Test Footer 2

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.This theme is Bloggerized by Lasantha Bandara - Premiumbloggertemplates.com.

22 February 2013

ہم اپناتے ایک تہذیب کو ہیں اور فائدے دوسری تہذیب کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ غصے میں لال پیلی ہو رہی تھیں۔ اپنے کلینک میں داخل ہونے سے پہلے انہوں نے چائے والے کو خوب سنائیں’’تمہاری مائیں بہنیں نہیں ہیں؟ یوں آنکھیں گاڑ کر دیکھتے ہو… نظریں نیچی رکھا کرو‘‘… وہ کھلے بال، گلے میں ڈوپٹہ اور نک سک سے تیار تھیں۔ جھک کر انہوں نے شیشے کا دروازہ کھولا اور پائوں پٹختی اندر چلی گئیں۔ چائے والا بڑبڑاتا ہوا اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیا۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپناتے ایک تہذیب کو ہیں اور فائدے دوسری تہذیب کے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟؟

بھلائی

بھلائی

فرحی نعیم


’’امی یہ دیکھیں، شہزاد کے گھر والوں نے پھر وہی حرکت کی۔‘‘ عدنان گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے غصہ سے بولا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ امی سے پہلے ثمر بولی۔
’’وہی جو اکثر ہوتا ہے، اپنے گھر کے آگے کی صفائی کی اور سارا کچرا ہماری طرف۔‘‘
’’تم بھی سارا کچرا واپس وہیں کردو۔‘‘ ثمر کو بھی غصہ آیا۔
’’ارے ارے، یہ کیا کہہ رہی ہو ثمر…! جائو عدنان کچرا صاف کردو اور سب تھیلی میں ڈال کر کچرے کے ڈبے میں ڈال دو۔‘‘ امی نے پہلے ثمر سے، پھر عدنان سے کہا۔
’’یہ کیا بات ہوئی! وہ باز نہیں آتے اور ہم ان سے کچھ کہنے کے بجائے الٹا صفائی کردیں! جب ہی تو وہ اور ڈھٹائی سے یہ کام کرتے ہیں۔‘‘ عدنان تیز لہجے میں بولا۔
’’بیٹا چھوڑو، درگزر سے کام لو۔‘‘
’’امی آپ ہمیشہ یہی کہتی ہیں، وہ اس طرح ہماری شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘ عدنان کا غصہ کم نہیں ہورہا تھا۔
’’اچھا اب بس کرو… اُن کا عمل اُن کے ساتھ اور ہمارا ہمارے ساتھ۔‘‘ امی نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
اور اکثر یہی ہوتا… محلے کا کوئی گھر ہو، امی کسی کی بھی ناانصافی کو پس پشت ڈالتیں اور درگزر سے کام لیتیں، جس سے تینوں بچے بڑے ناراض ہوتے۔
……٭٭٭……
’’مغرب کی نماز ہوگئی تم لوگوں نے لائٹ نہیں جلائی؟‘‘ ثمر نے عدنان سے پوچھا۔
’’میں نے تو جلائی تھی، شاید سیور خراب ہوگیا، ابھی دیکھتا ہوں۔‘‘
عدنان یہ کہہ کر باہر گیا اور تھوڑی ہی دیر میں واپس پلٹا۔ ’’وہاں سے تو سیور ہی غائب ہے۔‘‘
’’ہائیں کیا کہہ رہے ہو!‘‘ ثمر حیرانی سے بولی۔
’’صحیح کہہ رہا ہوں… لگتا ہے گلی کے کسی لڑکے نے اتار لیا، صبح تک تو تھا۔‘‘
’’یہ سیور کیا ٹوٹ گیا؟‘‘ اسی وقت بڑے بھائی عرفان گھر میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔
’’بھائی کسی نے سیور نکال لیا‘‘۔ عدنان چڑچڑا ہورہا تھا۔
’’ہوں…! مجھے لگتا ہے ضرور یہ آفتاب کی حرکت ہوگی۔ ایک ہفتہ سے ان کے دروازے کے باہر لائٹ نہیں جل رہی تھی اور آج جل رہی ہے… میں آتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ شکر ہے انہوں نے بلب لگا لیا ورنہ اس طرف بڑا اندھیرا رہتا تھا۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ ہمارا ہی بلب اتار کر لگایا ہے۔‘‘ عرفان غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے بولا۔
’’میں ابھی وہاں سے اتار لاتا ہوں۔‘‘ عدنان یکدم کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
’’ایک منٹ ٹھیرو عدنان‘‘… اسی وقت امی کی آواز آئی۔
’’جی امی‘‘… عدنان رک گیا۔
’’پہلے مجھے تم دونوں یہ بتائو کہ کیا آفتاب کو بلب اتارتے ہوئے کسی نے دیکھا تھا؟‘‘
’’امی اتارتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن وہ ایسا ہی لڑکا ہے، وہ تو…‘‘
’’بس، جب نہیں دیکھا تو کسی کو مورد الزام بھی نہ ٹھیرائو۔‘‘ امی نے عدنان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’لیکن امی! وہ اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے۔ ابھی دیکھیں گے ہم، تو پتا چل جائے گاکہ بلب نیا ہے یا پرانا، اور اس سے میں اچھی طرح اگلوالوں گا۔‘‘ عرفان بھی جلدی سے بولا۔
’’بیٹا کیوں کسی کو ہم الزام دیں! چھوڑو رہنے دو، تم بازار سے نیا لا کر لگا دو۔‘‘ امی نے ہمیشہ کی طرح درگزر سے کام لیا، جس پر وہ امی کو تو کچھ نہ کہہ سکے لیکن منہ بنا کر وہیں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’امی ہمیشہ یہی کرتی ہیں، کوئی کیسی ہی زیادتی کر جائے لیکن یہ…‘‘ عرفان سر جھٹک کر بولا۔
’’حالانکہ اب کہاں ایسی بھلائی کا زمانہ ہے! اب تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا پڑتا ہے ورنہ لوگ کمزور کو دبا لیتے ہیں۔‘‘ عدنان بھی بھائی کی تائید میں بولا۔ ساتھ ہی ثمر نے بھی گردن ہلائی اور بولی:
’’تو اور کیا، اب شرافت کا وقت نہیں رہا۔ لیکن ایک ہماری امی ہیں… جب ہم پر کوئی مشکل پڑے گی نا، تب دیکھیں گے یہ سب لوگ کہاں ہوں گے۔‘‘
اور پھر یہ زیادہ دنوں کے بعد کی بات نہ تھی، تینوں بچے اسکول، کالج گئے ہوئے تھے، اس دن صبح سے امی کی طبیعت ٹھیک نہ تھی لیکن انہوں نے زبان سے کچھ نہ کہا تھا کہ مبادا بچے پریشان ہوجائیں۔ لیکن گیارہ بجے تک ان کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی۔ ان کا بلڈ پریشر خاصا بڑھ گیا تھا۔ تب انہوں نے بمشکل دروازے پر جا کر گلی میں جھانکا اور انہیں اپنے پڑوس کا لڑکا نظر آیا۔ انہوں نے اشارے سے اسے بلایا اور اپنی طبیعت کی خرابی کی بابت اسے بتایا۔ وہ فوراً ہی گھر بھاگا اور اپنی والدہ کو لے آیا۔ پھر وہ دونوں ان کو ہی نزدیکی اسپتال لے گئے جہاں انہیں فوری طبی امداد پہنچائی گئی۔ بروقت اسپتال لے جانے سے ان کی حالت بہت سنبھل گئی تھی۔ تینوں بچے جب گھر آئے تو انہیں اپنی والدہ کا پتا چلا اور وہ اسپتال بھاگے۔
’’شکر کریں آپ کی والدہ بروقت اسپتال پہنچ گئیں ورنہ بہت کچھ ہوسکتا تھا‘‘۔ عرفان سے ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے۔ اور عرفان کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ یہ وہی پڑوسی تھے جو ان کو اگرچہ تنگ کرتے لیکن ان کی امی کی افہام و تفہیم کی عادت کی وجہ سے سب ہی نے ایسے وقت میں بھاگ دوڑ کرکے ان کی صحت یابی میں حصہ ڈالا تھا۔ اور تو اور محلے کا سب سے شرارتی اور نالائق لڑکا آفتاب ہی ان کو اپنی گاڑی میں اسپتال لایا تھا اور فوری انجکشن اور دوائیوں کا بھی اس نے ہی انتظام کیا تھا۔ ’’امی ٹھیک ہی کہتی تھیں، اگر ہم بھی ان لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرتے تو آج ایسے وقت میں کون ہماری مدد کرتا۔‘‘ عدنان کہہ رہا تھا۔
’’ہاں صحیح کہتے ہو… ہم لوگ تو تھے نہیں، اور دیکھو سارے ہی محلے والے امی کی خیریت کو آرہے ہیں، اور کچھ تو اپنی غلطیوں پر نادم بھی ہیں۔‘‘
عرفان نے عدنان کی بات آگے بڑھائی۔
’’نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی، یہ آج ہم نے جان لیا۔‘‘ ثمر آہستہ سے بولی اور دونوں بھائیوں نے آج اس حقیقت کو مان لیا تھا۔

21 February 2013

درد کی دوا کیجیے!!


درد کی دوا کیجیے!!

ڈاکٹر طاہر قریشی
 
’’اُف میرے خدایا! سمیر، بدتمیز بچے یہ تم نے کیا کیا؟ کولر کا تمام پانی کچن میں پھیلا دیا! اور یہ بوتلیں… یہ بھی فریج سے تم نے ہی نکالی ہوں گی۔ کام سنوارنا تو آتا نہیں بگاڑنے میں ماہر ہو، کب تم اسکول دفع ہوگے اور کب تم سے جان چھوٹے گی؟؟‘‘
……٭……
’’ارے بھئی بلا کی گرمی ہے، باہر تو دھوپ بھی بہت تیز ہے، برا حال ہوگیا… ذرا کوئی پانی تو پلا دو۔‘‘ دادا جان نے باہر سے آتے ہی صدا لگائی تو بچوں کی فوج ایک دوسرے سے سبقت اور دادا جان کی شاباشی مل جانے کے چکر میں ایک ساتھ بھاگی۔ علی جو تمام بچوں میں زورآور اور زیادہ شریر تھا، سب سے پہلے پانی کا گلاس بھر کے دادا جان کی طرف لپکا۔ اُس کا توازن کب اور کیسے بگڑا اُسے خبر بھی نہ ہوئی اور گلاس دادا جان کے ہاتھوں میں جانے کے بجائے ان کے قدموں میں ہی کرچی کرچی ہوگیا۔ ’’ارے جنگلی انسان! یہ تُو نے کیا کیا؟ کل ہی پورے چھ سو کا سیٹ لائی تھی اور آج تُو نے گلاس توڑ ڈالا۔ ارے کمبخت! تجھ سے کبھی کوئی اچھا کام بھی ہوا ہے؟‘‘ یہ علی کی دادی جان تھیں جن کا غصہ یہیں پر ٹھنڈا نہ ہوا البتہ علی کے منہ پر زوردار اور گرما گرم طمانچے لگا کر کچھ تسلی ضرور ہوگئی۔ بے چارا علی!!
شاباشی تو کیا ملنی تھی، دو عدد زناٹے دار تھپڑ اور چند گالیاں ضرور مل گئیں۔
……٭……
ثمرہ یونیورسٹی کا کام کررہی تھیں کہ نہ جانے ان کی چار سالہ بھانجی جویریہ کو کیا سوجھی، اُس نے بھی سوچا ہوگا کہ خالہ کو ڈرانا چاہیے، ایک دم میرے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے تو ڈریں گی اور پھر خوب ہنسیں گی… تبھی اُس نے ثمرہ کے عقب میں پہنچ کر اپنی تمام تر توانائی کو جمع کرکے زوردار نعرہ لگایا ’’ہائوں!!‘‘ ثمرہ کی تو چیخ نکل گئی، ان صاحبہ نے آئو دیکھا نہ تائو، پہلے تو ایک تھپڑ جویریہ کے رسید کیا اور پھر کان مروڑ کر کمرے سے باہر نکالتے ہوئے کہا: ’’بالکل جانور ہو جانور! بلکہ جانوروں سے بھی بدتر… نجانے کب تمیز سیکھو گی؟ اتنا اہم اسائنمنٹ بنا رہی تھی، دماغ ہلا کر رکھ دیا، اپنی اماں کے پاس کیوں نہیں جاتیں، ان کا بھیجا کھائو نا!! نکلو یہاں سے اور خبردار جو دوبارہ یہاں نظر آئیں، سمجھیں!!‘‘
ہائے بیچاری جویریہ…!!!
……٭……
’’بڑی امی! مجھے بھی احمد کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔ آپ اُسی کو کھلائے جارہی ہیں مجھے بھی دیں نا، مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ننھے عثمان نے ملتجی انداز میں کہا، جس کے جواب میں ان کی ’’انتہائی بڑی‘‘ امی نے چہرے کو مزید بگاڑتے ہوئے ارشاد کیا: ’’چل یہاں سے بھوکے، ندیدے، ہمارے کمرے میں ہی بھوک ستاتی ہے تجھے، اپنی ماں سے کیوں نہیں کہتا! میں احمد کی امی ہوں، تیری آیا نہیں ہوں… اب جاتا ہے یہاں سے کہ یہیں کھڑے کھڑے میرے بچے کے پیٹ میں درد کروائے گا!‘‘
افسوس!! معصوم عثمان!! جسے پہلے بھوک ستا رہی تھی اور اب اپنی بڑی امی کی زبانِ مبارک سے نکلے یہ حسین الفاظ کاٹنے کو دوڑ رہے تھے۔
……٭……
’’فہد تم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے! سکون تو چھو کر نہیں گزرا تمہیں… ارے یہ کیا! شاہ زیب سے چپس کا پیکٹ کیوں لے رہے ہو تم! وہ رو رہا ہے، واپس کرو اُسے۔‘‘
لیکن پھپھو یہ تو میرا ہے، پپا نے دلوایا ہے مجھے، میں نہیں بلکہ شاہ زیب مجھ سے چھین رہا ہے۔‘‘ فہد نے وضاحت کی۔ ’’لیکن ویکن کچھ نہیں، دیکھ نہیں رہے وہ کتنا رو رہا ہے! تمہاری طرح ڈھیٹ تھوڑی ہے۔ بہت حساس ہے شاہ زیب۔ تم اور لے لینا یہ اسے دے دو۔‘‘ عنابیہ پھپھو نے چپس کا پیکٹ تقریباً چھینتے ہوئے فہد کو باور کروایا اور اسے شاہ زیب کو تھما دیا، جس سے شاہ زیب کا بجتا ہوا باجا تو ٹھنڈا پڑ گیا البتہ فہد کے اندر آگ سی دہکنے لگی۔ وہ بچپن ہی سے اس سلوک کو بھگت رہا تھا۔ شاہ زیب گورا اور شکل میں ددھیال کے مشابہہ تھا اور ان کی اماں بھی خاندان کی ہی تھیں، جب کہ فہد سانولا، شکل میں ننھیال کے مشابہہ تھا اور ان کی اماں بھی غیر تھیں، جس کی بدولت شاہ زیب سب گھر والوں کی آنکھ کا تارا تھا اور فہد محض تارا ہی تھا وہ بھی بجھا ہوا۔ اس سلوک نے فہد کی طبعیت میں ضد، غصہ، چڑچڑاپن، بدزبانی اور جھگڑتے رہنے جیسی خصلتیں پیدا کردی تھیں۔ اُس سے ہمیشہ چیز چھین کر شاہ زیب کو دے دی جاتی اور وجہ یہ بتائی جاتی کہ ’’بھائی ہے تمہارا! چلو دے دو اُسے، ارے بھئی مل کر کھیلتے ہیں، وہ روتا ہے نا!!‘‘ فہد کا دل چاہتا کہ کہے ’’بھائی تو میں بھی ہوں شاہ زیب کا، تو پھر اُس کی چیز لینے پر میری پٹائی کیوں ہوتی ہے؟ اُس کو کیوں نہیں سمجھایا جاتا؟ روتا تو میں بھی ہوں، میرے آنسو آپ کو نظر کیوں نہیں آتے؟ میرے رونے سے آپ کے دل کو کچھ کیوں نہیں ہوتا؟‘‘
……٭……
یہ چند مثالیں ہیں جب ہم اپنا غصہ بچوں پر نکالتے ہیں، ان کی شخصیت کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان کے لیے غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
اور اگر بچے ہماری ہی کہی ہوئی کوئی  ناگوار بات یا گالی دوہرا دیں تو بس!! پھر تو خیر نہیں اس بچے کی… مار مار کر بھرکس نکال دیتے ہیں… اس کو ایک بدتمیز، بداخلاق و بدتہذیب بچہ کہتے کہتے ہمارا منہ نہیں تھکتا، اور کمالِ بے نیازی سے کہتے ہیں: ’’نجانے اس نے یہ گالی ’’کہاں‘‘ سے سیکھی؟ گویا جن بھوت سکھا گئے ہیں!!
بعض دفعہ بچوں کی غلطی پر ماں اور ننھیال کو ہر برائی کا ذمہ دار ٹھیرا دیا جاتا ہے۔ چیزیں توڑنے پر جب بچوں کو مارا جاتا ہے، صلوٰتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ بے چارا بھی سوچتا ہوگا کہ میں اور میرے جذبات زیادہ قیمتی نہیں۔ ہاں یہ چیز جو ٹوٹ گئی، زیادہ قیمتی تھی… میرے دل سے بھی زیادہ قیمتی!!
کچھ جگہوں پر یہ بھی تجربے میں آیا ہے کہ بعض والدین بچوں کو مارنے پیٹنے کے خلاف ہوتے ہیں اور انہیں پیار سے سمجھانے یا زبانی سختی پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اپنے گھر کے ’’چند بڑوں‘‘ کو خوش کرنے کے لیے، ان کے دبائو میں آکر وہ بچوں کو مارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بچوں میں موجود غصے، چڑچڑے پن، ضد، ہٹ دھرمی اور ایسے دوسرے رویوں کی وجہ رشتوں کی طرف سے ناانصافی، بچوں کے درمیان غیرمساوی سلوک اور اس سے ملتے جلتے دیگر رویّے ہیں۔ اسی طرح بچوں پر کیا جانے والا زبانی، جسمانی و جذباتی تشدد بھی ان کی شخصیت کو تہہ و بالا کرڈالتا ہے۔
خدارا! یہ پھول ہیں… حسین، نرم و نازک، معصوم پھول… جو قدرت نے آپ کو عطا کیے ہیں۔ ان کو کچلیں مت… ان سے ان کی شرارتیں، خوبصورتی، خوشبو مت چھینیں… یہ پرندے ہیں جو اپنی اڑان اڑنا چاہتے ہیں، ان کے پر مت کاٹیں… یہ بچے ہیں، ہماری طرح کے ’’منافق بڑے‘‘ نہیں۔ بچے شرارتیں نہیں کریں گے، چیزیں نہیں توڑیں گے، شور شرابہ نہیں کریں گے، لڑیں گے نہیں، لڑ کر دوبارہ مان نہ جائیں گے تو ان کو بچہ کون کہے گا؟؟ سوچیں، جن گھروں میں یہ شرارتیں نہیں ہیں، جن گھروں میں چیزیں توڑنے والے یہ فرشتے نہیں، جہاں سناٹے ہیں، خاموشی ہے، ویرانی ہے، وحشت ہے، شاید انہی کو دیکھ کر ہم ان پھولوں کی قدر کرسکیں!! بچوں سے اُن کی عمر کے مطابق رویّے کی توقع رکھیں اپنی عمر کے مطابق نہیں۔ ان کا دل نہ توڑیں۔ چیزیں اور آسکتی ہیں لیکن وہ، ان کے دل اور ان کے جذبات نایاب ہیں جو کسی بھی دکان پر کسی قیمت پر دستیاب نہیں۔ ان کو ایک بھرپور بچپن گزارنے میں ان کی مدد کیجیے۔ انہیں مستقبل کا معمار بننے اور آئندہ آنے والے کل میں ایک باکردار، بااعتماد، باعمل، سچا، بے باک، نڈر، شریف انسان بننے میں ہاتھ بٹائیے۔ ان کی کردارکشی کے بجائے ان کی کردار سازی کیجیے۔ ان کو سناتے رہنے کے بجائے کبھی ان کی بھی سنیے۔ ان کے ساتھ کھیلئے، کہانیاں سنائیے، دوستی کیجیے۔ آج کی نسل زیادہ ذہین اور سمجھدار ہے، وہ زیادہ وقت اور توجہ چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدم توجہی کی بناء پر بعض بچے چند تخریبی شرارتیں کرنے لگتے ہیں تاکہ کسی طرح اپنے والدین اور دیگر رشتوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالیں۔ انہیں محبت، خلوص، پیار، توجہ، وقت اور سب سے بڑھ کر عزت و احترام دیجیے۔ ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کے بجائے ان کو عزت کرنا اور عزت دینا سکھائیے۔ رنگ، رشتے اور حیثیت کی بنیاد پر بچوں کو ایک دوسرے پر کم یا زیادہ اہمیت دینا چھوڑ دیجیے۔ خدارا! ان منقی رویوں کو بدلیے۔ ہم اگر آج اپنے بچوں کو یہ سکھائیں گے تو کل یہی سوچ لے کر یہ بچے بڑے ہوں گے۔
ہمارے سامنے ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے جس پر عمل کا قرآنی حکم موجود ہے۔ بتائیے کیا آپ نے اس اسوہ میں ایک جھلک بھی ایسی دیکھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بچے کو مارا، برا بھلا کہا؟ برا بھلا کہنا تو دور کی بات، کیا کوئی سخت لفظ تک کہا؟ غلطیوں پر معاف کیا، درگزر سے کام لیا یا ہماری طرح خدائی فوجدار بن گئے؟؟
کیا جواب ہے ہمارے پاس؟ کیا تصور ہے ہمارے سامنے اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا؟؟ جواب تو آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی!! تو خدارا!!! اس درد کی دوا کیجیے…!!

14 February 2013

آئی لو یو


ٹیلی وژن اسکرین کی تاریکی دور ہوتے ہی سیلانی ٹھٹھک گیا، ٹی وی اسکرین کسی دوسرے درجے کی اداکارہ کے لپ سٹک میں لتھڑے سرخ ہونٹ کی طرح سرخ ہو رہی تھی، منظر ایک مارننگ شو کا تھا۔ اسلام آباد کے ایک مزاحیہ ڈرامے میں خاکروب کا کردار ادا کرنے والا  کاکروج کلراپنی منکوحہ کے ساتھ موجود تھا۔ ان کی زوجہ محترمہ بھی عجیب سی ہو رہی تھیں، غازے میں چھپے چہرے پر ناک کے نیچے سرخ لپ سٹک کا بے دردی سے استعمال کیا گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ کسی جنگلی کبوتر کا خون چوس کر آئی ہیں اور اسی پر بس نہی کیا تھا لباس بھی سرخ رنگ ہی کا پہننا ہوا تھا، انھیں سر تا پا سرخی میں لتھڑا دیکھ کر سیلانی کو سب سے پہلے خیال سرخ مرچ کا آیا پھر سرخ رنگ کے سیٹ پر سرخ غبارے دیکھ کر سیلانی کے منہ سے بےاختیار اوہ، ہو، ہو ہو نکل گیا۔
کیا ہوا؟ سیلانی کی زوجہ صاحب نے چائے کے کپ میں چمچ ہلاتے ہوئے پوچھا، وہ یا تو دبے قدموں تشریف لائی تھیں یا پھر سیلانی ٹی وی کیسرخیمیں اتنا کھویا ہوا تھا کہ اسے وزیر داخلہ کی آمد کا پتا ہی نہی چلا۔
ہونا کیا ہے جی، آپ کے ہوتے ہوئے کیا ہو سکتا ہےسیلانی نے جملے کا آخری حصہ زیر لب کہا لیکن بھول گیا تھا کہ بیگمات کی قوت سماعت کم از کم غضب کی ہوتی ہے، وہ تو وہ بھی سن لیتی ہیں جو ابھی کہا نہی ہوتا ۔

کیا مطلب آپ کا، کیا کرنا چاہتے ہیں ہاں......
یہی جو ہر مجازی خدا چاہتا ہے
وہی تو پتا چلےذرا، آج کل آپ کچھ زیادہ ہی زو معنی گفتگو نہی کرنے لگے
سیلانی نے دیکھا کہ بیگم کی پیشانی پر بل پڑ چکے تھے، نظریں سیلانی پر جمی ہوئی تھیں اور چائے کے کپ میں ہلتی چمچ بھی رک گئی تھی، یہ سکوت کسی طوفان کا پیش خیمہ تھا، سیلانی نے فورا ہتھیار ڈال دیے اور مسکرا کر کہا بھئ  میں توہر فرمانبردار شوہر کی طرح  اپنی بیگم کا سکھ آرام چاہتا ہوں.....
وہ تو میں دیکھ رہی ہوں، چھ مہینے ہو گئے اسٹری سٹینڈ کا کہتے کہتے ابھی تک نہی آیا، باتھ روم کے بلب کا سوئچ خراب ہو چکا ہے بلب خودبخود بجھ جاتا ہے دو ہفتے تو اسے بھی ہو گئے ہیں، ٹیلیفون سیٹ خراب پر ہوا ہے، ڈرائنگ روم کا پنکھا بھی آٹومیٹک ہو گیا ہے خودبخود تیزآہستہ ہو جاتا ہے.......کہہ کہہ کر تھک گئی ہوں اب تو بولنا بھی چھوڑ دیا ہے آپ کے کان پر جوں تک نہی رینگتی......
جناب جوں کے رینگنے کے لیے جوئوں کا ہونا ضروری ہے..... سیلانی نے مسکراتے ہوئے ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی کی آواز  بڑھا دی اور ساتھ ہی ٹی وی کی سکرین کا سماں بھی بدل دیا اب سماں ذرا مختلف تھا اور اس میں مارننگ شو کی اینکر پرسن صاحب بیر بہوٹی بنی سرخ غباروں کے ساتھ محبت کا دن منا رہی تھیں، ان کے اس پاس بھیڑ لگی ہوئی تھی، مختلف عمر کے جوڑے وہاں پہنچ کر سر عام اپنے پیار کا اظہار کر رہے تھے، وہ مائیک لے کر ایک ایک جوڑے کے پاس جاتیں اور باچھیں پھلا کر کہتیںآپ کیا کہنا چاہیں گے، اپنے پیار کا اظہار کیسے کریں گے؟
اس سوال کے جواب میں ایک ادھیڑ عمر باریش صاحب نے جذباتی انداز میں انکشاف کیا کہ میری شادی کو تئیس برس ہو گئے لیکن میں نے آج تک اپنی بیگم کا نام لے کر اظہار محبت نہی کیا میں آج اپنی بیگم کا نام لے کر کہتا ہوںرفعت!آئی لو یو .......  سیلانی کو سمجھ نہی آئی کہ وہ صاحب تئیس برس سے کس بات کا انتظار کر رہے تھے، وہ اتنے  شرمیلے تھے تو سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کیمرے کے سامنے آ کر اس نیک بخت کا نام لے کر فلمی انداز میں آئی لو یو نا کہتے، غالبا انھیں کیمرے کے سامنے آنے کا موقع ہی آج ملا تھا، آج قسمت سے یہ چانس نصیب ہوا تو انہوں نے ویلنٹائن صاحب  کی روح کو خوش کرنا ضروری سمجھا ..... اس اظہار محبت پر بھولی بھالی صورت والی اینکر پرسن خوشی سے پھولی نہی سمائی ، باچھیں کھل ہی نہی گئیں چر کر پھٹنے کو ہو گئیں، وہ ایسے خوش ہو رہی تھیں گویا انہوں نے ملک کی تقدیر بدل دی ہو۔

اس شرمیلے ادھیڑ عمر صاحب کے بعد اب ایک اور صاحب کی ہمت بندھی انہوں نے سرخ لباس میں ملبوس اپنی بیگم کو سامنے کیا اور شانے پر ہاتھ رکھ کر ساری شرم و حیاء  بالائےطاق رکھ کر اظہار محبت کر کے سرخرو ہو گئے...... سیلانی نے چینل تبدیل کیا اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والا چینل لگا لیا وہاں باقاعدہسرخ پٹیاںسرک رہی تھیں جن پر اظہار محبت کے پیغام چل رہے تھے، جہلم سے کسی اسلم خان نے کسی تابندہ سے اظہار محبت کیا ہوا تھا اور کراچی کی شہلا نے اپنے منگیتر سراج کو آئی لو یو کا پیغام محبت دیا تھا، جو کام پندرہ برس پہلے ٹافیاں اور چیونگم دے کر محلے کے اوباش لڑکے معصوم بچوں کو ڈاکیہ بنا کر کرتے تھے وہ ٹی وی چینل دھڑلے سے سر عام کر رہے تھے، انھیں اس سے کوئی سروکار نہی تھا کہ کراچی کی سدرہ کو پیغام بھیجنے والے بدمعاش پر وہ لڑکی لعنت بھیج چکی ہے۔ انھیں اس سے بھی غرض نہی تھی کہ سرخ   پٹی پر نمایاں ہونے والا شگفتہ کا نام پڑھ کر کراچی کی شگفتاؤں کے بڑے بھائی کیا سوچ رہے ہوں گے یا ان کے والدین پر کیا گزر رہی ہو گی...... سیلانی سوچنے  لگا یہ ویلنٹائن ڈے اتنا ہی ضروری اور یہ پیغامات اتنے ہی اہم ہیں تو کیا ان چینلز کے مالکان اپنی صاحبزادیوں کے نام دیے جانے والے پیام بھی اسی جرات سے نشر کریں گے؟ کیا وہ اپنے محل نما گھر میں یہ سماں باندھنے کی اجازت دیں گے کہ ان کے گھر کی مستورات بھی کیمرے کے سامنے آ کر سرخ لباس میں بیر بہوٹی بنی کسی اسلم، لعل بخش، چراغ دین اور لعل بیگ کو آئی لو یو کہیں........
سیلانی سوچنے لگا کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے، ویلنٹائن ڈے کا ہم سے، ہماری اقدار سے روایات سے کیا واسطہ، کیا لینا دینا؟ اسلام کو تھوڑی دیر کے ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور مشرقی اقدار کی بات کر لیتے ہیں تو اس طرح کھلم کھلا کسی کی ماں، بہن بیٹی کا نام لے کر مشتہر کرنا ہماری روایات نہی، اگر یہ چوٹی سی بات ہے تو پھر سیلانی کا سوال ہے کہ یہ ویلنٹائن ڈے کے سیٹ ٹی وی چینلز کے مالکان کے گھروں کے باغیچوں میں کیوں نہی لگے؟ سرخ لباس میں بھاری تنخوائیں والی مارننگ شوز کی اینکر نیلے پیلے مائیک لیے وہاں سے لائیو پروگرام کے لیے کیوں نہی پہنچیں؟ جب بات اپنی بہن بیٹیوں کی آ جاتی ہے تو یہ مغربی روشن خیالی کی نقالی کا بھوت سر سے کیوں اتر جاتا ہے؟
سیلانی کو اچھی طرح یاد ہے بےحیائی کا یہ دن ایک بڑے نشریاتی ادارے نے ہی درآمد کیا تھا اور یہ سہولت دی تھی کہ ان کے میگزین کے صفحات پر ان کے علاوہ کسی کی بھی ماں بہن بیٹی سے اظہار محبت کر سکتے ہیں، لوگوں  نے پیام بھیجے جو شائع ہوئے اور اب نتیجہ یہ ہے کہ نیوز چینلز پر ویلنٹائن ڈے پر خصوصی نیوز ریپورٹس نشر ہو رہی ہیں، لائیو نشریات پیش کی جا رہی ہیں، روشن خیال کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک تہوار ہے، اسے تہوار ہی کی طرح لینا چاہئیے تو پھر مئی میں یوم عریانیت کو بھی  منانے  کی ہمت کریں، لاکھوں روپے کی تنخواہوں کے چیک وصولنے والے کیمرے کے سامنے ہوں بے لباس اور کہیں کہیوم عریانیت مبارک! سیانے کہتے ہیں کسی کا منہ لال ہو تو اپنے گال پیٹ کر منہ لال نہی کرتے.... سیلانی نے بیگم سے تلخ کپ کافی بنانے کا کہا اور پیشانی پر شکنیں ڈال کر  ریموٹ سے ٹی وی کی سکرین تاریک کر کے اس بے رنگ ڈبے کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

سیلانی کے قلم سے