طالبان کی حقیقت آشکار کر دے گی۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر طالبان سے اس قدر دشمنی کیوں ہے؟ اس ملک میں اور بھی تو شدت پسند گروہ بستے ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے والے تو بلوچستان میں بھی ہیں۔ قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے تو کراچی میں بھی کسی کو چین سے بسنے نہیں دیتے ۔ ایسی ایسی بوری بند لاشیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن کی ہڈیوں میں ڈرل سے سوراخ کیا گیا ہوتا ہے، ناخن کھینچے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ یہ لاشیں دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ ان کے پیاروں نے زندگی کے آخری لمحے کس اذیت سے گزارے ہوں گے۔پھر بھی میڈیا پر صرف ایک ہی شدت پسند گروہ کے "ترانے" کیوں گئے جاتے ہیں۔ یہ مرض بہت پرانا ہے، یہ حربہ اور  ہتھکنڈا  بہت پراثر ہے اس لیے کہ اس کا ہدف طالبان نہیں اسلام ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں میں سے اکثریت پر سیکولر ڈکٹیٹر برسر اقتدار تھے، ان کا اسلام یا اس کے اصول زندگی سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا لیکن دنیا بھر کے اخبارات یا ٹی وی پروگرام اٹھالیں، انھیں سیکولر ڈکٹیٹر نہیں مسلمان ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ کسی نے جرمنی کے ہٹلر، سپین کے فرانکو یا فلپائن کے مارکوس کو آج تک عیسائی ڈکٹیٹر نہیں کہا اور نا ہی لکھا ۔ 

اسلام کو اور مسلمانوں کو ہدف بنا کر جس قدر تسکین دنیا بھر کے میڈیا اور میرے ملک کے "عظیم" دانشوروں کو ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ صرف کسی نیوز روم میں بیٹھ کر لگا سکتے ہیں، وہ نیوز روم جہاں کسی دھماکے، قتل یا ایسے کسی جرم کی خبر آ چکی ہو اور ٹی وی پر چل بھی رہی ہو متلاشی نظریں اور کان بےچینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں،  تجسس میں ایک دوسرے سے سوال کیے جاتے ہیں:
"طالبان نے ذمہ داری قبول نہیں کی ابھی تک؟ پتا تو کرو، عالمی میڈیا کو دیکھو، کسی ویب سائٹ پر ڈھونڈو" اور اگر ذرا بھی تاثر مل جائے تو پھر دیکھیں اگلے چوبیس، اڑتالیس یا بہتّر  گھنٹے کی نشریات کے لیے موضوع مل جاتا ہے۔ خبر چلاؤ اور رگڑ دو شرعی قوانین کو، اسلام کی شرعی حیثیت کو اور خود اسلام کو۔

اوریا مقبول جان 


tags:
oria maqbool jaan, Lieutenant-General Shahid Aziz, Tanzeem e islami,
sawat, aarmy operation, video, sawat peace deal, who broke,
ghazala javaid, taliban, secular, media, islam, pakistan, 

17 December 2013

پاکستان کو دولخت کس نے کیا



16دسمبر پر بہت سے قومی رہنماؤں اور دانشوروں نے کہاہے کہ بھارت نے ہمارا ملک دو ٹکڑے کیا۔
کیا یہ ٹھیک ہے؟ تاریخ کہتی ہے کہ نہیں۔ پاکستان کو دو ٹکڑے بھارت نے نہیں کیا۔ یہ کام یحییٰ خاں نے کیا، ٹکا خان نے کیا، نیازی  نے کیا اور بھٹو  نے کیا۔ یحییٰ نے ٹکا اور نیازی جیسے سفّاک، انسانیت دشمنوں کو بنگالیوں کا صفایا کرنے کا ’’فریضہ ‘‘ ادا کرنے کو کہا اور ان دونوں نے یہ فریضہ یحییٰ خاں کی توقع سے بڑھ کر ادا کیا۔ ٹکا خاں کہتا تھا، بنگال کو بنگالیوں سے پاک کر دوں گا، نیازی نے کہا بنگالیوں کی نسل خراب کر دوں گا۔ بھارت نے حملہ بعد میں کیا، ان دونوں حضرات نے اپنے عزم پہلے پورے کر لئے، بھارت نے تو پھر آنا ہی تھا۔ع
نہ تم مسکراتے نہ یہ بات ہوتی۔
دونوں اپنے باس اور اس کے ہم شریک بھٹو کے منصوبے کے تحت چھ کروڑ بنگالیوں کو پاکستان کا باغی پہلے ہی بنا چکے تھے۔
___________________________
ایک بیان چھپا ہے پوچھا گیا ہے کہ کیا ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق سیکھا۔ جواب ہے کہ نہیں سیکھا۔ 16دسمبر کو اخبارات میں یہ خبر چھپی ہے کہ6لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی لاشیں ڈیرہ بگٹی سے ملیں۔ انہیں ٹکا خانوں اور نیازی خانوں نے کئی دن پہلے لاپتہ کیا، مسلسل تشدّد کرکے ہڈیاں توڑ دیں، پھر گولیوں سے چھلنی کرکے مسخ شدہ لاشیں ڈیرہ بگٹی پھینک گئے۔

عبد الله طارق سہیل 

ہم درآمدی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ بلاول زرداری


پیپلزپارٹی کے شیر خوار چیئرمین (کچھ لوگ انہیں چیئرپرسن لکھتے ہیں پتہ نہیں یہ املاکی غلطی ہے یا خیال کی ) بلاول علی بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم درآمدی اسلام قبول نہیں کریں گے۔ (حوالہ )
 
درآمدی اسلام ؟ اسلام تو ہے ہی درآمدی۔ عربستان سے آیا۔ قرآن وہیں پر نازل ہوا تھا اور رسول عربی ؐ بھی وہیں کے تھے۔ بلاول کیا کہنا چاہتے ہیں، وہ کوئی دیسی اسلام بنائیں گے یا پہلے سے موجود کسی دیسی مذہب کو ترویج دیں گے۔ دیسی مذہب اس علاقے میں چار چار ہیں جس میں پاکستان واقع ہے ہندومت، سکھ مت، بدھ مت اور جین مت۔ آخری دو مذہب تو ہندو مت نے نگل لئے۔ جین مذہب یہیں کہیں گم گما گیا، بدھ مذہب پہاڑوں کے پار تبّت نکل گیا اور وہاں سے گھومتا گھماتا چین، جاپان اور مشرق بعید کا بڑ ا مذہب بن گیا۔ سکھ مذہب البتہ نیا ہے اور اس بات کے لئے تیار نہیں کہ ہندو توا اسے نگل جائے۔
 
بلاول ان میں سے کس دیسی مذہب کو پسند کرتے ہیں؟ یا پھر وہ کسی نئے دھرم کی گھڑنت کرنے والے ہیں،اور اس نومولود کا نام کیا ہوگا؟ زرداری مت؟ یا سب سے بھاری مت؟ عیسائیت کو تو وہ مانیں گے نہیں کہ وہ بھی درآمدی ہے۔
 
اور اسلام صرف یہیں درآمد نہیں ہوا، عربستان سے نکلا تو سارے شمالی افریقہ، ایران، ترکستان اور وسط ایشیا اور افغانستان سے لے کر شمالی ہندوستان کے سارے خطے کو تسخیرکرتا چلا گیا۔۔ اور مشرق بعید تک پھیلا۔ حیرت ہے، اتنے سارے علاقوں میں کسی شخص یا گروہ کو خیال نہیں آیا کہ وہ درآمدی اسلام نہیں مانیں گے، اپنا اسلام بنائیں گے۔ یہ خیال اس سے پہلے بھی کسی کو آیا تو اسی برصغیر میں آیا یعنی مرزا غلام احمد کو۔ اس نے اپنا اسلام بنایا لیکن جزوی طور پر۔ بلاول کا کیا ارادہ ہے۔ سارا نیا نکورہوگا یا مرزا کی طرح ملا جلا۔

ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔



’ناچ میرے بندرڈالر ملے گا ۔۔۔ ‘

 ابو نثر

نیویارک سے خوشی کی ایک خبر ملی ہے، جس کی سرخی ہے:
’’امریکا میں جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے پہلے بندر کی پیدائش‘‘
ہماری طرف سے امریکا کو اِس نومولود کی ولادت بہت بہت مبارک ہو۔ہمیں خوشی ہے کہ اب امریکا میں بھی جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ بندر پیدا ہونے لگے ہیں۔سو، اگرپیدائش کا یہ دعویٰ درست ہے توامریکا کو معلوم ہو کہ یہ بندرِ عزیزفقط امریکاہی کا پہلا بندر ہوگا۔ ورنہ ہمارے یہاں تو اِس قسم کے(جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے) بندر بہت پہلے پیدا ہوچکے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں پیداہوچکے ہیں۔سب کے سب ماشاء اﷲ خوب اچھی طرح جینیاتی طورپر تبدیل شدہ ہیں۔ یقین نہ آئے تو کسی بھی چینل کی گُھنڈی گھمائیے۔ مکے لہرا لہرا کر۔۔۔ اورپونچھ پٹک پٹک کر ۔۔۔اُچھلتے ،کودتے، ناچتے:
گرتے ،سنبھلتے، جھومتے
مائک کے منہ کو چومتے
آپ کو یہ جینیاتی دانشوربندر نظرآجائیں گے۔(مگریہ ’’جینیاتی‘‘ ہونے سے پہلے تو ایسے نہ تھے)۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ ہمارے اصلی بندر بالکل فطری بندر ہیں۔جب کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کی ہرچیز بدلی بدلی ۔۔۔ مرے سرکار!۔۔۔ نظر آتی ہے۔نظریں تک بدل جاتی ہیں۔ اُن کا لباس، اُن کا رہن سہن، اُن کا اُٹھنا بیٹھنا، اُن کا حال چال، اُن کی بول چال، اُن کی چال ڈھال، اُن کا چھلانگیں مارنااور اُچھل اُچھل کر ایک پارٹی سے دوسری کی طرف پھلانگنا اوراسی طرح کی مستقل ’’آنیاں جانیاں‘‘ فرماناپھراِس پر اُن کا آپس میں اورباہم خوخیانا۔۔۔ سبھی کچھ اصلی اور نسلی بندروں سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کا چہر ہ بھی ہمارے سیدھے سادے معصوم دیسی بندروں کے چہروں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ’’بندرانہ‘‘ ہوتا ہے۔ ’’قِردۃً خاسئین‘‘ جیسا۔ مگر واضح رہے کہ یہ اپنے آپ کو ’بندر‘ کبھی نہیں کہتے۔ ’’منکی‘‘ ۔۔۔ بلکہ ’’مونکی‘‘ کہتے ہیں۔ اور اِس بات پر(غلط سلط) انگریزی میں فخربھی کرتے ہیں کہ:
’’مِرا مزاج لڑکپن سے منکیانہ تھا‘‘
ہر اصلی چیز کی طرح اب ہمارے یہاں کے اصلی بندر بھی رفتہ رفتہ آثارِ رفتگاں کی طرح معدوم ہوتے جارہے ہیں۔اب یہاں جو بھی بندر ہیں وہ ہماری دھرتی کے بندر نہیں بلکہ ’’جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بندر‘‘ ہیں۔جینز بدل جائیں تو سب کچھ بدل جاتاہے۔خیالات بدل جاتے ہیں، نظریات بدل جاتے ہیں، لب و لہجہ بدل جاتا ہے، یہاں تک کہ کھانا پینا بھی بدل جاتاہے۔ہمارے بندر کو تو اگر کہیں سے ہلدی کی گانٹھ بھی مل جاتی تھی تو وہ اُسی پر صبر شکر کرکے پنساری بن جاتا تھا۔ مگریہ’’ جینیاتی طورپرتبدیل کیے گئے بندر‘‘ تو ہلدی کی گرہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے، اورمحض پنساری بننے پربھی اکتفا نہیں کرتے، سرکاری قرضہ لے کر ہلدی کا پورا کارخانہ لگالیتے ہیں۔
حاضرین، ناظرین، سامعین، اور قارئین کو معلوم ہو کہ اب یہ بندر صاحبان ’کیلا‘نہیں کھاتے۔ ’’بنانا‘‘ کھاتے ہیں۔اور ملک کو بھی ’’بنانا ری پبلک‘‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ اپنے بچوں کے لیے اٹلی سے پیزا(Pizza) منگواتے ہیں۔ اورجب وہ پنجیری کی جگہ پیزا کھانے کے اچھی طرح عادی ہوجاتے ہیں تو اُنھیں امریکا ۔۔۔( نہیں بلکہ ’’اسٹیٹس‘‘)۔۔۔ چھوڑ آتے ہیں۔ اب خوبی قسمت سے اُن کے ہاتھ ناریل نہیں لگتا۔ اگر ہاتھ لگتا ہے توکوالالمپور سے ’’کوکونٹ‘‘اِمپورٹ کرنے کا لائسنس لگ جاتا ہے۔وہ زمانہ بھی لد گیا جب کہا جاتا تھا کہ :
’’بندر کیا جانے ادرک کاسواد؟‘‘
اب تو جس بندر کو دیکھیے وہ آنکھیں میچ کر کہتا ہوا ملے گاکہ:
’’سواد آگیا بادشاہو!‘‘
ہمارے اصلی ونسلی بندرتو مداری کی تربیت اور اُس کی سخت محنت کے بعد ڈگڈگی کی آواز پر ناچا کرتے تھے۔ خود محنت، مشقت کرنے کے بعد اپنا پیٹ پِیٹ پِیٹ کر حقِ محنت مانگا کرتے تھے۔ مگر جینیاتی طورپر تبدیل کیے گئے بندروں کے لیے دیر تک ڈگڈگی بجانے کی قطعاً ضرورت نہیں پڑتی۔اُن کے جین میں (بلکہ جنین میں) کچھ ایسے خلیات داخل کردیے گئے ہیں کہ یہ ٹیلی فون کال کی محض پہلی گھنٹی پر ہی ناچنے لگتے ہیں۔ ڈالروں کی توصرف جھلک دیکھ کر ہی ناچ اُٹھتے ہیں۔ اس پر یہ گانا مستزاد۔۔۔ جو اِن پر ’حال‘ طاری کردتیا ہے:
’’ناچ میرے بندر ڈالر ملے گا ۔۔۔‘‘
اوراگرڈالر ملنا بند ہوجائیں تو بھنّا بھنّا کرمزید ناچنے لگتے ہیں کہ آخر ہمیں ڈالر کیوں نہیں مل رہے ہیں؟
ہمارے کچھ بندر جینیاتی طورپر کیا تبدیل ہوئے، ہرچیزتبدیل ہو گئی۔سب سے پہلے ۔۔۔ بلکہ بندر سے بھی تیز تیز۔۔۔ بندریا بدل گئی۔ بندریا بدلی تو ظاہر ہے کہ مسٹر اور مسز بندر کے بچے بھی بدل گئے۔بندروں کاسارا معاشرہ یعنی پوری کی پوری ’’بندرگاہ‘‘ہی تبدیل ہو گئی۔حتیٰ کہ ہمارے شہر کراچی کی ’’بندرروڈ‘‘ تک وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔اُس وقت تو ہم لہک لہک کر یہ گایا کرتے تھے کہ:
’’بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر!‘‘
مگر جب اُسی فٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے ہم نے یہ تماشا دیکھا کہ اُلٹی گنگا بہ رہی ہے۔ یعنی ’’کیماڑی سے بندر روڈ کی طرف‘‘۔ اور بندرگاہ کی طرف سے ایک قطار بنائے ہوئے اونٹ گاڑیاں چلی آرہی ہیں جو پشت پرامریکی گندم لادکر لا رہی ہیں۔نیز ہر اونٹ کی گردن میں \”Thank You America\” کاقلادہ بھی لٹک رہا ہے۔۔۔ تو ہم بالکل ہی فٹ پاتھ پر ہوگئے۔ امریکی گندم ہماری رگ و پے میں اُتر گیا اور تب سے اب تک ہم فٹ پاتھ پر ہی کھڑے ہیں۔آگے نہیں بڑھ سکے۔
قصہ مختصر یہ کہ سب کے سب بدل گئے اور پل کے پل میں سب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئے۔تعلیم ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔۔۔ تہذیب ’’جینیاتی‘‘ ہوگئی ۔۔۔ معیشت ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔۔۔ سیاست ’’جینیاتی‘‘ہوگئی۔ حتیٰ کہ حکومت بھی ’’جینیاتی‘‘ہوگئی ۔باہر سے جین لا لاکے ہماری خاطر ’’جینیاتی وزیراعظم‘‘ بھی بنائے گئے۔ کھلائے گئے۔ پلائے گئے اورپھرسرپٹ بھگائے گئے۔اوراِن تمام ’’جینیاتیوں‘‘ کے ہاتھوں ہم سب بندروں کی طرح نچائے گئے۔
کہاجاتا ہے کہ: ’’جس کابندر وہی نچائے‘‘۔ سو وہ ان بندروں کو نچاتاتو وہی رہا ، جس نے ان کو بندر بنایاتھا۔ مگر باقیوں کو خود بندروں نے نچایا۔ نچایا اور خوب خوب نچایا۔بلکہ سچ پوچھیے تومحض ایسا نہیں ہوا کہ لوگ ایک ہی دفعہ ناچ کر رہ گئے ہوں۔نچانے والوں نے تو ایسا نچایا ۔۔۔کر تھیاتھیا۔۔۔ کہ ناچ ختم ہوگیا مگر ہم اب تک ناچے ہی جارہے ہیں۔یہ گیس کا ناچ ہے، وہ بجلی کاناچ ہے۔ یہ روٹی کا ناچ ہے، اُدھر دال ناچ رہی ہے۔ اِدھر ساری کی ساری سبزیاں الگ الگ ناچ رہی ہیں۔ مچھلی، گوشت، مرغی اور تازہ پھلوں کے توکیاکہنے۔۔۔ کیاکہنے۔۔۔ انھیں دیکھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا۔۔۔ آسمان پر پریاں ناچ رہی ہیں!