Test Footer 2

16 December 2012

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد


ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئیگی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکست ِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کُچھ گلے شکوے بی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختم درد ِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں ،مہرباں راتوں کے بعد

اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

فیض احمد فیض

0 comments:

Post a Comment