Test Footer 2

12 December 2012

دعا! کب، کیوں اور کیسے؟



ہمارےمعاشرے میں دعا  مانگنے  کے عمل کے ساتھ ایک بڑا ہی عجیب سا رویہ بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ضرورت کے وقت میں یا اللہ اور اے اللہ  کی تکرار پوری  رقت کے ساتھ کی جاتی ہےاور جب  ادھر ضرورت ختم ہوئی  تو ادھر دعائیں بھی ختم۔ اکثر و بیشتر  صورتحال یوں ہوتی ہے کہ شیخ صاحب کی والدہ ہسپتال میں داخل ہوئی تو وہ نا صرف خود بلکہ امام صاحب کو کہہ کر دوسرے نمازیوں سے بھی نہایت خشوع و خضوع سے دعائیں منگواتے ہیں، میاں صاحب اپنے بیٹے کے مستقبل سے پریشان ہر نماز کے بعد اپنی پوری عاجزی نچھاور کرتے ہوئے دعاگو ہوتے ہیں، ملک صاحب اپنے مقدمے کی پریشانی میں تو چودھری صاحب شفعہ اپنے حق میں کرانے کیلئے اللہ کے حضور میں دست بدعا ہوتے ہیں۔ یہ مناظر تبدیل ہو جائیں تو میاں صاحب  کچھ یوں کہتے نظر آتے ہیں کہ بھائی دعائیں مانگ کر اور کرا کر بھی دیکھ لیں کوئی اثر نہیں ہوتا، اب تو میرا دعا مانگنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ ملک صاحب اور چودھری صاحب تو بس بمشکل نماز ختم ہونے کا ہی انتظار کرتے ہیں کہ بیٹھک میں انہوں نے اپنے ملاقاتیوں سے جا کر ملنا ہوتا ہے جبکہ شیخ صاحب تو امام مسجد کی پکی روٹی نامی کتاب سے یاد کردہ روٹین کی دعاؤں کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔

دعاؤں کیلئے ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیئے؟  چہ جائیکہ ہم  روز پڑھتے اور سنتے ہیں کہ اصل عبادت دعا ہی ہوتی ہے اور دعا  پورے بھروسے اور یقین کے ساتھ اسی طرح  مانگی جائے جس طرح مزدور کام کر چکنے کے بعد مزدوری کا مطالبہ کرتا ہے۔
خود  سرکار صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو   کئی دعائیں بالکل اس طرح یاد کرایا کرتے تھے جس طرح کہ قرآن کی آیتیں۔ ہمیں  ہر نماز میں تشہد کے بعد جن چار چیزوں سے پناہ مانگنے کیلئے کہا گیا ہے  وہ والی  دعا تو فرقہ بازی کی نظر ہو کر  ادھر ہمارے ایشیا میں رواج ہی نہیں  پا سکی اور رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ والی دعا  ہماری نماز کا جزو لاینفک بن چکی ہے ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی روزمرہ زندگی میں کیا دعائیں  مانگا کرتے تھے۔ اگر ہم اپنےتخیل اور اپنے  انداز میں یہ بات  سوچیں تو یہ معاملہ کچھ یوں ہوگا کہ  آپ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیلئے ہاتھ اُٹھاتے ہونگے اور کہتے ہونگے یا اللہ میرے بیٹے کو شفا دیدے مگر ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ یا فرماتے ہونگے کہ یا اللہ میرے قرض ادا فرما دے تو قرضے بھی نہیں تھے۔ یا فرماتے ہونگے کہ یا اللہ مسلمانوں کو فتح و نصرت دے مگر مسلمان تو ہر جگہ فتوحات اور نصرت سے ہمکنار تھے۔ یا فرماتے ہونگے کہ اے اللہ میری گھر والیوں کو ہدایت دے مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ اپ کی گھر والیاں تو مؤمنین کی مائیں  اور سروں کا تاج تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا مانگا کرتے تھے :
اَللَّهُمَّ إِنّىْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ
وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَوَجَمِيْعِ سَخَطِكَ 
اے اللہ ! میں تیری نعمت کے زوال ]چھن جانے[سے اور عافیت اور دی ہوئی صحت کے پلٹ جانے سے اور تیرے اچانک عذاب سے اور تیرے غضب والے سب کاموں سے تیری پناہ مانگتا ہوں


صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2442 
اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی  ہمارے پاس  جتنی بہتات ہے ان کا شمار بھی نہیں کیا جاسکتا اور  صحت، آنکھیں، کان، پیر ، ہاتھ ان بے شمار نعمتوں میں سے ہیں۔ کئی ایسے  لوگ ہیں جو آنکھ جھپکنے کی دیر میں اپنی بصارت سے محروم ہو بیٹھے۔ ہمارے ایک دوست کا کسی مریض  کو ملنے کیلئے ہسپتال جانا ہوا، مریض چاروں شانے چت بیڈ پرمفلوج  پڑا صرف اپنی آنکھوں کو ہلا سکتا تھا، پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگا گھر سے بازار جانے کیلئے سیڑھیاں اُتر رہا تھا کہ پاؤں پھسلا اور گرا تو  کمر ایک سیڑھی کے  کنارے سے لگی، ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور میں زندگی بھر کیلئے چارپائی کا ہو گیا ہوں۔ اس کو نعمت کا زوال کہتے ہیں کہ کھاتا پیتا اور صحتمند  انسان پلک جھپکتے ہی  سب کچھ سے محروم ہو بیٹھا تھا اور یہی وہ حالت ہے  جس کیلئے  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

میں پچھلے ہفتے سعودیہ عرب میں تھا تو  پاکستان کے شہر ہارون آباد سے تعلق رکھنے والے ایک  دوست سے ملنے کا اتفاق ہوا جس نے اپنے دوست کو ویزا خرید کر دیا اور وہ دوست یہاں آ گیا۔ نو وارد دوست  آمد کے دوسرے دن مکہ  مکرمہ جا کر عمرہ ادا کر آیا  اور اس سے  اگلے دن مدینہ شریف جا کر حاضری دے آیا۔ تیسرے دن کمر میں درد  کی شکایت اور دیکھتے ہی دیکھتے  شام تک ہلنے چلنے سے معذور ہوگیا ۔  چونکہ  ابھی اقامہ نہیں  بنا تھااور  نا ہی کسی قسم کی انشورنس  تھی ۔ مزید  مہنگے علاج کی سکت بھی نہیں تھی، اوپر سے سرکاری ہسپتال  مریض کو لینے سے انکاری تھے۔  تمام  دوستوں نے مشورہ کیا اور  اُسے  رات کو ایک ہسپتال کی لابی  میں چھوڑ کر آگئے۔  ہسپتال والوں نے بعد میں  داخل کر کے دو ایک دن علاج کیا مگر بعد میں  پھر باہر بٹھا (ڈال) دیا۔  ان لوگوں نے کفیل سے کہہ کر پاکستان واپس بھیجنے کی کوشش بھی کی مگر کوئی کام سنجیدگی سے نا ہو سکا۔  المختصر دو ماہ کی لاچاری  اور انتہائی تنگی کے بعد  یہ صاحب  اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میں وہیں پر ہی تھا جب یہ ہارون آباد والے دوست میت کو لیکر پاکستان جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ویزا خرید کر آنے والے کے پیچھے کیا کہانیاں ہوتی ہیں وہ سب کہانیاں ان صاحب کے ساتھ بھی تھیں  کہ سب کچھ بیچ کر ،  جمع پونجی خرچ کر کے اور مزید دوستوں سے  ادھار مانگ کر ویزا لے کر آئے تھے تو سب کچھ ختم کر کے عازم ملک عدم ہو گئے۔ دی ہوئی عافیت اور صحت کے یکدم پلٹ جانے کی ایک مثال یہ بھی ہے۔

حقیقی زندگی میں کئی بار ایسی کہانیاں سننے کا اتفاق ہوتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک شیخ صاحب بتا رہے تھے کہ وہ کسی جگہ خطاب کرنے گئے تو دوستوں نے کہا کہ چلیں ایک ہمسائے  ڈاکٹر صاحب  (پی ایچ ڈی) کے گھر تعزیت کرنے چلتے ہیں جو یہاں کی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ تعزیت سے فوری طور پر جو بات ذہن میں آتی ہے کہ انکا  کوئی بچہ یا گھر میں بوڑھے ماں باپ میں  سے کوئی  فوت ہو گیا ہوگا۔ شیخ صاحب نے کہا کہ دیکھو ایک تو میری مصروفیت مجھے اجازت نہیں دیتی دوسرا آپ کے اس ہمسائے ڈاکٹر صاحب سے میرا کوئی  تعارف بھی نہیں۔  اچھا یہ تو بتاؤ کہ ادھر جا کر تعزیت کس کی کرنی ہے؟ تو ان لوگوں نے شیخ صاحب کو  بتایا کہ ان  ڈاکٹر صاحب کی  عمر پچپن سال ہو گی ۔ ان کے چھوٹے بڑے گیارہ بچے تھے جبکہ انکی گھر والی  کو ملا کر  کل بارہ افراد۔  دو روز قبل ان کا بڑا بیٹا عادل  جس کی عمر تقریبا پچیس سال تھی ان سب لوگوں کو لیکر یہاں سے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک شہر میں کسی قریبی عزیز کی شادی میں شرکت کیئے گیا (ڈاکٹر صاحب کا  یونیورسٹی کے ایک کام کے سلسلے میں گھر پر رہنا ضروری تھا اس لیئے ساتھ ناجا سکے تھے)۔  واپسی پر یہ پورا خاندان ایک حادثے کا شکار ہوا اور تمام لوگ موقع پر  ہی مر گئے۔ اب اس مصیبت کا اندازہ لگائیے کہ ڈاکٹر صاحب کی اپنی عمر پچپن سال ہے، ان کی بڑی بیٹی کی عمر تئیس سال تھی اور اس کی منگنی ہو چکی تھی جبکہ کچھ ہی دنوں میں  شادی ہونا تھی۔ سب سےچھوٹی خلود تھی جس کی عمر ڈیڑھ سال تھی۔ سب میتوں کو آتے پیچھے رکھ کر بارہ افراد کا جنازہ پڑھا گیا، ڈاکٹر صاحب ایک کے بعد دوسرے کی لاش  کو قبر میں رکھتے  رہے، ان کی کیا کیفیت ہو گی۔ جب ہم ملنے کیلئے گئے تو ڈاکٹر صاحب اپنے حواس میں ہی نہیں تھے۔ گھر میں کھلونے بکھرے پڑے  تھے کہ  ان سے جو  کھیلنے والے بچے تھے  وہ اب نہیں رہے تھے، بچوں کی سائیکلیں گری ہوئی  تھیں کہ ان کو سیدھا کرنے والا کوئی  نہیں رہا تھا،   پلنگوں پر چادریں الٹی پلٹی رکھی تھیں کہ ام عادل موجود نہیں تھی جو ان کو ٹھیک کرتی۔  یہ ہے اچانک نازل ہونے والی  مصیبت کی مثال۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کام پر گئے تو پتہ چلا کہ آپ کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے، یا گھر سے اتر کر پارکنگ لاٹ میں گئے تو دیکھا کہ گاڑی چوری ہو چکی ہے۔ کاروباری آدمی اپنے  سٹور پر گیا  تو دیکھا کہ آگ نے تو سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا ہے۔

ہماری مسئلہ یہ ہے ہم دعا مانگتے ہیں جب قرض سر پر چڑھ جائے ، گھر میں کوئی مریض ہو جائے یا امتحان سر پر ہوں۔ یا اگر  ہم یہ دعا مانگیں کہ اے اللہ  ہماری مغفرت فرما دے اور ہم پر رحم فرما دے تو  بے دھیانی اور عدم رغبتی سے ایسے مانگتے ہیں کہ گویا واجب امر ہو اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔  نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے، دعا اس وقت بھی مانگنی چاہیئے جب گھر پر سارے بچے ٹھیک ٹھاک ہوں اور زندگی مزے سے گزر رہی ہو اور اُس وقت بھی مانگنی چاہیئے کہ جب معاملات اس نہج پر ہوں کہ قادر مطلق کے بغیر کوئی مشکل کشا ئی کرنے والا نا ہو۔ بس اسی بات کی یاد دہانی کیلئے یہ آیت کریمہ پڑھیئے۔
إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ ﴿٩٠﴾(سورة الأنبياء)
 یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دَوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے
اور ہو سکے تو یہ دعا یاد کر کے اپنی عبادات کا حصہ بنا لیجیئے۔


نوٹ: 
یہ تحریر محمد سلیم صاحب کے بلاگ سے کاپی کی گئی ہے.

0 comments:

Post a Comment