بھلائی
فرحی نعیم
’’کیا ہوا؟‘‘ امی سے پہلے ثمر بولی۔
’’وہی جو اکثر ہوتا ہے، اپنے گھر کے آگے کی صفائی کی اور سارا کچرا ہماری طرف۔‘‘
’’تم بھی سارا کچرا واپس وہیں کردو۔‘‘ ثمر کو بھی غصہ آیا۔
’’ارے ارے، یہ کیا کہہ رہی ہو ثمر…! جائو عدنان کچرا صاف کردو اور سب تھیلی میں ڈال کر کچرے کے ڈبے میں ڈال دو۔‘‘ امی نے پہلے ثمر سے، پھر عدنان سے کہا۔
’’یہ کیا بات ہوئی! وہ باز نہیں آتے اور ہم ان سے کچھ کہنے کے بجائے الٹا صفائی کردیں! جب ہی تو وہ اور ڈھٹائی سے یہ کام کرتے ہیں۔‘‘ عدنان تیز لہجے میں بولا۔
’’بیٹا چھوڑو، درگزر سے کام لو۔‘‘
’’امی آپ ہمیشہ یہی کہتی ہیں، وہ اس طرح ہماری شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘ عدنان کا غصہ کم نہیں ہورہا تھا۔
’’اچھا اب بس کرو… اُن کا عمل اُن کے ساتھ اور ہمارا ہمارے ساتھ۔‘‘ امی نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
اور اکثر یہی ہوتا… محلے کا کوئی گھر ہو، امی کسی کی بھی ناانصافی کو پس پشت ڈالتیں اور درگزر سے کام لیتیں، جس سے تینوں بچے بڑے ناراض ہوتے۔
……٭٭٭……
’’مغرب کی نماز ہوگئی تم لوگوں نے لائٹ نہیں جلائی؟‘‘ ثمر نے عدنان سے پوچھا۔
’’میں نے تو جلائی تھی، شاید سیور خراب ہوگیا، ابھی دیکھتا ہوں۔‘‘
عدنان یہ کہہ کر باہر گیا اور تھوڑی ہی دیر میں واپس پلٹا۔ ’’وہاں سے تو سیور ہی غائب ہے۔‘‘
’’ہائیں کیا کہہ رہے ہو!‘‘ ثمر حیرانی سے بولی۔
’’صحیح کہہ رہا ہوں… لگتا ہے گلی کے کسی لڑکے نے اتار لیا، صبح تک تو تھا۔‘‘
’’یہ سیور کیا ٹوٹ گیا؟‘‘ اسی وقت بڑے بھائی عرفان گھر میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔
’’بھائی کسی نے سیور نکال لیا‘‘۔ عدنان چڑچڑا ہورہا تھا۔
’’ہوں…! مجھے لگتا ہے ضرور یہ آفتاب کی حرکت ہوگی۔ ایک ہفتہ سے ان کے دروازے کے باہر لائٹ نہیں جل رہی تھی اور آج جل رہی ہے… میں آتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ شکر ہے انہوں نے بلب لگا لیا ورنہ اس طرف بڑا اندھیرا رہتا تھا۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ ہمارا ہی بلب اتار کر لگایا ہے۔‘‘ عرفان غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے بولا۔
’’میں ابھی وہاں سے اتار لاتا ہوں۔‘‘ عدنان یکدم کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
’’ایک منٹ ٹھیرو عدنان‘‘… اسی وقت امی کی آواز آئی۔
’’جی امی‘‘… عدنان رک گیا۔
’’پہلے مجھے تم دونوں یہ بتائو کہ کیا آفتاب کو بلب اتارتے ہوئے کسی نے دیکھا تھا؟‘‘
’’امی اتارتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن وہ ایسا ہی لڑکا ہے، وہ تو…‘‘
’’بس، جب نہیں دیکھا تو کسی کو مورد الزام بھی نہ ٹھیرائو۔‘‘ امی نے عدنان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’لیکن امی! وہ اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے۔ ابھی دیکھیں گے ہم، تو پتا چل جائے گاکہ بلب نیا ہے یا پرانا، اور اس سے میں اچھی طرح اگلوالوں گا۔‘‘ عرفان بھی جلدی سے بولا۔
’’بیٹا کیوں کسی کو ہم الزام دیں! چھوڑو رہنے دو، تم بازار سے نیا لا کر لگا دو۔‘‘ امی نے ہمیشہ کی طرح درگزر سے کام لیا، جس پر وہ امی کو تو کچھ نہ کہہ سکے لیکن منہ بنا کر وہیں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’امی ہمیشہ یہی کرتی ہیں، کوئی کیسی ہی زیادتی کر جائے لیکن یہ…‘‘ عرفان سر جھٹک کر بولا۔
’’حالانکہ اب کہاں ایسی بھلائی کا زمانہ ہے! اب تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا پڑتا ہے ورنہ لوگ کمزور کو دبا لیتے ہیں۔‘‘ عدنان بھی بھائی کی تائید میں بولا۔ ساتھ ہی ثمر نے بھی گردن ہلائی اور بولی:
’’تو اور کیا، اب شرافت کا وقت نہیں رہا۔ لیکن ایک ہماری امی ہیں… جب ہم پر کوئی مشکل پڑے گی نا، تب دیکھیں گے یہ سب لوگ کہاں ہوں گے۔‘‘
اور پھر یہ زیادہ دنوں کے بعد کی بات نہ تھی، تینوں بچے اسکول، کالج گئے ہوئے تھے، اس دن صبح سے امی کی طبیعت ٹھیک نہ تھی لیکن انہوں نے زبان سے کچھ نہ کہا تھا کہ مبادا بچے پریشان ہوجائیں۔ لیکن گیارہ بجے تک ان کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی۔ ان کا بلڈ پریشر خاصا بڑھ گیا تھا۔ تب انہوں نے بمشکل دروازے پر جا کر گلی میں جھانکا اور انہیں اپنے پڑوس کا لڑکا نظر آیا۔ انہوں نے اشارے سے اسے بلایا اور اپنی طبیعت کی خرابی کی بابت اسے بتایا۔ وہ فوراً ہی گھر بھاگا اور اپنی والدہ کو لے آیا۔ پھر وہ دونوں ان کو ہی نزدیکی اسپتال لے گئے جہاں انہیں فوری طبی امداد پہنچائی گئی۔ بروقت اسپتال لے جانے سے ان کی حالت بہت سنبھل گئی تھی۔ تینوں بچے جب گھر آئے تو انہیں اپنی والدہ کا پتا چلا اور وہ اسپتال بھاگے۔
’’شکر کریں آپ کی والدہ بروقت اسپتال پہنچ گئیں ورنہ بہت کچھ ہوسکتا تھا‘‘۔ عرفان سے ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے۔ اور عرفان کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ یہ وہی پڑوسی تھے جو ان کو اگرچہ تنگ کرتے لیکن ان کی امی کی افہام و تفہیم کی عادت کی وجہ سے سب ہی نے ایسے وقت میں بھاگ دوڑ کرکے ان کی صحت یابی میں حصہ ڈالا تھا۔ اور تو اور محلے کا سب سے شرارتی اور نالائق لڑکا آفتاب ہی ان کو اپنی گاڑی میں اسپتال لایا تھا اور فوری انجکشن اور دوائیوں کا بھی اس نے ہی انتظام کیا تھا۔ ’’امی ٹھیک ہی کہتی تھیں، اگر ہم بھی ان لوگوں سے لڑائی جھگڑا کرتے تو آج ایسے وقت میں کون ہماری مدد کرتا۔‘‘ عدنان کہہ رہا تھا۔
’’ہاں صحیح کہتے ہو… ہم لوگ تو تھے نہیں، اور دیکھو سارے ہی محلے والے امی کی خیریت کو آرہے ہیں، اور کچھ تو اپنی غلطیوں پر نادم بھی ہیں۔‘‘
عرفان نے عدنان کی بات آگے بڑھائی۔
’’نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی، یہ آج ہم نے جان لیا۔‘‘ ثمر آہستہ سے بولی اور دونوں بھائیوں نے آج اس حقیقت کو مان لیا تھا۔
0 comments:
Post a Comment