بنگالی ایسے نہ تھے انہوں نے تو مسلم لیگ بنائی، تقسیم بنگال کے مسئلے پر انگریز آقاوں اور ہندوں کو چیلنج کرکے تحریک پاکستان کی طرح ڈالی، 1940 میں قراداد پاکستان پیش کی، ریاستوں کے بجائے ریاست کی بات کی، کلکتہ میں اپنے خون سے تحریک کی آبیاری کی اور فیصلہ کن مرحلے میں ووٹ دے کر متحدہ ہند کے حصے بخرے کردئے اور پھر اس ہی جرم عظیم کی سزا انہیں پچیس برس تک دی جاتی رہی، غیروں کے ہاتھوں نہیں، انکے ہاتھوں! جنہوں نے ساتھ جینے مرنے کی قسم کھائی تھی۔ بنگالی عوام سیاسی طور پر مغربی بازو کے محکوموں سے زیادہ باشعور تھے، آزاد تھے، خودمختار تھے۔ غریب اور ان پڑھ ضرور تھے لیکن جاہل اور کاری کمین نہیں۔مجیب الرحمان غدار نہیں تھا اسے غدار بنایا گیا تھا۔ بنگالی پاکستان توڑنا نہیں چاہتے تھے انسے پاکستان توڑوایا گیا تھا اور ہندوستان نے فائدہ نہیں اٹھایا تھا اسے فائدہ اٹھانے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا تھا۔
حال کیا تھا کاروبار پر مغربی بازو کے سرمایہ دار چھائے ہوئے تھے، افسری بہاریوں، مدراسیوں اور کلکتیوں کو زیبا تھی اور جن کاموں میں کسی اور کو کوئی دلچسپی نہ تھی وہ اہلیان مشرقی بنگال کا استحقاق بنادی گئی تھیں۔ سول سروس اور مسلح افواج میں داخلے کے دروازے ان پر بند تھے۔
مشرقی پاکستان میں ایک نئی احتجاجی تحریک نے زور پکڑا، ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ ایک بار پھر سڑکوں پر آئے اور عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کردیا۔ یہ تحریک اتنی شدید تھی کہ مغربی پاکستان کے سول و فوجی افسران اور عہدیداران کنٹونمینٹ تک محدود ہوکر رہ گئے تھے۔ سو مغربی پاکستان کے فوجی سورماوں نے اس مسئلے کا حل فوجی آپریشن میں نکالا۔ یہ وہ فوجی مکا تھا جو گورے فرنگیوں کے تربیت یافتہ کالے جرنل کرنل اپنے آخری حربے کے طور پر استعال کیا کرتے ہیں۔ طے یہ پایا تھا کہ بنگالی فوجیوں اور نیم فوجی دستوں کو غیر مسلح کرکے نیٹولرائز کردیا جائے گا، بھارت کے ہر ایجنٹ کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے، عوامی لیگ کے دفاتر، ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس اور ہندو بستیوں میں سخت ترین کریک ڈاون کیا جائے۔ اس ریاستی دہشت گردی کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج میں بغاوت ہوگئی، بنگالی فوجیوں اور نیم فوجیوں نے لبریشن آرمی بنالی اور عوامی لیگ کے لاکھوں حامی اور رہنما جان بچا کر ہندوستان فرار ہوگئے۔
ایک طرف تو مغربی پاکستان کے اردو اخبارات میں روایتی طور پر اس سورش کا سارا الزام ہندوستان کے سر تھوپ کر پاک فوج کے سجیلے جوانواں کی بہادری اور شجاعت کے ترانے بجائے جارہے تھے۔ تو دوسری طرف قوم کے یہی سجیلے جوان کبھی بنگالی بیٹوں کے خون اور کبھی بنگالی بیٹیوں کی آبرو پر اپنی جوانی کی گرمی اتارنے میں مصروف تھے۔ حبیب جالب بڑا صاحب ادراک شاعر تھا اس کے یہ اشعار قرائین کی کس قدر ترجمانی کررہے ہیں۔
محبت گولیوں سے بورہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھورہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
>بات تلخ ہے لیکن امر ربی یہی تھا کہ پاکستان دو لخت ہو، سو ہوگیا لیکن اصل بدقسمتی، سانحہ اور قابل ملال امر یہ ہے کہ اس خاک و خون سے کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی پاکستان پر سول و فوجی بیوروکریسی اور انکے پالے ہوئے دو نمبر سیاسی خاندانوں کا راج ہے۔ بلوچستان میں انکے تیور دیکھ لیں جو سردار ساتھ ہے وہ پارسا بھی ہے اور محب وطن بھی اور جو ساتھ نہیں وہ ظالم و جابر بھی ہے اور بھارتی ایجنٹ بھی۔ قبائلستان، مالاکنڈ اور لال مسجد میں جاری ریاستی دہشت گردی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کی خاکی وردی کی فرنگی سوچ میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اور اسی لئے آج بھی جب کوئی آپریشن راہ نجات شروع ہوتا ہے تو میری نانی ماں کے آنسو تازہ ہوجاتے ہیں اور ایک بارپھر انکی نظروں کے سامنے انکے سات بھائی، چار بہنیں، بھابھیاں، ڈھیرسارے بھتیجے بھتیجاں اور ہزاروں لاکھوں سفید پوش مظلومین آجاتے ہے اور یک زبان ہوکر ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ بتاؤ! پاکستان کا مطلب کیا؟
0 comments:
Post a Comment