پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئیگی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکست ِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کُچھ گلے شکوے بی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد ِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں ،مہرباں راتوں کے بعد
اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
فیض احمد فیض
0 comments:
Post a Comment