درد کی دوا کیجیے!!
……٭……
’’ارے بھئی بلا کی گرمی ہے، باہر تو دھوپ بھی بہت تیز ہے، برا حال ہوگیا… ذرا کوئی پانی تو پلا دو۔‘‘ دادا جان نے باہر سے آتے ہی صدا لگائی تو بچوں کی فوج ایک دوسرے سے سبقت اور دادا جان کی شاباشی مل جانے کے چکر میں ایک ساتھ بھاگی۔ علی جو تمام بچوں میں زورآور اور زیادہ شریر تھا، سب سے پہلے پانی کا گلاس بھر کے دادا جان کی طرف لپکا۔ اُس کا توازن کب اور کیسے بگڑا اُسے خبر بھی نہ ہوئی اور گلاس دادا جان کے ہاتھوں میں جانے کے بجائے ان کے قدموں میں ہی کرچی کرچی ہوگیا۔ ’’ارے جنگلی انسان! یہ تُو نے کیا کیا؟ کل ہی پورے چھ سو کا سیٹ لائی تھی اور آج تُو نے گلاس توڑ ڈالا۔ ارے کمبخت! تجھ سے کبھی کوئی اچھا کام بھی ہوا ہے؟‘‘ یہ علی کی دادی جان تھیں جن کا غصہ یہیں پر ٹھنڈا نہ ہوا البتہ علی کے منہ پر زوردار اور گرما گرم طمانچے لگا کر کچھ تسلی ضرور ہوگئی۔ بے چارا علی!!
شاباشی تو کیا ملنی تھی، دو عدد زناٹے دار تھپڑ اور چند گالیاں ضرور مل گئیں۔
……٭……
ثمرہ یونیورسٹی کا کام کررہی تھیں کہ نہ جانے ان کی چار سالہ بھانجی جویریہ کو کیا سوجھی، اُس نے بھی سوچا ہوگا کہ خالہ کو ڈرانا چاہیے، ایک دم میرے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے تو ڈریں گی اور پھر خوب ہنسیں گی… تبھی اُس نے ثمرہ کے عقب میں پہنچ کر اپنی تمام تر توانائی کو جمع کرکے زوردار نعرہ لگایا ’’ہائوں!!‘‘ ثمرہ کی تو چیخ نکل گئی، ان صاحبہ نے آئو دیکھا نہ تائو، پہلے تو ایک تھپڑ جویریہ کے رسید کیا اور پھر کان مروڑ کر کمرے سے باہر نکالتے ہوئے کہا: ’’بالکل جانور ہو جانور! بلکہ جانوروں سے بھی بدتر… نجانے کب تمیز سیکھو گی؟ اتنا اہم اسائنمنٹ بنا رہی تھی، دماغ ہلا کر رکھ دیا، اپنی اماں کے پاس کیوں نہیں جاتیں، ان کا بھیجا کھائو نا!! نکلو یہاں سے اور خبردار جو دوبارہ یہاں نظر آئیں، سمجھیں!!‘‘
ہائے بیچاری جویریہ…!!!
……٭……
’’بڑی امی! مجھے بھی احمد کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔ آپ اُسی کو کھلائے جارہی ہیں مجھے بھی دیں نا، مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ننھے عثمان نے ملتجی انداز میں کہا، جس کے جواب میں ان کی ’’انتہائی بڑی‘‘ امی نے چہرے کو مزید بگاڑتے ہوئے ارشاد کیا: ’’چل یہاں سے بھوکے، ندیدے، ہمارے کمرے میں ہی بھوک ستاتی ہے تجھے، اپنی ماں سے کیوں نہیں کہتا! میں احمد کی امی ہوں، تیری آیا نہیں ہوں… اب جاتا ہے یہاں سے کہ یہیں کھڑے کھڑے میرے بچے کے پیٹ میں درد کروائے گا!‘‘
افسوس!! معصوم عثمان!! جسے پہلے بھوک ستا رہی تھی اور اب اپنی بڑی امی کی زبانِ مبارک سے نکلے یہ حسین الفاظ کاٹنے کو دوڑ رہے تھے۔
……٭……
’’فہد تم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے! سکون تو چھو کر نہیں گزرا تمہیں… ارے یہ کیا! شاہ زیب سے چپس کا پیکٹ کیوں لے رہے ہو تم! وہ رو رہا ہے، واپس کرو اُسے۔‘‘
لیکن پھپھو یہ تو میرا ہے، پپا نے دلوایا ہے مجھے، میں نہیں بلکہ شاہ زیب مجھ سے چھین رہا ہے۔‘‘ فہد نے وضاحت کی۔ ’’لیکن ویکن کچھ نہیں، دیکھ نہیں رہے وہ کتنا رو رہا ہے! تمہاری طرح ڈھیٹ تھوڑی ہے۔ بہت حساس ہے شاہ زیب۔ تم اور لے لینا یہ اسے دے دو۔‘‘ عنابیہ پھپھو نے چپس کا پیکٹ تقریباً چھینتے ہوئے فہد کو باور کروایا اور اسے شاہ زیب کو تھما دیا، جس سے شاہ زیب کا بجتا ہوا باجا تو ٹھنڈا پڑ گیا البتہ فہد کے اندر آگ سی دہکنے لگی۔ وہ بچپن ہی سے اس سلوک کو بھگت رہا تھا۔ شاہ زیب گورا اور شکل میں ددھیال کے مشابہہ تھا اور ان کی اماں بھی خاندان کی ہی تھیں، جب کہ فہد سانولا، شکل میں ننھیال کے مشابہہ تھا اور ان کی اماں بھی غیر تھیں، جس کی بدولت شاہ زیب سب گھر والوں کی آنکھ کا تارا تھا اور فہد محض تارا ہی تھا وہ بھی بجھا ہوا۔ اس سلوک نے فہد کی طبعیت میں ضد، غصہ، چڑچڑاپن، بدزبانی اور جھگڑتے رہنے جیسی خصلتیں پیدا کردی تھیں۔ اُس سے ہمیشہ چیز چھین کر شاہ زیب کو دے دی جاتی اور وجہ یہ بتائی جاتی کہ ’’بھائی ہے تمہارا! چلو دے دو اُسے، ارے بھئی مل کر کھیلتے ہیں، وہ روتا ہے نا!!‘‘ فہد کا دل چاہتا کہ کہے ’’بھائی تو میں بھی ہوں شاہ زیب کا، تو پھر اُس کی چیز لینے پر میری پٹائی کیوں ہوتی ہے؟ اُس کو کیوں نہیں سمجھایا جاتا؟ روتا تو میں بھی ہوں، میرے آنسو آپ کو نظر کیوں نہیں آتے؟ میرے رونے سے آپ کے دل کو کچھ کیوں نہیں ہوتا؟‘‘
……٭……
یہ چند مثالیں ہیں جب ہم اپنا غصہ بچوں پر نکالتے ہیں، ان کی شخصیت کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان کے لیے غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
اور اگر بچے ہماری ہی کہی ہوئی کوئی ناگوار بات یا گالی دوہرا دیں تو بس!! پھر تو خیر نہیں اس بچے کی… مار مار کر بھرکس نکال دیتے ہیں… اس کو ایک بدتمیز، بداخلاق و بدتہذیب بچہ کہتے کہتے ہمارا منہ نہیں تھکتا، اور کمالِ بے نیازی سے کہتے ہیں: ’’نجانے اس نے یہ گالی ’’کہاں‘‘ سے سیکھی؟ گویا جن بھوت سکھا گئے ہیں!!
بعض دفعہ بچوں کی غلطی پر ماں اور ننھیال کو ہر برائی کا ذمہ دار ٹھیرا دیا جاتا ہے۔ چیزیں توڑنے پر جب بچوں کو مارا جاتا ہے، صلوٰتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ بے چارا بھی سوچتا ہوگا کہ میں اور میرے جذبات زیادہ قیمتی نہیں۔ ہاں یہ چیز جو ٹوٹ گئی، زیادہ قیمتی تھی… میرے دل سے بھی زیادہ قیمتی!!
کچھ جگہوں پر یہ بھی تجربے میں آیا ہے کہ بعض والدین بچوں کو مارنے پیٹنے کے خلاف ہوتے ہیں اور انہیں پیار سے سمجھانے یا زبانی سختی پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اپنے گھر کے ’’چند بڑوں‘‘ کو خوش کرنے کے لیے، ان کے دبائو میں آکر وہ بچوں کو مارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بچوں میں موجود غصے، چڑچڑے پن، ضد، ہٹ دھرمی اور ایسے دوسرے رویوں کی وجہ رشتوں کی طرف سے ناانصافی، بچوں کے درمیان غیرمساوی سلوک اور اس سے ملتے جلتے دیگر رویّے ہیں۔ اسی طرح بچوں پر کیا جانے والا زبانی، جسمانی و جذباتی تشدد بھی ان کی شخصیت کو تہہ و بالا کرڈالتا ہے۔
خدارا! یہ پھول ہیں… حسین، نرم و نازک، معصوم پھول… جو قدرت نے آپ کو عطا کیے ہیں۔ ان کو کچلیں مت… ان سے ان کی شرارتیں، خوبصورتی، خوشبو مت چھینیں… یہ پرندے ہیں جو اپنی اڑان اڑنا چاہتے ہیں، ان کے پر مت کاٹیں… یہ بچے ہیں، ہماری طرح کے ’’منافق بڑے‘‘ نہیں۔ بچے شرارتیں نہیں کریں گے، چیزیں نہیں توڑیں گے، شور شرابہ نہیں کریں گے، لڑیں گے نہیں، لڑ کر دوبارہ مان نہ جائیں گے تو ان کو بچہ کون کہے گا؟؟ سوچیں، جن گھروں میں یہ شرارتیں نہیں ہیں، جن گھروں میں چیزیں توڑنے والے یہ فرشتے نہیں، جہاں سناٹے ہیں، خاموشی ہے، ویرانی ہے، وحشت ہے، شاید انہی کو دیکھ کر ہم ان پھولوں کی قدر کرسکیں!! بچوں سے اُن کی عمر کے مطابق رویّے کی توقع رکھیں اپنی عمر کے مطابق نہیں۔ ان کا دل نہ توڑیں۔ چیزیں اور آسکتی ہیں لیکن وہ، ان کے دل اور ان کے جذبات نایاب ہیں جو کسی بھی دکان پر کسی قیمت پر دستیاب نہیں۔ ان کو ایک بھرپور بچپن گزارنے میں ان کی مدد کیجیے۔ انہیں مستقبل کا معمار بننے اور آئندہ آنے والے کل میں ایک باکردار، بااعتماد، باعمل، سچا، بے باک، نڈر، شریف انسان بننے میں ہاتھ بٹائیے۔ ان کی کردارکشی کے بجائے ان کی کردار سازی کیجیے۔ ان کو سناتے رہنے کے بجائے کبھی ان کی بھی سنیے۔ ان کے ساتھ کھیلئے، کہانیاں سنائیے، دوستی کیجیے۔ آج کی نسل زیادہ ذہین اور سمجھدار ہے، وہ زیادہ وقت اور توجہ چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدم توجہی کی بناء پر بعض بچے چند تخریبی شرارتیں کرنے لگتے ہیں تاکہ کسی طرح اپنے والدین اور دیگر رشتوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالیں۔ انہیں محبت، خلوص، پیار، توجہ، وقت اور سب سے بڑھ کر عزت و احترام دیجیے۔ ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کے بجائے ان کو عزت کرنا اور عزت دینا سکھائیے۔ رنگ، رشتے اور حیثیت کی بنیاد پر بچوں کو ایک دوسرے پر کم یا زیادہ اہمیت دینا چھوڑ دیجیے۔ خدارا! ان منقی رویوں کو بدلیے۔ ہم اگر آج اپنے بچوں کو یہ سکھائیں گے تو کل یہی سوچ لے کر یہ بچے بڑے ہوں گے۔
ہمارے سامنے ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے جس پر عمل کا قرآنی حکم موجود ہے۔ بتائیے کیا آپ نے اس اسوہ میں ایک جھلک بھی ایسی دیکھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بچے کو مارا، برا بھلا کہا؟ برا بھلا کہنا تو دور کی بات، کیا کوئی سخت لفظ تک کہا؟ غلطیوں پر معاف کیا، درگزر سے کام لیا یا ہماری طرح خدائی فوجدار بن گئے؟؟
کیا جواب ہے ہمارے پاس؟ کیا تصور ہے ہمارے سامنے اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا؟؟ جواب تو آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی!! تو خدارا!!! اس درد کی دوا کیجیے…!!
0 comments:
Post a Comment