14 February 2013
آئی لو یو
ٹیلی وژن اسکرین کی تاریکی دور ہوتے ہی سیلانی ٹھٹھک گیا، ٹی وی اسکرین کسی دوسرے درجے کی اداکارہ کے لپ سٹک میں لتھڑے سرخ ہونٹ کی طرح سرخ ہو رہی تھی، منظر ایک مارننگ شو کا تھا۔ اسلام آباد کے ایک مزاحیہ ڈرامے میں خاکروب کا کردار ادا کرنے والا ”کاکروج کلر“اپنی منکوحہ کے ساتھ موجود تھا۔ ان کی زوجہ محترمہ بھی عجیب سی ہو رہی تھیں، غازے میں چھپے چہرے پر ناک کے نیچے سرخ لپ سٹک کا بے دردی سے استعمال کیا گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ کسی جنگلی کبوتر کا خون چوس کر آئی ہیں اور اسی پر بس نہی کیا تھا لباس بھی سرخ رنگ ہی کا پہننا ہوا تھا، انھیں سر تا پا سرخی میں لتھڑا دیکھ کر سیلانی کو سب سے پہلے خیال سرخ مرچ کا آیا پھر سرخ رنگ کے سیٹ پر سرخ غبارے دیکھ کر سیلانی کے منہ سے بےاختیار اوہ، ہو، ہو ہو نکل گیا۔
”کیا ہوا؟“ سیلانی کی زوجہ صاحب نے چائے کے کپ میں چمچ ہلاتے ہوئے پوچھا، وہ یا تو دبے قدموں تشریف لائی تھیں یا پھر سیلانی ٹی وی کی”سرخی “میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ اسے وزیر داخلہ کی آمد کا پتا ہی نہی چلا۔
”ہونا کیا ہے جی، آپ کے ہوتے ہوئے کیا ہو سکتا ہے“سیلانی نے جملے کا آخری حصہ زیر لب کہا لیکن بھول گیا تھا کہ بیگمات کی قوت سماعت کم از کم غضب کی ہوتی ہے، وہ تو وہ بھی سن لیتی ہیں جو ابھی کہا نہی ہوتا ۔
”کیا مطلب آپ کا، کیا کرنا چاہتے ہیں ہاں...... “
”یہی جو ہر مجازی خدا چاہتا ہے“
”وہی تو پتا چلےذرا، آج کل آپ کچھ زیادہ ہی زو معنی گفتگو نہی کرنے لگے “
سیلانی نے دیکھا کہ بیگم کی پیشانی پر بل پڑ چکے تھے، نظریں سیلانی پر جمی ہوئی تھیں اور چائے کے کپ میں ہلتی چمچ بھی رک گئی تھی، یہ سکوت کسی طوفان کا پیش خیمہ تھا، سیلانی نے فورا ہتھیار ڈال دیے اور مسکرا کر کہا ” بھئ میں توہر فرمانبردار شوہر کی طرح اپنی بیگم کا سکھ آرام چاہتا ہوں..... “
”وہ تو میں دیکھ رہی ہوں، چھ مہینے ہو گئے اسٹری سٹینڈ کا کہتے کہتے ابھی تک نہی آیا، باتھ روم کے بلب کا سوئچ خراب ہو چکا ہے بلب خودبخود بجھ جاتا ہے دو ہفتے تو اسے بھی ہو گئے ہیں، ٹیلیفون سیٹ خراب پر ہوا ہے، ڈرائنگ روم کا پنکھا بھی آٹومیٹک ہو گیا ہے خودبخود تیزآہستہ ہو جاتا ہے.......کہہ کہہ کر تھک گئی ہوں اب تو بولنا بھی چھوڑ دیا ہے آپ کے کان پر جوں تک نہی رینگتی...... “
”جناب جوں کے رینگنے کے لیے جوئوں کا ہونا ضروری ہے..... “سیلانی نے مسکراتے ہوئے ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی کی آواز بڑھا دی اور ساتھ ہی ٹی وی کی سکرین کا سماں بھی بدل دیا اب سماں ذرا مختلف تھا اور اس میں مارننگ شو کی اینکر پرسن صاحب بیر بہوٹی بنی سرخ غباروں کے ساتھ محبت کا دن منا رہی تھیں، ان کے اس پاس بھیڑ لگی ہوئی تھی، مختلف عمر کے جوڑے وہاں پہنچ کر سر عام اپنے پیار کا اظہار کر رہے تھے، وہ مائیک لے کر ایک ایک جوڑے کے پاس جاتیں اور باچھیں پھلا کر کہتیں”آپ کیا کہنا چاہیں گے، اپنے پیار کا اظہار کیسے کریں گے؟“
اس سوال کے جواب میں ایک ادھیڑ عمر باریش صاحب نے جذباتی انداز میں انکشاف کیا کہ میری شادی کو تئیس برس ہو گئے لیکن میں نے آج تک اپنی بیگم کا نام لے کر اظہار محبت نہی کیا میں آج اپنی بیگم کا نام لے کر کہتا ہوں”رفعت!آئی لو یو ....... “سیلانی کو سمجھ نہی آئی کہ وہ صاحب تئیس برس سے کس بات کا انتظار کر رہے تھے، وہ اتنے شرمیلے تھے تو سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں کیمرے کے سامنے آ کر اس نیک بخت کا نام لے کر فلمی انداز میں آئی لو یو نا کہتے، غالبا انھیں کیمرے کے سامنے آنے کا موقع ہی آج ملا تھا، آج قسمت سے یہ چانس نصیب ہوا تو انہوں نے ویلنٹائن صاحب کی روح کو خوش کرنا ضروری سمجھا ..... اس اظہار محبت پر بھولی بھالی صورت والی اینکر پرسن خوشی سے پھولی نہی سمائی ، باچھیں کھل ہی نہی گئیں چر کر پھٹنے کو ہو گئیں، وہ ایسے خوش ہو رہی تھیں گویا انہوں نے ملک کی تقدیر بدل دی ہو۔
اس شرمیلے ادھیڑ عمر صاحب کے بعد اب ایک اور صاحب کی ہمت بندھی انہوں نے سرخ لباس میں ملبوس اپنی بیگم کو سامنے کیا اور شانے پر ہاتھ رکھ کر ساری شرم و حیاء بالائےطاق رکھ کر اظہار محبت کر کے سرخرو ہو گئے...... سیلانی نے چینل تبدیل کیا اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والا چینل لگا لیا وہاں باقاعدہ”سرخ پٹیاں“سرک رہی تھیں جن پر اظہار محبت کے پیغام چل رہے تھے، جہلم سے کسی اسلم خان نے کسی تابندہ سے اظہار محبت کیا ہوا تھا اور کراچی کی شہلا نے اپنے منگیتر سراج کو آئی لو یو کا پیغام محبت دیا تھا، جو کام پندرہ برس پہلے ٹافیاں اور چیونگم دے کر محلے کے اوباش لڑکے معصوم بچوں کو ڈاکیہ بنا کر کرتے تھے وہ ٹی وی چینل دھڑلے سے سر عام کر رہے تھے، انھیں اس سے کوئی سروکار نہی تھا کہ کراچی کی سدرہ کو پیغام بھیجنے والے بدمعاش پر وہ لڑکی لعنت بھیج چکی ہے۔ انھیں اس سے بھی غرض نہی تھی کہ سرخ پٹی پر نمایاں ہونے والا شگفتہ کا نام پڑھ کر کراچی کی شگفتاؤں کے بڑے بھائی کیا سوچ رہے ہوں گے یا ان کے والدین پر کیا گزر رہی ہو گی...... سیلانی سوچنے لگا یہ ویلنٹائن ڈے اتنا ہی ضروری اور یہ پیغامات اتنے ہی اہم ہیں تو کیا ان چینلز کے مالکان اپنی صاحبزادیوں کے نام دیے جانے والے پیام بھی اسی جرات سے نشر کریں گے؟ کیا وہ اپنے محل نما گھر میں یہ سماں باندھنے کی اجازت دیں گے کہ ان کے گھر کی مستورات بھی کیمرے کے سامنے آ کر سرخ لباس میں بیر بہوٹی بنی کسی اسلم، لعل بخش، چراغ دین اور لعل بیگ کو آئی لو یو کہیں........
سیلانی سوچنے لگا کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے، ویلنٹائن ڈے کا ہم سے، ہماری اقدار سے روایات سے کیا واسطہ، کیا لینا دینا؟ اسلام کو تھوڑی دیر کے ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور مشرقی اقدار کی بات کر لیتے ہیں تو اس طرح کھلم کھلا کسی کی ماں، بہن بیٹی کا نام لے کر مشتہر کرنا ہماری روایات نہی، اگر یہ چوٹی سی بات ہے تو پھر سیلانی کا سوال ہے کہ یہ ویلنٹائن ڈے کے سیٹ ٹی وی چینلز کے مالکان کے گھروں کے باغیچوں میں کیوں نہی لگے؟ سرخ لباس میں بھاری تنخوائیں والی مارننگ شوز کی اینکر نیلے پیلے مائیک لیے وہاں سے لائیو پروگرام کے لیے کیوں نہی پہنچیں؟ جب بات اپنی بہن بیٹیوں کی آ جاتی ہے تو یہ مغربی روشن خیالی کی نقالی کا بھوت سر سے کیوں اتر جاتا ہے؟
سیلانی کو اچھی طرح یاد ہے بےحیائی کا یہ دن ایک بڑے نشریاتی ادارے نے ہی درآمد کیا تھا اور یہ سہولت دی تھی کہ ان کے میگزین کے صفحات پر ان کے علاوہ کسی کی بھی ماں بہن بیٹی سے اظہار محبت کر سکتے ہیں، لوگوں نے پیام بھیجے جو شائع ہوئے اور اب نتیجہ یہ ہے کہ نیوز چینلز پر ویلنٹائن ڈے پر خصوصی نیوز ریپورٹس نشر ہو رہی ہیں، لائیو نشریات پیش کی جا رہی ہیں، روشن خیال کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک تہوار ہے، اسے تہوار ہی کی طرح لینا چاہئیے تو پھر مئی میں یوم عریانیت کو بھی منانے کی ہمت کریں، لاکھوں روپے کی تنخواہوں کے چیک وصولنے والے کیمرے کے سامنے ہوں بے لباس اور کہیں کہ”یوم عریانیت مبارک“! سیانے کہتے ہیں کسی کا منہ لال ہو تو اپنے گال پیٹ کر منہ لال نہی کرتے.... سیلانی نے بیگم سے تلخ کپ کافی بنانے کا کہا اور پیشانی پر شکنیں ڈال کر ریموٹ سے ٹی وی کی سکرین تاریک کر کے اس بے رنگ ڈبے کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
سیلانی کے قلم سے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment