میں بیٹی ہوں میں اپنی ماں کو اپنے ساتھ لے آئی
وہ بوڑھی ہو گئی تو اب اسے اک بوجھ لگتی ہے
جوانی اپنے بچوں کے لیے جس نے تھی جھلسائی
ہے بس اپنی ہی بیوی اور بچوں سے اسے مطلب
اسی کو بھول بیٹھا ہے جو دنیا میں اسے لائی
بڑی گاڑی، بڑا بنگلہ، بڑا عہدہ سبھی کچھ ہے
مگر ماں باپ جب مانگیں، نہیں جیبوں میں اک پائی
وہ کتا پال سکتا ہے مگر ماں بوجھ لگتی ہے
اسے کتے نے کیا کچھ بھی وفاداری نہ سکھلائی
جو جیسا بیج بوتا ہے وہ پھل ویسا ہی پاتا ہے
بڑھاپا تجھ پہ بھی آئے گا، کیوں بھولا یہ سچائی
تیرا بیٹا جو دیکھے گا، وہی تو وہ بھی سیکھے گا
تو اپنے واسطے ہاتھوں سے اپنے کھود نہ کھائی
جو ودیاشرم میں بیٹا چھوڑ کر تجھ کو چلا آئے
اگر زندہ رہی، پوچھے گی تجھ سے تیری ماں جائی
بتا کس کے لیے تو نے کمائی تھی یہاں دولت
مگر جو اصل دولت فرض کی تھی وہ تو بسرای
کھلے گا جب خدا کے بنک میں کھاتا تیرا اک دن
تیرے سر پر بڑا قرضہ چڑھا ہو گا میرے بھائی
جو منت مانگتے تھے "بس ہمیں بیٹا ہو، بیٹا ہو"
انھیں بیٹی کی قیمت اب بڑھاپے میں سمجھ آئی
میں بیٹی ہوں میں اپنی ماں کو اپنے ساتھ لے آئی
بشکریہ
0 comments:
Post a Comment