جنرل صاحب نے یہ کیا کہہ دیا؟
اوریا مقبول جان
میڈیا کےکیمرے اس سیمینار میں نہیں تھے۔ اسلام آباد کے سرد موسم میں دسمبر کی ایک صبح مشہور زمانہ لال مسجد اور مرحوم جامعہ حفصہ کے قریب ایک ہوٹل کے زیر زمین حال میں شہر کے لوگوں کا جم غفیر تھا۔ تنظیم اسلامی نے دہشت گردی کے سدباب کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا تھا۔ دو مقررین کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے سے تھا اور وہ ملک کے انتظامی ڈھانچے کے اہم ستون یعنی بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین عہدوں پرفائز رہ چکے تھے۔
تیسرے مقرر پرویز مشرف کے دست راز ریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز تھے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر متمکن تھے، ایک ایسا عہدہ کہ جب اس ملک سے افغانوں پر حملے کرنے کے لیے مکمل مدد فراہم کی جا رہی تھی، اس عہدے کی آنکھیں ان تمام واقعات کی گواہ بنتی رہیں۔ دسمبر 2003 سے اکتوبر 2005 تک وہ لاہور کے کور کمانڈر رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد نیب کے چیرمین بنے۔ یوں تو اس دور میں بہت سے لفٹیننٹ جنرل رہے لیکن اپنے ضمیر کی خلش سے بیقرار ہو کر اور خاموشی توڑ کر کتاب صرف جنرل شاہد عزیز نے لکھی۔ اس کتاب میں لکھا جانے والا سچ اس قدر کڑوا تھا کہ اس نے بھونچال کھڑا کر دیا۔ ان کی کتاب "یہ خاموشی کب تک" پر بہت عرصہ اخباروں اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں تبصرہ ہوتا رہا ۔ پرویز مشرف نے غصے میں لال بھبھوکا ہوتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ شاہد عزیز کا دماغ چل گیا ہے۔ اس سیمینار میں قبائلی امور کے باقی دونوں ماہرین اور خود قبائلی پس منظر رکھنے والے اعلیٰ بیوروکریٹس نے بہت سی ایسی باتیں کیں جنھیں اس ملک کا میڈیا بیان نہیں کرتا اور شاید مدتوں نہیں کرے گا۔ سیمینار میں جنرل شاہد عزیز نے ایک حیران کن انکشاف کیا اور یہ ایسی حقیقت ہے جسے سوات کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن نہ یہ میڈیا پر نشر ہوتی ہے اور نا ہی اسے کوئی سیاستدان، دانشور یا تبصرہ نگار بیان کرنے کی جرات کرتا ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے، جو اپنی لکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے تھے اور جس کی ریکارڈنگ تنظیم اسلامی کے پاس موجود ہے اور ہو سکتا ہے چند دنوں میں وہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہو، کہا :
"سوات میں امن معائدہ حکومت اور فوج نے امریکہ کے دباؤ پر توڑا اور اس کا الزام طالبان پر لگا دیا"۔
یہ فقرہ ایسا تھا جس سے پورے کا پورا ہال سناٹے میں آ گیا۔ اس فقرے کی گونج میں اگر ہم میڈیا پر گزشتہ پانچ سال کی گرجتی برستی آوازوں اور دانشوروں کے قلم سے نکلے ہوئے زھرخند جملوں کو یاد کریں تو یوں لگتا ہے کہ کئی سال پوری کی پوری قوم ایک جھوٹ کے الاؤ میں جلتی رہی۔ پاکستان کی پوری سیاسی قیادت، جو سوات آپریشن کے وقت برسراقتدار تھی، میں سے کسی بیان یا ٹی وی پر تبصرہ نکال کر دیکھ لیں، ایسے لگے گا جیسے یہ لوگ امن کی فاختائیں اڑا رہے تھے اور طالبان کی طرف سے انھیں ذبح کر دیا جاتا تھا۔ یہ اس قدر صابر تھے کہ انہوں نے امن کی ہر کوشش کی لیکن اسے طالبان نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ اس سوال کا جواب تو شاہد عزیز ہی دے سکتے ہیں کہ فوج کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ امن جو مزاکرات کی میز پر وقوع پذیر ہو گیا تھا اسے ایک فوجی آپریشن میں کیوں بدل دیا گیا جس کے آج تک ہم زخم چاٹ رہے ہیں۔ آج بھی دبی دبی آوازیں سوات کے بازاروں میں سنائی دیتی ہیں اور صرف ایک وقت کا انتظار ہے کہ جب قصبوں، محلوں اور دیہاتوں میں سنائی جانے والی کہانیاں میرے ملک کے طول و عرض میں بیان ہونے لگیں گی؛ پھر کوئی معافی، غلطی کا کوئی اعتراف ان زخموں کو مندمل نہ کر سکے گا۔ اس سارے کھیل تماشے میں جو تھیٹر میڈیا پر سجا اور آج بھی سجا ہوا ہے اس نے قوم کو نفسیاتی مریض بنایا ہوا ہے۔ آج بھی دلیل یہ دی جاتی ہےاور کتنے زوروشور سے دی جاتی ہے کہ طالبان پر بھروسہ کیسے کریں، وہ تو سوات میں معائدہ توڑ دیتے ہیں۔ طالبان کو جس طرح میڈیا میں گالی بنایا گیا وہ صرف سوات کے امن معائدے کے ایک واقعے سےنہیں بلکہ اس میڈیا نے ہر اس قتل کو طالبان کے کھاتے میں ڈال کر دوکان سجائی جو کہیں کسی اور جگہ بھی ہوتا رہا۔ سوات ہی کی مشہور گلوکارہ غزالہ جاوید جب اپنے باپ کے ہمراہ قتل ہوئی تو کتنے دن میڈیا یہ ماتم کرتا رہا کہ شدت پسندی اور طالبان کی سوچ نے اس خوبصورت گلوکارہ کی جان لے لی۔
[گلوکارہ غزالہ جاوید کا قاتل اس کا سابق شوہر تھا، جسے ابھی دو دن قبل ہی عدالت نے دو بار سزائے موت اور 7 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے: خبر ]
ابھی سوات میں لڑکی کے کوڑوں والی ویڈیو ٹی وی کی سکرینوں پر نہیں آئی تھی کہ اس سے تقریبا دو ہفتے قبل ایک پروگرام میں انسانی حقوق کی ترجمان ثمر من الله نے کہا کہ دیکھنا کچھ عرصے بعد ایک ویڈیو سامنے آنے والی ہے جو طالبان کی حقیقت آشکار کر دے گی۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر طالبان سے اس قدر دشمنی کیوں ہے؟ اس ملک میں اور بھی تو شدت پسند گروہ بستے ہیں۔ شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے والے تو بلوچستان میں بھی ہیں۔ قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے تو کراچی میں بھی کسی کو چین سے بسنے نہیں دیتے ۔ ایسی ایسی بوری بند لاشیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن کی ہڈیوں میں ڈرل سے سوراخ کیا گیا ہوتا ہے، ناخن کھینچے گئے ہوتے ہیں۔ ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی جب وہ یہ لاشیں دیکھ کر سوچتے ہوں گے کہ ان کے پیاروں نے زندگی کے آخری لمحے کس اذیت سے گزارے ہوں گے۔پھر بھی میڈیا پر صرف ایک ہی شدت پسند گروہ کے "ترانے" کیوں گئے جاتے ہیں۔ یہ مرض بہت پرانا ہے، یہ حربہ اور ہتھکنڈا بہت پراثر ہے اس لیے کہ اس کا ہدف طالبان نہیں اسلام ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں میں سے اکثریت پر سیکولر ڈکٹیٹر برسر اقتدار تھے، ان کا اسلام یا اس کے اصول زندگی سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا لیکن دنیا بھر کے اخبارات یا ٹی وی پروگرام اٹھالیں، انھیں سیکولر ڈکٹیٹر نہیں مسلمان ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔ کسی نے جرمنی کے ہٹلر، سپین کے فرانکو یا فلپائن کے مارکوس کو آج تک عیسائی ڈکٹیٹر نہیں کہا اور نا ہی لکھا ۔
اسلام کو اور مسلمانوں کو ہدف بنا کر جس قدر تسکین دنیا بھر کے میڈیا اور میرے ملک کے "عظیم" دانشوروں کو ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ صرف کسی نیوز روم میں بیٹھ کر لگا سکتے ہیں، وہ نیوز روم جہاں کسی دھماکے، قتل یا ایسے کسی جرم کی خبر آ چکی ہو اور ٹی وی پر چل بھی رہی ہو متلاشی نظریں اور کان بےچینی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، تجسس میں ایک دوسرے سے سوال کیے جاتے ہیں:
"طالبان نے ذمہ داری قبول نہیں کی ابھی تک؟ پتا تو کرو، عالمی میڈیا کو دیکھو، کسی ویب سائٹ پر ڈھونڈو" اور اگر ذرا بھی تاثر مل جائے تو پھر دیکھیں اگلے چوبیس، اڑتالیس یا بہتّر گھنٹے کی نشریات کے لیے موضوع مل جاتا ہے۔ خبر چلاؤ اور رگڑ دو شرعی قوانین کو، اسلام کی شرعی حیثیت کو اور خود اسلام کو۔
اوریا مقبول جان
tags:oria maqbool jaan, Lieutenant-General Shahid Aziz, Tanzeem e islami,sawat, aarmy operation, video, sawat peace deal, who broke,ghazala javaid, taliban, secular, media, islam, pakistan,
This comment has been removed by the author.
ReplyDelete